نواز لیگ اور متحدہ کی ڈرامائی قربت سے ہلچل

بارشوں سے ہونے والی تباہ کاری کے بعد بلدیاتی نظام موضوع بحث

فوٹو : فائل

گزشتہ دنوں شہر قائد کے سیاسی منظر نامے میں اس وقت شدید ہل چل پیدا ہوگئی، جب پس پردہ سیاست کاری کام یاب ہوئی اور متحدہ کی جانب سے نواز لیگی صدارتی امیدوار ممنون حسین کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حمایت کا باقاعدہ اعلان نواز لیگی وفد کے دورہ نائن زیرو کے دوران کیا گیا۔ اعلا سطح وفد میں صدارتی امیدوار ممنون حسین کے علاوہ وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیر اطلاعات پرویز رشید،سلیم ضیا، نہال ہاشمی اور دیگر مقامی عہدے داران شامل تھے۔

قبل ازیں صدارتی انتخابات میں تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ متوقع تھا، لیکن عدالتی فیصلے کے نتیجے میں صدارتی چناؤ کی تاریخ میں ردوبدل کیا گیا، جس کے بعد حکومتی امیدوار کے قریب ترین حریف رضا ربانی اور ان کی جماعت پیپلزپارٹی نے اس انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، جس میں اے این پی اور ق لیگ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ قیاس کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف بھی اس بائیکاٹ میں شامل ہوگی، لیکن بقول عمران خان کے کہ اپنے صدارتی امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین کی ایما پر یہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔ دونوں صدارتی امیدواروں کا تعلق شہر قائد سے تھا، جب کہ پیپلزپارٹی نے بھی اپنے متوقع امیدوار کے لیے اس شہر کی شخصیت رضا ربانی کا انتخاب کیا۔

پیپلزپارٹی کے مقاطعے کے اعلان کے بعد ایک دم سے فاٹا اور دیگر علاقوں سے منتخب آزاد اراکین کی اہمیت گھٹ کر رہ گئی اور وہ ممکنہ طور پر صدارتی امیدوار کے عوض فواید نہ سمیٹ سکے۔ دوسری طرف اگر پیپلزپارٹی، نواز لیگ کے علاوہ تمام اراکین کے ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتی تو رضا ربانی کے آیندہ صدر مملکت بننے کے امکانات موجود تھے، لیکن ان کے صدارتی چناؤ سے باہر رہنے کے اعلان سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

نواز لیگ کی طرف سے متحدہ کی طرف تعلقات بڑھانے کے اقدام سے جہاں سیاسی پنڈت حیران ہوئے وہیں، نواز لیگ کے بہت سے اراکین بھی اس قدم پر اپنے سخت اختلاف کو نہ چھپا سکے۔ جن میں نواز لیگ سندھ کے علاوہ پنجاب کے وزیر رانا ثنا اللہ بھی شامل ہیں۔ یوں تو گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی سے ناراضی کے کچھ لمحوں میں متحدہ اور نواز لیگ کے درمیان ملاقاتیں رہیں، لیکن پیپلزپارٹی سے ناراضی دور ہوتے کے ساتھ ہی دونوں کے معاملات وہیں کے وہیں رہ گئے تھے۔

اس طرح صحیح معنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان تقریباً 15 برس بعد روابط بحال ہونا شروع ہوئے ہیں۔ نواز لیگ کے اندر اور باہر کے سخت گیر حلقوں میں اس قدم پر سخت ردعمل پایا جاتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سیاسی تنہائی اور دیگر مسائل کا شکار متحدہ کو سہارا دے کر نواز لیگ نے اچھا نہیں کیا۔ تاہم اس کے باوجود اعلا سطح پر نواز لیگ اپنے اقدام پر قائم ہے اور اس کا دفاع کر رہی ہے اور اس پیش رفت میں اہم کردار ادا کرنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی تبدیلی بھی فی الوقت موخر کردی گئی ہے اور امکان یہی ہے کہ جب تک دونوں جماعتوں کے درمیان یہ مفاہمانہ فضا موجود رہے گی، گورنر سندھ کی تبدیلی کا باب بھی بند رہے گا۔


اس کے ساتھ متحدہ کی جانب سے منعقدہ دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار نے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے درمیان پل کاکردار اداکرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس سے قبل وہ حزب اختلاف کی نشستوں سے نواز لیگ کی حمایت کا عزم بھی ظاہر کر چکے ہیں، جس سے متحدہ کی وفاقی یا صوبائی حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا، البتہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان پُل بننے کی خواہش خاصی اہم کہی جا سکتی ہے، کیوں کہ بُل بننے کے لیے دونوں سے منسلک اور جڑے رہنا ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر پُل ، پُل ہی نہیں رہا کرتا۔ اب صدارتی انتخاب گزر جانے کے بعد کے معاملات ہی آیندہ صورت حال کا تعین کریں گے۔

نواز لیگ اورمتحدہ کے روابط کے علاوہ موسلا دھار بارشوں سے شہر کے کچھ علاقوں میں پیدا ہونے والی شدید سیلابی صورت حال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی درجنوں ہلاکتیں ایک بڑی خبربنی ہوئی ہے۔ برسات سے قبل ہی متحدہ کے دعوت افطار میں بلدیاتی اداروں کے مسائل حل کرنے کے لیے پرامن دھرنا دینے اور عید کے بعد ہفتہ صفائی منانے کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ اتفاق سے اس کے ایک روز کے بعد موسلا دھار بارشوں سے پورا شہر نکاسی آب کے بد ترین مسائل سے دو چار ہوگیا اور پھر بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی موضوع بحث بننے لگی ہے، جس کا براہ راست نشانہ صوبائی حکومت کو بنایا جارہا ہے۔

دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ یہ ایک دن کا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی جڑیں ماضی کی غفلتوں اور وغیرہ وغیرہ معاملات سے جا ملتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب حکومت نے بلدیاتی اداروں کا گزشتہ دس سال کے حسابات آڈٹ کرانے کا حکم دیا ہے تاکہ اس حوالے سے ذمہ داران کا تعین کیا جاسکے۔ دیکھتے ہیں کہ کیا نتائج نکلتے ہیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری عمران اسماعیل نے شہر قائد میں برسات سے پیدا شدہ صورت حال پر شدید ردعمل دیا اور کہا کہ کراچی میں لوگ ڈوب رہے تھے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ہم پہلے ہر معاملے میں فوج کو بلاتے ہیں اور پھر فوج کو گالیاں دیتے ہیں۔ اگر ہر کام فوج نے کرنا ہے تو پھر ہم کس مرض کی دوا ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے بھی عہدہ سنبھالنے کے تقریباً دو ماہ کے بعد کراچی کا دورہ کیا۔ اپنے نہایت مختصر سے دورے میں انہوں نے گورنر اور وزیراعلا کے ہم راہ مزار قائد پر حاضری دی اور گڈانی میں پاور پارک کی تقریب میں شرکت کی۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم پیپلزپارٹی اورمتحدہ دونوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے صدارتی انتخاب میں حمایت کرنے پر متحدہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے ممکنہ طور پر اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے خاتمے کو وفاق کے خاتمے سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی بل لایا گیا تو اسے سینیٹ سے ہر گزر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا اور عید کے بعد اس مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کی کوشش کی جائے گی۔ بیوروکریسی کی جانب سے وفاقی وزیر پیٹرولیم کو اٹھارہویں ترمیم اور آرٹیل 158 کے متعلق جو بریفنگ دی گئی ہے، وہ سراسر غیر آئینی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اٹھارہویں ترمیم کو تبدیل کرانا چاہتی ہے۔

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی 22 اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستوں پر میدان سجے گا۔ امیدواورں کی حتمی فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ 254 میں علی محمد راشد (متحدہ)، محمد نعیم (تحریک انصاف)، مولانا عبدالستار (پیپلزپارٹی)، میاں محمد الیاس (نواز لیگ) و دیگر امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ 95 سے محمد حسین (متحدہ)، جمیل ضیا (پیپلزپارٹی)، جاوید خان (نواز لیگ) اور دیگر امیدوار مقابلے میں شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقے 103 سے عبدالرؤف صدیقی (متحدہ) فیصل شیخ (پیپلزپارٹی)، سلطان احمد (تحریک انصاف) اور دیگر امیدوار وں کے درمیان چناؤ ہو گا۔ امیدواروں کی انتخابی مہم 20 اگست تک جاری رہے گی۔
Load Next Story