پکڑے جاتے ہیں ’’کیمرے‘‘ کے کہنے پر ناحق
اشارے کی تعمیل میں گاڑی کنارے لگوائی تو ’’حاضر ہو‘‘ کا حکم نامہ ملا.
کہتے ہیں جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ آبادی میں جا نکلتا ہے، چیونٹی کی شامت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں، مرغی کی موت آتی ہے تو وہ بانگ دے دیتی ہے، پاکستانی کی شامت آتی ہے تو وہ گھر میں بجلی لگوا لیتا ہے اور کے پی کے میں کسی دیہاتی کی درگت بننی ہوتی ہے تو وہ کسی سڑک پر نکل کر قانون نافذ کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح ہماری جب بھی شامت آتی ہے، ہم اٹک پار کر لیتے ہیں یا اٹک پار کرتے ہی ہماری شامت ہاتھوں میں کانٹوں کے ہار لیے اہلاً و سہلاً و مرحبا کہتے ہوئے منتظر ہوتی ہے کہ آ جا پیارے میں تو تمہیں آسمان پر ڈھونڈ رہی تھی اور تو زمین پر مل گیا، آ گلے مِل۔
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے دل پکار، میں چلاؤں ہائے جیب
ایک مستقل شامت کے تو ہم عادی ہو گئے ہیں کہ پتہ نہیں پنجاب والوں کو کون چغل خور یہ خبر دے دیتا ہے کہ ہم آنے والے ہیں چنانچہ گیس اسٹیشن کو دور ہی سے بتانا شروع کر دیتے ہیں اور پٹرول پمپوں پر قطاریں بن جاتی ہیں۔ ہم نے کئی بار کوشش کی کہ کسی ایسے دن بھی اس طرف آ نکلیں جب گیس کا ناغہ نہ ہو لیکن ہفتے کے سات دنوں میں تو ایسا کوئی دن ملا نہیں ہے اور اگر ہفتے کا کوئی آٹھواں دن ہے تو وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا، اس کے علاوہ کرنٹ شامتیں تو جگہ جگہ کھڑی رہتی ہیں جو اکثر ''باوردی'' ہوتی ہیں اوران سے کون واقف نہیں، پاکستانیوں اور ان کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہمارے ساتھ تو خصوصی محبت ہے،
ایک بات ہمیں آج تک پتہ نہیں چلی کہ ان شامتوں کو ہمارے بارے میں پتہ کیسے چل جاتا ہے کہ ساری ہی سڑک کنارے ہماری منتظر ہوتی ہیں، ان باوردی شامتوں کو ہمارے ہاں صوبہ کے پی کے عرف خیر پہ خیر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کہا جاتا ہے، ہمیں خود تو معلوم نہیں لیکن شاید ہمارے چہرے پر کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو قانون نافذ کرنے کے لیے فیورٹ ہوتی ہے چنانچہ یہ باوردی شامتیں ڈھیر سارا قانون لے کر ہم پر نافذ کرنے کے لیے بے قرار ہوتی ہیں اور جب ہم پر نظر پڑتی ہے تو گویا انضمام الحق کو پیپسی نظر آ جاتی ہے۔
پھر دیکھئے انداز گل افشانی قانون
رکھ دے کوئی پیمانہ و پیپسی مرے آگے
اب کے اٹک پار کیا تو برہان تک نہایت خیریت سے پہنچے، ہمیں کچھ کچھ رمضان المبارک کی برکات کا قائل ہونا پڑا کہ اچانک ایک موڑ پر قانون نافذ کرنے والے کئی ''ادارے'' کھڑے نظر آئے جو ہمیں دیکھ دیکھ کر نہ صرف مسکرا رہے تھے بلکہ دل ہی دل میں شاید کچھ گنگنا بھی رہے تھے ورنہ تالیاں تو یقیناً بجا رہے ہوں گے
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
اشارے کی تعمیل میں گاڑی کنارے لگوائی تو ''حاضر ہو'' کا حکم نامہ ملا، بیٹے کو جو ڈرائیور بھی تھا بھیج دیا جو ترنت ہی لوٹ آیا لیکن ایک فرشتہ بھی ساتھ تھا جس کے ہاتھ میں شاید ہمارا اعمال نامہ تھا کیونکہ وہ کاغذ اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور ہمارے بائیں ہی ہاتھ میں کاغذ پکڑاتے ہوئے الفاظ کی حیرت انگیز کفایت شعاری دکھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ دو سو روپے، پوچھا کاہے کے؟ بولا اوور اسپیڈ کے۔۔ حیرت کا جھٹکا تو لگنا ہی تھا کیونکہ ہمارے خیال میں ہماری اسپیڈ چالیس سے بھی کم تھی لیکن جب یہ بات اسے بتائی تو اس نے مژدہ جان فزا سنایا کہ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ پوچھا کس کے؟ تمہارے ہی کیمرے ہیں نا ۔۔۔ وہ تو وہیں بتائیں گے جو تم بتانا چاہو، گاڑی سے اتر کر ہم مصر ہوئے کہ بھئی ہمیں بھی ذرا کیمرے کا لکھا بلکہ ''کھچا'' ہوا بتا دو ... لیکن اس درمیان میں ''انسان'' کہیں چلا گیا اور باوردی شامت نکل آئی جس کے ہاتھ میں قانون نافذ کرنے کا آلہ تھا، کیا کرتے دو سو روپے دے کر اپنے اوپر قانون نافذ کروایا، یہ کہتے ہوئے کہ
پکڑے جاتے ہیں کیمروں کے کہے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تصویر بھی تھا
لیکن واں ایک خاموشی تری سب کے جواب میں، کافی عرصہ ہوا جب ایک پولیس تازہ تازہ واردان ہوائے بساط دل ہوئی تھی تو ہم نے ان ہی صفحوں میں اس کی کارکردگی کی بڑی تعریف کی تھی کیونکہ اس وقت واقعی اس کی کارکردگی تعریف کے لائق تھی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ تو ابتدائے عشق ہے ۔۔۔ آگے آگے دیکھیے۔۔۔ اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں، جس طرح کوئی عمارت جب پہلے پہل بنتی ہے رنگ و روغن ہوتا ہے تو دور سے بڑی دل کش نظر آتی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں دراڑیں پڑتی ہیں، پلستر اکھڑنے لگتا ہے اور خامیاں ننگی ہونے لگتی ہیں، اسی طرح اس پولیس کے ساتھ بھی ہوا۔ آخر اس ملک میں وزیر امیر و کبیر بھی تو رہتے ہیں اور قائداعظم کا بھی بول بالا تھا، چونکہ ادارہ بڑا خوب صورت تھا، نیک نام تھا اور تنخواہیں بھی اچھی تھیں تو یار لوگ اس میں اپنے ''نکمے'' کیوں نہ گھساتے کیونکہ بے چارے منتخب نمایندوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ کسی ادارے کو ''باعصمت'' کبھی نہیں رہنے دیں گے اور اپنے پالے ہوئے ''شرفا'' سے اس کی عصمت دری کرائے بغیر نہیں رہیں گے۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
جس کی ہم تعریف کر رہے تھے تو یہ بات بھول گئے تھے کہ اس کا حال بھی ٹی وی والا ہے۔ پی ٹی وی اپنے ابتدائی دور میں پاکستان کا کماؤ پوت تھا، جب اسے لیڈر کی دعا اور دوزخ کی ہوا نہیں لگی تھی، بڑی پُرکشش تنخواہیں اور مراعات تھیں۔ اوپر سے شہرت بھی مل جاتی تھی، ابتداء میں صرف پیشہ ور اور اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے اس میں بھرتی ہوتے تھے لیکن پھر ''دوستوں'' کو خبر لگ گئی اور انھوں نے ''دشمنوں'' کو بتا دیا کہ اب تم چلتے پھرتے نظر آئو ۔۔ بے تحاشا بھرتیاں ہوئیں، وزیروں مشیروں اور کبیروں نے اپنی اپنی ''کیٹرنگ'' کا چیندہ مال اس میں داخل کرنا شروع کر دیا، رفتہ رفتہ اصلی اور جینوئن لوگ کچھ تو ریٹائر ہو گئے، کچھ کو ایک طرف کر دیا گیا اور حالت حافظ شیراز کے زمانے کی ہو گئی کہ
سحر ز ہاتف غیبم رسید مژدہ بہ گوش
کہ دور شاہ شجاع است مے دلیر بنوش
شد آں کہ اہل نظر در کنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش
ترجمہ : صبح میں نے ہاتف غیبی سے یہ خوش خبری سنی کہ اب شاہ شجاع (تیمور کا بیٹا) کا دور ہے اس لیے نہایت دلیری سے شراب پیو، پھر ہوا یوں کہ اہل نظر ہزار باتیں دلوں میں لیے بند ہونٹوں کے ساتھ ایک طرف ہو گئے، کئی حکومتوں کے کئی وزیروں مشیروں نے اتنا خس و خاشاک اس میں بھر دیا کہ کماؤ پوت خسارے میں جانے لگا، یہی سلسلہ شاید اس نئے محکمے میں بھی ہو گیا ہے نیک نامی نے اسے بھی ''بری نظروں'' کا شکار بنا دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب نام ہی بابرکت ہو جائے تو کیمرے چالان بک گاڑیاں اور سب کچھ میں برکات ہی برکات ہو چکی ہوں گی اس کا اندازہ ہمیں پہلی بار اس وقت ہوا بلکہ پہلی بار ہمارا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب اس محکمے کے کسی اہل کار کے کسی رشتہ دار کی شادی ہو رہی تھی، اس میں ''کلاشن کوفوں'' کے بے پناہ قہقہوں سے پتہ چلا کہ ''قانون نافذ'' کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے، اس کے بعد کے بارے میں کیا بتائیں۔ہم نے تو دو سو روپے دے ڈالے جب کہ قسمیہ حد تک ہماری اسپیڈ چالیس سے بھی کم تھی لیکن نہ جانے اور کہاں کہاں کیسا کیسا قانون نافذ کیا جا رہا ہو گا کیونکہ دنیا میں صرف ہم ہی تو شامت اعمال کے مارے ہوئے نہیں، ہم سے بھی زیادہ ''کشتہ تیغ ستم'' اس دنیا میں پائے جاتے ہیں اور ان پر قانون نافذ کیا جانا ضروری ہے
فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے دل پکار، میں چلاؤں ہائے جیب
ایک مستقل شامت کے تو ہم عادی ہو گئے ہیں کہ پتہ نہیں پنجاب والوں کو کون چغل خور یہ خبر دے دیتا ہے کہ ہم آنے والے ہیں چنانچہ گیس اسٹیشن کو دور ہی سے بتانا شروع کر دیتے ہیں اور پٹرول پمپوں پر قطاریں بن جاتی ہیں۔ ہم نے کئی بار کوشش کی کہ کسی ایسے دن بھی اس طرف آ نکلیں جب گیس کا ناغہ نہ ہو لیکن ہفتے کے سات دنوں میں تو ایسا کوئی دن ملا نہیں ہے اور اگر ہفتے کا کوئی آٹھواں دن ہے تو وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا، اس کے علاوہ کرنٹ شامتیں تو جگہ جگہ کھڑی رہتی ہیں جو اکثر ''باوردی'' ہوتی ہیں اوران سے کون واقف نہیں، پاکستانیوں اور ان کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہمارے ساتھ تو خصوصی محبت ہے،
ایک بات ہمیں آج تک پتہ نہیں چلی کہ ان شامتوں کو ہمارے بارے میں پتہ کیسے چل جاتا ہے کہ ساری ہی سڑک کنارے ہماری منتظر ہوتی ہیں، ان باوردی شامتوں کو ہمارے ہاں صوبہ کے پی کے عرف خیر پہ خیر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کہا جاتا ہے، ہمیں خود تو معلوم نہیں لیکن شاید ہمارے چہرے پر کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو قانون نافذ کرنے کے لیے فیورٹ ہوتی ہے چنانچہ یہ باوردی شامتیں ڈھیر سارا قانون لے کر ہم پر نافذ کرنے کے لیے بے قرار ہوتی ہیں اور جب ہم پر نظر پڑتی ہے تو گویا انضمام الحق کو پیپسی نظر آ جاتی ہے۔
پھر دیکھئے انداز گل افشانی قانون
رکھ دے کوئی پیمانہ و پیپسی مرے آگے
اب کے اٹک پار کیا تو برہان تک نہایت خیریت سے پہنچے، ہمیں کچھ کچھ رمضان المبارک کی برکات کا قائل ہونا پڑا کہ اچانک ایک موڑ پر قانون نافذ کرنے والے کئی ''ادارے'' کھڑے نظر آئے جو ہمیں دیکھ دیکھ کر نہ صرف مسکرا رہے تھے بلکہ دل ہی دل میں شاید کچھ گنگنا بھی رہے تھے ورنہ تالیاں تو یقیناً بجا رہے ہوں گے
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
اشارے کی تعمیل میں گاڑی کنارے لگوائی تو ''حاضر ہو'' کا حکم نامہ ملا، بیٹے کو جو ڈرائیور بھی تھا بھیج دیا جو ترنت ہی لوٹ آیا لیکن ایک فرشتہ بھی ساتھ تھا جس کے ہاتھ میں شاید ہمارا اعمال نامہ تھا کیونکہ وہ کاغذ اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور ہمارے بائیں ہی ہاتھ میں کاغذ پکڑاتے ہوئے الفاظ کی حیرت انگیز کفایت شعاری دکھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ دو سو روپے، پوچھا کاہے کے؟ بولا اوور اسپیڈ کے۔۔ حیرت کا جھٹکا تو لگنا ہی تھا کیونکہ ہمارے خیال میں ہماری اسپیڈ چالیس سے بھی کم تھی لیکن جب یہ بات اسے بتائی تو اس نے مژدہ جان فزا سنایا کہ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ پوچھا کس کے؟ تمہارے ہی کیمرے ہیں نا ۔۔۔ وہ تو وہیں بتائیں گے جو تم بتانا چاہو، گاڑی سے اتر کر ہم مصر ہوئے کہ بھئی ہمیں بھی ذرا کیمرے کا لکھا بلکہ ''کھچا'' ہوا بتا دو ... لیکن اس درمیان میں ''انسان'' کہیں چلا گیا اور باوردی شامت نکل آئی جس کے ہاتھ میں قانون نافذ کرنے کا آلہ تھا، کیا کرتے دو سو روپے دے کر اپنے اوپر قانون نافذ کروایا، یہ کہتے ہوئے کہ
پکڑے جاتے ہیں کیمروں کے کہے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تصویر بھی تھا
لیکن واں ایک خاموشی تری سب کے جواب میں، کافی عرصہ ہوا جب ایک پولیس تازہ تازہ واردان ہوائے بساط دل ہوئی تھی تو ہم نے ان ہی صفحوں میں اس کی کارکردگی کی بڑی تعریف کی تھی کیونکہ اس وقت واقعی اس کی کارکردگی تعریف کے لائق تھی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ تو ابتدائے عشق ہے ۔۔۔ آگے آگے دیکھیے۔۔۔ اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں، جس طرح کوئی عمارت جب پہلے پہل بنتی ہے رنگ و روغن ہوتا ہے تو دور سے بڑی دل کش نظر آتی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں دراڑیں پڑتی ہیں، پلستر اکھڑنے لگتا ہے اور خامیاں ننگی ہونے لگتی ہیں، اسی طرح اس پولیس کے ساتھ بھی ہوا۔ آخر اس ملک میں وزیر امیر و کبیر بھی تو رہتے ہیں اور قائداعظم کا بھی بول بالا تھا، چونکہ ادارہ بڑا خوب صورت تھا، نیک نام تھا اور تنخواہیں بھی اچھی تھیں تو یار لوگ اس میں اپنے ''نکمے'' کیوں نہ گھساتے کیونکہ بے چارے منتخب نمایندوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ کسی ادارے کو ''باعصمت'' کبھی نہیں رہنے دیں گے اور اپنے پالے ہوئے ''شرفا'' سے اس کی عصمت دری کرائے بغیر نہیں رہیں گے۔
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
جس کی ہم تعریف کر رہے تھے تو یہ بات بھول گئے تھے کہ اس کا حال بھی ٹی وی والا ہے۔ پی ٹی وی اپنے ابتدائی دور میں پاکستان کا کماؤ پوت تھا، جب اسے لیڈر کی دعا اور دوزخ کی ہوا نہیں لگی تھی، بڑی پُرکشش تنخواہیں اور مراعات تھیں۔ اوپر سے شہرت بھی مل جاتی تھی، ابتداء میں صرف پیشہ ور اور اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے اس میں بھرتی ہوتے تھے لیکن پھر ''دوستوں'' کو خبر لگ گئی اور انھوں نے ''دشمنوں'' کو بتا دیا کہ اب تم چلتے پھرتے نظر آئو ۔۔ بے تحاشا بھرتیاں ہوئیں، وزیروں مشیروں اور کبیروں نے اپنی اپنی ''کیٹرنگ'' کا چیندہ مال اس میں داخل کرنا شروع کر دیا، رفتہ رفتہ اصلی اور جینوئن لوگ کچھ تو ریٹائر ہو گئے، کچھ کو ایک طرف کر دیا گیا اور حالت حافظ شیراز کے زمانے کی ہو گئی کہ
سحر ز ہاتف غیبم رسید مژدہ بہ گوش
کہ دور شاہ شجاع است مے دلیر بنوش
شد آں کہ اہل نظر در کنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش
ترجمہ : صبح میں نے ہاتف غیبی سے یہ خوش خبری سنی کہ اب شاہ شجاع (تیمور کا بیٹا) کا دور ہے اس لیے نہایت دلیری سے شراب پیو، پھر ہوا یوں کہ اہل نظر ہزار باتیں دلوں میں لیے بند ہونٹوں کے ساتھ ایک طرف ہو گئے، کئی حکومتوں کے کئی وزیروں مشیروں نے اتنا خس و خاشاک اس میں بھر دیا کہ کماؤ پوت خسارے میں جانے لگا، یہی سلسلہ شاید اس نئے محکمے میں بھی ہو گیا ہے نیک نامی نے اسے بھی ''بری نظروں'' کا شکار بنا دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب نام ہی بابرکت ہو جائے تو کیمرے چالان بک گاڑیاں اور سب کچھ میں برکات ہی برکات ہو چکی ہوں گی اس کا اندازہ ہمیں پہلی بار اس وقت ہوا بلکہ پہلی بار ہمارا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب اس محکمے کے کسی اہل کار کے کسی رشتہ دار کی شادی ہو رہی تھی، اس میں ''کلاشن کوفوں'' کے بے پناہ قہقہوں سے پتہ چلا کہ ''قانون نافذ'' کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے، اس کے بعد کے بارے میں کیا بتائیں۔ہم نے تو دو سو روپے دے ڈالے جب کہ قسمیہ حد تک ہماری اسپیڈ چالیس سے بھی کم تھی لیکن نہ جانے اور کہاں کہاں کیسا کیسا قانون نافذ کیا جا رہا ہو گا کیونکہ دنیا میں صرف ہم ہی تو شامت اعمال کے مارے ہوئے نہیں، ہم سے بھی زیادہ ''کشتہ تیغ ستم'' اس دنیا میں پائے جاتے ہیں اور ان پر قانون نافذ کیا جانا ضروری ہے
فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے