قومی خزانے کا منہ۔۔۔ خواص کے لیے کُھلا عوام کے لیے بند
آپ کو حیرت ہوگی کہ جب قومی خزانہ خالی تھا تو اُس کے وہ کون سے منہ ہیں جو کُھلے تو ان سے اتنا کچھ نکل آیا۔
کتنی اچھی بات ہے کہ جب معاملہ قومی مفاد کا ہو تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کی ساری خطائیں معاف کرکے آج کل کے معروف محاورے کے مطابق ایک صفحے پر آجاتی ہیں، عموماً یہ صفحہ چیک بُک کا ہوتا ہے، جیسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے معاملے میں ہوا ہے۔
''ایکسپریس'' میں شایع ہونے والی وقاص احمد کی خبر کے مطابق،''قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہوتے ہی کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور اراکین کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔'' یہ خبر بتاتی ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو نئی تیرہ سی سی گاڑیوں سمیت بہتر ہزار روپے سے زائد کی اضافی مراعات اور اعزازیہ دیا جائے گا، جب کہ اراکین کو تین سے پانچ ہزار روپے تک ٹریولنگ اور اسپیشل الاؤنس ملے گا۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان بہ طور رکن اسمبلی بھی مراعات اور تنخواہیں وصول کرتے رہیں گے۔
خبر میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ فریقین میں سے کسی نے بھی ان مراعات پر اعتراض یا کوئی سوال کیا ہو، اس کے بہ جائے یہ سب حکومت اور حزب اختلاف کے کام یاب مذاکرات کے بعد بڑی خوش اسلوبی اور باہمی رضامندی سے طے پایا ہے۔
آپ کہیں کہ گے یہ قومی مفاد کا معاملہ کیسے ہوا؟ آپ نے شاید وہ اشتہار نہیں دیکھا جس میں ایک بچہ کہتا ہے ''کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا''، تو بھئی ہمارے منتخب ارکان مراعات اور اعزازیے کھائیں گے تو بڑے ہوں گے پھر ملک وقوم کے لیے کام کریں گے بڑے بڑے۔ واضح رہے کہ یہ وہ ''کھانا'' ہے جو مجبوراً دکھانا پڑتا ہے۔ چلیے آپ اسے قومی مفاد ماننے کو تیار نہیں تو ''قومی اسمبلی مفاد'' یا ''قائمہ مفاد'' کہہ لیجیے، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ جب قومی خزانہ خالی تھا تو اُس کے وہ کون سے منہ ہیں جو کُھلے تو ان سے اتنا کچھ نکل آیا۔ بات یہ ہے کہ قومی خزانہ ہر ایک کو منہ نہیں لگاتا، عوام کے لیے یہ منہ بند ہی رکھتا ہے، خواص اس کے منہ بولے بھائی بیٹے ہیں، سو اُن کا منہ موتیوں سے بھردینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اب آپ بچت، اخراجات میں کمی اور سادگی جیسے حکومتی اعلانات کی بات کریں گے اور سوال اُٹھائیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال بہت دیر کے اُٹھے ہوئے تھے، اُٹھے اُٹھے تھک گئے، ہلکان ہوگئے، اب جاکے سوئے ہیں، انھیں سونے ہی دیجیے، یہ سمجھ لیجیے کہ یہ ویسے ہی اُٹھ چکے ہیں جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ سب مراعات نہ دی جائیں تو قائمہ کمیٹی کے قائم ہونے اور رہنے کا کیا فائدہ۔ قائمہ کمیٹیوں کے باعث بہت سے ارکان اسمبلی کا حکومت سے رشتہ قائم رہتا ہے، وہ حکومتی بینچوں ہی پر قیام پذیر رہتے ہیں ٹھکانا نہیں بدلتے۔
یہ خوامخواہ کا سوال بھی مت پوچھیے گا کہ جب ملک کی معاشی حالت یہ ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی ''لائے جا پالیسی'' بن چکی ہے، غیرملکی دورے ''فقیرانہ آئے صدا کرچلے'' کی تصویر اور غیرملکیوں کی آمد ''بہاروں پھول برساؤ مِری امداد آئی ہے'' کا منظر ہیں، مجبوری کا یہ عالم ہے کہ جس آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی کے مترادف تھا اُس سے ہنسی خوشی رابطہ کرلیا گیا۔۔۔۔تو ایسے میں اگر ہمارے مفلوک الحال منتخب نمائندے بہ طور رکن قومی اسمبلی ملنے والی تنخواہ اور مراعات ہی پر گزارہ کرلیتے، اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ اور رُکن کی حیثیت سے کچھ نہ لیتے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑتی؟۔۔۔بھئی کیوں نہ لیتے۔ عوام کی خاطر اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے، تقریریں کرکرکے گلا خراب کرلیا، سارے کام چھوڑ کر جلسے کرتے رہے۔۔۔۔کروڑوں خرچ ہونے کی وجہ سے بے چارے پائی پائی کو محتاج ہوگئے، گلاخراب ہونے کے باعث علاج کے لیے باہر جانا پڑا وہ خرچہ الگ، جلسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دیہاڑی نہیں لگاسکے۔
اب یہ غریب نہ جانے بچوں کے اسکولوں کی فیس کیسے ادا کرتے ہوں گے، بجلی گیس کے بِل کہاں سے بھرتے ہوں گے، مہینے کا راشن کیسے لاتے ہوں گے۔۔۔۔قسم سے یہ سب لکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھیگ گئیں مگر پڑھ کر آپ کا دل نہ پسیجا ہوگا۔ ان کی قربانی کا تو تقاضا تھا کہ پوری قوم ان پر قربان ہوجائے، خیر یہ کام وہ خود کر ہی لیں گے، قوم بس اتنا کرے کہ منتخب ارکان پر خزانے کے منہ کُھلے رہنے دے، اپنا منہ ہرگز نہ کھولے۔
''ایکسپریس'' میں شایع ہونے والی وقاص احمد کی خبر کے مطابق،''قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہوتے ہی کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور اراکین کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔'' یہ خبر بتاتی ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو نئی تیرہ سی سی گاڑیوں سمیت بہتر ہزار روپے سے زائد کی اضافی مراعات اور اعزازیہ دیا جائے گا، جب کہ اراکین کو تین سے پانچ ہزار روپے تک ٹریولنگ اور اسپیشل الاؤنس ملے گا۔ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان بہ طور رکن اسمبلی بھی مراعات اور تنخواہیں وصول کرتے رہیں گے۔
خبر میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ فریقین میں سے کسی نے بھی ان مراعات پر اعتراض یا کوئی سوال کیا ہو، اس کے بہ جائے یہ سب حکومت اور حزب اختلاف کے کام یاب مذاکرات کے بعد بڑی خوش اسلوبی اور باہمی رضامندی سے طے پایا ہے۔
آپ کہیں کہ گے یہ قومی مفاد کا معاملہ کیسے ہوا؟ آپ نے شاید وہ اشتہار نہیں دیکھا جس میں ایک بچہ کہتا ہے ''کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا''، تو بھئی ہمارے منتخب ارکان مراعات اور اعزازیے کھائیں گے تو بڑے ہوں گے پھر ملک وقوم کے لیے کام کریں گے بڑے بڑے۔ واضح رہے کہ یہ وہ ''کھانا'' ہے جو مجبوراً دکھانا پڑتا ہے۔ چلیے آپ اسے قومی مفاد ماننے کو تیار نہیں تو ''قومی اسمبلی مفاد'' یا ''قائمہ مفاد'' کہہ لیجیے، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ جب قومی خزانہ خالی تھا تو اُس کے وہ کون سے منہ ہیں جو کُھلے تو ان سے اتنا کچھ نکل آیا۔ بات یہ ہے کہ قومی خزانہ ہر ایک کو منہ نہیں لگاتا، عوام کے لیے یہ منہ بند ہی رکھتا ہے، خواص اس کے منہ بولے بھائی بیٹے ہیں، سو اُن کا منہ موتیوں سے بھردینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اب آپ بچت، اخراجات میں کمی اور سادگی جیسے حکومتی اعلانات کی بات کریں گے اور سوال اُٹھائیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال بہت دیر کے اُٹھے ہوئے تھے، اُٹھے اُٹھے تھک گئے، ہلکان ہوگئے، اب جاکے سوئے ہیں، انھیں سونے ہی دیجیے، یہ سمجھ لیجیے کہ یہ ویسے ہی اُٹھ چکے ہیں جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ سب مراعات نہ دی جائیں تو قائمہ کمیٹی کے قائم ہونے اور رہنے کا کیا فائدہ۔ قائمہ کمیٹیوں کے باعث بہت سے ارکان اسمبلی کا حکومت سے رشتہ قائم رہتا ہے، وہ حکومتی بینچوں ہی پر قیام پذیر رہتے ہیں ٹھکانا نہیں بدلتے۔
یہ خوامخواہ کا سوال بھی مت پوچھیے گا کہ جب ملک کی معاشی حالت یہ ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی ''لائے جا پالیسی'' بن چکی ہے، غیرملکی دورے ''فقیرانہ آئے صدا کرچلے'' کی تصویر اور غیرملکیوں کی آمد ''بہاروں پھول برساؤ مِری امداد آئی ہے'' کا منظر ہیں، مجبوری کا یہ عالم ہے کہ جس آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی کے مترادف تھا اُس سے ہنسی خوشی رابطہ کرلیا گیا۔۔۔۔تو ایسے میں اگر ہمارے مفلوک الحال منتخب نمائندے بہ طور رکن قومی اسمبلی ملنے والی تنخواہ اور مراعات ہی پر گزارہ کرلیتے، اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ اور رُکن کی حیثیت سے کچھ نہ لیتے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑتی؟۔۔۔بھئی کیوں نہ لیتے۔ عوام کی خاطر اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے، تقریریں کرکرکے گلا خراب کرلیا، سارے کام چھوڑ کر جلسے کرتے رہے۔۔۔۔کروڑوں خرچ ہونے کی وجہ سے بے چارے پائی پائی کو محتاج ہوگئے، گلاخراب ہونے کے باعث علاج کے لیے باہر جانا پڑا وہ خرچہ الگ، جلسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دیہاڑی نہیں لگاسکے۔
اب یہ غریب نہ جانے بچوں کے اسکولوں کی فیس کیسے ادا کرتے ہوں گے، بجلی گیس کے بِل کہاں سے بھرتے ہوں گے، مہینے کا راشن کیسے لاتے ہوں گے۔۔۔۔قسم سے یہ سب لکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھیگ گئیں مگر پڑھ کر آپ کا دل نہ پسیجا ہوگا۔ ان کی قربانی کا تو تقاضا تھا کہ پوری قوم ان پر قربان ہوجائے، خیر یہ کام وہ خود کر ہی لیں گے، قوم بس اتنا کرے کہ منتخب ارکان پر خزانے کے منہ کُھلے رہنے دے، اپنا منہ ہرگز نہ کھولے۔