آہ جاوید بھٹو
یہ زمین اسے اسی اعزاز کے ساتھ اپنے سینے میں دفن کر رہی ہے۔
کبھی کبھی سندھ میں کچھ عجیب سے واقعات رو نما ہوتے ہیں ۔ حیرت بھی ہوتی ہے اورپھر اس بات پر یقین بھی ہے کہ یہ ماٹی پھر سے انگڑائی لینے کے لیے بے تاب ہے، بظاہر تو یہاں وڈیروں کا راج ہے۔انھیں کو ملتا ہے سب کچھ ۔
ہمارے بھٹو بھی انھیں میں سے تھے باغی بنے سرخرو ہوئے اور اگرکہیں کسی کونے سے باغی بننے کی جرات کسی عام آدمی نے کی تو یہاں اسے وہ مقام نہیں ملتا مگر اس بار جب واشنگٹن میں مقیم ایک سندھی فلاسفر جاوید بھٹوکا قتل ہوا ، جوکہ خاندان کے اعتبار سے چھوٹے اورمتوسط طبقے سے تھا لیکن یہ خبر فیس بک پر جنگل میں آگ کی طرح سے پھیلی اور یوں کرتے کرتے اردو انگریزی اخباروں ، خاص طور پر سندھی اخباروں میں صف اول پر اس طرح شائع ہوئی کہ سندھ حکومت سے لے کر ہر ایک کو اس سانحے پر تعزیتی بیان ریکارڈ پر لانا پڑا۔
عجیب تھے ہمارے جاوید بھٹو 64 سال کی عمر پائی ، سندھ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفیات میں پڑھاتے تھے اور پڑھاتے کیا تھے، جیسا فلسفہ تھا ویسے ہی یہ صاحب بھی فلاسفر ، جو بھی خیا ل تھا اس کو اس کی روح میں بیٹھ کے شاگردوں کو سمجھاتے تھے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے تدریسی طریقے سے بہت متاثر تھے۔ کلاس میں نہیں ،کھلے میدانوں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ جاتے، گھنٹوں ،کبھی کبھی تو رات گزر جاتی ، نہ وہ تھکتے نہ ان کے شاگرد اور یوں ان کے شاگردوں کا کارواں بنتارہا۔
کہتے ہیں یونیورسٹی کے مخصوص استادوں کے حلقے کو جاوید بھٹو کے یہ تیور، ان کے شاگردوں کا ان سے پیار، ان کا اپنے سبجیکٹ پر عبور، ان کی جمالیات، عمرانیات سے لے کر سیاست و آرٹ پر عبور اچھا نہ لگا اور پھر یوں جاوید بھٹو سازشوں کا شکارکچھ اس طرح سے ہوئے جس کے منظر آپ کو ہالی ووڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم dead poet society میں ملیں گے۔
پھر کیا ہوا؟ جاوید بھٹو نے اپنا بوریا بستر باندھا اور اپنی بیوی نفیسہ ہود بھائی کے ساتھ واشنگٹن میں رہائش پذیر ہوئے ، وہاں رہتے ہوئے ان کو بیس سال گزر چکے تھے کہ ایک صبح ان کے سیاہ فام پڑوسی جوکہ ذہنی اعتبار سے معقول نہ تھا اس کے ہاتھوں قتل ہوگئے ۔ وہ واشنگٹن کے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے جو اناکوسٹا کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ یہاںسیاہ فام لوگوں کی اکثریت ہے اور علاقے کے حساب سے امریکا کے اندر سب سے زیادہ قتل یہیں ہوتے ہیں۔ یہ ہے امریکا کا گن کلچر جو کسی کو بھی زد میں لے سکتا ہے بے وجہ! وہ گیا بھی تو یہاں سے بے وجہ ہی تھا۔ بولان میڈیکل کالج کا طالب علم تھا ، پڑھتے پڑھتے اکتا سا گیا تھا۔
اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں میں فلسفے کے شعبے میں داخلہ لیا جب ہمارے دوسرے پیارے دوست حاصل بزنجو بھی وہاں طالب علم تھے، پھر بلغاریہ چلے گئے۔ فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے لیے۔ وہ میری طرح یہاں کی لیفٹ کی سیاست سے وابستہ تھے ۔ جب بلغاریہ سے واپس لوٹے تو ہماری ان سے یاری خوب جمی ۔ میں ، جاوید بھٹو اور ڈاکٹر ظفر بلوچ راتوں کو جاگتے اور صبح سو تے۔ ڈھیر ساری باتیں ، فلسفہ ، تاریخ، آرٹ، شاعری، ناول اور فلمیں ۔کبھی بھی کسی کو وقت کے زیاں کا احساس نہ ہوا اور وقت یونہی بہتا رہا۔
یہ انھیں زمانوں کی بات ہے لگ بھگ تیس سال پہلے کہ ایک دن خبر آتی ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ بھٹو ، جو جناح اسپتال میں ہائوس جاب کرتی تھیں ۔ نوابشاہ میڈیکل کالج سے فارغ ہوئی تھیںجاوید بھٹو کی چھوٹی بہن تھیں وہ اچانک دو دن تک غائب رہیں یہ خبر ہمارے لیے کسی سانحہ سے کم نہ تھی اور پھر اچانک خبر ملی کہ اس کو اس دور کے سندھ اسمبلی نوابشاہ شہر سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی رحیم بخش جمالی نے قتل کر کے نعش سپر ہائی وے کے گردو نواح میں پھینک دی۔ ایدھی ویلفیئر کو وہ لاش ملی ۔ایدھی ویلفیئر نے اخبار میں فوٹو دینے کے بعد لاوارث کر کے دفنا دی ۔ ہم نے اس فوٹو کی مدد سے ایدھی ویلفیئر پہنچ کر اس کی قبر کا سراغ لگایا ۔ ایف آئی آر رحیم بخش کے خلاف کٹوائی اور والدہ اور باقی خاندان کے لوگوں کو رات گئے خود گاڑی چلا کر شکارپور چھوڑا۔ وہ گھر کتنا چھوٹا سا تھا ۔ پرانا شکارپور پرانا گھر۔ لعل بخش نامی ایک ڈسپینسر کا گھر جو فوزیہ بھٹو اور جاوید بھٹو کے والد تھے بیٹی کے صدمے سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔
کراچی پہنچ کر ہم نے فوزیہ کے کیس کی داد فریاد کی۔ ہمارے لیفٹ کے صحافیوں، سب نے مل کے اس کیس کو اٹھایا۔ یہ وہی زمانے تھے جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی ہمشیرہ نفیسہ ہود بھائی ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں جو اس وقت ڈان اخبار سے وابستہ تھی اور یوں نفیسہ اور جاوید کا یہ درد کا رشتہ ، رشتہ ازدواج میں تبدیل ہوا۔ فوزیہ بھٹو کے لیے کی گئی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ رحیم بخش جمالی گرفتار تو نہ ہوا مگر بینظیر بھٹو نے اسے پارٹی سے الگ کر دیا۔ آج جب میں کرمنل قانون کا وکیل ہوکر فوزیہ کے اس کیس کو یاد کرتا ہوں تو رونا آتا ہے کہ کس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے پولیس اس کیس کو خراب کر رہی تھی ۔ ان کو تو رحیم جمالی کے فلیٹ سے اس کے پلنگ کے فوم سے خون کے جذب شدہ سیمپل بھی ملے مگر انھوں نے سب مٹا دیے۔
ہم نے فوزیہ کا جسد خاکی وہاں سے لیا جہاں اس کو لاوارث سمجھ کر دفنایا گیا تھا اور شکارپور میں اس کے اجداد کے ساتھ مٹی کے سپرد کیا۔ کتنی کٹھن وہ گھڑیاں تھیں، وہ لمحے تھے۔ جاوید بھٹو ، ظفر بلوچ اور میں گلی گلی سراغ لگاتے تھے۔ کبھی اس اخبارکے دفتر ،کبھی اس اخبار کے ۔ تھانہ ، پولیس اورکچہری غرض کہ انصاف کی خاطر ایک طاقتور کے خلاف ہم نے کون سا در نہ کھٹکھٹایا اور پھر کچھ سال پہلے پھر یہ خبر آئی کہ رحیم بخش جمالی نوابشاہ میں اعتکاف کے دوران قتل ہوگئے۔
ہم سب جاوید کے مداح تھے۔ اسے باتیں کرنا آتا تھا وہ ایک زرخیز ذہن تھا۔ مگر اپنے ہاتھوں کی کوئی تحریر چھوڑ کر نہیں گیا۔ لکھنے کی اسے عادت نہ تھی ان کی ایک شاگرد سحرگل بھٹی نے گھنٹوں بیٹھ کے اس کو ریکارڈ کیا ہے اور اب اس کی یادوں کی اشاعت کے لیے کام شروع کر رہی ہیں۔
جاوید بھٹو کوگزشتہ اتوار شکارپور میں فوزیہ بھٹو اور والد کے عقب میں سپرد خاک کیا گیا ۔ جہاں سے اس زرخیز ذہن نے ہوش سنبھالاتھا ۔ اس کے پاس پہلے تو یہی شکارپور آیا ۔ ایک عظیم تاریخ کا حامل شکارپور جس کا سندھ میں کوئی ثانی نہ تھا ۔ خود کارل مارکس نے ہندوستان پر لکھے ہوئے نوٹس میں شکار پورکا ذکر کیا ہے۔ سندھ جب آزاد ہوا تھا تو اس کے پہلے وزیر اعلیٰ شہید اللہ بخش سومرو اسی شہرسے سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔
جب 1938میں ہندو مسلمان فسادات کو ہوا دی گئی۔ منزل مسجد گاہ کا واقعہ کرایا گیا۔ شہید اللہ بخش سومرو تانگے پر سوار ہوکر شہرکے بازاروں میں نکل پڑتے اور لوگوں کے گھروں میں جا کر لوگوں کہ تاکید کرتے ۔ جب چرچل نے ہندوستان کے لوگوں کے خلاف کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑ دو تحریک'' پر 1943کے زمانے میں نفرت بھری تقریر ہائوس آف کامن کے فلور پر کی تو اس شخص نے جو بھی خطابات انگریز سامراج نے کو دیے تھے وہ واپس کر دیے اور پھر کچھ مہینوں میں اسی شہر میں قتل بھی ہوگئے اسی تانگے پر جب وہ اپنے باغ سے گھرکو جا رہے تھے ۔ اس قتل کا الزام ایوب کھوڑو پر لگا تھا۔
سندھ کے شاہ لطیف کے بعد دوسرے بڑے شاعر شیخ ایاز مانے جاتے ہیں، وہ بھی اسی شہر شکارپور سے تھے۔ آج جب جاوید بھٹو سندھ میں بحیثیت ایک فلاسفر اشک بار آنکھوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے یہ زمین اپنے محسنوں کو جانتی ہے اور اب سندھ نے روایت توڑ دی ہے کہ صرف اسی کو اعلیٰ مقام ملے گا جو وڈیروں کی نسل سے ہوںگے۔
ایک ڈسپینسر کا بیٹا ، جاوید بھٹو جو سچے اورکھرے دانشورکی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور اب یہ زمین اسے اسی اعزاز کے ساتھ اپنے سینے میں دفن کر رہی ہے۔
یہ سب پھر بھی بھٹو ہی ہیں۔ وہ امیر بھٹو تھے اور یہ غریب بھٹو ہیں جن میں شہادت ایک مشترک عمل ہے۔ وہ لاڑکانہ کی مٹی سے تھے اور یہ شکارپورکی مٹی سے ۔ میں نہیں تھا اس وقت جب وہ جاوید کو لحد میں اتار رہے تھے مگر اس کی ہمشیرہ فوزیہ کے وقت میں وہیں تھا جاوید بھٹو کے ساتھ ۔ مجھے کبھی نظر نہیں آیا سندھ کے حوالے سے فیس بک پر اتنا کچھ لکھا گیا ہو جتنا جاوید بھٹو کے حوالے سے تحریریں تھیں۔ فیس بک میں سے جنگوں اور نفرتوں کی باتیں امڈتی ہیں لیکن کبھی کبھی اس فیس بک پر ایسے واقعے بھی لکھے جاتے ہیں جو ایک شخص کو اتنا خراج و عقیدت پیش کرتے ہیں، ایک ایسے سماج میں جہاں غلامی کے طوق بہت گہرے ہیں اور میرٹ مل نہیں پاتی۔ آج جاوید بھٹو کو الوداع کہتے میری آنکھیں اشکبار تو ہیں مگر اب یقین ہو چلا ہے کہ سندھ کے اندر کروٹ یقینی ہو چکی ہے۔ صدیوں سے پہنے غلامی کے طوق ٹوٹ رہے ہیں۔
ہاں مگر فوزیہ بھٹو اور جاوید بھٹوکی اماں اب بھی بقید حیات ہیں یہ غم سہنے کے لیے ۔ یہ سندھ کیا اس عمر رسیدہ ماں کے غم میں شریک ہونے کے لیے کبھی اس کے پاس بھی جائے گا۔ اس سوال کا جواب اہل سندھ کو چاہیے۔
ہمارے بھٹو بھی انھیں میں سے تھے باغی بنے سرخرو ہوئے اور اگرکہیں کسی کونے سے باغی بننے کی جرات کسی عام آدمی نے کی تو یہاں اسے وہ مقام نہیں ملتا مگر اس بار جب واشنگٹن میں مقیم ایک سندھی فلاسفر جاوید بھٹوکا قتل ہوا ، جوکہ خاندان کے اعتبار سے چھوٹے اورمتوسط طبقے سے تھا لیکن یہ خبر فیس بک پر جنگل میں آگ کی طرح سے پھیلی اور یوں کرتے کرتے اردو انگریزی اخباروں ، خاص طور پر سندھی اخباروں میں صف اول پر اس طرح شائع ہوئی کہ سندھ حکومت سے لے کر ہر ایک کو اس سانحے پر تعزیتی بیان ریکارڈ پر لانا پڑا۔
عجیب تھے ہمارے جاوید بھٹو 64 سال کی عمر پائی ، سندھ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفیات میں پڑھاتے تھے اور پڑھاتے کیا تھے، جیسا فلسفہ تھا ویسے ہی یہ صاحب بھی فلاسفر ، جو بھی خیا ل تھا اس کو اس کی روح میں بیٹھ کے شاگردوں کو سمجھاتے تھے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے تدریسی طریقے سے بہت متاثر تھے۔ کلاس میں نہیں ،کھلے میدانوں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ جاتے، گھنٹوں ،کبھی کبھی تو رات گزر جاتی ، نہ وہ تھکتے نہ ان کے شاگرد اور یوں ان کے شاگردوں کا کارواں بنتارہا۔
کہتے ہیں یونیورسٹی کے مخصوص استادوں کے حلقے کو جاوید بھٹو کے یہ تیور، ان کے شاگردوں کا ان سے پیار، ان کا اپنے سبجیکٹ پر عبور، ان کی جمالیات، عمرانیات سے لے کر سیاست و آرٹ پر عبور اچھا نہ لگا اور پھر یوں جاوید بھٹو سازشوں کا شکارکچھ اس طرح سے ہوئے جس کے منظر آپ کو ہالی ووڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم dead poet society میں ملیں گے۔
پھر کیا ہوا؟ جاوید بھٹو نے اپنا بوریا بستر باندھا اور اپنی بیوی نفیسہ ہود بھائی کے ساتھ واشنگٹن میں رہائش پذیر ہوئے ، وہاں رہتے ہوئے ان کو بیس سال گزر چکے تھے کہ ایک صبح ان کے سیاہ فام پڑوسی جوکہ ذہنی اعتبار سے معقول نہ تھا اس کے ہاتھوں قتل ہوگئے ۔ وہ واشنگٹن کے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے جو اناکوسٹا کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ یہاںسیاہ فام لوگوں کی اکثریت ہے اور علاقے کے حساب سے امریکا کے اندر سب سے زیادہ قتل یہیں ہوتے ہیں۔ یہ ہے امریکا کا گن کلچر جو کسی کو بھی زد میں لے سکتا ہے بے وجہ! وہ گیا بھی تو یہاں سے بے وجہ ہی تھا۔ بولان میڈیکل کالج کا طالب علم تھا ، پڑھتے پڑھتے اکتا سا گیا تھا۔
اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں میں فلسفے کے شعبے میں داخلہ لیا جب ہمارے دوسرے پیارے دوست حاصل بزنجو بھی وہاں طالب علم تھے، پھر بلغاریہ چلے گئے۔ فلسفہ میں ماسٹرز کرنے کے لیے۔ وہ میری طرح یہاں کی لیفٹ کی سیاست سے وابستہ تھے ۔ جب بلغاریہ سے واپس لوٹے تو ہماری ان سے یاری خوب جمی ۔ میں ، جاوید بھٹو اور ڈاکٹر ظفر بلوچ راتوں کو جاگتے اور صبح سو تے۔ ڈھیر ساری باتیں ، فلسفہ ، تاریخ، آرٹ، شاعری، ناول اور فلمیں ۔کبھی بھی کسی کو وقت کے زیاں کا احساس نہ ہوا اور وقت یونہی بہتا رہا۔
یہ انھیں زمانوں کی بات ہے لگ بھگ تیس سال پہلے کہ ایک دن خبر آتی ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ بھٹو ، جو جناح اسپتال میں ہائوس جاب کرتی تھیں ۔ نوابشاہ میڈیکل کالج سے فارغ ہوئی تھیںجاوید بھٹو کی چھوٹی بہن تھیں وہ اچانک دو دن تک غائب رہیں یہ خبر ہمارے لیے کسی سانحہ سے کم نہ تھی اور پھر اچانک خبر ملی کہ اس کو اس دور کے سندھ اسمبلی نوابشاہ شہر سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی رحیم بخش جمالی نے قتل کر کے نعش سپر ہائی وے کے گردو نواح میں پھینک دی۔ ایدھی ویلفیئر کو وہ لاش ملی ۔ایدھی ویلفیئر نے اخبار میں فوٹو دینے کے بعد لاوارث کر کے دفنا دی ۔ ہم نے اس فوٹو کی مدد سے ایدھی ویلفیئر پہنچ کر اس کی قبر کا سراغ لگایا ۔ ایف آئی آر رحیم بخش کے خلاف کٹوائی اور والدہ اور باقی خاندان کے لوگوں کو رات گئے خود گاڑی چلا کر شکارپور چھوڑا۔ وہ گھر کتنا چھوٹا سا تھا ۔ پرانا شکارپور پرانا گھر۔ لعل بخش نامی ایک ڈسپینسر کا گھر جو فوزیہ بھٹو اور جاوید بھٹو کے والد تھے بیٹی کے صدمے سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔
کراچی پہنچ کر ہم نے فوزیہ کے کیس کی داد فریاد کی۔ ہمارے لیفٹ کے صحافیوں، سب نے مل کے اس کیس کو اٹھایا۔ یہ وہی زمانے تھے جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی ہمشیرہ نفیسہ ہود بھائی ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں جو اس وقت ڈان اخبار سے وابستہ تھی اور یوں نفیسہ اور جاوید کا یہ درد کا رشتہ ، رشتہ ازدواج میں تبدیل ہوا۔ فوزیہ بھٹو کے لیے کی گئی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ رحیم بخش جمالی گرفتار تو نہ ہوا مگر بینظیر بھٹو نے اسے پارٹی سے الگ کر دیا۔ آج جب میں کرمنل قانون کا وکیل ہوکر فوزیہ کے اس کیس کو یاد کرتا ہوں تو رونا آتا ہے کہ کس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے پولیس اس کیس کو خراب کر رہی تھی ۔ ان کو تو رحیم جمالی کے فلیٹ سے اس کے پلنگ کے فوم سے خون کے جذب شدہ سیمپل بھی ملے مگر انھوں نے سب مٹا دیے۔
ہم نے فوزیہ کا جسد خاکی وہاں سے لیا جہاں اس کو لاوارث سمجھ کر دفنایا گیا تھا اور شکارپور میں اس کے اجداد کے ساتھ مٹی کے سپرد کیا۔ کتنی کٹھن وہ گھڑیاں تھیں، وہ لمحے تھے۔ جاوید بھٹو ، ظفر بلوچ اور میں گلی گلی سراغ لگاتے تھے۔ کبھی اس اخبارکے دفتر ،کبھی اس اخبار کے ۔ تھانہ ، پولیس اورکچہری غرض کہ انصاف کی خاطر ایک طاقتور کے خلاف ہم نے کون سا در نہ کھٹکھٹایا اور پھر کچھ سال پہلے پھر یہ خبر آئی کہ رحیم بخش جمالی نوابشاہ میں اعتکاف کے دوران قتل ہوگئے۔
ہم سب جاوید کے مداح تھے۔ اسے باتیں کرنا آتا تھا وہ ایک زرخیز ذہن تھا۔ مگر اپنے ہاتھوں کی کوئی تحریر چھوڑ کر نہیں گیا۔ لکھنے کی اسے عادت نہ تھی ان کی ایک شاگرد سحرگل بھٹی نے گھنٹوں بیٹھ کے اس کو ریکارڈ کیا ہے اور اب اس کی یادوں کی اشاعت کے لیے کام شروع کر رہی ہیں۔
جاوید بھٹو کوگزشتہ اتوار شکارپور میں فوزیہ بھٹو اور والد کے عقب میں سپرد خاک کیا گیا ۔ جہاں سے اس زرخیز ذہن نے ہوش سنبھالاتھا ۔ اس کے پاس پہلے تو یہی شکارپور آیا ۔ ایک عظیم تاریخ کا حامل شکارپور جس کا سندھ میں کوئی ثانی نہ تھا ۔ خود کارل مارکس نے ہندوستان پر لکھے ہوئے نوٹس میں شکار پورکا ذکر کیا ہے۔ سندھ جب آزاد ہوا تھا تو اس کے پہلے وزیر اعلیٰ شہید اللہ بخش سومرو اسی شہرسے سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔
جب 1938میں ہندو مسلمان فسادات کو ہوا دی گئی۔ منزل مسجد گاہ کا واقعہ کرایا گیا۔ شہید اللہ بخش سومرو تانگے پر سوار ہوکر شہرکے بازاروں میں نکل پڑتے اور لوگوں کے گھروں میں جا کر لوگوں کہ تاکید کرتے ۔ جب چرچل نے ہندوستان کے لوگوں کے خلاف کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑ دو تحریک'' پر 1943کے زمانے میں نفرت بھری تقریر ہائوس آف کامن کے فلور پر کی تو اس شخص نے جو بھی خطابات انگریز سامراج نے کو دیے تھے وہ واپس کر دیے اور پھر کچھ مہینوں میں اسی شہر میں قتل بھی ہوگئے اسی تانگے پر جب وہ اپنے باغ سے گھرکو جا رہے تھے ۔ اس قتل کا الزام ایوب کھوڑو پر لگا تھا۔
سندھ کے شاہ لطیف کے بعد دوسرے بڑے شاعر شیخ ایاز مانے جاتے ہیں، وہ بھی اسی شہر شکارپور سے تھے۔ آج جب جاوید بھٹو سندھ میں بحیثیت ایک فلاسفر اشک بار آنکھوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے یہ زمین اپنے محسنوں کو جانتی ہے اور اب سندھ نے روایت توڑ دی ہے کہ صرف اسی کو اعلیٰ مقام ملے گا جو وڈیروں کی نسل سے ہوںگے۔
ایک ڈسپینسر کا بیٹا ، جاوید بھٹو جو سچے اورکھرے دانشورکی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور اب یہ زمین اسے اسی اعزاز کے ساتھ اپنے سینے میں دفن کر رہی ہے۔
یہ سب پھر بھی بھٹو ہی ہیں۔ وہ امیر بھٹو تھے اور یہ غریب بھٹو ہیں جن میں شہادت ایک مشترک عمل ہے۔ وہ لاڑکانہ کی مٹی سے تھے اور یہ شکارپورکی مٹی سے ۔ میں نہیں تھا اس وقت جب وہ جاوید کو لحد میں اتار رہے تھے مگر اس کی ہمشیرہ فوزیہ کے وقت میں وہیں تھا جاوید بھٹو کے ساتھ ۔ مجھے کبھی نظر نہیں آیا سندھ کے حوالے سے فیس بک پر اتنا کچھ لکھا گیا ہو جتنا جاوید بھٹو کے حوالے سے تحریریں تھیں۔ فیس بک میں سے جنگوں اور نفرتوں کی باتیں امڈتی ہیں لیکن کبھی کبھی اس فیس بک پر ایسے واقعے بھی لکھے جاتے ہیں جو ایک شخص کو اتنا خراج و عقیدت پیش کرتے ہیں، ایک ایسے سماج میں جہاں غلامی کے طوق بہت گہرے ہیں اور میرٹ مل نہیں پاتی۔ آج جاوید بھٹو کو الوداع کہتے میری آنکھیں اشکبار تو ہیں مگر اب یقین ہو چلا ہے کہ سندھ کے اندر کروٹ یقینی ہو چکی ہے۔ صدیوں سے پہنے غلامی کے طوق ٹوٹ رہے ہیں۔
ہاں مگر فوزیہ بھٹو اور جاوید بھٹوکی اماں اب بھی بقید حیات ہیں یہ غم سہنے کے لیے ۔ یہ سندھ کیا اس عمر رسیدہ ماں کے غم میں شریک ہونے کے لیے کبھی اس کے پاس بھی جائے گا۔ اس سوال کا جواب اہل سندھ کو چاہیے۔