بلاول بھٹو اور مریم نواز کا نیا میثاقِ جمہوریت

اپنی آنکھوں سے جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو میثاقِ جمہوریت پردستخط ثبت کرتے دیکھا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

بلاول بھٹو کی دھواں دار پریس کانفرنس اور جیل میں اُن کی نواز شریف سے ملاقات کی ہر طرف دھوم ہے ۔اُن کی استعمال کردہ ''پولیٹیکل انجینئرنگ'' کی اصطلاح شائد اپنے ہدف پر بھی بیٹھ سکے ۔کوٹ لکھپت زندان کے اسیر اور علیل میاں محمد نواز شریف کی تیمار داری اور مزاج پرسی کرکے بلاول بھٹو زرداری نے اچھی روائت کو مزید آگے بڑھایا ہے ۔کم ہی ہوں گے جنہوں نے اس عمل اور اقدام کی تحسین نہ کی ہو۔ نواز شریف کی بیماری کا ٹھٹھہ اُڑانے اور اُن پر استہزائی جملے کسنے والے یقینا موجود ہیں ۔

پیپلز پارٹی میں ممکن ہے ایسے لوگ بھی موجود ہوں جنہیں اِس موقعے پر وہ ساری زیادتیاں یاد آئی ہونگی جو نواز شریف کے ادوارِ اقتدارمیں پیپلز پارٹی ، اس کے کارکنان اور اس کی قیادت سے روا رکھی گئیں۔بلاول بھٹو کو بھی یقینی طور پر یاد ہوں گی۔ کوٹ لکھپت جیل کے باہر کھڑے اخبارنویسوں نے پرانی تلخ باتیں یاد دلا کر بلاول صاحب کو پٹڑی سے اتارنے اور بھڑکانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ کسی کے غچے میں نہیں آئے۔ انھوں نے کمال مہارت سے رفت گزشت باتوں کو (فی الحال) نظر انداز کر دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے اکلوتے فرزندکی جو سیاسی اور اخلاقی تربیت کی تھی،اُس کے مستحسن نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے معتمدِ خاص اورہمارے بزرگ دوست بشیر ریاض صاحب بتایا کرتے ہیں کہ بی بی صاحبہ نے بڑی احتیاط اور عرق ریزی سے بلاول صاحب کی تربیت کی۔

بشیر ریاض صاحب، جو پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان پر کئی وقیع اور معتبر کتابوں کے مصنف بھی ہیں،راوی ہیں :'' جمعہ کو بی بی صاحبہ خاص طور پر بلاول کو تیار کرتیں ، دعائیں یاد کرواتیں اور پھر نمازِ جمعہ کے لیے انھیں رخصت کرتیں ۔ جب تک بلاول زیر تعلیم رہے، بی بی مرحومہ کی طرف سے یہی تاکید رہتی تھی کہ پہلے تعلیم مکمل کرو ، باقی باتیں بعد میں۔''یہ اُن کی سخت نگرانی اور خاص تربیت ہی کا اثر ہے کہ نوجوان بلاول بھٹو زرداری ہنوز کسی سیکنڈل کاہدف نہیں بنے ہیں ۔انھوں نے نواز شریف صاحب سے تازہ ملاقات یقینا اپنے والد صاحب کی اجازت اور مشورے سے کی ہوگی ۔ گویا تیمار داری کے اس عمل میں جناب آصف زرداری بھی برابر کے شریک ہیں۔ نواز شریف کو اپنا علاج اپنی مرضی سے کروانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ اُن سے پسِ دیوارِ زنداں ملتے ہُوئے بلاول بھٹو کو آمریت کے وہ جبریہ ایام بھی یقیناً یاد آئے ہوں گے جب ایک مطلق حاکم اُن کی بیمار اور اسیر والدہ کو اپنی مرضی کا علاج کروانے کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔ پھر یہ اجازت ملی تو تھی لیکن بڑے جوکھم کے بعد۔ بشیر ریاض صاحب اس اجازت کا آنکھوں دیکھا احوال سناتے ہیں تو دل افسوس سے بھر جاتا ہے ۔

وطنِ عزیز میں پچھلے چار عشروں کی سیاسی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے یاد کرتے ہیں کہ نواز شریف نے بینظیر بھٹو (اور آصف زرداری ) پر اور بینظیر بھٹو نے نواز شریف سے زیادتیاں کیں ، لیکن بینظیر بھٹو پر نواز شریف کی زیادتیوں کا پلڑا بھاری ہے ۔بینظیر اس لیے بھی زیادہ مظلوم اور معتوب سمجھی جاتی ہیں کہ اُن کے خلاف ضیاء الحق اور نواز شریف کا اتحاد بھی رہا۔ بھٹو کی بیٹی نے مگردونوںکو معاف کر دیا تھا۔ اقتدار میں آ کر بھی انھوں نے کبھی انتقام لینے کی بات نہیں کی ۔ سب کچھ اللہ پر چھوڑکر انھوں نے ملک اور عوام کی بہتری کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اِس لحاظ سے بھی وہ ایک بے نظیر شخصیت تھیں۔بی بی صاحبہ مرحومہ وسیع القلبی اور وسیع الظرفی کا مظاہرہ نہ کرتیں تو بارہ تیرہ سال قبل لندن میں کبھی میثاقِ جمہوریت کا ڈول نہ ڈالا جا سکتا۔ اُس روز راقم نیویارک سے لندن پہنچا تھا ۔


اپنی آنکھوں سے جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو میثاقِ جمہوریت پردستخط ثبت کرتے دیکھا۔ کتنے بڑے بڑے خواب دیکھے گئے تھے ۔ لیکن افسوس کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ''پیٹ پھاڑنے'' اور '' گلے میں رسّے ڈال کر گھسیٹنے'' کی باتیں کہی جانے لگیں ۔ ایک فریق کی طرف سے میثاقِ جمہوریت کی تدفین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی ۔

کیا اِسے وقت کا جبر کہا جائے یا واقعی معنوں میں انسانیت نوازی کا مخلصانہ اور بے ریانہ اظہارکہ بلاول بھٹو زرداری خود چل کر بیمار اورمحبوس نواز شریف صاحب کی عیادت کرنے جیل پہنچے؟ دل کے احوال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظواہر مگر یہ بتاتے ہیں کہ بلاول نے یہ قدم اٹھا کر بہترین اخلاق کا ثبوت دیا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے باہمی تناؤ میں کمی آئی اور فاصلے سمٹے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے مقتدرین کو ممکن ہے کوئی دھچکا لگا ہو ۔ ایک وفاقی وزیر نے اِسے ''بھٹو کے نواسے اور ضیاء کے منہ بولے بیٹے کی ''ری یونین'' کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بلاول کے بیمار کی طرف جانے والے یہ قدم شاباش دیے جانے کے مستحق ہیں ۔لگتا ہے آصف زرداری نے بھی اپنے فرزندِ ارجمند کے لیے راستے فراخ کر دیے ہیں ۔

بی بی مرحومہ اور سابق صدرِ مملکت جناب آصف زرداری نے اخبار نویسوں سے جو قریبی تعلقات استوار کیے، محسوس یہ ہوتا ہے یہ فن ورثے میں بلاول بھٹو کو بھی منتقل ہو چکا ہے ۔ بلاول صاحب نے ہمارے ایک بزرگ اور بیمار صحافی دوست کی جس طرح بروقت دستگیری کی ہے، اس کی بھی تعریف کی جانی چاہیے۔ یہ کام ویسے تو پنجاب کے (سابق) وزیر اطلاعات کو کرنا چاہیے تھا لیکن وہ اس فرض کی بجا آوری میں غافل رہے ۔ نئے وزیر اطلاعات جناب صمصام بخاری کہ وہ ایک شائستہ مزاج اور تجربہ کار سیاستدان ہیں ، کو اب اس طرف توجہ فرمانی چاہیے ۔قابلِ ستائش بات یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مذہب کے نام پر چند سیاست کا روں کے ہاتھ کا کھلونا بننے سے صاف انکار کر دیا ہے ۔

پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر کی زبان سے نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران ایک قابلِ اعتراض جملہ سر زد ہو گیا تھا۔پی ٹی آئی کے کچھ مخالف دھڑوں اور قومی اسمبلی میں موجودبعض شخصیات نے مبینہ طور پر اس بنیاد پر بلاول بھٹو کی حمائت حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ وزیر موصوف اور عمران خان کو زچ کیا جا سکے لیکن بلاول بھٹو نے معاونت سے صاف انکار کر دیا۔ بلاول صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس کارڈ پر سیاست چمکانے والوں نے اُن کی والدہ مرحومہ کو کس قدر نقصان پہنچایا تھا۔ اچھی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بلاول بھٹو کے تازہ اقدام کی محترمہ مریم نواز شریف نے بھی تحسین کی ہے ۔ انھوں نے بلاول بھٹو کا شکریہ ادا کرتے ہُوئے یوں ٹویٹ کیا:Thank you very much Bhutto Zardari for your thoughtfulness and kind gesture . Means a lot to me. Prayers and every good wish . God bless.بلاول بھٹو زرداری نے بھی محترمہ مریم نواز شریف کو جوابی ٹویٹ یوں کی :Prayers for your father,s health . Hope we can maintain traditions of decency and humanity. We are all people first and politicians second. ان ٹوئٹر پیغامات کو ہماری نوجوان سیاست کا نیا ''میثاقِ جمہوریت'' قرار دیا جاسکتا ہے ۔

ہمیں بہرحال بلاول بھٹو زرداری کے اس مفاہمانہ طرزِ عمل کی تعریف کرنی چاہیے ۔اس عمل اور پریس کانفرنس سے کسی کو کوئی ریلیف ملتا ہے یا نہیں، یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔بینظیر بھٹو کے بے نظیر صاحبزادے کا مگر یہ کہنا بجا اور صحیح ہے کہ انسانیت نوازی کی روایات قائم رہنی چاہئیں ، اور یہ کہ ہم انسان پہلے ہیں، سیاستدان بعد میں۔ انھوں نے یہی پیغام ایک وفاقی وزیر کو بھی دیا ہے۔ اللہ کرے اس جذبے کومہمیز ملتی رہے۔
Load Next Story