زنداں یا زیر زمین

خدا کی قدرت کہ انھوں نے عدالتوں کی بطور ملزم پیشیاں بھگتیں اور پھر سزا کا دن بھی دیکھنا پڑا۔

h.sethi@hotmail.com

سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے بلوغت شرط ہے اور کوئی کتنا ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ یا قابل ہو Lower Age Limit ریلیکس نہیں ہو سکتی جب کہ قانون میں اپر ایج لمٹ کو Relax کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

1986یا 1987 کی بات ہے یونس خاں سیکریٹری ایکسائز و ٹیکسیشن نے مجھے ایک MNA کے بیٹے کی جس کی عمر 16 سال تھی درخواست پکڑائی جو انسپکٹر ایکسائز و ٹیکسیشن تعینات ہونا چاہتا تھا اس درخواست پر متعلقہ صوبائی منسٹر کے احکامات درج تھے میں نے قانون و ضوابط کا حوالہ دے کر وزیر صاحب کے لیے Summary تیار کی جس میں درخواست دہندہ کے نابالغ ہونے کی وجہ سے ضابطہ کی کاپی ہمراہ شامل کر کے لکھا کہ درخواست دہندہ Under age ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمت کا اہل نہیں ۔

چند روز کے بعد سمری واپس آئی جس پر منسٹر صاحب نے اپنے قلم سے لکھا تھا Appoint him" "Now ظاہر ہے یونس خاں صاحب کے پاس حکم عدولی کے سوا کوئی رستہ نہ تھا اور پہلی بار تھی کہ مجھے میاں نواز شریف صوبائی وزیر کا نام معلوم ہوا۔ وہ درخواست مع سمری متعلقہ دفتر کے ریکارڈ میں موجود ہو گی۔ اس واقعہ کے دس سال بعد متعلقہ محکمہ میں بے شمار Summaries دیکھنے کا موقع ملا جن کے مطابق صاحب حیثیت مستحقین کو Reserve Price پر پلاٹ الاٹ ہوتے تھے لیکن ان سمریوں پر CM کی بجائے ان کے معتمد سیکریٹری کے دستخطوں کے ساتھ الاٹمنٹ آرڈر جاری ہوتے تھے۔

سی ایم صاحب نے کئی ہزار مستحقین کو جن کے بچوں کے سر پر چھت نہ تھی پلاٹ دیے اور بے شمار مستحقین نے یا تو ان پر چند ماہ کے اندر کاغذی یعنی فرضی مکان بنا کر یا پھر پلاننگ کے تحت سستے داموں پلاٹ ہی فروخت کر دیئے ان دنوں ایسے Reserve Price پر حاصل کردہ CM کوٹہ کے پلاٹوں کی سیل لگی رہتی تھی جو Investors ہاتھوں ہاتھ الاٹیوں سے خرید کر بیچ رہے تھے۔ متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک ملازم روزانہ پندرہ بیس Summary Files لے کر جاتا تھا اور دو تین گھنٹے بعد ہر فائل پر Steriotyped الاٹمنٹ آرڈرز لے کر واپس آ جاتا تھا۔

دعا ہے کہ خدا سب کو اپنی امان میں اور بیماری سے بچائے رکھے لیکن ہمارے ملک میں رپورٹ ہے کہ زیرتفتیش ایک ملزم کو حکمرانوں ہی نے حکومتی ہوائی جہازمیں بیرون ملک فرار کروایا تھا لیکن وہ اہم عہدے پر براجمان ملزم عدالت کے طلب کرنے پر حاضر ہونے سے نہ صرف انکاری ہوا بلکہ وزارت کا عہدہ رکھتے ہوئے Absconder ڈکلیئر ہوا ہے پاکستان جیسے ملکوں میں حکمرانوں کے بچے اپنے ہی ملک میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں لیکن کچھ دور اندیش حکمران اپنے کچھ بچوں کو برطانیہ وغیرہ میں Settle کر کے کاروبار کرواتے ہیں تاکہ ہندی محاورہ '' راجہ بیوپاری پرجا بھکاری '' ان پر سیدھا چسپاں نہ ہو۔


خدا ہمارے ملک کے تین بار وزیر ِ اعظم رہنے والے میاں صاحب کو تندرست و توانا رکھے پس زنداں جانے سے پہلے وہ ملک کے کونے کونے میں پبلک جلسے کرنے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ خدا کی قدرت کہ انھوں نے عدالتوں کی بطور ملزم پیشیاں بھگتیں اور پھر سزا کا دن بھی دیکھنا پڑا حالانکہ ایسا انجام ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا لیکن اس وقت وہ کئی بیماریوں کی شکایت کرتے ہیں۔ اب ان کی بیماریوں کا تو چرچا ہے لیکن وہ علاج کروانے سے انکاری ہیںجب کہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی اور دوسری یعنی PPP حزب مخالف نمبر2 مل کر ان کی بیماری پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں جس نے حکمران پارٹی کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔

اب تو میاں صاحب کی حمایت میں یہ مزاحیہ بیان بھی دیا جا رہا ہے کہ اگر انھیں علاج کروانے سے انکار کے نتیجے میں کچھ ہو گیا تو وزیر ِ اعظم عمران خاں پر قتل عمد کا مقدمہ بنے گا۔ میاں صاحب جیل کے گھٹن والے ماحول کی بجائے کھلی اور خوشگوار فضا والی جگہ علاج کروانے پر مصر ہیں بہ الفاظ دیگر وہ پاکستان کی بجائے لندن جا کر علاج کروانے کا عندیہ دے رہے ہیں لیکن ان کی اس خواہش کو پورا کرنا قانوناً حکومت کے اختیار میں نہیں۔

پرانی بات نہیں گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا کے متعدد حکمرانوں کو دیکھا جنہوں نے بیس تیس سال کا طویل عرصہ ایک ڈکٹیٹر کی طرح اپنے ملکوں میں بلا شرکت غیرے حکومت کی لیکن جب اللہ کی پکڑ کا وقت آیا تو اختتام حیات تک کال کوٹھڑی میں رہ کر زندگی کے باقی دن گزار ے۔

اگر سیاسی حکمران محنتی قابل اور دیانت و امانتدار ہوں تو State کے دوسرے ستون یعنی بیوروکریسی و جوڈیشری جن میں اب پاکستان کے حوالے سے آرمڈ فورسز بھی شامل ہیں قانون ، اصول اور ضوابط سے انحراف نہیں کر سکتے۔ یہاں مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ وہی سول حکومتیں بنا کر ملک پر Rule کرتے ہیں لیکن بہت بڑی تعداد پارلیمینٹرینز کی ایسی ہوتی ہے جن کے ذہن اور پلان میں الیکشن میں کیے گئے اخراجات کی Recovery ہوتی ہے نہ کہ قانون سازی۔ اور اسمبلیوں کی اکثر نشستیں خالی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اچھا ہو اگر ان کے داخلی رستوں پر برٹش پارلیمنٹ کی چند تصاویر آویزاں ہو سکیں جس کی سادگی بھی قابل دید ہے اور ٹیلیوژن پر اس کے دوران کاروائی والے مناظر بھی قابل تعریف ہوتے ہیں کہ کوئی کرسی خالی نظر نہیں آتی۔

بہت سے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں حکومت کرنے کی مدت اور ایک سے زیادہ بار الیکشن میں حکمرانی یعنی صدارت یا وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بننے کی Term طے ہے لیکن جہاں کوئی حکمران بار بار الیکشن لڑ کر چاہے وہ Rigged ہو یا Manipulated حکمرانی کے مزے لوٹنے کا بندوبست کرتا ہو جان لیں کہ وہ کرپٹ ہے اور اسے ملکی دولت لوٹنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ مندرجہ بالا نو صرف نو حکمران جن کو کرپشن کی بنا پر سزائیں ہوئیں ثبوت ہیں کہ تا دمِ مرگ حکمرانی کی لالچ زنداں میں یا زیر ِ زمیں لے جاتی ہے۔
Load Next Story