اپنے گریبان میں بھی جھانکیے

خیبر پختونخوا میں اُن کی جماعت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب بھی اُن کے وضع کردہ نظم میں نہیں آ رہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

تحریکِ انصاف کے سربراہ جناب عمران خان، جنھیں آجکل بوجوہ چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے،نے 4اگست بروز اتوار اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل کے طالبان کے ہاتھوں ٹوٹنے کی تحقیقی رپورٹ جلد سامنے لائیں گے۔ ڈیرہ جیل ٹوٹنے کا سانحہ آٹھ نو روز قبل پیش آیا تھا لیکن حیرت ہے کہ خان صاحب کو اب اِس پر لب کشائی کا موقع ملا ہے۔ مناسب تو یہی تھا کہ وہ اُسی روز میڈیا کے سامنے آتے جس روز یہ المناک اور شرمناک واقعہ پیش آیا تھا کہ ڈیرہ کا علاقہ خیبر پختونخوا میں ہے اور خیبر پختونخوا میں خان صاحب کی پارٹی حکومت کر رہی ہے۔ اب تک تو اُنہیں تحقیقات کے عمل سے گزر کر پوری رپورٹ قوم کے سامنے پیش بھی کر دینی چاہیے تھی لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دیگر الجھنوں نے اُنہیں بُری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور وہ بظاہر ''نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن'' کی عملی تصویر سی بن کر رہ گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں اُن کی جماعت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب بھی اُن کے وضع کردہ نظم میں نہیں آ رہے۔ غالباً اِسی وجہ سے اُن کے حریف اور مخالف مولوی فضل الرحمٰن صاحب اور اُن کے وابستگان کو عمران پر پھبتیاں کسنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ اب گزشتہ اتوار کو خان صاحب نے اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کھڑکائی ہے اور اِس میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے ٹوٹنے کا جس اسلوب میں ذکر کیا ہے، اِس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اِس سانحہ کا سارا ملبہ سیکیورٹی فورسز پر ڈال کر کے پی کے میں بروئے کار اپنی حکومت کو بچانے اور اِس کی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کی دانستہ کوششیں کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر خان صاحب کا یہ کہنا: ''ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر اور آس پاس فوج کی ایک ڈویژن اور ایلیٹ فورس کی موجودگی میں طالبان کا جیل توڑ کر اپنے سیکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا کر لے جانا حیرت کی بات ہے۔'' خان صاحب نے جس حیرت کا اظہار کیا ہے، اِسی حیرانی و استعجاب کا اظہار اُن کے وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز خٹک نے بھی کیا تھا۔ عجب اتفاق ہے۔ ہمارا خیال ہے ڈی آئی خان جیل ٹوٹنے کے پس منظر میں اب خان صاحب کو طالبان کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرثانی بھی کرنی چاہیے اور اُنہیں باور کر لینا چاہیے کہ طالبان، جن کے بارے میں وہ خاصہ نرم گوشہ رکھتے ہیں، کے منہ کو جو چسکا لگ چکا ہے وہ مذاکرات سے ختم نہیں ہو گا۔

''بہادر'' طالبان کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل ٹوٹنے کے بعد حکمرانوں خصوصاً خیبر پختونخوا کی حکومت اور وزیر ِاعلیٰ پرویز خٹک صاحب کا ٹھٹھہ اُڑایا جا رہا ہے۔ کسی صوبائی حکمران نے شرمندگی میں استعفیٰ دیا ہے نہ شعبۂ جیل کے کسی ذمے دار نے اپنی کرسی چھوڑی ہے۔ منظر اِس کے برعکس ہے کہ وزیر ِاعلیٰ خیبر پختونخوا، جو صوبائی وزیرِ قانون پنجاب کے ایک طنزیہ جملے سے ناراض ہو گئے، نے حیران کن لہجے میں فرمایا: ''حیرت کی بات ہے کہ لوگ (یعنی طالبان) پک اپ ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں پر آئے اور (جیل توڑ کر) اپنے ڈھائی سو قیدی ساتھیوں کو چھڑوا کر لے گئے۔'' یہ اُس صوبائی حکمران کے الفاظ ہیں جن کے قائد ملک بھر میں صرف نوے دن میں دہشت گردی کے خاتمے کے اعلان کرتے رہے ہیں۔


بعض اطراف سے اِس جیل بریکنگ کے شرمناک واقعہ کا نہایت سفاکی سے مذاق اُڑایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک انگریزی اخبار کے کارٹونسٹ نے اپنی شرارتی اور طنزیہ لکیروں کی مدد سے دکھایا ہے کہ جیل کا مین پھاٹک زمین بوس ہے اور ٹوٹے ہوئے بڑے سے قُفل پر لکھا ہے: Writ of Security Agencies سارے ملک کے عوام ابھی تک انگشت بدنداں ہیں کہ جب خفیہ اداروں نے صوبائی حکومت کو چند روز قبل ہی اِس سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں خبردار کر دیا تھا، جب متعلقہ جیل میں ایک سو سے زائد پولیس کے گارڈز موجود تھے، جب جیل میں فرنٹیئر ریزرو فورس اور پولیس کی ایلیٹ فورس موجود تھی تو ''مجاہدینِ اسلام'' یعنی ''بہادر'' طالبان کیونکر آسانی سے حملہ آور ہونے اور تقریباً پونے تین سو اپنے قیدی ساتھیوں (جن میں بعض بڑے ہی سنگین جرائم کے مرتکب تھے) کو چھڑوا کر ساتھ لے گئے؟ افسوس بندوقیں تو تھیں لیکن وہ جرات مند ہاتھ موجود نہ تھے یا خوف کے مارے مفلوج ہو گئے تھے جو ٹریگر دبا سکتے۔

وہ تو مبینہ طور پر طالبان سے خوف کھا کر جیل کی گندی نالیوں اور گٹروں میں گھس گئے تھے۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی کے حملہ آور طالبان بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی اِس سینٹرل جیل میں متعین سپاہیوں اور افسروں کی نفسیات سے آگاہ تھے۔ اِس صورتحال سے بھی حملہ آوروں نے فائدہ اٹھایا اور سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کامیابی ایک بار پھر طالبان اور مفرور طالبان رہنما عدنان رشید کا مقدر بنی جو کبھی ہماری ائر فورس کا ایک باقاعدہ ملازم ہوا کرتا تھا۔

جیلیں ٹوٹنے کے حوالے سے ہم نے پہلے بھی روز نامہ '' ایکسپریس'' میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ کوئی نیا فنامنا ہے نہ اچنبھے کی بات لیکن پاکستان میں جیلیں ٹوٹنے کے حوالے سے ریاستِ پاکستان کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ جب سے دنیا میں طالبان اور القاعدہ کا شہرہ ہوا ہے، تب سے عالمِ اسلام میں طالبان اور القاعدہ کے ہاتھوں جیلیں ٹوٹنے اور حکمرانوں کو مزید پریشان کرنے کے واقعات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 23 جولائی 2013 کو عراق کی بدنامِ زمانہ جیل ''ابوغریب'' پر القاعدہ نے زبردست حملہ کیا، جیل توڑی اور اپنے پانچ سو ساتھیوں کو چھڑوا کر لے گئے۔ اِس واقعہ کا ''سہرا'' القاعدہ کے لیڈر ابوبکر البغدادی کے سر باندھا گیا۔ بغداد کے علاوہ عراق کی ایک اور جیل، تاجئی، بھی اِسی مہینے القاعدہ نے توڑ ڈالی۔ تاجئی جیل کو توڑنے کے لیے القاعدہ نے بارہ کار بم اور 96 فدائین استعمال کیے اور جیل کی حفاظت پر مامور ایک سو بیس عراقی محافظوں کو مبینہ طور پر تہہ تیغ بھی کر دیا۔

اس پر عراقی حکومت نے بے بسی سے کہا: ''جیل اِس لیے ٹوٹی ہے کیونکہ جیل کے اندر مکینوں کا القاعدہ سے مسلسل رابطہ تھا۔'' اسی طرح 27 جولائی2013 کو لیبیا کے مشہور شہر بن غازی کی سب سے بڑی جیل پر القاعدہ نے حملہ کیا اور اپنے ایک ہزار سے زائد قیدی ساتھیوں کو کامیابی سے ہمراہ لے گئے۔ اِس سے قبل 2008 کو قندھار کی مشہور زمانہ ''سرپوسا جیل'' پر افغان طالبان نے سُرعت کے ساتھ حملہ کیا اور اپنے سات سو قید ''مجاہدینِ اسلام'' کو چھڑوا لیا۔ افغان حکومت اور قندھار میں متعین امریکی سپاہ، جو انتہائی جدید ہتھیاروں سے مسلح تھے، دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ اپریل 2012 کے وسط میں بھی طالبان نے بنوں جیل پر حملہ کر کے اپنے چار سو سے زائد ساتھیوں کو چھڑوا لیا تھا۔

پاکستان کی طرح عراق، لیبیا اور افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے ہاتھوں جیلیں ٹوٹنے کے واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ ریاستیں کتنی مضبوط ہیں اور دشمن قوتیں کتنی طاقتور اور یہ کہ طالبان اور القاعدہ کے سامنے ریاست کے تربیت یافتہ مسلح لوگ مقابلہ کرنے کی کتنی سکت رکھتے ہیں؟ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ایٹمی پاکستان کو عراق، لیبیا اور افغانستان کے برابر رکھا جا سکتا ہے؟ وطنِ عزیز میں طالبان نے اتنی مہارت، جرأت، منصوبہ بندی اور تواتر سے جیلیں توڑی ہیں کہ یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے ریاست اِن مرکزِ گریز عناصر کے بالمقابل ڈھے کر رہ گئی ہے۔ عالمی سطح پر انٹر پول نے بھی اِس کا سنجیدگی سے نوٹس لے کر اپنے رکن ممالک کو خبردار کیا ہے۔ غالباً اِسی کا نتیجہ ہے کہ 5 اگست 2013کو اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسلح محافظ مقرر کر دیے تا کہ ایسا نہ ہو کہ گزشتہ سال کی طرح اِس بار بھی لوگ ستائیسویں کی عبادتوں میں مشغول رہیں اور ''بہادر'' طالبان اپنا کام دکھا جائیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اگر عمروں کی ادائیگی اور عمران خان کو اگر الزامات کی سیاست سے فرصت ملے تو براہِ کرم اِن کمزوریوں اور نااہلیوں کی طرف بھی توجہ فرمائیں جن کی بنیاد پر ساری دنیا میں ہماری بدنامی بھی ہو رہی ہے اور ہمارا ٹھٹھہ بھی اڑایا جا رہا ہے۔
Load Next Story