زبانی جمع خرچ
مدر ڈے، فادر ڈے، خواتین ڈے منانے والوں سے پوچھا جائے کہ انھوں نے کیا کارکردگی دکھائی ہے؟
شبانہ اس گھریلو ملازمہ کا نام ہے جو محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے اور میاں کے تمام اخراجات پورے کرتی ہے ، نہیں کرے گی تو دن رات مار کھائے گی، شبانہ کا تعلق اس قوم سے ہے جہاں عورتیں محنت مزدوری کرتی ہیں اور مرد جوا کھیلتے اور نشہ کرتے ہیں اور چارپائی توڑتے ہیں۔
بہت کم ایسے لوگ ہیں جو بیوی کے ساتھ ساتھ خود بھی کام کرتے ہیں اور مل جل کر گھر چلاتے ہیں ، ایسے محنت کش آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرتے اور غیرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
شبانہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اس کا شوہر ہر ماہ کی تنخواہ اس سے وصول کرتا ہے اور دال دلیے کی تھوڑی سی رقم اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، ایک خاص بات اس کے شوہرکو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے اس کی یہی ادا شبانہ کو بھاتی اور اس کے قریب کرتی ہے۔ اسی لیے اس کی ہر بات وہ بغیر کسی شرط کے مان لیتی ہے وہ خود چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیاں دوسروں کے میلے کپڑے دھوئیں اور نہ میلی نظریں ان پر پڑیں۔
لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچی رہیں، وہ یہی سوچتی ہے کہ تکلیف اٹھانے کے لیے میں ہوں نا، میں ہر طرح کی قربانی دے سکتی ہوں اپنی اولاد کے سکھ کے لیے، لہٰذا اس کی بچیاں برادری کے طعنے تشنے سہنے کے باوجود تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئیں اب برادری میں ان کے جوڑ کا رشتہ ملنا مشکل تھا لہٰذا اس کا حل بڑی بیٹی سویرا کے پاس تھا، جب اس نے والدین کو بتایا کہ وہ پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے، غیر برادری میں، تو گویا اس کے گھر میں قیامت اتر آئی، پھر وہی ہوا جو ہوتا آرہا ہے، سویرا نے باپ کی مخالفت اور اس کے تشدد کے باعث راہ فرار اختیار کی، اس کی شادی کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ سویرا کے باپ اور چچا نے ان دونوں کو تلاش کرکے کارو کاری جیسے بھیانک انجام کو پہنچا دیا۔
اس طرح کے واقعات آئے دن اخبار کی زینت بنتے ہیں۔ جہیز نہ لانے کے سبب نوبیاہتا کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، اغوا و تشدد کے واقعات عام ہوچکے ہیں، دفاتر، کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین کی عزتیں خطرے میں ہوتی ہیں زیادہ تر ان کے افسران کی نگاہیں بری ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شریف خاندانوں کی باعزت لڑکیاں ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، اسی طرح محتاج خانوں کی آبادی گزشتہ سالوں میں تیزی سے بڑھی ہے، اولاد اپنے ہاتھوں اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر مختلف اداروں میں چھوڑ آتی ہے، اس طرح گویا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی جنت گنوا دیتے ہیں بلکہ اپنے ماں باپ کی گھر گھرہستی پر بھی قابض ہوجاتے ہیں، وہ ماں جس نے پس انداز کی ہوئی رقم سے ضرورت کی چیزیں خریدیں اپنے گھر کو بنایا سنوارا اور وہ گھر جس کی بنیادوں میں اس کے باپ کا لہو اور ماں کی قناعت اور صبر شامل ہے۔
اس شاکر وصابر عورت نے معمولی پہنا اوڑھا اور سفید پوشی کا بھرم رکھا، اکثر اوقات بھوکی رہی لیکن اپنے بچوں کو چھت فراہم کی لیکن وہی اولاد اس قدر بے رحم اور سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہے، ضعیفی میں جب انھیں مدد اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے تو انھیں گھر سے دربدر اس انداز میں کردیا جاتا ہے، جس طرح اپنے گھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان کباڑیے کو یا پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ ماں، باپ جب تک جیتے ہیں آہیں بھرتے ہیں اور آنکھیں راہ تکتی ہیں کہ وہ آجائیں، جنھیں انھوں نے اپنے ہاتھوں سے پالا اور چلنا سکھایا ہے جن کی ہر ضرورت پوری کی اور جنھیں موسموں کی سنگینی سے بچا کر آرام مہیا کیا تھا، لیکن وہ نہیں آتے۔
مجھے اس وقت مرحوم تشدد، فضا اعظمی کی شاعری یاد آرہی ہے انھوں نے عورت پر عائلی خاندان کی بربادی اور ماں کی عظمت کو درد دل اور قرآن پاک کی روشنی میں بیان کیا ہے:
سر شکِ کرب سے فطرت کو آشکار کیا
لہو سے کشتِ روابط کی آبیاری کی
خلوصِ رشتۂ بے لوث آشکار کیا
تمام خلقِ خدا میں عظیم ہے انساں
خدا گواہ! یقینا عظیم تر ہے ماں
آج عالم یہ ہے کہ لوگ عدت اور نکاح کی عظمت اور اس کے تقدس کو بھول بیٹھے ہیں، نکاح پر نکاح دیدہ دلیری سے کیا جاتا ہے اور بغیر عدت پوری کیے بازاروں اور تفریح گاہوں میں بے حجابانہ گھومنا پھرنا باعث گناہ ہر گز نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح شوبز میں شہرت کی تمنائی کتنی لڑکیوں کو قتل کردیا گیا اور لاشوں کو گلیوں اور کوڑے کرکٹ پر پھینک دیا جاتا ہے وہ اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوپاتیں، قدم رکھتے ہی تاک میں بیٹھے شکاری ان کا گلا دبوچ لیتے ہیں، ماڈلنگ اور اداکاری دور کی بات جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ، تیزاب گردی کے قصے بھی بڑے عام ہوئے، ان دنوں پھر بھی تیزاب سے جھلسنے والی عورتوں کے واقعات میں تھوڑی بہت کمی ضرور ہوئی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ہر سال 8 مارچ کی صبح پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا بھر میں جلوہ گر ہوتی ہے ہمارے ملک میں بھی اسٹیج سجا دیا جاتا ہے فائیو اسٹار ہوٹلوں، ٹی وی چینلز پر مختلف شعبوں سے خواتین کو مدعو کیا جاتا ہے ہر سال ایک ہی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
وہ ظلم کے تپتے صحرا میں روز ازل سے بھٹک رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ کیا جاتا ہے، عملی طور پر حالات جوں کے توں ہیں این جی اوز کی خواتین بیرونی ممالک سے ایک خطیر رقم وصول کرتی ہیں وہ خلوص دل کے ساتھ گاؤں اور گوٹھ میں جاکر علم کے دیے روشن کریں شعور بخشیں تو پنچایت میں ہونے والے فیصلوں کی کوئی وقعت نہ رہے گی لڑکیاں اس قدر بے دردی سے قتل نہ کی جائیں گی شعور اور علم اور وہ بھی دینی علم کی محرومی نے جگہ جگہ مذبح خانے کو فروغ بخشا ہے۔ جہاں انسانوں کا قتل ببانگ دہل کیا جاتا ہے، ماں باپ، بہن بھائیوں کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی محض، زن، زر اور زمین کی خاطر اسلحے کا استعمال کرنے میں ذرہ برابر شرم و غیرت نہیں آتی ہے۔
قاتلوں کو ایسا بھیانک جرم کرنے سے باز نہیں رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرما دیا ہے، قاتل کی بخشش نہیں ہے اور ماں باپ کے ساتھ برا سلوک کرنے والا جہنمی ہے، گویا یہ جرائم گناہ کبیرہ میں شامل ہیں۔ 8 مارچ پر ریلیاں نکالنے والی اور مختلف پروگراموں میں حصہ لینے والی یہ خواتین فیشن کے طور پر شرکت کرتی ہیں، تصویریں بنواتی ہیں جو اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتی ہیں، لیجیے شہرت بھی مل گئی، پیسہ بھی اور دن بھی تفریح طبع کے اعتبار سے شاندار گزرا۔ یہی ملک و قوم کی خدمت ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین میں تبدیلی کی جائے نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں، احکام خداوندی کا نفاذ ہر حال میں ضروری ہے، ہمارے سابقہ حکمرانوں نے علم کی اہمیت و افادیت کو محض اپنے فائدے کے لیے سمجھا ہی نہیں، بس ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ جس قدر چاہو ملک کی دولت لوٹ لی جائے، غریبوں، مسکینوں کے حقوق کو پامال کرنے اور ان کے حصے کی خیرات و زکوٰۃ اور صدقے کی رقم ہڑپ کرنے والے بدترین انجام کے مستحق ہیں اور جو انھوں نے بویا تھا اس کی فصل کاٹی جا رہی ہے ملک کے غدار اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں اور مزید انصاف کے تقاضوں کو پورا ہونے میں دیر نہیں ہے۔
مدر ڈے، فادر ڈے، خواتین ڈے منانے والوں سے پوچھا جائے کہ انھوں نے کیا کارکردگی دکھائی ہے؟ کیا خواتین محفوظ ہوگئی ہیں، والدین شیلٹر ہوم سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں، علمی ادارے وجود میں آگئے ہیں، اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو بس یہی کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب نیت میں فتور ہو اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنا مقصود ہو تو معاشرہ غیر متوازن اور ناہموار ہوجاتا ہے۔
بہت کم ایسے لوگ ہیں جو بیوی کے ساتھ ساتھ خود بھی کام کرتے ہیں اور مل جل کر گھر چلاتے ہیں ، ایسے محنت کش آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرتے اور غیرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
شبانہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اس کا شوہر ہر ماہ کی تنخواہ اس سے وصول کرتا ہے اور دال دلیے کی تھوڑی سی رقم اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، ایک خاص بات اس کے شوہرکو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے اس کی یہی ادا شبانہ کو بھاتی اور اس کے قریب کرتی ہے۔ اسی لیے اس کی ہر بات وہ بغیر کسی شرط کے مان لیتی ہے وہ خود چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیاں دوسروں کے میلے کپڑے دھوئیں اور نہ میلی نظریں ان پر پڑیں۔
لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچی رہیں، وہ یہی سوچتی ہے کہ تکلیف اٹھانے کے لیے میں ہوں نا، میں ہر طرح کی قربانی دے سکتی ہوں اپنی اولاد کے سکھ کے لیے، لہٰذا اس کی بچیاں برادری کے طعنے تشنے سہنے کے باوجود تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئیں اب برادری میں ان کے جوڑ کا رشتہ ملنا مشکل تھا لہٰذا اس کا حل بڑی بیٹی سویرا کے پاس تھا، جب اس نے والدین کو بتایا کہ وہ پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے، غیر برادری میں، تو گویا اس کے گھر میں قیامت اتر آئی، پھر وہی ہوا جو ہوتا آرہا ہے، سویرا نے باپ کی مخالفت اور اس کے تشدد کے باعث راہ فرار اختیار کی، اس کی شادی کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ سویرا کے باپ اور چچا نے ان دونوں کو تلاش کرکے کارو کاری جیسے بھیانک انجام کو پہنچا دیا۔
اس طرح کے واقعات آئے دن اخبار کی زینت بنتے ہیں۔ جہیز نہ لانے کے سبب نوبیاہتا کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، اغوا و تشدد کے واقعات عام ہوچکے ہیں، دفاتر، کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین کی عزتیں خطرے میں ہوتی ہیں زیادہ تر ان کے افسران کی نگاہیں بری ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شریف خاندانوں کی باعزت لڑکیاں ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، اسی طرح محتاج خانوں کی آبادی گزشتہ سالوں میں تیزی سے بڑھی ہے، اولاد اپنے ہاتھوں اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر مختلف اداروں میں چھوڑ آتی ہے، اس طرح گویا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی جنت گنوا دیتے ہیں بلکہ اپنے ماں باپ کی گھر گھرہستی پر بھی قابض ہوجاتے ہیں، وہ ماں جس نے پس انداز کی ہوئی رقم سے ضرورت کی چیزیں خریدیں اپنے گھر کو بنایا سنوارا اور وہ گھر جس کی بنیادوں میں اس کے باپ کا لہو اور ماں کی قناعت اور صبر شامل ہے۔
اس شاکر وصابر عورت نے معمولی پہنا اوڑھا اور سفید پوشی کا بھرم رکھا، اکثر اوقات بھوکی رہی لیکن اپنے بچوں کو چھت فراہم کی لیکن وہی اولاد اس قدر بے رحم اور سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہے، ضعیفی میں جب انھیں مدد اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے تو انھیں گھر سے دربدر اس انداز میں کردیا جاتا ہے، جس طرح اپنے گھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان کباڑیے کو یا پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ ماں، باپ جب تک جیتے ہیں آہیں بھرتے ہیں اور آنکھیں راہ تکتی ہیں کہ وہ آجائیں، جنھیں انھوں نے اپنے ہاتھوں سے پالا اور چلنا سکھایا ہے جن کی ہر ضرورت پوری کی اور جنھیں موسموں کی سنگینی سے بچا کر آرام مہیا کیا تھا، لیکن وہ نہیں آتے۔
مجھے اس وقت مرحوم تشدد، فضا اعظمی کی شاعری یاد آرہی ہے انھوں نے عورت پر عائلی خاندان کی بربادی اور ماں کی عظمت کو درد دل اور قرآن پاک کی روشنی میں بیان کیا ہے:
سر شکِ کرب سے فطرت کو آشکار کیا
لہو سے کشتِ روابط کی آبیاری کی
خلوصِ رشتۂ بے لوث آشکار کیا
تمام خلقِ خدا میں عظیم ہے انساں
خدا گواہ! یقینا عظیم تر ہے ماں
آج عالم یہ ہے کہ لوگ عدت اور نکاح کی عظمت اور اس کے تقدس کو بھول بیٹھے ہیں، نکاح پر نکاح دیدہ دلیری سے کیا جاتا ہے اور بغیر عدت پوری کیے بازاروں اور تفریح گاہوں میں بے حجابانہ گھومنا پھرنا باعث گناہ ہر گز نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح شوبز میں شہرت کی تمنائی کتنی لڑکیوں کو قتل کردیا گیا اور لاشوں کو گلیوں اور کوڑے کرکٹ پر پھینک دیا جاتا ہے وہ اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوپاتیں، قدم رکھتے ہی تاک میں بیٹھے شکاری ان کا گلا دبوچ لیتے ہیں، ماڈلنگ اور اداکاری دور کی بات جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ، تیزاب گردی کے قصے بھی بڑے عام ہوئے، ان دنوں پھر بھی تیزاب سے جھلسنے والی عورتوں کے واقعات میں تھوڑی بہت کمی ضرور ہوئی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ہر سال 8 مارچ کی صبح پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا بھر میں جلوہ گر ہوتی ہے ہمارے ملک میں بھی اسٹیج سجا دیا جاتا ہے فائیو اسٹار ہوٹلوں، ٹی وی چینلز پر مختلف شعبوں سے خواتین کو مدعو کیا جاتا ہے ہر سال ایک ہی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
وہ ظلم کے تپتے صحرا میں روز ازل سے بھٹک رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ کیا جاتا ہے، عملی طور پر حالات جوں کے توں ہیں این جی اوز کی خواتین بیرونی ممالک سے ایک خطیر رقم وصول کرتی ہیں وہ خلوص دل کے ساتھ گاؤں اور گوٹھ میں جاکر علم کے دیے روشن کریں شعور بخشیں تو پنچایت میں ہونے والے فیصلوں کی کوئی وقعت نہ رہے گی لڑکیاں اس قدر بے دردی سے قتل نہ کی جائیں گی شعور اور علم اور وہ بھی دینی علم کی محرومی نے جگہ جگہ مذبح خانے کو فروغ بخشا ہے۔ جہاں انسانوں کا قتل ببانگ دہل کیا جاتا ہے، ماں باپ، بہن بھائیوں کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی محض، زن، زر اور زمین کی خاطر اسلحے کا استعمال کرنے میں ذرہ برابر شرم و غیرت نہیں آتی ہے۔
قاتلوں کو ایسا بھیانک جرم کرنے سے باز نہیں رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرما دیا ہے، قاتل کی بخشش نہیں ہے اور ماں باپ کے ساتھ برا سلوک کرنے والا جہنمی ہے، گویا یہ جرائم گناہ کبیرہ میں شامل ہیں۔ 8 مارچ پر ریلیاں نکالنے والی اور مختلف پروگراموں میں حصہ لینے والی یہ خواتین فیشن کے طور پر شرکت کرتی ہیں، تصویریں بنواتی ہیں جو اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتی ہیں، لیجیے شہرت بھی مل گئی، پیسہ بھی اور دن بھی تفریح طبع کے اعتبار سے شاندار گزرا۔ یہی ملک و قوم کی خدمت ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین میں تبدیلی کی جائے نکاح کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں، احکام خداوندی کا نفاذ ہر حال میں ضروری ہے، ہمارے سابقہ حکمرانوں نے علم کی اہمیت و افادیت کو محض اپنے فائدے کے لیے سمجھا ہی نہیں، بس ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ جس قدر چاہو ملک کی دولت لوٹ لی جائے، غریبوں، مسکینوں کے حقوق کو پامال کرنے اور ان کے حصے کی خیرات و زکوٰۃ اور صدقے کی رقم ہڑپ کرنے والے بدترین انجام کے مستحق ہیں اور جو انھوں نے بویا تھا اس کی فصل کاٹی جا رہی ہے ملک کے غدار اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں اور مزید انصاف کے تقاضوں کو پورا ہونے میں دیر نہیں ہے۔
مدر ڈے، فادر ڈے، خواتین ڈے منانے والوں سے پوچھا جائے کہ انھوں نے کیا کارکردگی دکھائی ہے؟ کیا خواتین محفوظ ہوگئی ہیں، والدین شیلٹر ہوم سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں، علمی ادارے وجود میں آگئے ہیں، اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو بس یہی کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب نیت میں فتور ہو اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنا مقصود ہو تو معاشرہ غیر متوازن اور ناہموار ہوجاتا ہے۔