مڈل کلاس حکومت مایوس کن آغاز

بلوچستان کے پہلے غیرسردار اور مڈل کلاس وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا میڈیا کو دیا گیا

khanabadosh81@gmail.com

مسلسل آمریتوں، مارشل لاؤں، چودہریوں، نوابوں، سرداروں، زرداروں کی مسلط کردہ تاریکیوں کے ستائے ہوئے لوگ روشنی کی ذرا سی کرن کہیں دیکھ لیں، تو اسے جوالا مکھی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ رہبری کے نام پہ رہزنوں سے اس قدر لٹے ہیں کہ ہر دلاسہ دینے والے پہ مسیحا کا گمان گزرتا ہے۔ بالائی طبقات کی مسلسل حکمرانی سے اس قدر اوب چکے ہیں کہ ان سے ذرا کم ڈگری کا کوئی آدمی آ جائے تو اسے اپنے طبقے کا بندہ مان لیتے ہیں۔ حکمرانی کی مسند پہ اس قدر بے علم افراد دیکھ لیے کہ ذرا علم والا آدمی آیا اور ہم نے اسے سقراط کا ہم پلہ جان لیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سارا انقلاب جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے، تبدیلی کی سبھی خواہشیں سرکش لہروں کی طرح کناروں سے سر ٹکرا کر فنا ہو جاتی ہیں۔ عوام کی حکمرانی کے سبھی خواب، سراب ثابت ہوتے ہیں۔

بلوچستان کے پہلے غیرسردار اور مڈل کلاس وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا میڈیا کو دیا گیا پہلا تفصیلی انٹرویو ان کے مایوس کن آغاز کی چغلی کھا رہا ہے۔ ان سے امیدیں وابستہ کیے احباب، انھیں سن کے اب بغلیں جھانک رہے ہیں۔ چالیس منٹ کے انٹرویو میں، عوام کو بتانے کے لیے ان کے پاس کوئی ایک عمل ایسا نہ تھا، جس سے وہ اپنی کارکردگی کا آغاز ہی ثابت کر سکتے۔ اس سے تو کہیں اچھا ہوتا کہ وہ فی الوقت میڈیا میں آنے سے گریز کرتے۔ ان سے تو عوامی سیاست سے نابلد ہونے کا تعارف رکھنے والے میاں نوازشریف اچھے کہ جنہوں نے اب تک بطور وزیر اعظم عوام سے خطاب نہیں کیا بلکہ یہ دلیرانہ اعتراف بھی کیا کہ عوام سے خطاب تبھی کروں گا جب ان کو بتانے کے لیے کچھ ہو گا۔ اِدھر عوامی سیاست کے وسیع تجربے کے دعوے دار اور خود کو عملی سیاسی کارکن کہنے والے جناب ڈاکٹر مالک بلوچ یہ بتانے کے لیے انٹرویو دینے آئے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اور دو ماہ میں وہ کابینہ تشکیل نہیں دے پائے۔ عجب ثم العجب!

ذرا تضاد بیانی ملاحظہ ہو، فرمایا کہ اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کے پاس ہے، وہ با اختیار وزیر اعلیٰ ہیں، ساتھ ہی اگلے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پہ ان کا کوئی اختیار نہیں۔ تو آپ کا اختیار ہے کہا ں پہ؟ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی تمام تر توجہ صوبائی ملازمین سے ان کے فرائضِ منصبی سے متعلق پوچھ گچھ پر صرف ہو رہی ہے۔ یہ محض دکھاوے کی کارکردگی ہو گی۔ اس لیے کہ بنیاد درست کیے بنا، آپ درخت کی شاخوں کی کتنی ہی کانٹ چھانٹ کرتے رہیں، نہ تو یہ سیدھا ہو گا، نہ اس میں پھل آئے گا۔ عمارت کی بنیادی میں موجود کجی کو ختم کیے بنا، محض چند اینٹیں اِدھر اُدھر کر دینے سے عمارت کا ٹیڑھا پن درست نہیں ہو سکتا۔ جب تک آپ نظام کی بنیادی خرابیوں پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، تب تک ایسے تمام اقدامات غیر سنجیدہ سمجھے جائیں گے اور غیر سنجیدہ ہی لیے جائیں گے۔

بے سہارا، لاوارث و بے بس عام سرکاری ملازمین اور ملازمتوں کے لیے تو یہ اعلان کر دینا بڑا آسان ہے کہ کوئی میرا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو، میرے پاس سفارش کی امید لے کر نہ آئے، لیکن یہ قاعدہ ذرا کروڑوں روپے کے ٹھیکے اور ٹینڈر لینے والوں پہ بھی نافذ کے دکھائیں تو بات بنے، جہاں وزارتیں تقسیم ہوئے بنا ابھی سے مستقبل کے وزراء کی سفارشوں پہ کام چل رہا ہے۔ نیز یہ دعویٰ بھی کس قدر بے اصولی پہ مبنی ہے کہ صوبائی اسمبلی کا کوئی امیدوار اغوا برائے تاوان میں ملوث نہیں۔ بلوچستان میں کیونکہ کسی مجرم کا نام لے لینا، قبائلی دشمنی پال لینے کے مترادف ہے، اور قلم والوں کا قبیلہ سب سے کم زور ہے، اس لیے کوئی لکھنے والا ایسی جرأت تو نہیں کر سکتا لیکن یہ اعتراف تو ہمارے مڈل کلاس اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیر اعلیٰ بھی کریں گے کہ موجودہ اسمبلی میں موجود ننانوے فیصد اراکین وہی ہیں جو نہ صرف گزشتہ حکومت کا حصہ تھے بلکہ پچھلے بیس برسوں سے مسلسل حکومت میں رہے ہیں، حکومت خواہ قوم پرستوں کی ہو، وفاق پرستوں کی ہو، رجعت پسندوں کی ہو، یا ترقی پسندوں کی ہو۔


بولان کے راستے میں اب بھی اگر اغوا برائے تاوان جاری ہے تو اس میں کون ملوث ہو؟ اگر یہاں سے منتخب ہونے والے نمایندے اس میں ملوث نہیں تو وہ جائے وارادات پہ ثبوت کے ساتھ پکڑے جانے والے مجرموں کی 'باعزت' رہائی کے لیے اس قدر اُتاولے کیوں ہو رہے ہوتے ہیں؟ انھیں ان کی فوری رہائی کے لیے اس قدر اہم سفارش کیونکر لانی پڑتی ہے کہ تمام تر ثبوت اور گواہوں کی موجودگی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے خلاف کارروائی نہیں کر پاتے اور ان کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں؟ کمال یہ ہے کہ یہ ادارے بلوچ علاقوں میں آپریشن سے متعلق تو وزیراعلیٰ کے اختیارات کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن اغوا برائے تاوان میں ملوث پکڑے گئے مجرموں کی رہائی سے متعلق احکامات پہ انھیں سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیر اعلیٰ کی عوام دوستی کا یہ عالم ہے کہ اسپیکر اسمبلی کے احکامات پہ عمل درآمد کرانے کے جرم میں پولیس اہلکار ایک طرف نوابوں کے نجی باڈی گارڈز کے ہاتھوں رسوا ہوتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے 'عوامی' وزیر اعلیٰ انھیں اس گستاخی پر نوکری سے ہی معطل کر دیتے ہیں۔ عوام سے ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کی ایسی عوام دوستی نہ دیکھی گئی، نہ سنی گئی!

مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے متعلق وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا کہ ان میں اب کمی واقع ہو چکی ہے، ایک اور افسوس ناک مبالغہ ہے۔ وزیر اعلیٰ اگر نہیں جانتے تو ذرا دو ماہ کے اخبارات ہی منگوا کر دیکھ لیں، ان کے حلف لینے کے دن سے لے کر اس دعویداری تک، بلوچستان بھر میں ایک درجن سے زائد لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔ محض ڈیڑھ کے اس قلیل عرصے میں کوئٹہ میں دو، کراچی میں تین، خضدار میں چار، مکران میں دو، دیگر علاقوں میں مزید دو لاشیں پھینکی گئیں۔ گویا اوسطاََ ہر ہفتے دو لاشیں ملتی رہی ہیں، اب کیا وزیر اعلیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہر روز ایک لاش برآمد ہو تو تب انھیں اس پہ پریشانی ہو گی؟ لاپتہ افراد سے متعلق فرماتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کی جانب سے فراہم کردہ فہرست اور حکومتی فہرست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

تسلیم...چلیے آپ حکومتی فہرست میں موجود لاپتہ افراد ہی بازیاب کروا دیجیے تو آپ کی اختیارداری تسلیم! بازیاب ہونا تو ایک طرف ڈیڑھ ماہ میں چار مزید افراد لاپتہ ہو چکے...تو یہ رہی حکومتی رٹ، اور یہ ہوئی عوام کی حکومت! امن و امان کا یہ عالم کہ دہشت گرد جب چاہیں اپنی مرضی سے لوگوں کو نشانہ بنا کے نکل جائیں، ان کے خلاف کارروائی سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کا ایک ہی گھڑا گھڑایا جواب؛ 'اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جلد مجرموں تک پہنچ جائیں گے' خدا بخشے، رحمان ملک نے اسی بیان پہ پانچ سال نکال لیے۔ کیا پیش رفت ہوئی ہے، وہی بتا دیجیے، اور اگر یہ بتانے جیسے نہیں تو ٹی وی پہ آ کے بیٹھنے کی ضرورت ہی کیا ہے!

ایک آخری بات یہ کہ عام بلوچ اردو کی حد تک زبان کے معاملے میں مذکر مؤنث خود پہ معاف کروا چکا، لیکن کم از کم صوبے کے وزیر اعلیٰ غلط زبان بولتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ اردو میڈیا اگر بلوچ کو بلوچی بول دے تو آپ سیخ پا ہو جاتے ہیں، اور پھر اسی میڈیا پہ بیٹھ کے آپ غلط زبان بول رہے ہوں، اور بالخصوص جب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا پرچم بھی آپ کے ہاتھوں میں ہو تو آپ سے باز پرس تو ہو گی۔ جب غلط انگریزی بولنا معیوب ہو سکتا ہے، تو غلط اردو بولنا کیوں نہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی محض کمزور انگریزی پہ ان کا ٹھٹھا اڑایا گیا، ذرا تصور کریں اگر یہی وزیر اعلیٰ کسی غیر ملکی چینل پہ بری انگریزی بول رہے ہوں تو اسے کس قدر معیوب سمجھا جائے گا۔ زبانیں نہ چھوٹی بڑی ہوتی ہیں نہ فکر و شرمندگی کی علامت، یہ تو ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہیں، آپ جس زبان میں اظہارِ خیال کر رہے ہوں، وہ نستعلیق نہ سہی، لیکن اس قدر غلط بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاملے پہ عام آدمی کو تو چھوٹ دی جا سکتی ہے، لیکن پڑھے لکھے اور اہم عہدوں پہ متمکن حضرات اس ذمے داری سے مبرا نہیں ہو سکتے۔ آپ سے نہ حکومت اچھی ہو رہی ہے، نہ آپ صوبے کے حالات بہتر کر پائیں گے، کم از کم زبان ہی بہتر کر لیں، کہ اپنی ناکامیوں کا بہتر دفاع کرنے میں یہی زبان آپ کے کام آئے گی۔
Load Next Story