صدر کا انتخاب اقدار کی فتح…
معاشرے میں نمایاں مقام اور عزت و احترام حاصل کرنے کا معیار صرف پیسہ قرار پا گیا۔
معاشرے میں انتہا کو چھوتی کرپشن نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ چند دہائیوں قبل تک رشوت یا مالی بدعنوانی کے نتیجے میں دولت کمانے والوں کو معاشرے میں عزت اور احترام حاصل نہیں ہوا کرتا تھا۔ بلکہ ایسے افراد کا معاشرہ، سوشل بائیکاٹ کیا کرتا تھا اور کرپٹ یا بدعنوان افراد سے اہل محلہ یا خاندان والے تعلقات رکھنے میں شرمندگی محسوس کیا کرتے تھے۔ اگر کسی فرد کے بارے میں یہ یقین ہو جائے کہ اس نے غلط ذرایع استعمال کر کے دولت کمائی ہے تو اس کے بچوں کے رشتوں میں رکاوٹیں پیدا ہو جایا کرتی تھیں۔ اس صورتحال میں یکایک معاشرے میں 180 ڈگری کے زاویے سے تبدیلی آئی اور اس کے نتیجے میں ہماری اقدار بھی تبدیل ہو گئیں۔
معاشرے میں نمایاں مقام اور عزت و احترام حاصل کرنے کا معیار صرف پیسہ قرار پا گیا۔ دولت کمانے کے ذرایع کے بارے میں معاشرے کی سوچ ہی تبدیل ہو گئی۔ پھر جو لوٹ مچی تو معاشرے کا کوئی شعبہ کرپشن اور بدعنوانی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ معاشرے میں دولت کمانے والوں کو ذہین اور عقل مند ہونے کے اعزازات سے نوازا جانے لگا، جب کہ اختیار رکھنے کے باوجود غلط ذرایع سے دولت نہ کمانے والوں کو بے وقوف یا بزدل قرار دیا جانے لگا۔ معاشرے کے تبدیل شدہ معیار کے سامنے بڑی اکثریت نے گھٹنے ٹیک دیے، دولت مند خواہ وہ راشی ہو یا اسمگلر معاشرے نے اسے معتبر بنا دیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ نام نہاد معتبر ہماری تقریبات کی زینت بنتے گئے۔ ان کے آنے پر تقریب کا آغاز اور جانے پر تقریب اختتام پذیر ہو جاتی۔
معاشرے میں دیانتداری کے ساتھ محنت کر کے رزق حلال کمانے والے بے وقعت ہوتے جا رہے تھے اور اب معاشرے میں بہ امر مباحثہ کا موضوع یہ بن گیا تھا کہ جو لوگ اس روایتی سوچ کے ساتھ اپنی روش اور طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے وہ سماجی دوڑ میں بہت پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا تقاضا یہی ہے کہ جو اقدار رواج پا چکی ہیں، ان ہی کے قالب میں ڈھل جائو، صحیح یا غلط کی تمیز کیے بغیر خوب دولت کمائو اور اپنی زندگی کو سہل اور پرآسائش بنائو۔ گویا اس شرمناک سوچ نے معاشرے کا چلن ہی بدل کر رکھ دیا۔ لیکن بھلا ہو میاں محمد نواز شریف کا کہ جنہوں نے ایسے پرآشوب دور میں صدارتی انتخابات کے لیے ممنون حسین کا نام پیش کر دیا۔ جن کی دیانتداری، ایمانداری اور شرافت کا ایک زمانہ معترف ہے۔
ان کے مخالفین بھی ان کی سیاسی سوچ اور فکر پر تو اختلاف کرتے ہیں لیکن کسی نے آج تک ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا کیونکہ مضبوط اور بے داغ کردار کے مالک ممنون حسین کی شخصیت شرافت، دیانت، امانت، شفقت، محبت، صاف گوئی اور کمٹمنٹ جیسی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے تو ممنون حسین کا نام جس جماعت کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے اس کے کردار کی تعریف کی اور ان کی کمٹمنٹ کی گواہی دی۔ ممنون حسین کا ماضی خود ان کی کمنٹمنٹ کی گواہی ہے کہ 12 اکتوبر 1999کو جب جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت ممنون حسین صوبہ سندھ کے گورنر تھے، چونکہ صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ ہو چکا تھا لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممنون حسین پورے صوبے کے تن تنہا مکمل والی وارث تھے۔ انھیں کسی فوجی نے استعفیٰ دینے پر مجبور بھی نہیں کیا لیکن انھوں نے میاں نواز شریف سے ایک روز کی بھی بے وفائی نہیں کی۔ گورنری سے استعفیٰ دیا اور مشرف آمریت کے خلاف سینہ سپر ہو گئے۔
انھوں نے شدید مشکلات کا سامنا کیا، بڑی دشواریاں جھیلیں، یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس کراچی کی عدالت میں شروع ہوا تو ممنون حسین اپنے چند مسلم لیگی دوستوں کے ساتھ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جب کہ نواز شریف سے فوائد اور بڑے بڑے منصب حاصل کرنے والے غائب ہو گئے۔ جیل میں اپنے قائد کی مشکلات میں کمی کے لیے کوشاں رہنے کے علاوہ وکلا سے رابطے اور مسلم لیگی کارکنان کا حوصلہ بڑھائے رکھنا ان کا معمول تھا۔ ہر پیشی کے موقع پر کارکنان کا نواز شریف سے ملاقات کے لیے اجازت نامے حاصل کرنا اور اس عمل کو بحسن و خوبی کئی ماہ تک جاری رکھنا ان ہی کا خاصا ہے۔
انھوں نے پورے عرصے میں اپنے کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف اپنی کمٹمنٹ کو پورا کیا، یہاں تک کہ میاں نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا۔ ممنون حسین اپنی جدوجہد میں اس حد تک ضرور کامیاب ہو گئے کہ میاں نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرات ٹل چکے تھے اور اب وہ سعودی عرب میں آرام دہ اور شاہانہ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ممنون حسین کا کمٹمنٹ صرف نواز شریف کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے بہت آگے کا تھا۔ اس طرح ان کی جدوجہد غیر جمہوری حکومت کے خلاف جاری رہی۔ انھوں نے آئین کی بحالی، عوام کے حق حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کی، لیکن اس پورے عرصے میں کبھی اپنی قیادت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کیں۔ کبھی کسی عہدے یا منصب کی خواہش میں جمہوری تحریک کو نقصان نہیں پہنچنے دیا بلکہ ہر بار قیادت کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور ان کے ساتھ کھڑے رہے، کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
پارٹی کی قیادت کو ان پر پورا اعتماد رہا۔ ان کی دیانتداری، صاف گوئی اور کمٹنمنٹ کو انتہائی احترام سے دیکھا گیا اور اب 30 جولائی کو ممنون حسین چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھاری اکثریت حاصل کر کے ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ممنون حسین کی کامیابی نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ کامیابی ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ کرپٹ اور آلودہ سماجی نظام سے ماضی کی شاندار اقدار کی طرف پلٹنے کا ایک موقع ہے۔ ممنون حسین کی بے مثال کامیابی کے بعد آج ایک بار پھر معاشرے میں اس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہو گیا ہے کہ ہماری مثبت اقدار اب بھی زندہ ہیں۔ اب بھی دیانت اور شرافت کی قدر و منزلت کا زمانہ ختم نہیں ہوا بلکہ ماضی کی چند دہائیوں میں معاشرے میں فروغ پا جانے والی برائیوں کے خاتمے کے دور کا اب آغاز ہو گیا ہے۔ اب ایماندار اور شریف فرد کو بزدل یا بے وقوف نہیں سمجھا جائے گا بلکہ معاشرہ اس کی تعظیم کرے گا۔
منصب صدارت پر اب کوئی چالاک یا چالباز فرد ہی براجمان نہیں ہو گا بلکہ اب شریف، صاف گو اور کمیٹڈ فرد اس منصب کا اہل ہو گا۔ کوئی فوجی وردی میں ملبوس فرد، سابق بیوروکریٹ یا ملک کی اشرافیہ کا فرد ہی صدر کے منصب کا اہل نہیں ہو گا بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ متوسط گھرانے کا فرد بھی صدر ہو سکے گا۔ لیکن افسوس کہ ممنون حسین کے انتخاب کو چند عناصر اصولوں، کمٹمنٹ اور شرافت کی کامیابی قرار دینے کے بجائے اسے محض نواز شریف کی ذاتی دوستی قرار دے رہے ہیں۔ اسے دہی بڑے، گول گپے یا خدا جانے کس کس خدمت کی بجا آوری قرار دے رہے ہیں۔ یہ نامناسب جملے محض ممنون حسین کی ذات کو کمتر کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ کرپٹ اور بدعنوان سیاسی کلچر کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔ نواز شریف کا شکریہ کہ انھوں نے ممنون حسین کو صدر منتخب کروا کر معاشرے کو اپنے ماضی کی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی طرف پلٹنے کا ایک نادر موقع فراہم کر دیا ہے۔
معاشرے میں نمایاں مقام اور عزت و احترام حاصل کرنے کا معیار صرف پیسہ قرار پا گیا۔ دولت کمانے کے ذرایع کے بارے میں معاشرے کی سوچ ہی تبدیل ہو گئی۔ پھر جو لوٹ مچی تو معاشرے کا کوئی شعبہ کرپشن اور بدعنوانی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ معاشرے میں دولت کمانے والوں کو ذہین اور عقل مند ہونے کے اعزازات سے نوازا جانے لگا، جب کہ اختیار رکھنے کے باوجود غلط ذرایع سے دولت نہ کمانے والوں کو بے وقوف یا بزدل قرار دیا جانے لگا۔ معاشرے کے تبدیل شدہ معیار کے سامنے بڑی اکثریت نے گھٹنے ٹیک دیے، دولت مند خواہ وہ راشی ہو یا اسمگلر معاشرے نے اسے معتبر بنا دیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ نام نہاد معتبر ہماری تقریبات کی زینت بنتے گئے۔ ان کے آنے پر تقریب کا آغاز اور جانے پر تقریب اختتام پذیر ہو جاتی۔
معاشرے میں دیانتداری کے ساتھ محنت کر کے رزق حلال کمانے والے بے وقعت ہوتے جا رہے تھے اور اب معاشرے میں بہ امر مباحثہ کا موضوع یہ بن گیا تھا کہ جو لوگ اس روایتی سوچ کے ساتھ اپنی روش اور طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے وہ سماجی دوڑ میں بہت پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا تقاضا یہی ہے کہ جو اقدار رواج پا چکی ہیں، ان ہی کے قالب میں ڈھل جائو، صحیح یا غلط کی تمیز کیے بغیر خوب دولت کمائو اور اپنی زندگی کو سہل اور پرآسائش بنائو۔ گویا اس شرمناک سوچ نے معاشرے کا چلن ہی بدل کر رکھ دیا۔ لیکن بھلا ہو میاں محمد نواز شریف کا کہ جنہوں نے ایسے پرآشوب دور میں صدارتی انتخابات کے لیے ممنون حسین کا نام پیش کر دیا۔ جن کی دیانتداری، ایمانداری اور شرافت کا ایک زمانہ معترف ہے۔
ان کے مخالفین بھی ان کی سیاسی سوچ اور فکر پر تو اختلاف کرتے ہیں لیکن کسی نے آج تک ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا کیونکہ مضبوط اور بے داغ کردار کے مالک ممنون حسین کی شخصیت شرافت، دیانت، امانت، شفقت، محبت، صاف گوئی اور کمٹمنٹ جیسی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے تو ممنون حسین کا نام جس جماعت کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے اس کے کردار کی تعریف کی اور ان کی کمٹمنٹ کی گواہی دی۔ ممنون حسین کا ماضی خود ان کی کمنٹمنٹ کی گواہی ہے کہ 12 اکتوبر 1999کو جب جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت ممنون حسین صوبہ سندھ کے گورنر تھے، چونکہ صوبہ سندھ میں گورنر راج نافذ ہو چکا تھا لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممنون حسین پورے صوبے کے تن تنہا مکمل والی وارث تھے۔ انھیں کسی فوجی نے استعفیٰ دینے پر مجبور بھی نہیں کیا لیکن انھوں نے میاں نواز شریف سے ایک روز کی بھی بے وفائی نہیں کی۔ گورنری سے استعفیٰ دیا اور مشرف آمریت کے خلاف سینہ سپر ہو گئے۔
انھوں نے شدید مشکلات کا سامنا کیا، بڑی دشواریاں جھیلیں، یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس کراچی کی عدالت میں شروع ہوا تو ممنون حسین اپنے چند مسلم لیگی دوستوں کے ساتھ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جب کہ نواز شریف سے فوائد اور بڑے بڑے منصب حاصل کرنے والے غائب ہو گئے۔ جیل میں اپنے قائد کی مشکلات میں کمی کے لیے کوشاں رہنے کے علاوہ وکلا سے رابطے اور مسلم لیگی کارکنان کا حوصلہ بڑھائے رکھنا ان کا معمول تھا۔ ہر پیشی کے موقع پر کارکنان کا نواز شریف سے ملاقات کے لیے اجازت نامے حاصل کرنا اور اس عمل کو بحسن و خوبی کئی ماہ تک جاری رکھنا ان ہی کا خاصا ہے۔
انھوں نے پورے عرصے میں اپنے کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف اپنی کمٹمنٹ کو پورا کیا، یہاں تک کہ میاں نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا۔ ممنون حسین اپنی جدوجہد میں اس حد تک ضرور کامیاب ہو گئے کہ میاں نواز شریف کی زندگی کو لاحق خطرات ٹل چکے تھے اور اب وہ سعودی عرب میں آرام دہ اور شاہانہ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ممنون حسین کا کمٹمنٹ صرف نواز شریف کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے بہت آگے کا تھا۔ اس طرح ان کی جدوجہد غیر جمہوری حکومت کے خلاف جاری رہی۔ انھوں نے آئین کی بحالی، عوام کے حق حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کی، لیکن اس پورے عرصے میں کبھی اپنی قیادت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کیں۔ کبھی کسی عہدے یا منصب کی خواہش میں جمہوری تحریک کو نقصان نہیں پہنچنے دیا بلکہ ہر بار قیادت کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور ان کے ساتھ کھڑے رہے، کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
پارٹی کی قیادت کو ان پر پورا اعتماد رہا۔ ان کی دیانتداری، صاف گوئی اور کمٹنمنٹ کو انتہائی احترام سے دیکھا گیا اور اب 30 جولائی کو ممنون حسین چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھاری اکثریت حاصل کر کے ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ممنون حسین کی کامیابی نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ کامیابی ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ کرپٹ اور آلودہ سماجی نظام سے ماضی کی شاندار اقدار کی طرف پلٹنے کا ایک موقع ہے۔ ممنون حسین کی بے مثال کامیابی کے بعد آج ایک بار پھر معاشرے میں اس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہو گیا ہے کہ ہماری مثبت اقدار اب بھی زندہ ہیں۔ اب بھی دیانت اور شرافت کی قدر و منزلت کا زمانہ ختم نہیں ہوا بلکہ ماضی کی چند دہائیوں میں معاشرے میں فروغ پا جانے والی برائیوں کے خاتمے کے دور کا اب آغاز ہو گیا ہے۔ اب ایماندار اور شریف فرد کو بزدل یا بے وقوف نہیں سمجھا جائے گا بلکہ معاشرہ اس کی تعظیم کرے گا۔
منصب صدارت پر اب کوئی چالاک یا چالباز فرد ہی براجمان نہیں ہو گا بلکہ اب شریف، صاف گو اور کمیٹڈ فرد اس منصب کا اہل ہو گا۔ کوئی فوجی وردی میں ملبوس فرد، سابق بیوروکریٹ یا ملک کی اشرافیہ کا فرد ہی صدر کے منصب کا اہل نہیں ہو گا بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ متوسط گھرانے کا فرد بھی صدر ہو سکے گا۔ لیکن افسوس کہ ممنون حسین کے انتخاب کو چند عناصر اصولوں، کمٹمنٹ اور شرافت کی کامیابی قرار دینے کے بجائے اسے محض نواز شریف کی ذاتی دوستی قرار دے رہے ہیں۔ اسے دہی بڑے، گول گپے یا خدا جانے کس کس خدمت کی بجا آوری قرار دے رہے ہیں۔ یہ نامناسب جملے محض ممنون حسین کی ذات کو کمتر کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ کرپٹ اور بدعنوان سیاسی کلچر کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔ نواز شریف کا شکریہ کہ انھوں نے ممنون حسین کو صدر منتخب کروا کر معاشرے کو اپنے ماضی کی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی طرف پلٹنے کا ایک نادر موقع فراہم کر دیا ہے۔