بارش اور بلدیاتی نظام
کراچی سے متصل تھانہ بولا خان میں کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ہے
سعدی ٹائون کراچی کے متوسط طبقے کی بستی ہے۔ سعدی ٹائون کے مکینوں کا کہنا ہے کہ رات 10 بجے اچانک پانی گلیوں میں داخل ہوگیا، باہر کھڑی گاڑیاں تیرنے لگیں، اس پانی نے گھروں میں رکھا سارا سامان برباد کردیا، یوں محسوس ہوتا ہے تھا کہ ہر طرف پانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کردی، جو لوگ گھروں کی چھتوں کو محفوظ سمجھ رہے تھے انھیں پھر پانی میں آنا پڑا۔ اس علاقے میں 24 گھنٹے تک کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ کراچی میں ایک دن کی بارش نے شہر کو جل تھل کردیا، مرنے والوں کی تعداد 20 سے زیادہ ہوگئی۔ شہر میں ویسی ہی صورتحال پیدا ہوگئی جو بلدیاتی نظام کے نفاذ سے پہلے تھی، ہر طرف شور ہے کہ حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں جون سے ستمبر تک مون سون کا موسم ہوتا ہے، پورے ملک میں بارشیں ہوتی ہیں۔ کراچی سے متصل تھانہ بولا خان میں کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ عمومی طور پر ممبئی میں ہونے والے دبائو کے نتیجے میں سندھ میں بارشوں کا سسٹم داخل ہوتا ہے اور پورے سندھ میں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس دفعہ پہلے اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں بارشیں ہوئیں پھر 3 اگست کو کراچی میں خوب جل تھل ہوئی، جب اندرون سندھ بارشیں ہوتی ہیں تو کیرتھر پہاڑی سے آنے والا پانی کراچی کا رخ کرتا ہے۔ تاریخی طور پر لیاری ندی میں طغیانی اس ہی پانی کی بنا پر آتی ہے۔ گڈاپ ٹائون میں بند کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے سلسلے میں کراچی کو تباہی سے بچایا جائے مگر سندھ کی انتظامیہ مون سون بارشوں پرتوجہ نہیں دے پائی اور اب ہر طرف تباہی مچ گئی ہے۔
بارشیں ہزاروں سال سے ہورہی ہیں، انسانوں نے بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے اور انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے۔ کراچی کی دو ندیاں لیاری ندی اور ملیر ندی کا اہم مقصد اس پانی کو محفوظ کرنا اور سمندر میں منتقل کرنا تھا، ان ندیوں کے علاوہ مختلف نالے بھی صدیوں پہلے تعمیر ہوگئے تھے، ان نالوں کے ذریعے نکاسی آب کا ایک بہتر نظام شہر میں موجود تھا۔ حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور رشوت و سفارش کی وجہ سے نظام ختم ہوگیا، ندیوں میں آبادیاں قائم ہوئیں، نالوں کی زمینوں پر پلازے تعمیر ہوگئے۔ بارش کے پانی کی نکاسی کے فطری راستے بند ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم ہوا تو لیاری اور ملیر ندی اور مختلف نالوں کی صفائی پر توجہ دی گئی، ان کے دور میں بارشوں کی بنا پر ملک کے اقتصادی مرکز آئی آئی چندریگر روڈ دریائے سندھ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بلدیاتی حکام نے جب اس سڑک کی تعمیر اور نکاسی آب کے لیے گٹر لائن دوبارہ ڈالنے کے لیے کھدائی کی تو ایک نالا دریافت ہوا۔ یہ نالا انگریزوں کے دور میں اس شاہراہ کی تعمیر کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا تاکہ نکاسی آب میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ متعلقہ اہلکاروں نے اس نالے کی دریافت کو کارنامہ قرار دیا۔ بہرحال جب مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو ملیر اور لیاری ندی سمیت نالوں کی صفائی کا کام ہوا، سندھ کا نظام چلانے والے بیوروکریٹس کے علاقے باتھ آئی لینڈ سے گزرنے والے نالے کی صفائی میں مزاحمت ہوئی۔ کئی بیوروکریٹس نے اس نالے پر تجاوزرات قائم کرلی تھیں۔ جب بلدیاتی اداروں پر عوامی نمایندوں کا کنٹرول ختم ہوا تو بلدیاتی ادارے بدترین بدانتظامی کاشکار ہوئے۔
دو سال کے دوران کبھی ٹائونز بحال ہوئے، کبھی ٹائون میونسپل کارپوریشنوں میں ضم ہوئے، اس کے ساتھ ملازمین کو تنخواہیں ملنا بند ہوگئیں۔ ورکرز، کلرکوں اور اساتذہ نے کئی کئی مہینے ہڑتالیں کی۔ اس صورتحال میں شہر میں صفائی کا نظام ٹھپ ہوگیا، ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ کراچی کے قدیم علاقوں کھارادر، میٹھادر، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، رنچھوڑ لائن اور اطراف کے علاقوں میںبارش کے پانی کے ساتھ کوڑے کرکٹ کی مصیبت نے لوگوں کی زندگی عذاب میں مبتلا کردی۔ ان علاقوں کے گھروں اور مارکیٹوں میں پانی داخل ہوگیا۔ لیاقت آباد، ایف سی ایریا، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی اور دیگر علاقوں میں گھروں اور گلیوں میں 3، 3 فٹ پانی جمع ہوگیا۔ کراچی شہر میں بلدیاتی نظام ناکام ہوا تو بری اور بحری فوج کی مدد طلب کی گئی۔ بری فوج کے عملے نے شاہراہ فیصل سے پانی کو صاف کیا، فوجی دستوں نے گڈاپ کے علاقے میں لوگوں کو سیلاب سے نکالا۔
بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہر افسر کی تقرری سفارش سے کی جاتی ہے یا معقول رقم لی جاتی ہے تو اس صورتحال میں افسران احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی حکومت ابھی تک بلدیاتی نظام کے بارے میں اتفاق رائے نہیں کرسکی۔ سندھ کے وزیر قانون سکندر میندرو جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام کو دوبارہ سندھ میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ حکومت جنرل ضیاء الحق کے قانون میں چند ترمیمات کرے گی اور سندھ میں اب جماعتی بنیاد پر انتخابات ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نظام میں یونین کونسل بنیادی ادارہ ہوگی اور کراچی میونسپل کارپوریشن قائم کی جائے گی، جس کے ساتھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن قائم ہوں گی۔ اس طرح بلدیاتی اداروں پر خواتین کی 33 فیصد اور اقلیتوں اور کسانوں کی 5 فیصد نمایندگی ہوگی۔
خالد جاوید کا کہنا ہے کہ میئر کے اختیارات صرف میونسپل معاملات تک محدود ہوں گے، اس طرح بلدیاتی کمیشن بھی قائم ہوگا جس کے سربراہ وزیر بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کمیشن کے سیکریٹری ہوں گے۔ سندھ اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ایک ایک نمایندہ نامزد کریں گے اور دو ٹیکنوکریٹس یا ماہرین اس کمیشن میں شامل ہوں گے، میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے اختیارات 1979 کے بلدیاتی قانون کے مطابق ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اضلاع کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی پر سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل کی یہ تجاویز مایوس کن ہیں، جب تک اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہوگی اور میئر یا چیئرمین مکمل اختیارات کے مالک نہیں ہوں گے وہ شہر کے مسائل حل نہیں کرسکیں گے۔
1979 کے قانون کے تحت منتخب میئر سیکریٹری بلدیات کے تحت فرائض انجام دیتا تھا، اس کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تقرر اور تبادلوں کا اختیار نہیں تھا۔ دوسری صورت میں اس کے ساتھ فرائض انجام دینے والے افسران میئر کے بجائے کسی اور کے سامنے جواب دہ تھے، ان کے لیے میئر یا چیئرمین کے احکامات کی پابندی کرنا ضروری نہیں تھا، ایک بے اختیار میئر شہر کے مسائل حل نہیں کرسکتا تھا۔ کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی ادارے 2002 کے انتخابات کے بعد اس لیے متحرک ہوئے کہ ناظم مکمل طور پر بااختیار تھے۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ 2002 کے بلدیاتی قانون کے تحت ناظم کے اختیارات دنیا کے جدید شہروں مثلاً لندن، نیویارک، واشنگٹن وغیرہ سے کم تھے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی شہید چیئر پرسن کی زیر نگرانی تیار ہونے والے پیپلزپارٹی کے منشور کو بھی نظر انداز کردیا ہے، جس کے نتیجے میں صورتحال اور خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ایم کیو ایم کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔ بصیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم کرکے دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔ لاکھوں لوگ مشکلات کا شکار نہیں ہوتے اور انسانوں کی ہلاکتوں سے بچا جاسکتا تھا۔ سندھ کے وزیر بلدیات بلدیاتی اداروں کو متحرک نہیں کرسکے۔
بعض صحافی کہتے ہیں کہ اب تو وزیراعظم نواز شریف نچلی سطح تک کے اختیارات کے حامل بلدیاتی نظام کی وکالت کررہے ہیں، پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ان ہی خطوط پر بلدیاتی قانون تیار کررہی ہے، پھر سندھ کے عوام کے پسماندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اب تو حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے اور بلدیاتی انتخابات اور نظام پر کوئی معقول رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
پاکستان میں جون سے ستمبر تک مون سون کا موسم ہوتا ہے، پورے ملک میں بارشیں ہوتی ہیں۔ کراچی سے متصل تھانہ بولا خان میں کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ عمومی طور پر ممبئی میں ہونے والے دبائو کے نتیجے میں سندھ میں بارشوں کا سسٹم داخل ہوتا ہے اور پورے سندھ میں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس دفعہ پہلے اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں بارشیں ہوئیں پھر 3 اگست کو کراچی میں خوب جل تھل ہوئی، جب اندرون سندھ بارشیں ہوتی ہیں تو کیرتھر پہاڑی سے آنے والا پانی کراچی کا رخ کرتا ہے۔ تاریخی طور پر لیاری ندی میں طغیانی اس ہی پانی کی بنا پر آتی ہے۔ گڈاپ ٹائون میں بند کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے سلسلے میں کراچی کو تباہی سے بچایا جائے مگر سندھ کی انتظامیہ مون سون بارشوں پرتوجہ نہیں دے پائی اور اب ہر طرف تباہی مچ گئی ہے۔
بارشیں ہزاروں سال سے ہورہی ہیں، انسانوں نے بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے اور انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے۔ کراچی کی دو ندیاں لیاری ندی اور ملیر ندی کا اہم مقصد اس پانی کو محفوظ کرنا اور سمندر میں منتقل کرنا تھا، ان ندیوں کے علاوہ مختلف نالے بھی صدیوں پہلے تعمیر ہوگئے تھے، ان نالوں کے ذریعے نکاسی آب کا ایک بہتر نظام شہر میں موجود تھا۔ حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور رشوت و سفارش کی وجہ سے نظام ختم ہوگیا، ندیوں میں آبادیاں قائم ہوئیں، نالوں کی زمینوں پر پلازے تعمیر ہوگئے۔ بارش کے پانی کی نکاسی کے فطری راستے بند ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم ہوا تو لیاری اور ملیر ندی اور مختلف نالوں کی صفائی پر توجہ دی گئی، ان کے دور میں بارشوں کی بنا پر ملک کے اقتصادی مرکز آئی آئی چندریگر روڈ دریائے سندھ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بلدیاتی حکام نے جب اس سڑک کی تعمیر اور نکاسی آب کے لیے گٹر لائن دوبارہ ڈالنے کے لیے کھدائی کی تو ایک نالا دریافت ہوا۔ یہ نالا انگریزوں کے دور میں اس شاہراہ کی تعمیر کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا تاکہ نکاسی آب میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ متعلقہ اہلکاروں نے اس نالے کی دریافت کو کارنامہ قرار دیا۔ بہرحال جب مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو ملیر اور لیاری ندی سمیت نالوں کی صفائی کا کام ہوا، سندھ کا نظام چلانے والے بیوروکریٹس کے علاقے باتھ آئی لینڈ سے گزرنے والے نالے کی صفائی میں مزاحمت ہوئی۔ کئی بیوروکریٹس نے اس نالے پر تجاوزرات قائم کرلی تھیں۔ جب بلدیاتی اداروں پر عوامی نمایندوں کا کنٹرول ختم ہوا تو بلدیاتی ادارے بدترین بدانتظامی کاشکار ہوئے۔
دو سال کے دوران کبھی ٹائونز بحال ہوئے، کبھی ٹائون میونسپل کارپوریشنوں میں ضم ہوئے، اس کے ساتھ ملازمین کو تنخواہیں ملنا بند ہوگئیں۔ ورکرز، کلرکوں اور اساتذہ نے کئی کئی مہینے ہڑتالیں کی۔ اس صورتحال میں شہر میں صفائی کا نظام ٹھپ ہوگیا، ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ کراچی کے قدیم علاقوں کھارادر، میٹھادر، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، رنچھوڑ لائن اور اطراف کے علاقوں میںبارش کے پانی کے ساتھ کوڑے کرکٹ کی مصیبت نے لوگوں کی زندگی عذاب میں مبتلا کردی۔ ان علاقوں کے گھروں اور مارکیٹوں میں پانی داخل ہوگیا۔ لیاقت آباد، ایف سی ایریا، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی اور دیگر علاقوں میں گھروں اور گلیوں میں 3، 3 فٹ پانی جمع ہوگیا۔ کراچی شہر میں بلدیاتی نظام ناکام ہوا تو بری اور بحری فوج کی مدد طلب کی گئی۔ بری فوج کے عملے نے شاہراہ فیصل سے پانی کو صاف کیا، فوجی دستوں نے گڈاپ کے علاقے میں لوگوں کو سیلاب سے نکالا۔
بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہر افسر کی تقرری سفارش سے کی جاتی ہے یا معقول رقم لی جاتی ہے تو اس صورتحال میں افسران احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی حکومت ابھی تک بلدیاتی نظام کے بارے میں اتفاق رائے نہیں کرسکی۔ سندھ کے وزیر قانون سکندر میندرو جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام کو دوبارہ سندھ میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ حکومت جنرل ضیاء الحق کے قانون میں چند ترمیمات کرے گی اور سندھ میں اب جماعتی بنیاد پر انتخابات ہوں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نظام میں یونین کونسل بنیادی ادارہ ہوگی اور کراچی میونسپل کارپوریشن قائم کی جائے گی، جس کے ساتھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن قائم ہوں گی۔ اس طرح بلدیاتی اداروں پر خواتین کی 33 فیصد اور اقلیتوں اور کسانوں کی 5 فیصد نمایندگی ہوگی۔
خالد جاوید کا کہنا ہے کہ میئر کے اختیارات صرف میونسپل معاملات تک محدود ہوں گے، اس طرح بلدیاتی کمیشن بھی قائم ہوگا جس کے سربراہ وزیر بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کمیشن کے سیکریٹری ہوں گے۔ سندھ اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ایک ایک نمایندہ نامزد کریں گے اور دو ٹیکنوکریٹس یا ماہرین اس کمیشن میں شامل ہوں گے، میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے اختیارات 1979 کے بلدیاتی قانون کے مطابق ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اضلاع کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی پر سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل کی یہ تجاویز مایوس کن ہیں، جب تک اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہوگی اور میئر یا چیئرمین مکمل اختیارات کے مالک نہیں ہوں گے وہ شہر کے مسائل حل نہیں کرسکیں گے۔
1979 کے قانون کے تحت منتخب میئر سیکریٹری بلدیات کے تحت فرائض انجام دیتا تھا، اس کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تقرر اور تبادلوں کا اختیار نہیں تھا۔ دوسری صورت میں اس کے ساتھ فرائض انجام دینے والے افسران میئر کے بجائے کسی اور کے سامنے جواب دہ تھے، ان کے لیے میئر یا چیئرمین کے احکامات کی پابندی کرنا ضروری نہیں تھا، ایک بے اختیار میئر شہر کے مسائل حل نہیں کرسکتا تھا۔ کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی ادارے 2002 کے انتخابات کے بعد اس لیے متحرک ہوئے کہ ناظم مکمل طور پر بااختیار تھے۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ 2002 کے بلدیاتی قانون کے تحت ناظم کے اختیارات دنیا کے جدید شہروں مثلاً لندن، نیویارک، واشنگٹن وغیرہ سے کم تھے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی شہید چیئر پرسن کی زیر نگرانی تیار ہونے والے پیپلزپارٹی کے منشور کو بھی نظر انداز کردیا ہے، جس کے نتیجے میں صورتحال اور خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت ایم کیو ایم کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔ بصیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم کرکے دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔ لاکھوں لوگ مشکلات کا شکار نہیں ہوتے اور انسانوں کی ہلاکتوں سے بچا جاسکتا تھا۔ سندھ کے وزیر بلدیات بلدیاتی اداروں کو متحرک نہیں کرسکے۔
بعض صحافی کہتے ہیں کہ اب تو وزیراعظم نواز شریف نچلی سطح تک کے اختیارات کے حامل بلدیاتی نظام کی وکالت کررہے ہیں، پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ان ہی خطوط پر بلدیاتی قانون تیار کررہی ہے، پھر سندھ کے عوام کے پسماندہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اب تو حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے اور بلدیاتی انتخابات اور نظام پر کوئی معقول رویہ اختیار کرنا چاہیے۔