پٹھانے خان کو خواجہ غلام فریدؒکی کافیاں گانے پر شہرت ملی
1926ء کو کوٹ ادو میں پیداہوئے،صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا
لوک گائیکی میں پٹھانے خان کا نام بہت محترم جانا جاتا ہے۔
پٹھانے خان نے اپنے فنی سفرکے دوران جس طرح سے لوک گائیکی کے ذریعے ملک اوربیرون ملک اپنی منفرد پہچان بنائی اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ پٹھانے خان 1926ء میں بستی تمبووالی (کوٹ ادو) میں پیدا ہوئے۔انھوں نے صرف 7 جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن موسیقی سے گہرا لگاؤرکھتے تھے۔ موسیقی کی تعلیم استاد بابا میرخان سے حاصل کی۔ مگرمالی حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کرلکڑی فروخت کرنے کا چھوٹا ساکام شروع کیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد پٹھانے خان نے مستقل طورپرموسیقی کواپنایا۔
انھوں نے اپنے فنی سفرکے دوران خواجہ غلام فریدکی کافیاں اپنے منفرد انداز میں گائیں جن کوملک گیر شہرت ملی۔ ان کی گائی کافی ''مینڈا عشق وی توں'' کی شہرت کے چرچے بیرون ممالک تک ہونے لگے۔ اس طرح سے پٹھانے خان پاکستان کی لوک گائیکی میں منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک طرف توپی ٹی وی پران کے خصوصی پروگرام نشر ہونے لگے تودوسری جانب درگاہوں پربھی ان کی محافل سجنے لگیں جہاں وہ حضرت خواجہ غلام فرید سمیت دیگربزرگان دین اورصوفیاء کے کلام پیش کرتے۔
پٹھانے خان کی شہرت اس قدربڑھنے لگی کہ 1976ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹونے انہیں ایک نجی محفل میں پرفارمنس کے لیے خاص طورپرمدعوکیا اوررات بھرمحفل سجی رہی۔ اس دوران جب پٹھانے خان نے''جندری لٹی تے یار سجن'' پیش کی توذوالفقارعلی بھٹو اس کلام کو سنتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ اس موقع پرذوالفقارعلی بھٹونے پٹھانے خان سے پوچھا کہ کچھ چاہیے توان کا کہنا تھا کہ '' بھٹوصاحب آپ صرف غریب عوام کی مشکلات کودورکرنے کے لیے بہتراقدامات کریں'' اس پر سابق وزیراعظم نے پٹھانے خان کو گلے سے لگالیا۔
پٹھانے خان نے دیگرمقامات پرایسی ہی یادگارپرفارمنسز دیںجن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی لوک گائیکی میں گراں قدرخدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کا انمول فن ہمیشہ ان کے نام کوزندہ رکھے گا۔ واضح رہے کہ پٹھانے خان 9مارچ2000ء کوکوٹ ادومیں وفات پاگئے تھے۔
پٹھانے خان نے اپنے فنی سفرکے دوران جس طرح سے لوک گائیکی کے ذریعے ملک اوربیرون ملک اپنی منفرد پہچان بنائی اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ پٹھانے خان 1926ء میں بستی تمبووالی (کوٹ ادو) میں پیدا ہوئے۔انھوں نے صرف 7 جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن موسیقی سے گہرا لگاؤرکھتے تھے۔ موسیقی کی تعلیم استاد بابا میرخان سے حاصل کی۔ مگرمالی حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کرلکڑی فروخت کرنے کا چھوٹا ساکام شروع کیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد پٹھانے خان نے مستقل طورپرموسیقی کواپنایا۔
انھوں نے اپنے فنی سفرکے دوران خواجہ غلام فریدکی کافیاں اپنے منفرد انداز میں گائیں جن کوملک گیر شہرت ملی۔ ان کی گائی کافی ''مینڈا عشق وی توں'' کی شہرت کے چرچے بیرون ممالک تک ہونے لگے۔ اس طرح سے پٹھانے خان پاکستان کی لوک گائیکی میں منفرد مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک طرف توپی ٹی وی پران کے خصوصی پروگرام نشر ہونے لگے تودوسری جانب درگاہوں پربھی ان کی محافل سجنے لگیں جہاں وہ حضرت خواجہ غلام فرید سمیت دیگربزرگان دین اورصوفیاء کے کلام پیش کرتے۔
پٹھانے خان کی شہرت اس قدربڑھنے لگی کہ 1976ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹونے انہیں ایک نجی محفل میں پرفارمنس کے لیے خاص طورپرمدعوکیا اوررات بھرمحفل سجی رہی۔ اس دوران جب پٹھانے خان نے''جندری لٹی تے یار سجن'' پیش کی توذوالفقارعلی بھٹو اس کلام کو سنتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ اس موقع پرذوالفقارعلی بھٹونے پٹھانے خان سے پوچھا کہ کچھ چاہیے توان کا کہنا تھا کہ '' بھٹوصاحب آپ صرف غریب عوام کی مشکلات کودورکرنے کے لیے بہتراقدامات کریں'' اس پر سابق وزیراعظم نے پٹھانے خان کو گلے سے لگالیا۔
پٹھانے خان نے دیگرمقامات پرایسی ہی یادگارپرفارمنسز دیںجن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی لوک گائیکی میں گراں قدرخدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کا انمول فن ہمیشہ ان کے نام کوزندہ رکھے گا۔ واضح رہے کہ پٹھانے خان 9مارچ2000ء کوکوٹ ادومیں وفات پاگئے تھے۔