کے پی ٹی میسرز سی ڈبلیو ای سے زرتلافی وصول نہیں کررہی ٹرانسپیرنسی
ماہرین نے کمپنی کے بلز سے 10 فیصد کٹوتی کی سفارش کی ہے، وزیر پورٹس اینڈ شپنگ نوٹس لیں
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کو ایک خط میں کہا ہے کہ ٹی آئی پی کو شکایات موصول ہوئی ہیں کہ کے پی ٹی کھودائی کا ٹھیکہ لینے والی میسرز چائنہ انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ سے ماہرین کی طرف سے نافذ کیا گیا زرتلافی وصول نہیں کر رہی۔
کے پی ٹی ماہرین (کنسلٹنٹس) کی طرف سے کام میں کئی سال کی تاخیر پر جنوری 2013 میں سی ڈبلیو ای پر زرتلافی نافذ کیا جس کے مطابق کے پی ٹی کو کمپنی کے ماہانہ بلز سے10 فیصد کٹوتی کی سفارش کی گئی جو کہ ایک ارب90 کروڑ بنتی ہے مگر کے پی ٹی انتظامیہ نے ماہرین کی سفارشات پر عمل کیا اور نہ ہی ٹھیکہ کی شرائط پوری کیں اور ٹھیکیدار کوکے پی ٹی کے ایک ارب90 کروڑ روپے خرچ کرنے کی اجازت دی اور12 فیصد بنک ریٹ پر ماہانہ سود کی مد میں نقصان 18 ارب روپے بنتا ہے۔ اس طرح کے کیسز میں ٹھیکیدار کا سازوسامان ضبط کرلیا جاتا ہے مگر ٹھیکے کی شرائط اور ماہرین کی سفارشات کیخلاف کے پی ٹی انتظامیہ نے کمپنی کو کھدائی کی دو مشین لے جانے کی اجازت دی۔ میسرز سی ڈبلیو ای کی طرف سے تاخیر کے باعث ڈیپ واٹر پورٹ کے مرکزی ٹھیکیدار نے10 ارب روپے کا دعویٰ کیا ہے۔30 ارب روپے کا ٹھیکہ رکھنے والے دوسرے ٹھیکیدار میسرز سی ایچ ای سی نے بھی میسرز سی ڈبلیو ای کی تاخیر پر کے پی ٹی کیخلاف دعویٰ کیا ہے۔
میسرز چائنہ انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو کے پی ٹی نے26 نومبر 2008 کو کھدائی بحالی کا ٹھیکہ دیا تھا۔ 33 ملین کیوبک میٹرکی کھدائی30 ماہ میں مکمل ہونا تھی۔317 ملین ڈالر کے ٹھیکے کی40 فیصد ادائیگی ڈالر کے فکسڈ ریٹ پر کی جانی تھی۔ مگر فروری2011 تک ٹھیکیدار نے صرف30 فیصد کام مکمل کیا مگر کے پی ٹی کے نے10 فیصد زرتلافی نافذ نہیں کیا جوکہ ایک ارب90 کروڑ بنتا ہے۔ کے پی ٹی کو 30 ارب کے ایم پی ڈبلیو کنٹریکٹ اور کیو ڈبلیو کنٹرکٹ میں بھی تاخیر کا سامنا ہے۔
جس کی بنیاد پر دوسرے ٹھیکیداروں نے بھی دعوے کرنا شروع کردیئے ہیں جوکہ20 فیصد کے حساب سے6 ارب روپے بنتے ہیں۔ سکیرٹری وزارت پورٹ اینڈ شپنگ نے بھی اس کیس میں ایک انکوائری شروع کی تھی اور نقصان کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی۔ کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس میں شامل تھا کہ معلوم کیا جائیگا کہ کم مارکنگ کے باوجود میسرزسی ڈبلیو ای کو ٹھیکہ کیوں دیا گیا اور کس نے اس ٹھیکے کی منظور دی۔
اس کے علاوہ جانچ پڑتال کے وقت تکنیکی اور تجربانی کمی کے حوالے سے معاملات کو کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ ٹھیکیدار کے کام جاری نہ رکھنے کے باوجود کے پی ٹی کی طرف سے کارروائی کیوں نہ کی گئی۔ کام میں پیچھے رہ جانے کے باوجود میسرز سی ڈبلیو ای کو نوٹسز کیوں نہ جاری کئے گئے۔ انکوائری30 روز میں 8 مئی تک مکمل ہونا تھی مگر تحقیقات دبانے اور میسرز سی ڈبلیو ای کو فائدہ پہنچانے کیلیے تحقیقات کو جان بوجھ کر ساڑھے3 ماہ تاخیر کا شکارکیاگیا۔ میسرز سی ڈبلیو ای کی تاخیر کی وجہ سے کے پی ٹی کو ڈالر کے ریٹ میں اضافے کے باعث بھی نقصان کا سامنا ہے۔ میسرز سی ڈبلیو ای کے پاس مطلبوبہ مہارت اور مشینری کی کمی تھی اس لئے ماہرین نے اسے پری کوالیفائی نہیں کیا۔ جس کے بعد کے پی ٹی کی تحریری درخواست پر کمپنی کا پری کوالیفائی کیا گیا۔ ماہرین نے کے پی ٹی کو بتایا تھا کہ میسرز سی ڈبلیو ای کا ریٹ انجینئرزکے تخمینوں سے کہیں کم تھا اور کمپنی کا کوئی خاطر خواہ تجربہ بھی نہیں تھا اور کے پی ٹی نے ماہرین کی سفارشات کے برعکس کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا اور کمپنی بروقت ٹھیکہ مکمل کرنے میں ناکام رہی۔
جس کے بعد کمپنی نے اضافی لاگت کی وصولی کیلیے کوشش کی مگر کے پی ٹی اور ماہرین نے دعوے مسترد کردیے۔ ماہرین اور کے پی ٹی نے ٹھیکیدار کو جرمانے کیلئے نوٹسز بھی بھیجے۔ میسرز سی ڈبلیو ای ٹھیکہ مکمل کرنے کی بجائے غیرقانونی طور پر سخت زمین کی کھودائی کا اضافہ معاوضہ وصول کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ماہرین پر 3 ارب 10کروڑ اضافی دینے کے حوالے سے دباؤ ہے۔ ٹھیکیدار اس سے قبل ہی ساڑھے8 ارب روپے اضافی کا مطالبہ کرچکا ہے۔ کے پی ٹی پہلے ہی کمپنی کا کام کم کرچکی ہے۔ وزیر پورٹس اینڈ شپنگ سے گزارش ہے کہ شکایات کا نوٹس لے اور اگر شکایت درست ثابت ہوں تو ذمے داروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ خط کی کاپیاں سیکریٹری ٹو وزیراعظم، ڈی جی نیب، رجسٹرار سپریم کورٹ اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
کے پی ٹی ماہرین (کنسلٹنٹس) کی طرف سے کام میں کئی سال کی تاخیر پر جنوری 2013 میں سی ڈبلیو ای پر زرتلافی نافذ کیا جس کے مطابق کے پی ٹی کو کمپنی کے ماہانہ بلز سے10 فیصد کٹوتی کی سفارش کی گئی جو کہ ایک ارب90 کروڑ بنتی ہے مگر کے پی ٹی انتظامیہ نے ماہرین کی سفارشات پر عمل کیا اور نہ ہی ٹھیکہ کی شرائط پوری کیں اور ٹھیکیدار کوکے پی ٹی کے ایک ارب90 کروڑ روپے خرچ کرنے کی اجازت دی اور12 فیصد بنک ریٹ پر ماہانہ سود کی مد میں نقصان 18 ارب روپے بنتا ہے۔ اس طرح کے کیسز میں ٹھیکیدار کا سازوسامان ضبط کرلیا جاتا ہے مگر ٹھیکے کی شرائط اور ماہرین کی سفارشات کیخلاف کے پی ٹی انتظامیہ نے کمپنی کو کھدائی کی دو مشین لے جانے کی اجازت دی۔ میسرز سی ڈبلیو ای کی طرف سے تاخیر کے باعث ڈیپ واٹر پورٹ کے مرکزی ٹھیکیدار نے10 ارب روپے کا دعویٰ کیا ہے۔30 ارب روپے کا ٹھیکہ رکھنے والے دوسرے ٹھیکیدار میسرز سی ایچ ای سی نے بھی میسرز سی ڈبلیو ای کی تاخیر پر کے پی ٹی کیخلاف دعویٰ کیا ہے۔
میسرز چائنہ انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو کے پی ٹی نے26 نومبر 2008 کو کھدائی بحالی کا ٹھیکہ دیا تھا۔ 33 ملین کیوبک میٹرکی کھدائی30 ماہ میں مکمل ہونا تھی۔317 ملین ڈالر کے ٹھیکے کی40 فیصد ادائیگی ڈالر کے فکسڈ ریٹ پر کی جانی تھی۔ مگر فروری2011 تک ٹھیکیدار نے صرف30 فیصد کام مکمل کیا مگر کے پی ٹی کے نے10 فیصد زرتلافی نافذ نہیں کیا جوکہ ایک ارب90 کروڑ بنتا ہے۔ کے پی ٹی کو 30 ارب کے ایم پی ڈبلیو کنٹریکٹ اور کیو ڈبلیو کنٹرکٹ میں بھی تاخیر کا سامنا ہے۔
جس کی بنیاد پر دوسرے ٹھیکیداروں نے بھی دعوے کرنا شروع کردیئے ہیں جوکہ20 فیصد کے حساب سے6 ارب روپے بنتے ہیں۔ سکیرٹری وزارت پورٹ اینڈ شپنگ نے بھی اس کیس میں ایک انکوائری شروع کی تھی اور نقصان کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی۔ کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس میں شامل تھا کہ معلوم کیا جائیگا کہ کم مارکنگ کے باوجود میسرزسی ڈبلیو ای کو ٹھیکہ کیوں دیا گیا اور کس نے اس ٹھیکے کی منظور دی۔
اس کے علاوہ جانچ پڑتال کے وقت تکنیکی اور تجربانی کمی کے حوالے سے معاملات کو کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ ٹھیکیدار کے کام جاری نہ رکھنے کے باوجود کے پی ٹی کی طرف سے کارروائی کیوں نہ کی گئی۔ کام میں پیچھے رہ جانے کے باوجود میسرز سی ڈبلیو ای کو نوٹسز کیوں نہ جاری کئے گئے۔ انکوائری30 روز میں 8 مئی تک مکمل ہونا تھی مگر تحقیقات دبانے اور میسرز سی ڈبلیو ای کو فائدہ پہنچانے کیلیے تحقیقات کو جان بوجھ کر ساڑھے3 ماہ تاخیر کا شکارکیاگیا۔ میسرز سی ڈبلیو ای کی تاخیر کی وجہ سے کے پی ٹی کو ڈالر کے ریٹ میں اضافے کے باعث بھی نقصان کا سامنا ہے۔ میسرز سی ڈبلیو ای کے پاس مطلبوبہ مہارت اور مشینری کی کمی تھی اس لئے ماہرین نے اسے پری کوالیفائی نہیں کیا۔ جس کے بعد کے پی ٹی کی تحریری درخواست پر کمپنی کا پری کوالیفائی کیا گیا۔ ماہرین نے کے پی ٹی کو بتایا تھا کہ میسرز سی ڈبلیو ای کا ریٹ انجینئرزکے تخمینوں سے کہیں کم تھا اور کمپنی کا کوئی خاطر خواہ تجربہ بھی نہیں تھا اور کے پی ٹی نے ماہرین کی سفارشات کے برعکس کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا اور کمپنی بروقت ٹھیکہ مکمل کرنے میں ناکام رہی۔
جس کے بعد کمپنی نے اضافی لاگت کی وصولی کیلیے کوشش کی مگر کے پی ٹی اور ماہرین نے دعوے مسترد کردیے۔ ماہرین اور کے پی ٹی نے ٹھیکیدار کو جرمانے کیلئے نوٹسز بھی بھیجے۔ میسرز سی ڈبلیو ای ٹھیکہ مکمل کرنے کی بجائے غیرقانونی طور پر سخت زمین کی کھودائی کا اضافہ معاوضہ وصول کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ماہرین پر 3 ارب 10کروڑ اضافی دینے کے حوالے سے دباؤ ہے۔ ٹھیکیدار اس سے قبل ہی ساڑھے8 ارب روپے اضافی کا مطالبہ کرچکا ہے۔ کے پی ٹی پہلے ہی کمپنی کا کام کم کرچکی ہے۔ وزیر پورٹس اینڈ شپنگ سے گزارش ہے کہ شکایات کا نوٹس لے اور اگر شکایت درست ثابت ہوں تو ذمے داروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ خط کی کاپیاں سیکریٹری ٹو وزیراعظم، ڈی جی نیب، رجسٹرار سپریم کورٹ اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔