بے نامی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد بحق سرکار ضبط
ایف بی آر ٹیکس نوٹس جاری، جواب نہ ملنے پراثاثے فوری ضبط کیے جاسکیں گے، ایکٹ نافذ
وفاقی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) پر عملدرآمد کرتے ہوئے بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2019نافذ کردیا جس کے تحت بے نامی جائیداد بحق سرکار ضبط اورنیلام کی جاسکے گی۔
اس قانون کے تحت ایف بی آر بے نامی جائیدادوں کے بینیفشل اونرز کا سْراغ لگا کر سخت سزائیں دے سکے گا اور ان کی بے نامی جائیدادیں ضبط کرکے فروخت کرسکے گا۔ اس جائیداد پرعائد ڈیوٹی و ٹیکس واجبات جرمانوں کے ساتھ وصول کرسکے گا۔ اس قانون کے تحت اگر بے نام جائیداد کے متعلق معلومات یا دستاویزات غلط ثابت ہوتی ہیں توغلط معلومات دینے والے کو کم ازکم 6ماہ سے 5سال تک قید تک کی سزادی جاسکے گی۔ذرائع کے مطابق بے نامی جائیدادوں کے متعلق ایف بی آر کو خدشات تھے کیونکہ اس سے ٹیکس چوری ہورہی تھی ، جسے روکنے کیلئے یہ قانون لایا گیا۔
غیر قانونی ذرائع سے حاصل آمدنی و اثاثہ جات ٹیکس چوری کے ساتھ دہشت گردی کیلیے استعمال ہونے کا بھی خدشہ تھا،جسے روکنے کیلئے وزارت خزانہ کی جانب سے قانون سازی 2008 ء میں شروع کی گئی اور 2017 ء میں یہ قانون نافذ کیا گیاتھا۔ اس پر عملدرآمد کے بعد کالے دھن اور ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور بے نامی جائیدادیں رکھنے کے رجحان کا خاتمہ ہوگا جبکہ سرمایہ کاروں کو تحفظ حاصل ہوگا۔ اس قانون کے تحت وفاقی حکومت ایڈجوڈیکیشن اتھارٹیز مقرر کرسکے گی۔
جس کے دوارکان ہوں گے جنہیں سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ اپنا پروسیجر خود بنائیں گی۔ انھیں بغیر کسی پیشگی نوٹس جاری کئے کسی بھی جائیداد میں داخل ہونے کی مکمل آزادی و اختیار حاصل ہوگا اور اس اتھارٹی کو کاغذات، اکاونٹس اور کمپیوٹر تک رسائل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام ریکارڈ و کمپیوٹر سی پی یو قبضے میں لینے اور ساتھ لے جانے کا بھی اختیار حاصل ہوگا۔
اس قانون کے تحت ایف بی آر بے نامی جائیدادوں کے بینیفشل اونرز کا سْراغ لگا کر سخت سزائیں دے سکے گا اور ان کی بے نامی جائیدادیں ضبط کرکے فروخت کرسکے گا۔ اس جائیداد پرعائد ڈیوٹی و ٹیکس واجبات جرمانوں کے ساتھ وصول کرسکے گا۔ اس قانون کے تحت اگر بے نام جائیداد کے متعلق معلومات یا دستاویزات غلط ثابت ہوتی ہیں توغلط معلومات دینے والے کو کم ازکم 6ماہ سے 5سال تک قید تک کی سزادی جاسکے گی۔ذرائع کے مطابق بے نامی جائیدادوں کے متعلق ایف بی آر کو خدشات تھے کیونکہ اس سے ٹیکس چوری ہورہی تھی ، جسے روکنے کیلئے یہ قانون لایا گیا۔
غیر قانونی ذرائع سے حاصل آمدنی و اثاثہ جات ٹیکس چوری کے ساتھ دہشت گردی کیلیے استعمال ہونے کا بھی خدشہ تھا،جسے روکنے کیلئے وزارت خزانہ کی جانب سے قانون سازی 2008 ء میں شروع کی گئی اور 2017 ء میں یہ قانون نافذ کیا گیاتھا۔ اس پر عملدرآمد کے بعد کالے دھن اور ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور بے نامی جائیدادیں رکھنے کے رجحان کا خاتمہ ہوگا جبکہ سرمایہ کاروں کو تحفظ حاصل ہوگا۔ اس قانون کے تحت وفاقی حکومت ایڈجوڈیکیشن اتھارٹیز مقرر کرسکے گی۔
جس کے دوارکان ہوں گے جنہیں سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ اپنا پروسیجر خود بنائیں گی۔ انھیں بغیر کسی پیشگی نوٹس جاری کئے کسی بھی جائیداد میں داخل ہونے کی مکمل آزادی و اختیار حاصل ہوگا اور اس اتھارٹی کو کاغذات، اکاونٹس اور کمپیوٹر تک رسائل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام ریکارڈ و کمپیوٹر سی پی یو قبضے میں لینے اور ساتھ لے جانے کا بھی اختیار حاصل ہوگا۔