اختلافات کے باعث بلوچستان کابینہ کی تشکیل تاخیر کا شکار

بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کا اگلا مرحلہ ابھی تک آپس کے اختلافات کے باعث تاخیر کا شکار ہے.

بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کا اگلا مرحلہ ابھی تک آپس کے اختلافات کے باعث تاخیر کا شکار ہے. فوٹو : فائل

KARACHI:
بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کا اگلا مرحلہ ابھی تک آپس کے اختلافات کے باعث تاخیر کا شکار ہے، بلوچستان کی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ دوسرا مرحلہ صدارتی انتخاب کے بعد مکمل کیا جائے گا تاہم ابھی تک مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی کمیٹی بھی ابھی تک کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ پائی ہے۔ (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی نے گذشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران یہ شکوہ کیا کہ (ن) لیگ نے اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی کو دے دی، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کسی بھی اہم ایشو پر کوئی مشاورت نہیں کرتے بلکہ وہ ان ایشوز پر اپنی جماعت کے لوگوں سے مشاورت کرتے ہیں اور (ن) لیگ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا جس کی وجہ سے اکثریتی جماعت کے ارکان اسمبلی بے اختیار اور بے بس ہو کر رہ گئے ہیں ۔

اس موقع پروزیراعظم میاں نواز شریف نے (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی کو تسلی دی کہ صدارتی انتخاب کے بعد کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا اس کیلئے اُنہوں نے چوہدری نثار علی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو اس مسئلے کے حل کیلئے ہدایات جاری کیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی کو بہت سے معاملات میں وزیراعلیٰ سے تحفظات اور گلے شکوے ہیں اور ابھی ابتداء میں ہی ایسی شکایات پیدا ہوئی ہیں جس سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آتا۔

ان حلقوں کے مطابق مری معاہدے کے تحت کابینہ کی تشکیل کا (ن) لیگ کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے جس کے تحت14 رکنی بلوچستان کی کابینہ کیلئے2،4اور8 کا فارمولا بنایا گیا تھا جس میں نیشنل پارٹی کو وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد خسارہ ہے کیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکر عبدالمالک بلوچ جو کہ نیشنل پارٹی کے سربراہ بھی ہیں انہیں اندرونی طور پر پارٹی میں وزارتوں کے حوالے سے کافی پریشر کا سامنا ہے اگر اس فارمولے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو ایک ایک وزارت ملنے کے بعد تین جماعتی اتحاد کو دوسرے مرحلے میں نیشنل پارٹی کو مزیدایک ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو3 اور (ن) لیگ کو7 وزارتیں ملیں گی۔


جبکہ5 مشیر میں سے ایک ایک مشیر نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور3 مشیر (ن) لیگ کے حصے میں آئیں گے۔ ایسی صورت میں نیشنل پارٹی کے تقریباً5 ارکان اسمبلی اُمیدوار ہیں جبکہ (ن) لیگ کو اپنی حمایتی جماعت (ق) لیگ کو بھی 7 وزارتوں اور3 مشیروں میں نمائندگی دینا ہوگی کیونکہ (ن) لیگ میں حکومت سازی کے وقت آزاد ارکان اسمبلی نے بھی شمولیت اختیار کی تھی اور وزارت کیلئے تقریباً تمام لیگی ارکان اسمبلی بشمول(ق) لیگ کے ارکان اسمبلی نہ صرف لابنگ کررہے ہیں بلکہ بھاگ دوڑ بھی کررہے ہیں ۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی پارلیمانی پارٹی کی قیادت22 اگست کی منتظر ہے کیونکہ 22 اگست کو ضمنی الیکشن کے بعد اُنہیں اُمید ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں انہیں کامیابی حاصل ہوگی اور بلوچستان اسمبلی میں ان کی عددی اکثریت ہوجائے گی جس سے وہ آئندہ جمعیت علماء اسلام کے ساتھ مل کر باآسانی حکومت بناسکتے ہیں، ان سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین اسمبلی نے نجی محفلوں میں اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اندر صوبائی قیادت کو اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ اگر ان کی اتحادی جماعتیں خصوصاً نیشنل پارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنا قبلہ درست نہیں کرتے ہیں اور مختلف ایشوز میں پوسٹنگ ٹرانسفرز اور ترقیاتی کاموں میں (ن) لیگ کے اراکین کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کو اسمبلی میں حکومتی بنچیں چھوڑ کر آزاد بنچوں پر بیٹھ جانا چاہیے ۔

تاکہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور ان کی نظر میں حکومت کے جو غلط کام ہیں ان کا حصہ نہ بنیں۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ میں آزاد بنچوں پر بیٹھنے کی تجویز کوتقویت ملتی چلی جارہی ہے ان حلقوں کے مطابق 22 اگست کے بعد بلوچستان کی سیاست ایک نیا موڑ لے سکتی ہے جس سے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسمبلی فلور پر یہ بیان دیا ہے کہ عید الفطر کے فوراً بعد ناراض بلوچ بھائیوں اور مذہب کے نام پر لڑنے والوں سے اراکین اسمبلی اور قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی وفد تشکیل دے کر مذاکرات کئے جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔

نواب اکبر خان بگٹی شہید کے پوتے اور نوابزادہ طلال اکبر بگٹی کے چھوٹے صاحبزادے نوابزادہ گہرام بگٹی اسلام آباد میں بگٹی مہاجرین کے ہمراہ80 روز تک احتجاج کرنے اور8 سال بعد سینکڑوں ساتھیوں سمیت اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی پہنچ گئے ہیں۔ نوابزادہ گہرام بگٹی نے ڈیرہ بگٹی پہنچنے کے بعد اپنے دادا نواب اکبر خان بگٹی کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ نوابزادہ گہرام بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیرہ بگٹی کو آباد کریں گے ، وہ اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بگٹی قوم کے مسائل کے حل کیلئے کوششیں کریں گے، سیاسی حلقے نوابزادہ گہرام بگٹی کی ڈیرہ بگٹی آمد کو نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔
Load Next Story