نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی
دنیا کے خیال میں ہمارے یہاں کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کالعدم ہوجانے کے باوجود اب بھی متحرک اور فعال ہیں۔
پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے زریں اُصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے آج اُن لوگوں کے خلاف کارروائیاں شروع کردی ہیں ، جنھیں ہم کبھی مجاہدین اور حریت پسند کہا کرتے تھے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف کسی دوسری عالمی طاقت کی ایماء پر افغانستان میں لڑنے کے لیے ہم نے مجاہدین اور جانباز فورسسز کے ایسے دستے تیارکیے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کو وہاں سے نکل جانے پر مجبورکر دیا بلکہ اُس کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ۔اُس وقت تک یہ لوگ دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں اور خود ہماری نظر میں بہت بڑے محسن تھے ، مگر کام نکل جانے اور انکل سام کی ترجیحات کے بدل جانے کی وجہ سے پھر یہ لوگ دہشتگرد کہلانے لگے ۔ اب امریکا انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگا ۔
نائن الیون کے بعد یہ نظریہ اور بھی زور پکڑنے لگا ۔ سب سے پہلے افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیا اور پھر مبینہ دہشتگردی کے خلاف ایک اعلان جنگ کر دیا گیا۔ پاکستان میں اُس وقت ایک ایسے شخص کی حکومت تھی جس کی پالیسیاں اور حکمت عملیاں اپنے سابقہ پیش رو جنرل ضیاء الحق سے قطعی طور پر بہت مختلف تھیں ۔ وہ اِن مجاہدین کو دہشتگرد سمجھا کرتا تھا ۔ اُس نے سامراجی طاقتوں کے آگے سرنگوں کرتے ہوئے اُن کے سارے مطالبات مان لیے۔ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا ہم باقاعدہ حصہ بن گئے۔
نتیجتا یہ جنگ افغانستان سے نکل کر ہمارے اپنے ملک کے اندر بھی پھیل گئی ۔ ہم نے اِس جنگ کا خمیازہ پندرہ سال تک بھگتا ۔ ہماری معیشت تباہ ہوگئی ۔ ہمارے فوجی اور معصوم شہری خود کش حملوں اور بم دھماکوں کاشکار ہونے لگے، جن طاقتوں کی ایماء پر ہم یہ جنگ لڑ رہے تھے اُن کے شہری اور باشندے تو چین کی نیندیں سوتے رہے اور ہم آگ اور شعلوں میں اپنی زندگیاں گنواتے رہے ۔
پھر ایک روز آرمی پبلک اسکول پشاور میں اندوہناک واقعہ رونما ہوتا ہے اور ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت 'ضرب عضب' نامی آپریشن شروع کیا جاتا ہے اور سارے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کا تہیہ کیاجاتا ہے، لیکن شاید دہشتگردوں کی پہچان اور شناخت میں ہم نے ایک بار پھر دو معیار مقررکر رکھے تھے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ہم سے مسلسل '' ڈو مور'' کامطالبہ کرتی رہی اور ہم ان کے سامنے مزاحمت دکھاتے رہے۔دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام اب افغانستان سے نکل کر بھارت سے بھی آنے لگا۔
ممبئی دھماکوں کے بعد ہم پریہ دباؤ مزید بڑھنے لگا۔دنیا کے خیال میں ہمارے یہاں کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کالعدم ہوجانے کے باوجود اب بھی متحرک اور فعال ہیں۔فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس نے گزشتہ برس جون میں ایسی تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کے لیے ہمیں کچھ مہینوں کی مہلت دیتے ہوئے گرے لسٹ میں شامل کردیا ، یہ مہلت اِس سال مئی کے مہینے میں ختم ہونے والی ہے۔ ہم نے اگر اب بھی کوئی ایکشن نہ لیاتو پھر ٖFATF ہمیں بلیک لسٹ میں ڈال دے گی اور ہم پراقتصادی پابندیاں بھی لگا دی جائیں گی۔
حسن اتفاق کہ ایسے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خود کش حملہ ہوجاتاہے جس میں بھارت کے 44فوجی اہلکارمارے جاتے ہیں۔بھارت حسب عادت بلا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق کے اِس کا الزام ہمارے سر تھوپ دیتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اُس مولانا مسعود اظہر کی تنظیم جیش محمد کو اِس کا ذمے دار بھی قرار دیتا ہے ۔ جیش محمد نامی تنظیم کی ابتدا ء 1999ء میں مولانا مسعود اظہر کی بھارت سے رہائی کے بعد میں عمل میں لائی گئی تھی لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے عالمی دباؤ کے تحت 2002ء میں اُس پر پابندی بھی لگا دی تھی ۔
جیش محمد تنظیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اِسے در پردہ ہماری کسی عسکری ایجنسی کی سر پرستی بھی حاصل ہے اور یہ کشمیر میں تحریک آزادی میں شامل حریت پسندوںکی بھر پور معاون اور مددگار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ سے اِس تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتا رہاہے اوراُسے مکمل طور پر نیست و نابود کر دینے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔ پلوامہ واقعے کے بعد اُس کے اِس مطالبے نے اور بھی شدت اختیار کرلی ۔ لہذا ہماری اِس نئی حکومت کو انکارکے باوجود اِس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا بھی پڑ رہا ہے۔
نان اسٹیٹ ایکٹرز یا غیرریاستی عناصرکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کبھی ہمارے مفاد میں کام کیاکرتے تھے لیکن اب یہ ہمارے لیے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ کشمیرکازکو بھی اب نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ملکی پالیسی میں اتنا بڑا یوٹرن ہم نے شاید پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ حکومت اِن نان اسٹیٹ ایکٹرزکو بھارتی ڈوزیئرز کے تحت گرفتار بھی کر رہی ہے اور اُن کی پراپرٹیز کو اپنی تحویل میں بھی لے رہی ہے۔کہا یہ جارہا ہے کہ انھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا، لیکن یہ قومی دھارا کس قسم کا ہوگا اِس بارے میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔
شومئی قسمت سے خان صاحب کی اِس نئی حکومت کو ماضی کی دیگر سویلین حکومت کی طرح اپنے طاقتور حلقوںکی جانب سے مخالفت اور مزاحمت کا اُس شدت سے سامنا نہیں ہورہا جو اِس سے پہلے دیکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف ہمارے ملک کی وہ واحد سویلین جمہوری حکومت ہے جس کا ہنی مون پیریڈ چھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو پا رہا ۔ اِس سے پہلے کی جمہوری حکومتوں کو بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی دباؤ کاسامنا بھی رہا ہے ، وہ کسی ایسے گروپس یا تنظیموں کے خلاف کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔
اُن کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اپنی اِس مشکل کاتذکرہ بھی کسی سے نہیں کر پاتی تھیں ۔ مشہور زمانہ ڈان لیکس اسکینڈل کے پس پردہ محرکات بھی کچھ ایسے ہی تھے جنھیں وہ آج بھی اپنی زبان پر لانے سے ہچکچاتے دکھائی دیتے ہیں۔خان صاحب کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔ وہ گھر کو ٹھیک کرنے کے پرانے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونے جا رہے ہیں، اُن کے پاس اِس وقت ایک بھر پور موقعہ ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکالنے کے لیے ہر کوئی اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔تمام مقتدر قوتیں اُن کی معاون اور مددگار بھی ہیں ۔اپوزیشن بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔اب یہ اِس حکومت کی قابلیت اورلیاقت پرمنحصر ہے کہ وہ اِس کام میں کتنی کامیاب اور سرخرو ہوتی ہے ۔
سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ احسن طریقے سے اِس کام کوکرنے کا اِس سے بہتر موقعہ شاید پھر ہمیں کبھی نہیں ملے گا۔لیکن یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ جن تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُن کے دفاتر ، مدرسے اور اسپتال حکومت نے اپنی تحویل میں لے رہی ہے کیاوہ انھیں اُسی کامیابی سے چلابھی پائے گی جس طرح وہ پہلے چلاکرتے تھے۔ایسانہ ہوکہ عوامی فلاح و بہبود کے یہ مراکز حکومتی نا اہلی کاشکار ہوکربند ہوجائیں اور عوام کی ایک کثیر تعداد اِن سہولتوں سے محروم ہوجائے ۔
قومی دھارے میں شامل کیے جانے والے سرکردہ عناصر سے کس طرح کاکام لیاجائے گا ۔ ایسا نہ ہوکہ وہ پھر کسی دوسرے نام سے متحرک اورمنظم ہو جائیں ۔ اِن ساری باتوںکا ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ ہم اپنے اِس مقصد میں کتنے مخلص اور سچے ہیں عالمی طاقتیں بھی مسلسل جائزہ لے رہی ہیں۔ FATF کا ایک وفد اِس سلسلے میں عنقریب پاکستان آنے والا ہے ۔ اِس کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو مزید مہلت دی جائے یا پھر اُسے گرے لسٹ سے باہر نکال دیاجائے ۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف کسی دوسری عالمی طاقت کی ایماء پر افغانستان میں لڑنے کے لیے ہم نے مجاہدین اور جانباز فورسسز کے ایسے دستے تیارکیے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کو وہاں سے نکل جانے پر مجبورکر دیا بلکہ اُس کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ۔اُس وقت تک یہ لوگ دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں اور خود ہماری نظر میں بہت بڑے محسن تھے ، مگر کام نکل جانے اور انکل سام کی ترجیحات کے بدل جانے کی وجہ سے پھر یہ لوگ دہشتگرد کہلانے لگے ۔ اب امریکا انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگا ۔
نائن الیون کے بعد یہ نظریہ اور بھی زور پکڑنے لگا ۔ سب سے پہلے افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیا اور پھر مبینہ دہشتگردی کے خلاف ایک اعلان جنگ کر دیا گیا۔ پاکستان میں اُس وقت ایک ایسے شخص کی حکومت تھی جس کی پالیسیاں اور حکمت عملیاں اپنے سابقہ پیش رو جنرل ضیاء الحق سے قطعی طور پر بہت مختلف تھیں ۔ وہ اِن مجاہدین کو دہشتگرد سمجھا کرتا تھا ۔ اُس نے سامراجی طاقتوں کے آگے سرنگوں کرتے ہوئے اُن کے سارے مطالبات مان لیے۔ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا ہم باقاعدہ حصہ بن گئے۔
نتیجتا یہ جنگ افغانستان سے نکل کر ہمارے اپنے ملک کے اندر بھی پھیل گئی ۔ ہم نے اِس جنگ کا خمیازہ پندرہ سال تک بھگتا ۔ ہماری معیشت تباہ ہوگئی ۔ ہمارے فوجی اور معصوم شہری خود کش حملوں اور بم دھماکوں کاشکار ہونے لگے، جن طاقتوں کی ایماء پر ہم یہ جنگ لڑ رہے تھے اُن کے شہری اور باشندے تو چین کی نیندیں سوتے رہے اور ہم آگ اور شعلوں میں اپنی زندگیاں گنواتے رہے ۔
پھر ایک روز آرمی پبلک اسکول پشاور میں اندوہناک واقعہ رونما ہوتا ہے اور ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت 'ضرب عضب' نامی آپریشن شروع کیا جاتا ہے اور سارے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کا تہیہ کیاجاتا ہے، لیکن شاید دہشتگردوں کی پہچان اور شناخت میں ہم نے ایک بار پھر دو معیار مقررکر رکھے تھے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ہم سے مسلسل '' ڈو مور'' کامطالبہ کرتی رہی اور ہم ان کے سامنے مزاحمت دکھاتے رہے۔دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام اب افغانستان سے نکل کر بھارت سے بھی آنے لگا۔
ممبئی دھماکوں کے بعد ہم پریہ دباؤ مزید بڑھنے لگا۔دنیا کے خیال میں ہمارے یہاں کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کالعدم ہوجانے کے باوجود اب بھی متحرک اور فعال ہیں۔فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس نے گزشتہ برس جون میں ایسی تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کے لیے ہمیں کچھ مہینوں کی مہلت دیتے ہوئے گرے لسٹ میں شامل کردیا ، یہ مہلت اِس سال مئی کے مہینے میں ختم ہونے والی ہے۔ ہم نے اگر اب بھی کوئی ایکشن نہ لیاتو پھر ٖFATF ہمیں بلیک لسٹ میں ڈال دے گی اور ہم پراقتصادی پابندیاں بھی لگا دی جائیں گی۔
حسن اتفاق کہ ایسے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خود کش حملہ ہوجاتاہے جس میں بھارت کے 44فوجی اہلکارمارے جاتے ہیں۔بھارت حسب عادت بلا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق کے اِس کا الزام ہمارے سر تھوپ دیتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اُس مولانا مسعود اظہر کی تنظیم جیش محمد کو اِس کا ذمے دار بھی قرار دیتا ہے ۔ جیش محمد نامی تنظیم کی ابتدا ء 1999ء میں مولانا مسعود اظہر کی بھارت سے رہائی کے بعد میں عمل میں لائی گئی تھی لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے عالمی دباؤ کے تحت 2002ء میں اُس پر پابندی بھی لگا دی تھی ۔
جیش محمد تنظیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اِسے در پردہ ہماری کسی عسکری ایجنسی کی سر پرستی بھی حاصل ہے اور یہ کشمیر میں تحریک آزادی میں شامل حریت پسندوںکی بھر پور معاون اور مددگار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ سے اِس تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتا رہاہے اوراُسے مکمل طور پر نیست و نابود کر دینے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔ پلوامہ واقعے کے بعد اُس کے اِس مطالبے نے اور بھی شدت اختیار کرلی ۔ لہذا ہماری اِس نئی حکومت کو انکارکے باوجود اِس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا بھی پڑ رہا ہے۔
نان اسٹیٹ ایکٹرز یا غیرریاستی عناصرکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کبھی ہمارے مفاد میں کام کیاکرتے تھے لیکن اب یہ ہمارے لیے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ کشمیرکازکو بھی اب نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ملکی پالیسی میں اتنا بڑا یوٹرن ہم نے شاید پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ حکومت اِن نان اسٹیٹ ایکٹرزکو بھارتی ڈوزیئرز کے تحت گرفتار بھی کر رہی ہے اور اُن کی پراپرٹیز کو اپنی تحویل میں بھی لے رہی ہے۔کہا یہ جارہا ہے کہ انھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا، لیکن یہ قومی دھارا کس قسم کا ہوگا اِس بارے میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔
شومئی قسمت سے خان صاحب کی اِس نئی حکومت کو ماضی کی دیگر سویلین حکومت کی طرح اپنے طاقتور حلقوںکی جانب سے مخالفت اور مزاحمت کا اُس شدت سے سامنا نہیں ہورہا جو اِس سے پہلے دیکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف ہمارے ملک کی وہ واحد سویلین جمہوری حکومت ہے جس کا ہنی مون پیریڈ چھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو پا رہا ۔ اِس سے پہلے کی جمہوری حکومتوں کو بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی دباؤ کاسامنا بھی رہا ہے ، وہ کسی ایسے گروپس یا تنظیموں کے خلاف کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔
اُن کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اپنی اِس مشکل کاتذکرہ بھی کسی سے نہیں کر پاتی تھیں ۔ مشہور زمانہ ڈان لیکس اسکینڈل کے پس پردہ محرکات بھی کچھ ایسے ہی تھے جنھیں وہ آج بھی اپنی زبان پر لانے سے ہچکچاتے دکھائی دیتے ہیں۔خان صاحب کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔ وہ گھر کو ٹھیک کرنے کے پرانے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونے جا رہے ہیں، اُن کے پاس اِس وقت ایک بھر پور موقعہ ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکالنے کے لیے ہر کوئی اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔تمام مقتدر قوتیں اُن کی معاون اور مددگار بھی ہیں ۔اپوزیشن بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔اب یہ اِس حکومت کی قابلیت اورلیاقت پرمنحصر ہے کہ وہ اِس کام میں کتنی کامیاب اور سرخرو ہوتی ہے ۔
سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ احسن طریقے سے اِس کام کوکرنے کا اِس سے بہتر موقعہ شاید پھر ہمیں کبھی نہیں ملے گا۔لیکن یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ جن تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُن کے دفاتر ، مدرسے اور اسپتال حکومت نے اپنی تحویل میں لے رہی ہے کیاوہ انھیں اُسی کامیابی سے چلابھی پائے گی جس طرح وہ پہلے چلاکرتے تھے۔ایسانہ ہوکہ عوامی فلاح و بہبود کے یہ مراکز حکومتی نا اہلی کاشکار ہوکربند ہوجائیں اور عوام کی ایک کثیر تعداد اِن سہولتوں سے محروم ہوجائے ۔
قومی دھارے میں شامل کیے جانے والے سرکردہ عناصر سے کس طرح کاکام لیاجائے گا ۔ ایسا نہ ہوکہ وہ پھر کسی دوسرے نام سے متحرک اورمنظم ہو جائیں ۔ اِن ساری باتوںکا ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ ہم اپنے اِس مقصد میں کتنے مخلص اور سچے ہیں عالمی طاقتیں بھی مسلسل جائزہ لے رہی ہیں۔ FATF کا ایک وفد اِس سلسلے میں عنقریب پاکستان آنے والا ہے ۔ اِس کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو مزید مہلت دی جائے یا پھر اُسے گرے لسٹ سے باہر نکال دیاجائے ۔