سنجیدہ سیاسی مسائل کوحل کرنا چاہیے
عوامی سطح پرہروقت سابقہ اورموجودہ سیاسی قیادت کامقابلہ ہوتارہتاہے۔
ZURICH:
عمران خان کے پاس جوسب سے زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں،ان میں جہانگیرترین سرِفہرست ہے۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کی حکومت سازی میں جہانگیرترین کاکلیدی سیاسی کرداررہاہے۔آل شریف کے بعدآنے والے وزیراعلیٰ کاقدکاٹھ،سیاسی بصیرت اورحسب نسب انتہائی اہم رخ اختیارکرچکاہے۔
شہبازشریف نے اپنے آپکومتحرک،کام کرنے والااورصوبے پرآہنی گرفت والاوزیراعلیٰ ثابت کیاہے۔کیاواقعی یہ دعویٰ درست بھی ہے یا نہیں۔اس پردومتضادآراء بہرحال موجودہیں۔ شہباز شریف کی میڈیاٹیم نے جومثبت تاثران کی ذات کے حوالے سے قائم کیاتھاوہ سوفیصدکیا،پچاس فیصدبھی درست نہیں ہے۔ مگر حتمی بات یہ ہے کہ شہبازشریف کے طویل دورانیے کے بعد ایک ایساوزیراعلیٰ ہوناچاہیے تھاجوتجربے،کام پرگرفت اور انتظامی اُمورمیں حددرجہ زیرک سیاستدان ہوتا۔یہ فطری تقابل ہے ۔
عوامی سطح پرہروقت سابقہ اورموجودہ سیاسی قیادت کامقابلہ ہوتارہتاہے۔یہ تجزیہ درست ہے کہ غلط،اس میں جائے بغیر، اس انسانی رویے کوقطعاًنظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ عثمان بزدارکے پاس سرے سے کوئی میڈیاٹیم موجودہی نہیں ہے،لہٰذااس کی اچھائیوں کوبھی لوگوں کے سامنے لانے کاکوئی اہتمام نہیں ہوسکا۔سات مہینے کے اندر،اسے ایک نااہل،نالائق اورناتجربہ کاروزیراعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب حکومت اوران کے عمائدین،کسی بھی سطح پرعثمان بزدار کا دفاع نہیں کررہے۔میرے نزدیک،اس کی بہت بڑی وجہ، سابقہ وزیراعلیٰ کی وہ وفادارٹیم ہے جودوبارہ موجودہ وزیراعلیٰ کے ساتھ نتھی ہونے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ ذاتی رائے یہ ہے کہ عثمان بزدارکوکام کرنے کے لیے وقت ملناچاہیے۔
یہی گھوڑا اوریہی میدان۔تھوڑے سے عرصے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔مگراس وقت کے زمینی حقائق پنجاب حکومت کے کافی حدتک خلاف جارہے ہیں۔منتخب نمایندوں کی مراعات اوروزیراعلیٰ کے لیے عمربھرکے لیے گھراوردیگرسہولتوں نے حددرجہ منفی تاثراُبھاراہے۔ مرکز سے عمران خان کی ٹویٹ اور ناراضگی سے معاملہ کافی درجہ تک بگڑچکاہے۔دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ مراعات کا پیکیج صوبہ بلکہ ملک کی معاشی ترقی سے مشروط کردیاجائے۔اگرملک کے معاشی معاملات بالکل ٹھیک ہوجائیں،توعوامی نمایندوں کوبہترسہولتیں فراہم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس وقت جب اقتصادی ترقی کمزور رفتارسے ہورہی ہے۔
ان مراعات کونافذکرناسیاسی طور پر حددرجہ نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔اس تمام معاملہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کوحددرجہ احتیاط سے کام لیناچاہیے۔جس نے ابھی انھیں مراعاتی پیکیج پرقائل کیاتھا،وہ محتاط الفاظ میں انکاسیاسی دوست ہرگزہرگزنہیں ہے۔عثمان بزدارکواس وقت حددرجہ توازن سے کام لیناچاہیے تھا۔ساتھ ساتھ مشاورت میں سنجیدہ سیاسی لوگوں کوشامل کرناچاہیے۔سیاسی حالات بہرحال ان کے بہت زیادہ حق میں نہیں ہیں۔اگرپنجاب میں تحریک انصاف کارکردگی نہ دکھاپائی تواگلے الیکشن میں کامیابی حددرجہ مشکل بلکہ ناممکن ہوجائیگی۔اس کے آگے کچھ لکھنا مناسب نہیں۔پنجاب سیاسی طورپرمرکزمیں اہم ترین تبدیلی کا فیصلہ کن کرداراداکرتاہے۔لہٰذاکارکردگی کو بہتر بنانا حددرجہ ناگزیرہے۔باقی سب سیاسی خودکشی ہے۔
عرض کرتاچلوں،کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے تجربہ کاراورمنجھے ہوئے کھلاڑی کلیدی عہدوں پر تعینات کرے۔اسکوملکی مفادکی نظرسے دیکھے۔قومی مفاد بہرحال ہرسیاست سے بالاہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مشکلات کوبروقت دورکرناکسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے بقاء کا درجہ رکھتا ہے۔عام لوگوں کوصرف اس چیزسے غرض ہے کہ ان کی مشکلات کون کم کررہاہے اورکتنی برق رفتاری سے یہ سب کچھ ہورہاہے۔تحریک انصاف جواس وقت حکومت میں ہے، اس کے لیے حددرجہ غورکرنے کامقام ہے۔کلیدی عہدوں کے لیے تجربہ کارلوگ؟یہ انتظامی اُمورکوبہترکرنے کی چابی ہے۔
اس بحث سے تھوڑی دیرکے لیے نکلیے کہ کونسا سیاسی فیصلہ ہونا چاہیے۔اس سوال کودوسرے طریقے سے پوچھاجائے تو کہا جا سکتاہے کہ ہمارے قومی مفادپورے کرنے کے لیے کون سب سے بہترکام سرانجام دے سکتاہے۔طالبعلم کی نظرمیں جہانگیر ترین ایک بھرپورقدکاٹھ کا سیاستدان ہے جسکے پاس تعلیم بھی ہے،وسائل بھی اوراس کے ساتھ ساتھ انتظامی تجربہ بھی۔ اسطرح کے اورسیاستدان بھی ہوسکتے ہیں۔مگرفی الفور میرے ذہن میں ترین کے علاوہ کوئی شخص نہیں آرہا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ترین اوراس طرح کے سنجیدہ لوگوں کومکمل طورپرضایع کردیاجائے۔ان سے کوئی کام نہ لیاجائے۔ان کی صلاحیتوں سے کسی قسم کاکوئی فائدہ نہ اُٹھایاجائے۔انکواس میدان ہی سے باہرکردیاجائے،جس میں وہ بھرپورطریقے سے کھیل سکتے ہیں۔
بالکل نہیں۔ہمارے سیاسی بلکہ قومی مفادمیں ہے کہ اہل لوگوں کوضایع ہونے سے بچایا جائے۔ دیکھاجائے توجہانگیرترین کوسیاسی میدان سے مکمل طورپر باہرکردیاگیاہے۔ کیاکوئی ایساراستہ نہیں نکالاجاسکتاجس سے جہانگیرترین اور اس طرح کے چندلوگوں کودوبارہ میدان سیاست میں لاکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ہمارے نظام میں پہلے ہی قحط الرجال ہے۔ اہل لوگوں کی ہرمیدان میں حددرجہ کمی ہے۔معاشی حالات سب کے سامنے ہیں۔اقتصادی نموکی صورتحال بھی بہت بہترنہیں ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ''گڈگورننس''ایک ملکی فریضے کے ساتھ ساتھ ایک ریاستی فرض بھی ہے۔لیکن اب کیاکیاجائے۔کون سی حکمتِ عملی اپنائی جائے جنکے بہترین انتظامی نتائج سامنے آئینگے؟
یہ بہت زیادہ مشکل صورتحال ہے اوراس میں کسی قسم کا کوئی آسان راستہ ہرگزہرگزموجودنہیں ہے۔جس شخص کو نااہل قراردیدیاگیا ہو۔کیااسے دوبارہ اہل قراردیا جانا چاہیے۔ پہلی نظرمیں یہ نامناسب بات لگتی ہے، پرطالبعلم،مختلف بات کررہاہے۔ہرمشکل کاحل نکالاجاسکتاہے۔اگرقانونی طریقہ بھی ختم ہوجائے تو جائز انتظامی اقدامات اُٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔آرڈیننس یاقانون سازی کرنے سے بہرحال حکومت کوکوئی نہیں روک سکتا۔اس پرکوئی قدغن بھی نہیں ہے۔
یہ پارلیمنٹ کااستحقاق ہے کہ قومی مفادمیں مشکل نہیں بلکہ مشکل ترین فیصلے کرے۔ عرض کرنے کامقصدسادہ سا ہے۔ جہانگیر ترین اوران جیسے چندایسے سیاستدان موجودہیں،جنکی نااہلی سے بذاتِ خود پارٹی کونہیں بلکہ ملکی سیاست کو نقصان ہواہے۔اگریہ لوگ عملی طورپرسیاسی میدان سے باہرنہ ہوتے،توخصوصاًپنجاب میں حالات اس قدر دگرگوں یاڈانواں ڈول نہ ہوتے۔ آپکو دوسری مثال دیتا ہوں۔
رائے حسن نوازحددرجہ ایماندار سیاستدان ہے۔ ان کے بدترین سیاسی مخالف بھی یہ الزام نہیں لگاسکتے کہ حسن نوازیااس کے خاندان نے ستربرس کی سیاسی عمرمیں کوئی مالی بدعنوانی کی ہے۔مگرصرف تکنیکی بنیادپرحسن نوازسیاست سے باہرہوچکاہے۔اس ملک میں،جہاں سیاست میں ایماندارانسان تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا،حسن نواز سیاست سے تاحیات باہرہے۔جہانگیرترین کی طرح اسکاسیاسی کیرئیربھی بندگلی میں ہے۔
عمران خان کے پاس جوسب سے زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں،ان میں جہانگیرترین سرِفہرست ہے۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کی حکومت سازی میں جہانگیرترین کاکلیدی سیاسی کرداررہاہے۔آل شریف کے بعدآنے والے وزیراعلیٰ کاقدکاٹھ،سیاسی بصیرت اورحسب نسب انتہائی اہم رخ اختیارکرچکاہے۔
شہبازشریف نے اپنے آپکومتحرک،کام کرنے والااورصوبے پرآہنی گرفت والاوزیراعلیٰ ثابت کیاہے۔کیاواقعی یہ دعویٰ درست بھی ہے یا نہیں۔اس پردومتضادآراء بہرحال موجودہیں۔ شہباز شریف کی میڈیاٹیم نے جومثبت تاثران کی ذات کے حوالے سے قائم کیاتھاوہ سوفیصدکیا،پچاس فیصدبھی درست نہیں ہے۔ مگر حتمی بات یہ ہے کہ شہبازشریف کے طویل دورانیے کے بعد ایک ایساوزیراعلیٰ ہوناچاہیے تھاجوتجربے،کام پرگرفت اور انتظامی اُمورمیں حددرجہ زیرک سیاستدان ہوتا۔یہ فطری تقابل ہے ۔
عوامی سطح پرہروقت سابقہ اورموجودہ سیاسی قیادت کامقابلہ ہوتارہتاہے۔یہ تجزیہ درست ہے کہ غلط،اس میں جائے بغیر، اس انسانی رویے کوقطعاًنظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ عثمان بزدارکے پاس سرے سے کوئی میڈیاٹیم موجودہی نہیں ہے،لہٰذااس کی اچھائیوں کوبھی لوگوں کے سامنے لانے کاکوئی اہتمام نہیں ہوسکا۔سات مہینے کے اندر،اسے ایک نااہل،نالائق اورناتجربہ کاروزیراعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب حکومت اوران کے عمائدین،کسی بھی سطح پرعثمان بزدار کا دفاع نہیں کررہے۔میرے نزدیک،اس کی بہت بڑی وجہ، سابقہ وزیراعلیٰ کی وہ وفادارٹیم ہے جودوبارہ موجودہ وزیراعلیٰ کے ساتھ نتھی ہونے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ ذاتی رائے یہ ہے کہ عثمان بزدارکوکام کرنے کے لیے وقت ملناچاہیے۔
یہی گھوڑا اوریہی میدان۔تھوڑے سے عرصے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔مگراس وقت کے زمینی حقائق پنجاب حکومت کے کافی حدتک خلاف جارہے ہیں۔منتخب نمایندوں کی مراعات اوروزیراعلیٰ کے لیے عمربھرکے لیے گھراوردیگرسہولتوں نے حددرجہ منفی تاثراُبھاراہے۔ مرکز سے عمران خان کی ٹویٹ اور ناراضگی سے معاملہ کافی درجہ تک بگڑچکاہے۔دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ مراعات کا پیکیج صوبہ بلکہ ملک کی معاشی ترقی سے مشروط کردیاجائے۔اگرملک کے معاشی معاملات بالکل ٹھیک ہوجائیں،توعوامی نمایندوں کوبہترسہولتیں فراہم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس وقت جب اقتصادی ترقی کمزور رفتارسے ہورہی ہے۔
ان مراعات کونافذکرناسیاسی طور پر حددرجہ نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔اس تمام معاملہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کوحددرجہ احتیاط سے کام لیناچاہیے۔جس نے ابھی انھیں مراعاتی پیکیج پرقائل کیاتھا،وہ محتاط الفاظ میں انکاسیاسی دوست ہرگزہرگزنہیں ہے۔عثمان بزدارکواس وقت حددرجہ توازن سے کام لیناچاہیے تھا۔ساتھ ساتھ مشاورت میں سنجیدہ سیاسی لوگوں کوشامل کرناچاہیے۔سیاسی حالات بہرحال ان کے بہت زیادہ حق میں نہیں ہیں۔اگرپنجاب میں تحریک انصاف کارکردگی نہ دکھاپائی تواگلے الیکشن میں کامیابی حددرجہ مشکل بلکہ ناممکن ہوجائیگی۔اس کے آگے کچھ لکھنا مناسب نہیں۔پنجاب سیاسی طورپرمرکزمیں اہم ترین تبدیلی کا فیصلہ کن کرداراداکرتاہے۔لہٰذاکارکردگی کو بہتر بنانا حددرجہ ناگزیرہے۔باقی سب سیاسی خودکشی ہے۔
عرض کرتاچلوں،کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے تجربہ کاراورمنجھے ہوئے کھلاڑی کلیدی عہدوں پر تعینات کرے۔اسکوملکی مفادکی نظرسے دیکھے۔قومی مفاد بہرحال ہرسیاست سے بالاہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مشکلات کوبروقت دورکرناکسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے بقاء کا درجہ رکھتا ہے۔عام لوگوں کوصرف اس چیزسے غرض ہے کہ ان کی مشکلات کون کم کررہاہے اورکتنی برق رفتاری سے یہ سب کچھ ہورہاہے۔تحریک انصاف جواس وقت حکومت میں ہے، اس کے لیے حددرجہ غورکرنے کامقام ہے۔کلیدی عہدوں کے لیے تجربہ کارلوگ؟یہ انتظامی اُمورکوبہترکرنے کی چابی ہے۔
اس بحث سے تھوڑی دیرکے لیے نکلیے کہ کونسا سیاسی فیصلہ ہونا چاہیے۔اس سوال کودوسرے طریقے سے پوچھاجائے تو کہا جا سکتاہے کہ ہمارے قومی مفادپورے کرنے کے لیے کون سب سے بہترکام سرانجام دے سکتاہے۔طالبعلم کی نظرمیں جہانگیر ترین ایک بھرپورقدکاٹھ کا سیاستدان ہے جسکے پاس تعلیم بھی ہے،وسائل بھی اوراس کے ساتھ ساتھ انتظامی تجربہ بھی۔ اسطرح کے اورسیاستدان بھی ہوسکتے ہیں۔مگرفی الفور میرے ذہن میں ترین کے علاوہ کوئی شخص نہیں آرہا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ترین اوراس طرح کے سنجیدہ لوگوں کومکمل طورپرضایع کردیاجائے۔ان سے کوئی کام نہ لیاجائے۔ان کی صلاحیتوں سے کسی قسم کاکوئی فائدہ نہ اُٹھایاجائے۔انکواس میدان ہی سے باہرکردیاجائے،جس میں وہ بھرپورطریقے سے کھیل سکتے ہیں۔
بالکل نہیں۔ہمارے سیاسی بلکہ قومی مفادمیں ہے کہ اہل لوگوں کوضایع ہونے سے بچایا جائے۔ دیکھاجائے توجہانگیرترین کوسیاسی میدان سے مکمل طورپر باہرکردیاگیاہے۔ کیاکوئی ایساراستہ نہیں نکالاجاسکتاجس سے جہانگیرترین اور اس طرح کے چندلوگوں کودوبارہ میدان سیاست میں لاکر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ہمارے نظام میں پہلے ہی قحط الرجال ہے۔ اہل لوگوں کی ہرمیدان میں حددرجہ کمی ہے۔معاشی حالات سب کے سامنے ہیں۔اقتصادی نموکی صورتحال بھی بہت بہترنہیں ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال میں غیرمعمولی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ''گڈگورننس''ایک ملکی فریضے کے ساتھ ساتھ ایک ریاستی فرض بھی ہے۔لیکن اب کیاکیاجائے۔کون سی حکمتِ عملی اپنائی جائے جنکے بہترین انتظامی نتائج سامنے آئینگے؟
یہ بہت زیادہ مشکل صورتحال ہے اوراس میں کسی قسم کا کوئی آسان راستہ ہرگزہرگزموجودنہیں ہے۔جس شخص کو نااہل قراردیدیاگیا ہو۔کیااسے دوبارہ اہل قراردیا جانا چاہیے۔ پہلی نظرمیں یہ نامناسب بات لگتی ہے، پرطالبعلم،مختلف بات کررہاہے۔ہرمشکل کاحل نکالاجاسکتاہے۔اگرقانونی طریقہ بھی ختم ہوجائے تو جائز انتظامی اقدامات اُٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔آرڈیننس یاقانون سازی کرنے سے بہرحال حکومت کوکوئی نہیں روک سکتا۔اس پرکوئی قدغن بھی نہیں ہے۔
یہ پارلیمنٹ کااستحقاق ہے کہ قومی مفادمیں مشکل نہیں بلکہ مشکل ترین فیصلے کرے۔ عرض کرنے کامقصدسادہ سا ہے۔ جہانگیر ترین اوران جیسے چندایسے سیاستدان موجودہیں،جنکی نااہلی سے بذاتِ خود پارٹی کونہیں بلکہ ملکی سیاست کو نقصان ہواہے۔اگریہ لوگ عملی طورپرسیاسی میدان سے باہرنہ ہوتے،توخصوصاًپنجاب میں حالات اس قدر دگرگوں یاڈانواں ڈول نہ ہوتے۔ آپکو دوسری مثال دیتا ہوں۔
رائے حسن نوازحددرجہ ایماندار سیاستدان ہے۔ ان کے بدترین سیاسی مخالف بھی یہ الزام نہیں لگاسکتے کہ حسن نوازیااس کے خاندان نے ستربرس کی سیاسی عمرمیں کوئی مالی بدعنوانی کی ہے۔مگرصرف تکنیکی بنیادپرحسن نوازسیاست سے باہرہوچکاہے۔اس ملک میں،جہاں سیاست میں ایماندارانسان تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا،حسن نواز سیاست سے تاحیات باہرہے۔جہانگیرترین کی طرح اسکاسیاسی کیرئیربھی بندگلی میں ہے۔