کاش
آج اردگان پاکستان سے جو والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں دراصل اس کی جڑیں ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔
برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی عالم اسلام میں مرکزی حیثیت ختم کرنے کے مذموم ارادے کے ساتھ ترکی کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑ دی تھی ، اس جنگ میں ترکوں کو دشمن کی زبردست طاقت اور اندرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ترکوں کو ایک انتہائی ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا گیا چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ اس معاہدے کا مقصد عالمی بساط سیاست سے مسلمانوں کے اثرات کو ختم کرنا تھا چنانچہ انھوں نے ترکوں کی شکست کو عالم اسلام کی شکست تصور کیا اور خلافت ترکی کو خطرے میں دیکھ کر پورے برصغیر میں برطانیہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا، یوں 1919 میں باقاعدہ خلافت تحریک کا آغاز ہوگیا، جس کا مقصد ترکی کی خلافت کو بچانا تھا۔
مسلمانوں نے ترکی کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی ترکی کی مدد کی مگر مصطفیٰ کمال کی کمان میں ترکی میں ایک سیکولر حکومت قائم ہوگئی۔ ترکی کے اسلامی تشخص کو ختم کردیا گیا مگر عوام کے دلوں سے اسلامی جذبات کو نہ نکالا جاسکا۔
دوسری جانب برصغیر کے مسلمانوں اور ترکوں کے درمیان محبت کا جو رشتہ خلافت تحریک کے زمانے میں قائم ہوا تھا وہ دن بہ دن پروان چڑھتا گیا۔ یہ محبت کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ترکی پر کوئی آنچ آئے تو پاکستانی مسلمان بے قرار ہوجاتے ہیں اور ترکی کی مدد کے لیے چشم براہ ہوجاتے ہیں، اگر پاکستان پر بھی کوئی مصیبت آئے تو ترک عوام پاکستان کے لیے سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔
طویل جدوجہد کے بعد اب طیب رجب اردگان ترکی کی پرانی اسلامی شناخت کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس وقت اردگان جیسا دبنگ اور بے باک لیڈر پوری مسلم دنیا میں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ یہ سیدھا سادہ بااخلاق اور باکردار رہنما صرف ترکی کے لیے ہی نہیں پوری مسلم امہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمیشہ کمزور، ناتواں اور مغلوب انسانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور جابر و مغرور رہنماؤں کی سرزنش کرنا اردگان کا وطیرہ ہے۔
آج جب کہ پوری دنیا سپرپاور امریکا سے آنکھیں ملانے سے گھبراتی ہے اور کوئی اس کے خلاف آدھی بات کہنے کی ہمت نہیں رکھتا اردگان ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کو للکارتے ہیں اور امریکی زیادتیوں اور ناانصافیوں پر اسے ٹوکتے ہیں۔ ٹرمپ نے دوسرے اسلامی ممالک کی طرح ترکی کی بھی بے عزتی کرنے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اردگان نے ترکی کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ 26 فروری 1954 کو پیدا ہونیوالے اردگان نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ والد ایک معمولی سرکاری ملازم تھے۔
گزر بسر تنگی سے ہوتی مگر خاندانی عزت اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ چونکہ مذہبی گھرانہ تھا اس لیے اردگان کو ایک دینی مدرسے میں داخل کرایا گیا۔ معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اردگان کا خاندان استنبول منتقل ہوگیا جہاں اردگان نے پانی کی بوتلیں اور ٹافیاں وغیرہ سڑکوں پر بیچنا شروع کیں تعلیم کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ بچپن سے سماجی کاموں میں دلچسپی لی۔ سیاست سے دلچسپی ہوئی تو نجم الدین اربکان کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔
اپنی خداداد صلاحیتوں سے بہت جلد ایک سوجھ بوجھ والے کارکن کے طور پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی نظر میں آگئے پھر پارٹی میں اعلیٰ عہدوں کی جانب بڑھتے گئے۔ 1994 میں استنبول کے میئر منتخب ہوگئے۔ اس وقت استنبول شہر کئی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا تھا سب سے گمبھیر مسئلہ پانی کا تھا۔ آپ نے کئی سو میل لمبی پائپ لائن بچھا کر پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کردیا۔ دیگر مسائل بھی حل کردیے۔ کچھ ہی عرصے میں استنبول کو ایک خوبصورت شہر میں تبدیل کردیا۔ جہاں پہلے کوئی سیاح نہیں آتا تھا اب جوق در جوق ملکی اور غیر ملکی سیاح اس شہر کا رخ کرنے لگے۔
اسی دوران نجم الدین اربکان سے اختلاف کے بعد اپنی نئی پارٹی تشکیل دی جس کا واضح ایجنڈا ترکی کو ایک مثالی ملک بنانا تھا مگر ایک خفیہ ایجنڈا ترکی کے اسلامی تشخص کو بحال کرانا بھی تھا۔ جہاں تک اسلامی تشخص کا معاملہ ہے یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ ترک پارلیمنٹ کے علاوہ ترک فوج بھی ترکی کے سیکولر نظریے کی محافظ تھی۔ نجم الدین اربکان جیسے کئی اسلام پسند رہنما اسلامی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے مگر انھیں مسلسل ناکامی کا سامنا تھا۔
دراصل اس کام کو انجام دینے کے لیے ایک ٹھنڈے مزاج اور پرعزم رہنما کی ضرور تھی۔ اردگان کی ذہانت اور تحمل مزاجی نے یہ کام کر دکھایا۔ چونکہ ترک عوام ان کا دم بھر رہے تھے اور ہر مشکل میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے چنانچہ ان کی سیاسی پارٹی عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ آپ 2003 سے 2014 تک عوام کی تائید سے مسلسل الیکشن جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر ملک میں صدارتی نظام نافذ ہونے سے اب تک ترکی کے صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
آپ کی حکومت کو گرانے کے لیے اب تک تین بغاوتیں ہوچکی ہیں جن میں 15 جولائی 2016 کی بغاوت سے سب سے خطرناک تھی۔ اس بغاوت میں باغی فوجیوں کے علاوہ فتح اللہ گولن بھی اردگان حکومت کو گرانے میں شامل تھے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اس بغاوت کا مرکزی کردار امریکا نے ادا کیا تھا۔ اس بغاوت کو ترک عوام نے ناکام بنادیا تھا۔ انھوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھائیں، کچھ تو ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور اس طرح ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔
ترک عوام اردگان پر دل و جان سے فدا ہیں وہ اس لیے کہ انھوں نے اپنے عوام کو کبھی کسی مرحلے پر مایوس نہیں کیا اور ان کی امنگوں کو پورا کرنا اپنی زندگی کا شعار بنالیا ہے چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے عوام کے حقیقی رہنما ہیں۔ اس وقت کسی اور ملک میں عوام اور حکومت میں ایسی یگانگت کی مثال نہیں ملتی۔ اردگان نے ترکی کو ایک معمولی ملک سے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی صف میں شامل کردیا ہے۔ ملک میں امیر و غریب سب کے لیے مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ استادوں کی تنخواہیں ڈاکٹروں کی تنخواہوں کے برابر ہیں۔
اردگان کی حکومت سے پہلے ترکی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض تھا آپ نے نہ صرف تمام قرض چکا دیا بلکہ الٹا آئی ایم ایف کو 53 ارب ڈالر قرض فراہم کیا۔ اس وقت ترکی میں بے روزگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام کی فی کس آمدنی 3500 ڈالر سے بڑھ کر 11000 ڈالر ہو گئی ہے۔ آج ترکی میں جدید جنگی ہوائی جہازوں سے لے کر ٹینک اور میزائل تک بنائے جا رہے ہیں۔ ترکی گھریلو استعمال کی اشیا کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ پورے ملک میں دینی مدرسوں کا جال بچھادیا گیا ہے سیکڑوں نئی مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ عربی رسم الخط کو دوبارہ متعارف کرایا جا رہا ہے۔
اردگان کی محنت سے ترکی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ آپ دنیا کی تمام مظلوم قوموں کے ترجمان ہیں۔ آپ نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برما کی سخت مذمت کی۔ آپ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ جب اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کی تھی اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود آپ نے وہاں امدادی سامان بھیجا تھا اور ڈیوس کانفرنس میں اسرائیل کی اس بربریت پر اسرائیلی وزیر اعظم کے منہ پر اسرائیلی رویے پر تنقید کی تھی اور انھیں ظالم و جابر قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس کانفرنس کا احتجاجاً بائیکاٹ کردیا تھا۔
آپ کے اس بولڈ اقدام کی دنیا کے تمام مسلمانوں نے تعریف کی تھی۔ ترک قوم نے آپ کی ملک واپسی پر استنبول ایئرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا تھا۔ آپ نے بحیثیت وزیر اعظم اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی کشمیریوں کی حمایت شروع کردی تھی۔آپ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خوداختیاری دینے کی ہمیشہ وکالت کرتے رہتے ہیں۔ اردگان پاکستان سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں وہ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ عمران خان کی حکومت کے بھی زبردست حامی ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں انھوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور بھارت کی جارحیت کی سخت مذمت کی تھی۔
آج اردگان پاکستان سے جو والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں دراصل اس کی جڑیں ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔ دونوں قوموں کا یہ رشتہ قدیم بھی ہے، چٹان کی طرح مضبوط بھی اور اس کا مستقبل بھی تابناک ہے کیونکہ دونوں قوموں کی سوچ ایک جیسی ہے۔ پاکستانی قوم کی ایک تمنا ہے کاش پاکستان میں بھی کوئی رجب اردگان جیسی خوبیوں والا مرد مجاہد عنان حکومت سنبھالے اور پاکستان کے دن پھر جائیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ترکوں کو ایک انتہائی ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا گیا چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ اس معاہدے کا مقصد عالمی بساط سیاست سے مسلمانوں کے اثرات کو ختم کرنا تھا چنانچہ انھوں نے ترکوں کی شکست کو عالم اسلام کی شکست تصور کیا اور خلافت ترکی کو خطرے میں دیکھ کر پورے برصغیر میں برطانیہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا، یوں 1919 میں باقاعدہ خلافت تحریک کا آغاز ہوگیا، جس کا مقصد ترکی کی خلافت کو بچانا تھا۔
مسلمانوں نے ترکی کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی ترکی کی مدد کی مگر مصطفیٰ کمال کی کمان میں ترکی میں ایک سیکولر حکومت قائم ہوگئی۔ ترکی کے اسلامی تشخص کو ختم کردیا گیا مگر عوام کے دلوں سے اسلامی جذبات کو نہ نکالا جاسکا۔
دوسری جانب برصغیر کے مسلمانوں اور ترکوں کے درمیان محبت کا جو رشتہ خلافت تحریک کے زمانے میں قائم ہوا تھا وہ دن بہ دن پروان چڑھتا گیا۔ یہ محبت کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ترکی پر کوئی آنچ آئے تو پاکستانی مسلمان بے قرار ہوجاتے ہیں اور ترکی کی مدد کے لیے چشم براہ ہوجاتے ہیں، اگر پاکستان پر بھی کوئی مصیبت آئے تو ترک عوام پاکستان کے لیے سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔
طویل جدوجہد کے بعد اب طیب رجب اردگان ترکی کی پرانی اسلامی شناخت کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس وقت اردگان جیسا دبنگ اور بے باک لیڈر پوری مسلم دنیا میں کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ یہ سیدھا سادہ بااخلاق اور باکردار رہنما صرف ترکی کے لیے ہی نہیں پوری مسلم امہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمیشہ کمزور، ناتواں اور مغلوب انسانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اور جابر و مغرور رہنماؤں کی سرزنش کرنا اردگان کا وطیرہ ہے۔
آج جب کہ پوری دنیا سپرپاور امریکا سے آنکھیں ملانے سے گھبراتی ہے اور کوئی اس کے خلاف آدھی بات کہنے کی ہمت نہیں رکھتا اردگان ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کو للکارتے ہیں اور امریکی زیادتیوں اور ناانصافیوں پر اسے ٹوکتے ہیں۔ ٹرمپ نے دوسرے اسلامی ممالک کی طرح ترکی کی بھی بے عزتی کرنے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اردگان نے ترکی کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ 26 فروری 1954 کو پیدا ہونیوالے اردگان نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ والد ایک معمولی سرکاری ملازم تھے۔
گزر بسر تنگی سے ہوتی مگر خاندانی عزت اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ چونکہ مذہبی گھرانہ تھا اس لیے اردگان کو ایک دینی مدرسے میں داخل کرایا گیا۔ معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اردگان کا خاندان استنبول منتقل ہوگیا جہاں اردگان نے پانی کی بوتلیں اور ٹافیاں وغیرہ سڑکوں پر بیچنا شروع کیں تعلیم کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ بچپن سے سماجی کاموں میں دلچسپی لی۔ سیاست سے دلچسپی ہوئی تو نجم الدین اربکان کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔
اپنی خداداد صلاحیتوں سے بہت جلد ایک سوجھ بوجھ والے کارکن کے طور پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی نظر میں آگئے پھر پارٹی میں اعلیٰ عہدوں کی جانب بڑھتے گئے۔ 1994 میں استنبول کے میئر منتخب ہوگئے۔ اس وقت استنبول شہر کئی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا تھا سب سے گمبھیر مسئلہ پانی کا تھا۔ آپ نے کئی سو میل لمبی پائپ لائن بچھا کر پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کردیا۔ دیگر مسائل بھی حل کردیے۔ کچھ ہی عرصے میں استنبول کو ایک خوبصورت شہر میں تبدیل کردیا۔ جہاں پہلے کوئی سیاح نہیں آتا تھا اب جوق در جوق ملکی اور غیر ملکی سیاح اس شہر کا رخ کرنے لگے۔
اسی دوران نجم الدین اربکان سے اختلاف کے بعد اپنی نئی پارٹی تشکیل دی جس کا واضح ایجنڈا ترکی کو ایک مثالی ملک بنانا تھا مگر ایک خفیہ ایجنڈا ترکی کے اسلامی تشخص کو بحال کرانا بھی تھا۔ جہاں تک اسلامی تشخص کا معاملہ ہے یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ ترک پارلیمنٹ کے علاوہ ترک فوج بھی ترکی کے سیکولر نظریے کی محافظ تھی۔ نجم الدین اربکان جیسے کئی اسلام پسند رہنما اسلامی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے مگر انھیں مسلسل ناکامی کا سامنا تھا۔
دراصل اس کام کو انجام دینے کے لیے ایک ٹھنڈے مزاج اور پرعزم رہنما کی ضرور تھی۔ اردگان کی ذہانت اور تحمل مزاجی نے یہ کام کر دکھایا۔ چونکہ ترک عوام ان کا دم بھر رہے تھے اور ہر مشکل میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے چنانچہ ان کی سیاسی پارٹی عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ آپ 2003 سے 2014 تک عوام کی تائید سے مسلسل الیکشن جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر ملک میں صدارتی نظام نافذ ہونے سے اب تک ترکی کے صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
آپ کی حکومت کو گرانے کے لیے اب تک تین بغاوتیں ہوچکی ہیں جن میں 15 جولائی 2016 کی بغاوت سے سب سے خطرناک تھی۔ اس بغاوت میں باغی فوجیوں کے علاوہ فتح اللہ گولن بھی اردگان حکومت کو گرانے میں شامل تھے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اس بغاوت کا مرکزی کردار امریکا نے ادا کیا تھا۔ اس بغاوت کو ترک عوام نے ناکام بنادیا تھا۔ انھوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھائیں، کچھ تو ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور اس طرح ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔
ترک عوام اردگان پر دل و جان سے فدا ہیں وہ اس لیے کہ انھوں نے اپنے عوام کو کبھی کسی مرحلے پر مایوس نہیں کیا اور ان کی امنگوں کو پورا کرنا اپنی زندگی کا شعار بنالیا ہے چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے عوام کے حقیقی رہنما ہیں۔ اس وقت کسی اور ملک میں عوام اور حکومت میں ایسی یگانگت کی مثال نہیں ملتی۔ اردگان نے ترکی کو ایک معمولی ملک سے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی صف میں شامل کردیا ہے۔ ملک میں امیر و غریب سب کے لیے مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ استادوں کی تنخواہیں ڈاکٹروں کی تنخواہوں کے برابر ہیں۔
اردگان کی حکومت سے پہلے ترکی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض تھا آپ نے نہ صرف تمام قرض چکا دیا بلکہ الٹا آئی ایم ایف کو 53 ارب ڈالر قرض فراہم کیا۔ اس وقت ترکی میں بے روزگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام کی فی کس آمدنی 3500 ڈالر سے بڑھ کر 11000 ڈالر ہو گئی ہے۔ آج ترکی میں جدید جنگی ہوائی جہازوں سے لے کر ٹینک اور میزائل تک بنائے جا رہے ہیں۔ ترکی گھریلو استعمال کی اشیا کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ پورے ملک میں دینی مدرسوں کا جال بچھادیا گیا ہے سیکڑوں نئی مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ عربی رسم الخط کو دوبارہ متعارف کرایا جا رہا ہے۔
اردگان کی محنت سے ترکی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ آپ دنیا کی تمام مظلوم قوموں کے ترجمان ہیں۔ آپ نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برما کی سخت مذمت کی۔ آپ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ جب اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کی تھی اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود آپ نے وہاں امدادی سامان بھیجا تھا اور ڈیوس کانفرنس میں اسرائیل کی اس بربریت پر اسرائیلی وزیر اعظم کے منہ پر اسرائیلی رویے پر تنقید کی تھی اور انھیں ظالم و جابر قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس کانفرنس کا احتجاجاً بائیکاٹ کردیا تھا۔
آپ کے اس بولڈ اقدام کی دنیا کے تمام مسلمانوں نے تعریف کی تھی۔ ترک قوم نے آپ کی ملک واپسی پر استنبول ایئرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا تھا۔ آپ نے بحیثیت وزیر اعظم اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی کشمیریوں کی حمایت شروع کردی تھی۔آپ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خوداختیاری دینے کی ہمیشہ وکالت کرتے رہتے ہیں۔ اردگان پاکستان سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں وہ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ عمران خان کی حکومت کے بھی زبردست حامی ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں انھوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور بھارت کی جارحیت کی سخت مذمت کی تھی۔
آج اردگان پاکستان سے جو والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں دراصل اس کی جڑیں ماضی سے جڑی ہوئی ہیں۔ دونوں قوموں کا یہ رشتہ قدیم بھی ہے، چٹان کی طرح مضبوط بھی اور اس کا مستقبل بھی تابناک ہے کیونکہ دونوں قوموں کی سوچ ایک جیسی ہے۔ پاکستانی قوم کی ایک تمنا ہے کاش پاکستان میں بھی کوئی رجب اردگان جیسی خوبیوں والا مرد مجاہد عنان حکومت سنبھالے اور پاکستان کے دن پھر جائیں۔