سندھ کی منقسم اپوزیشن
پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا ہے اور ایم کیو ایم کو شہری سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا تھا۔
پیپلزپارٹی کو بلاشبہ دو تہائی اکثریت سندھ اسمبلی میں حاصل ہے، جب کہ چار پارٹیاں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے، دوسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ ،جب کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو تیسری پوزیشن حاصل ہے ۔
جی ڈی اے میں ایک اہم پارٹی مسلم لیگ فنکشنل ہے جس کی سربراہی پیرپگاڑا کے پاس ہے اور مسلم لیگ (ف) جوکبھی ملک گیر پارٹی ہوتی تھی اب سندھ کے محدود اضلاع تک ہی محدود ہے۔ سابق سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ف) کے متعدد ارکان تھے جو اپنی پارٹی سے مایوس ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے جو گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کو 2008 اور 2013 کے انتخابات میں اتنی کامیابی نہیں ملی تھی جتنی 2018 کے انتخابات میں ملی۔
پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا ہے اور ایم کیو ایم کو شہری سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا تھا، جو اب گروپوں میں بٹ کر ختم ہوچکی ہے۔ ایم کیو ایم کی جگہ شہری علاقوں کی نمایندگی اب پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ کراچی میں ضلع وسطی کو ایم کیو ایم کا گڑھ کہا جاتا تھا، جس میں نائن زیرو کا حلقہ ایف بی ایریا کے بعض بلاک بھی شامل تھے۔ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ایم کیو ایم صرف ضلع وسطی تک محدود کردی گئی ہے مگرگزشتہ چھ عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے وہ دعویٰ غلط ثابت کیا تھا۔
ایم کیو ایم پر یہ الزام بھی پیپلز پارٹی لگاتی رہی کہ اس نے دھاندلی سے پیپلز پارٹی کی بعض نشستیں جیت لی تھیں ، جو اب پیپلز پارٹی واپس لے چکی ہے جب کہ ایم کیو ایم اپنے آبائی حلقوں کی نشستوں سے محروم ہوچکی ہے اور شہری سندھ کی نمایندگی تقسیم ہوکر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے پاس آچکی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے ثابت کیا ہے کہ دیہی سندھ کی بنیاد پر اب بھی سب سے بڑی پارٹی ہے جب کہ دوسرا نمبر جی ڈی اے کا ہے جو مسلسل محدود ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی میں کبھی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان بڑی جماعتیں ہوتی تھیں جو انتخابات میں شہری حلقوں سے کامیاب ہوا کرتی تھیں مگر ایم کیو ایم کے بعد دونوں جماعتوں کو شدید سیاسی نقصان پہنچا اور ان کی تمام نشستیں ایم کیو ایم کے پاس چلی گئیں۔ جے یو پی اپنے متعدد گروپوں کے باعث کمزور ہوتی رہی مگر جماعت اسلامی ایک رہنے کے باوجود بھی کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہوتی آرہی ہے۔ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی مسلم لیگ (ق) کے تعاون سے اپنا سٹی ناظم لے آئی تھی اور نائب سٹی ناظم کا عہدہ مسلم لیگ (ق) کو ملا تھا مگر اگلے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اپنا سٹی ناظم اور نائب ناظم لے آئی تھی جب کہ کراچی کے 14 ٹاؤن بھی ایم کیو ایم کے پاس تھے جو پہلے جماعت اسلامی کو ملے تھے۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے چار اضلاع اور بلدیہ عظمیٰ کی سربراہی ایم کیو ایم کو اور دو اضلاع اور ضلع کونسل کراچی کی سربراہی پیپلز پارٹی کو ملی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کے کامیاب شہری حکومت کے نظام کو ختم کرکے مرضی کا بلدیاتی نظام قائم کیا تھا اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سٹی کونسل میں اپوزیشن کی سربراہی بھی پیپلز پارٹی کو ملی تھی جہاں پی ٹی آئی متحدہ کی مخالفت کرتی آ رہی ہے مگر سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اپوزیشن میں تو دوسرے نمبر پر ہے مگر وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کو اپنی واضح اکثریت کے باعث کسی اور پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہی نہیں ہے مگر وہ سٹی کونسل میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایم کیو ایم کے میئر کراچی کی اپوزیشن بھی ہے۔
سٹی حکومت میں بعض یوسی ناظم ضرور موجود ہیں جو ایم کیو ایم کے مخالف ہیں جب کہ سندھ اسمبلی کی جماعت اسلامی کا صرف ایک رکن ہے مگر وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر واحد رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب کہ سٹی کونسل میں نمایندگی نہ رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان کے چار ارکان ہیں جو اپوزیشن میں ہیں مگر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ اپوزیشن میں شامل نہیں ہیں اور اپنی سیاسی حیثیت میں اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں پہلی بار یہ بھی دیکھا گیا کہ اپوزیشن تقسیم ہوگئی ۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ایک طرف اور تحریک لبیک اور جماعت اسلامی الگ تھیں اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی ارکان کی طرف سے مجلس عمل کے واحد رکن صوبائی اسمبلی عبدالرشید پر تشدد کیا گیا جنھیں بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ایک نہیں ہے اور سابقہ اپوزیشن ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل رہنے کے لیے پی ٹی آئی کی سپورٹ پر مجبور ہے جب کہ پی ٹی آئی کراچی خود ایم کیو ایم کے سخت خلاف ہے، جس کے رہنما کھلم کھلا ایم کیو ایم پرکڑی تنقید کیا کرتے تھے جس پر متحدہ نے وفاق سے احتجاج کیا تو اس میں کمی آئی اور دونوں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف ہیں۔
پیپلز پارٹی کو سندھ میں ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم اقتدارکے لیے وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی حلیف رہنے پر مجبور ہے، حالانکہ تحریک انصاف کی وجہ سے ایم کیو ایم کراچی کی نمایندگی سے محروم ہوئی ہے مگر اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہے کیونکہ وہ گروپنگ کا شکار ہے اور اب وہ پہلی والی متحدہ قومی موومنٹ نہیں رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت ایم کیو ایم سے مخلص نہیں ہے اس لیے ایم کیو ایم کے میئر سے تعاون کر رہی ہے اور نہ اسے اب تک کراچی کے لیے کوئی خصوصی پیکیج دیا ہے تاکہ سیاسی فائدہ ایم کیو ایم کو نہ مل سکے۔
جی ڈی اے میں ایک اہم پارٹی مسلم لیگ فنکشنل ہے جس کی سربراہی پیرپگاڑا کے پاس ہے اور مسلم لیگ (ف) جوکبھی ملک گیر پارٹی ہوتی تھی اب سندھ کے محدود اضلاع تک ہی محدود ہے۔ سابق سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ف) کے متعدد ارکان تھے جو اپنی پارٹی سے مایوس ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے جو گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی کو 2008 اور 2013 کے انتخابات میں اتنی کامیابی نہیں ملی تھی جتنی 2018 کے انتخابات میں ملی۔
پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا ہے اور ایم کیو ایم کو شہری سندھ کی بڑی پارٹی کہا جاتا تھا، جو اب گروپوں میں بٹ کر ختم ہوچکی ہے۔ ایم کیو ایم کی جگہ شہری علاقوں کی نمایندگی اب پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ کراچی میں ضلع وسطی کو ایم کیو ایم کا گڑھ کہا جاتا تھا، جس میں نائن زیرو کا حلقہ ایف بی ایریا کے بعض بلاک بھی شامل تھے۔ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ایم کیو ایم صرف ضلع وسطی تک محدود کردی گئی ہے مگرگزشتہ چھ عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے وہ دعویٰ غلط ثابت کیا تھا۔
ایم کیو ایم پر یہ الزام بھی پیپلز پارٹی لگاتی رہی کہ اس نے دھاندلی سے پیپلز پارٹی کی بعض نشستیں جیت لی تھیں ، جو اب پیپلز پارٹی واپس لے چکی ہے جب کہ ایم کیو ایم اپنے آبائی حلقوں کی نشستوں سے محروم ہوچکی ہے اور شہری سندھ کی نمایندگی تقسیم ہوکر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے پاس آچکی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے ثابت کیا ہے کہ دیہی سندھ کی بنیاد پر اب بھی سب سے بڑی پارٹی ہے جب کہ دوسرا نمبر جی ڈی اے کا ہے جو مسلسل محدود ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی میں کبھی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان بڑی جماعتیں ہوتی تھیں جو انتخابات میں شہری حلقوں سے کامیاب ہوا کرتی تھیں مگر ایم کیو ایم کے بعد دونوں جماعتوں کو شدید سیاسی نقصان پہنچا اور ان کی تمام نشستیں ایم کیو ایم کے پاس چلی گئیں۔ جے یو پی اپنے متعدد گروپوں کے باعث کمزور ہوتی رہی مگر جماعت اسلامی ایک رہنے کے باوجود بھی کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہوتی آرہی ہے۔ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی مسلم لیگ (ق) کے تعاون سے اپنا سٹی ناظم لے آئی تھی اور نائب سٹی ناظم کا عہدہ مسلم لیگ (ق) کو ملا تھا مگر اگلے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اپنا سٹی ناظم اور نائب ناظم لے آئی تھی جب کہ کراچی کے 14 ٹاؤن بھی ایم کیو ایم کے پاس تھے جو پہلے جماعت اسلامی کو ملے تھے۔
2015 کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے چار اضلاع اور بلدیہ عظمیٰ کی سربراہی ایم کیو ایم کو اور دو اضلاع اور ضلع کونسل کراچی کی سربراہی پیپلز پارٹی کو ملی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کے کامیاب شہری حکومت کے نظام کو ختم کرکے مرضی کا بلدیاتی نظام قائم کیا تھا اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سٹی کونسل میں اپوزیشن کی سربراہی بھی پیپلز پارٹی کو ملی تھی جہاں پی ٹی آئی متحدہ کی مخالفت کرتی آ رہی ہے مگر سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اپوزیشن میں تو دوسرے نمبر پر ہے مگر وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کو اپنی واضح اکثریت کے باعث کسی اور پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہی نہیں ہے مگر وہ سٹی کونسل میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایم کیو ایم کے میئر کراچی کی اپوزیشن بھی ہے۔
سٹی حکومت میں بعض یوسی ناظم ضرور موجود ہیں جو ایم کیو ایم کے مخالف ہیں جب کہ سندھ اسمبلی کی جماعت اسلامی کا صرف ایک رکن ہے مگر وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر واحد رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے جب کہ سٹی کونسل میں نمایندگی نہ رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان کے چار ارکان ہیں جو اپوزیشن میں ہیں مگر پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ اپوزیشن میں شامل نہیں ہیں اور اپنی سیاسی حیثیت میں اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں پہلی بار یہ بھی دیکھا گیا کہ اپوزیشن تقسیم ہوگئی ۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ایک طرف اور تحریک لبیک اور جماعت اسلامی الگ تھیں اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی ارکان کی طرف سے مجلس عمل کے واحد رکن صوبائی اسمبلی عبدالرشید پر تشدد کیا گیا جنھیں بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ایک نہیں ہے اور سابقہ اپوزیشن ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل رہنے کے لیے پی ٹی آئی کی سپورٹ پر مجبور ہے جب کہ پی ٹی آئی کراچی خود ایم کیو ایم کے سخت خلاف ہے، جس کے رہنما کھلم کھلا ایم کیو ایم پرکڑی تنقید کیا کرتے تھے جس پر متحدہ نے وفاق سے احتجاج کیا تو اس میں کمی آئی اور دونوں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف ہیں۔
پیپلز پارٹی کو سندھ میں ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم اقتدارکے لیے وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی حلیف رہنے پر مجبور ہے، حالانکہ تحریک انصاف کی وجہ سے ایم کیو ایم کراچی کی نمایندگی سے محروم ہوئی ہے مگر اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہے کیونکہ وہ گروپنگ کا شکار ہے اور اب وہ پہلی والی متحدہ قومی موومنٹ نہیں رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت ایم کیو ایم سے مخلص نہیں ہے اس لیے ایم کیو ایم کے میئر سے تعاون کر رہی ہے اور نہ اسے اب تک کراچی کے لیے کوئی خصوصی پیکیج دیا ہے تاکہ سیاسی فائدہ ایم کیو ایم کو نہ مل سکے۔