آگ کا دریا
قصہ یونانی دیو مالا کا ہے کہ ٹرائے شہر کے ٹروجنز کو اپنے ساحل پر ایک دیوہیکل لکڑی کا بنا ہوا گھوڑا ملا۔
سیاسی دشت کی سیاحی کریں تو بار بار ایک مجبوروناتواں سی آواز آتی ہے کہ سسٹم چلنے نہیں دیتا ۔ پیر تسمہ پا اورعجیب آکٹوپس ہے ۔ جمہوریت ٹریپ ہو جاتی ہے ۔ وزرائے اعظم ''نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن، بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے'' کی دردانگیز اور عبرت ناک تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں اس عفریت نما سسٹم کے جکڑ بند قصے ایک متلون مزاج معروف اینکر نے خوب سنائے۔ عدالت عظمیٰ کی پیشیوں سے بریت کے بعد ان کے آزادی اظہار کے اسلوب نے بڑا قہر ڈھایا۔ ان کا طرز کلام اور انداز بیاں ایسا ہے کہ پورا آغا حشرکا تھیٹر نظروں کے سامنے آجائے، ''توفیق کس حال میں ہے۔ شیر لوہے کے جال میں ہے۔'' ایک سوال کے جواب میں وہ کلام میر انیس اسی سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سناتے رہے ، جس کی دھجیاں اڑانے کے لیے انھوں نے ''دھبڑ دھوس آپریشن '' کی دلچسپ اصطلاح تراشی اورماضی کی منتخب حکومتوں کو تاش اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتے دکھایا ، سسٹم اور اسٹیبلشمنٹ کی کوریوگرافک نقشہ گری وہ خوب کرتے ہیں ۔
اس بار وہ سسٹم کو لمحہ موجود میں زیر بحث لارہے ہیں ، آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں مگر ملکی سیاست کی تاریک راہوں کا تذکرہ وہ جس یقین واستحقاق کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھی شراب سہ آتشہ سے کم نہیں ۔ میڈیا کو ملا دیں تو چار آتشہ....... ان کا کہنا ہے کہ سارے کام بظاہر ہو رہے ہیں ، ڈالر آرہے ہیں ، کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن رواں دواں ہے، غیر ممالک سے لوٹی دولت لانے کا غلغلہ مچا ہوا ہے ، عدلیہ پرکوئی دباؤ نہیں ، سارا زور حکومت کا سابق حکومتوں کی نالائقیوں پر خرچ ہورہا ہے، وزیراعظم عمران خان ملک کا نقشہ بدلنے کے لیے انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں مگر بقول تجزیہ کار کے سسٹم انھیں بھی ڈلیورکرنے نہیں دے گا ۔
کہاں گئے وہ دعوے کہ ہر چیز بدلے گی، توقع تھی کہ کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ہوا چلے گی مگر اچانک ڈیل اور ڈھیل کی کہانیاں چل پڑیں، گرفتاریوں کی فہرستیں جاری ہونا شروع ہوگئیں، محسوس ہونے لگا کہ منظر نامہ بالائی سطح پر بدل رہا ہے، مگر اسکرپٹ وہی فرسودہ ہے ،کیوں؟ اس لیے کہ سسٹم کی رینج سے کوئی نکلے تو کیسے نکلے۔ تجزیہ کارکی گفتگو سرجیکل اسٹرائیک سے مشابہ تھی ، وہ کہتے ہیں کہ منطق و نطق کو چھوڑیں ، بس انجام پر نظر رکھیں۔ وہ سماجی زوال، معاشی سیاسی رہنماؤں کی بساط سیاست پر مہروں جیسی اداکاری، جمہوریت کی دیوی کے ناز و انداز اورمعاشی روڈ میپ کی بے سمتی کا گلہ کرتے ہوئے سسٹم کے غیر محسوس جبر پر اپنی اس وقت کی گفتگو ختم کرتے ہیں ۔ بعض لوگ سوچتے ہوں گے کہ صحافت کے گرو مارشل میکلوہن نے زبان سے بولے گئے لفظوں کو ''بدی کا پھول'' کیوںکہا تھا۔ بوم میرٹھی کا شعر ہے۔
ارے بوم تری تو فصل ِگل نے یہ چمن اجاڑ کے رکھ دیا
نہ کوئی گل کھلا نہ کلی ہنسی ہمیں شک ہے ایسی بہار پر
ایک سوال چلیے سسٹم کی جبریت پرکرلیتے ہیں کہ ملکی سیاسی وسماجی نظام 22 کروڑ پاکستانیوں سے ہم آہنگ اگر نہیں ہوجاتا تو یہ قصور سسٹم کا ہے ، آخر جمہوریت کس مرض کی دوا ہے ، اگر سلطانی جمہورکا آتا ہے زمانہ ایک واہمہ اور متھ ہے تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پی ٹی آئی کو تو فری ہینڈ ملا ہے ، مسائل تو حل ہونے چاہئیں، سسٹم پیچھے ہٹ گیا ہے ، ادارے ایک پیج پر ہیں ، غربت ختم ہونی چاہیے ، میرٹ کو رستہ ملنا چاہیے، نئی روایت قائم ہونی چاہیے ، جواب دہی کا عمل شفاف ہو ۔ تطہیراور خود احتسابی کا عمل حکومت شروع کرے اور حزب اختلاف اس عمل میں شریک ہو، کشیدگی رکنی چاہیے، سماج میں عدم رواداری اور تشدد کا شور زیادہ ہے لیکن رواداری ، مروت ، رحمدلی اور تحمل و بردباری کہاں ہے، کس طرف کو ہے کدھر ہے؟ مروجہ اصول ہے کہ بڑے رہنما جواب دہی کے محرک ہوتے ہیں، جوابدہی کے بیج سے ذمے داری کا پودا جنم لیتاہے ، اپنی اہلیت کے ذریعے مدبر لیڈر عوام کو ساتھ لے کر چلتا ہے ۔
مغرب میں جمہوریت اس لیے چل رہی ہے کہ ساری حکمرانی جوابدہی کے محورپرگھومتی ہے، جب کہ ہماری سربریدہ سوشل ڈیموکریسی جوابدہی سے گریز پائی کے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ جوابدہی کسی بھی عظیم رہنما کے قد و قامت کا پیمانہ ہوتا ہے۔ یہاں شکایت یہ ہے کہ سسٹم کے مگرمچھ ہمارے جمہوری تالاب میں سب سے جوابدہی کے طلبگار رہتے ہیں مگر خود کسی کو جوابدہ نہیں۔ مشہور قول ہے کہ عمل محض خیال سے نہیں پھوٹتا ،اس لیے ذمے داری قبول کرنے کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ نے بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ اکثر لوگ آزادی نہیں چاہتے،کیونکہ آزادی میں مضمر ذمے داری کا احساس نہیں ہے جب کہ زیادہ تر لوگ ذمے داری سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔
اب آئیے ، پاک بھارت کشیدگی کی دہلیز پر امن کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی مودی سے جو اپنی انتخابی دھن میں پاکستان کے خلاف کچھ بھی کرنے کے جنون میں گم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انھیں پلوامہ پر تحقیقات، بات چیت کی پیشکش جب کہ مودی سے گفتگوکی کئی بارکوشش بھی کی ہے۔ ایک طرف بھارتی اور ملکی میڈیا میں تہکہ خیز اطلاعات کے زلزلوں کی گڑگڑاہٹ ہے، اعصابی جنگ کا محاذ گرم ہے، آج کا میڈیا ایکشن اور ری ایکشن سے جڑا ہوا ہے، اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے، ایسے حالات میں مذاکرات کیسے، پہلے ماحول تو سازگار بنائیے۔
بھارت میں سنجیدہ طبقے مودی ازم سے نالاں ہیں، مودیتوا اور ہندوتوا ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ، آثار بتا رہے ہیں کہ مودی اور ان کے جنگجو حواری اندر ہی اندر پاکستان کے خلاف کوئی کھلواڑکرنے کی سازش بن رہے ہیں، یہ سازش کیا ہوسکتی ہے، دو ایٹمی ملک جو متحارب ہمسایہ بھی ہیں کب اورکیسے سفارتکاری کی طرف رجوع کریں گے۔ نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرہ کی بات کی ہے، یہ حرف آخر نہیں ۔ بر صغیر کے امن پسند حلقے جنگ نہیں چاہتے۔ آئی اے رحمن نے تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کا شکوہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ عوام ذہنی انتشارکا شکار ہوگئے ہیں، برہمی کی بات نہیں۔ ابھی سات ماہ ہوئے ہیں اور قوم جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، ایک سال بعد کا منظر نامہ کیا ہوگا ،کسی بزر جمہر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ مودی کو دو ماہ سے کم کا عرصہ محشر چاہیے، تاکہ وہ جنگی جنون سے کوئی فائدہ اٹھائے۔
ایک حقیقت تو مودی سرکار کو معلوم ہوچکی کہ پاکستان کے خلاف مزید بری ، بحری اور فضائی جارحیت اسے مہنگی پڑے گی۔ بی جے پی کے تمام جنگ بازوں کو علم ہے کہ سوشل میڈیا عالمی سیاست ہی نہیں ہر سماج کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔ اب کوئی جھوٹ نہیں چلے گا، مگر ایک خطرہ ہے کہ مودی کیمو فلاج سے کام لے گا۔ اسے بھارت کی جمہوریت کے نام لیوا جھوٹا حکمراں قراردے چکے ہیں اس لیے ارباب اختیار خبردار رہیں کہ اسے امن کی پیش کش بھی محتاط طریقہ سے کریں۔ مودی وقت لے رہا ہے، اس کی جنگی مہم جوئی بھی خطے کے لیے خطرہ اور اس کی قبول امن کی رضامندی بھی عشوہ گری سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ مودی کچھ بھی کرسکتا ہے کے تناظر میں ایک قصے کا دی اینڈ سنیے۔
ہمارے حکرانوں کو یاد ہے وہ ٹروجن ہارس؟ جس کے بارے میں کہا گیا تھاکہ beware of Greeks bearing gift مطلب یہ کہ یونانیوں کے تحفے سے خبردار رہو۔ قصہ یونانی دیو مالا کا ہے کہ ٹرائے شہر کے ٹروجنز کو اپنے ساحل پر ایک دیوہیکل لکڑی کا بنا ہوا گھوڑا ملا جسے چھوڑ کر یونانی جنگجو فوجیں واپس ہوگئیں ۔ اس حالت جنگ میں ٹرائے کے حکام اسے یونان کا تحفہ اور مال غنیمت سمجھ کر باب شہر سے اسے اندر لے آئے ۔ شومئی قسمت وہ گھوڑا بربادی کا پیغامبر ثابت ہوا کیونکہ یونانیوں نے اس کے اندر اپنے مسلح جنگجو چھپا کر رکھے تھے۔گھوڑا شہر کے اندر کیا آیا اندھیری رات میں اس کا دروازہ کھلا، ہر طرف یونانی جنگجو پھیل گئے اور وہ قتل عام ہوا کہ الامان و الحفیظ ... ٹرائے شہر کو ایک آگ کا دریا ملا۔
گزشتہ دنوں اس عفریت نما سسٹم کے جکڑ بند قصے ایک متلون مزاج معروف اینکر نے خوب سنائے۔ عدالت عظمیٰ کی پیشیوں سے بریت کے بعد ان کے آزادی اظہار کے اسلوب نے بڑا قہر ڈھایا۔ ان کا طرز کلام اور انداز بیاں ایسا ہے کہ پورا آغا حشرکا تھیٹر نظروں کے سامنے آجائے، ''توفیق کس حال میں ہے۔ شیر لوہے کے جال میں ہے۔'' ایک سوال کے جواب میں وہ کلام میر انیس اسی سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سناتے رہے ، جس کی دھجیاں اڑانے کے لیے انھوں نے ''دھبڑ دھوس آپریشن '' کی دلچسپ اصطلاح تراشی اورماضی کی منتخب حکومتوں کو تاش اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتے دکھایا ، سسٹم اور اسٹیبلشمنٹ کی کوریوگرافک نقشہ گری وہ خوب کرتے ہیں ۔
اس بار وہ سسٹم کو لمحہ موجود میں زیر بحث لارہے ہیں ، آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں مگر ملکی سیاست کی تاریک راہوں کا تذکرہ وہ جس یقین واستحقاق کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھی شراب سہ آتشہ سے کم نہیں ۔ میڈیا کو ملا دیں تو چار آتشہ....... ان کا کہنا ہے کہ سارے کام بظاہر ہو رہے ہیں ، ڈالر آرہے ہیں ، کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن رواں دواں ہے، غیر ممالک سے لوٹی دولت لانے کا غلغلہ مچا ہوا ہے ، عدلیہ پرکوئی دباؤ نہیں ، سارا زور حکومت کا سابق حکومتوں کی نالائقیوں پر خرچ ہورہا ہے، وزیراعظم عمران خان ملک کا نقشہ بدلنے کے لیے انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں مگر بقول تجزیہ کار کے سسٹم انھیں بھی ڈلیورکرنے نہیں دے گا ۔
کہاں گئے وہ دعوے کہ ہر چیز بدلے گی، توقع تھی کہ کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ہوا چلے گی مگر اچانک ڈیل اور ڈھیل کی کہانیاں چل پڑیں، گرفتاریوں کی فہرستیں جاری ہونا شروع ہوگئیں، محسوس ہونے لگا کہ منظر نامہ بالائی سطح پر بدل رہا ہے، مگر اسکرپٹ وہی فرسودہ ہے ،کیوں؟ اس لیے کہ سسٹم کی رینج سے کوئی نکلے تو کیسے نکلے۔ تجزیہ کارکی گفتگو سرجیکل اسٹرائیک سے مشابہ تھی ، وہ کہتے ہیں کہ منطق و نطق کو چھوڑیں ، بس انجام پر نظر رکھیں۔ وہ سماجی زوال، معاشی سیاسی رہنماؤں کی بساط سیاست پر مہروں جیسی اداکاری، جمہوریت کی دیوی کے ناز و انداز اورمعاشی روڈ میپ کی بے سمتی کا گلہ کرتے ہوئے سسٹم کے غیر محسوس جبر پر اپنی اس وقت کی گفتگو ختم کرتے ہیں ۔ بعض لوگ سوچتے ہوں گے کہ صحافت کے گرو مارشل میکلوہن نے زبان سے بولے گئے لفظوں کو ''بدی کا پھول'' کیوںکہا تھا۔ بوم میرٹھی کا شعر ہے۔
ارے بوم تری تو فصل ِگل نے یہ چمن اجاڑ کے رکھ دیا
نہ کوئی گل کھلا نہ کلی ہنسی ہمیں شک ہے ایسی بہار پر
ایک سوال چلیے سسٹم کی جبریت پرکرلیتے ہیں کہ ملکی سیاسی وسماجی نظام 22 کروڑ پاکستانیوں سے ہم آہنگ اگر نہیں ہوجاتا تو یہ قصور سسٹم کا ہے ، آخر جمہوریت کس مرض کی دوا ہے ، اگر سلطانی جمہورکا آتا ہے زمانہ ایک واہمہ اور متھ ہے تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پی ٹی آئی کو تو فری ہینڈ ملا ہے ، مسائل تو حل ہونے چاہئیں، سسٹم پیچھے ہٹ گیا ہے ، ادارے ایک پیج پر ہیں ، غربت ختم ہونی چاہیے ، میرٹ کو رستہ ملنا چاہیے، نئی روایت قائم ہونی چاہیے ، جواب دہی کا عمل شفاف ہو ۔ تطہیراور خود احتسابی کا عمل حکومت شروع کرے اور حزب اختلاف اس عمل میں شریک ہو، کشیدگی رکنی چاہیے، سماج میں عدم رواداری اور تشدد کا شور زیادہ ہے لیکن رواداری ، مروت ، رحمدلی اور تحمل و بردباری کہاں ہے، کس طرف کو ہے کدھر ہے؟ مروجہ اصول ہے کہ بڑے رہنما جواب دہی کے محرک ہوتے ہیں، جوابدہی کے بیج سے ذمے داری کا پودا جنم لیتاہے ، اپنی اہلیت کے ذریعے مدبر لیڈر عوام کو ساتھ لے کر چلتا ہے ۔
مغرب میں جمہوریت اس لیے چل رہی ہے کہ ساری حکمرانی جوابدہی کے محورپرگھومتی ہے، جب کہ ہماری سربریدہ سوشل ڈیموکریسی جوابدہی سے گریز پائی کے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ جوابدہی کسی بھی عظیم رہنما کے قد و قامت کا پیمانہ ہوتا ہے۔ یہاں شکایت یہ ہے کہ سسٹم کے مگرمچھ ہمارے جمہوری تالاب میں سب سے جوابدہی کے طلبگار رہتے ہیں مگر خود کسی کو جوابدہ نہیں۔ مشہور قول ہے کہ عمل محض خیال سے نہیں پھوٹتا ،اس لیے ذمے داری قبول کرنے کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ نے بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ اکثر لوگ آزادی نہیں چاہتے،کیونکہ آزادی میں مضمر ذمے داری کا احساس نہیں ہے جب کہ زیادہ تر لوگ ذمے داری سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔
اب آئیے ، پاک بھارت کشیدگی کی دہلیز پر امن کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی مودی سے جو اپنی انتخابی دھن میں پاکستان کے خلاف کچھ بھی کرنے کے جنون میں گم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انھیں پلوامہ پر تحقیقات، بات چیت کی پیشکش جب کہ مودی سے گفتگوکی کئی بارکوشش بھی کی ہے۔ ایک طرف بھارتی اور ملکی میڈیا میں تہکہ خیز اطلاعات کے زلزلوں کی گڑگڑاہٹ ہے، اعصابی جنگ کا محاذ گرم ہے، آج کا میڈیا ایکشن اور ری ایکشن سے جڑا ہوا ہے، اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے، ایسے حالات میں مذاکرات کیسے، پہلے ماحول تو سازگار بنائیے۔
بھارت میں سنجیدہ طبقے مودی ازم سے نالاں ہیں، مودیتوا اور ہندوتوا ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ، آثار بتا رہے ہیں کہ مودی اور ان کے جنگجو حواری اندر ہی اندر پاکستان کے خلاف کوئی کھلواڑکرنے کی سازش بن رہے ہیں، یہ سازش کیا ہوسکتی ہے، دو ایٹمی ملک جو متحارب ہمسایہ بھی ہیں کب اورکیسے سفارتکاری کی طرف رجوع کریں گے۔ نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرہ کی بات کی ہے، یہ حرف آخر نہیں ۔ بر صغیر کے امن پسند حلقے جنگ نہیں چاہتے۔ آئی اے رحمن نے تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کا شکوہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ عوام ذہنی انتشارکا شکار ہوگئے ہیں، برہمی کی بات نہیں۔ ابھی سات ماہ ہوئے ہیں اور قوم جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، ایک سال بعد کا منظر نامہ کیا ہوگا ،کسی بزر جمہر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ مودی کو دو ماہ سے کم کا عرصہ محشر چاہیے، تاکہ وہ جنگی جنون سے کوئی فائدہ اٹھائے۔
ایک حقیقت تو مودی سرکار کو معلوم ہوچکی کہ پاکستان کے خلاف مزید بری ، بحری اور فضائی جارحیت اسے مہنگی پڑے گی۔ بی جے پی کے تمام جنگ بازوں کو علم ہے کہ سوشل میڈیا عالمی سیاست ہی نہیں ہر سماج کے لیے دو دھاری تلوار ہے۔ اب کوئی جھوٹ نہیں چلے گا، مگر ایک خطرہ ہے کہ مودی کیمو فلاج سے کام لے گا۔ اسے بھارت کی جمہوریت کے نام لیوا جھوٹا حکمراں قراردے چکے ہیں اس لیے ارباب اختیار خبردار رہیں کہ اسے امن کی پیش کش بھی محتاط طریقہ سے کریں۔ مودی وقت لے رہا ہے، اس کی جنگی مہم جوئی بھی خطے کے لیے خطرہ اور اس کی قبول امن کی رضامندی بھی عشوہ گری سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ مودی کچھ بھی کرسکتا ہے کے تناظر میں ایک قصے کا دی اینڈ سنیے۔
ہمارے حکرانوں کو یاد ہے وہ ٹروجن ہارس؟ جس کے بارے میں کہا گیا تھاکہ beware of Greeks bearing gift مطلب یہ کہ یونانیوں کے تحفے سے خبردار رہو۔ قصہ یونانی دیو مالا کا ہے کہ ٹرائے شہر کے ٹروجنز کو اپنے ساحل پر ایک دیوہیکل لکڑی کا بنا ہوا گھوڑا ملا جسے چھوڑ کر یونانی جنگجو فوجیں واپس ہوگئیں ۔ اس حالت جنگ میں ٹرائے کے حکام اسے یونان کا تحفہ اور مال غنیمت سمجھ کر باب شہر سے اسے اندر لے آئے ۔ شومئی قسمت وہ گھوڑا بربادی کا پیغامبر ثابت ہوا کیونکہ یونانیوں نے اس کے اندر اپنے مسلح جنگجو چھپا کر رکھے تھے۔گھوڑا شہر کے اندر کیا آیا اندھیری رات میں اس کا دروازہ کھلا، ہر طرف یونانی جنگجو پھیل گئے اور وہ قتل عام ہوا کہ الامان و الحفیظ ... ٹرائے شہر کو ایک آگ کا دریا ملا۔