سیاست کا ایک گرم پہلو

یہ بات تو طے ہے کہ اس جال میں پھنسنے کے لیے پرندوں کا انتخاب ہو چکا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

آج کی سیاست کی سب سے گرم خبر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خرابی صحت کے بارے میں زبان زد عام ہے۔ میاں صاحب عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا بھگت رہے ہیں اور لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں ۔

کوٹ لکھپت جیل ان کی پرانی رہائش گاہ ماڈل ٹائون کے نزدیک واقع ہے لیکن میاں صاحب نے اب اپنی رہائش بدل لی ہے اور وہ ماڈل ٹائون سے منتقل کر کے رائے ونڈ کے نواح میں ان کے خاندان کی جانب سے بسائی جانے والی نئی بستی جاتی عمرا میں مقیم ہو گئے ہیں جہاں ان کے آس پاس چاروں طرف کھیت اور کھلیان ہیں جہاں سے ان کو تازہ اور صاف ہوا کے جھونکے مسلسل آتے رہتے ہیں لیکن برا ہو اقتدار کی ہوس اور طاقت کے نشے کا کہ میاں نواز شریف چار دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ڈھلتی عمر میں اپنے پرانے پیشے اور اپنوں سے دور کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دن گزار رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کا خاندان دل کا پرانا مریض ہے، ان کے والد مرحوم میاں شریف بھی ڈاکٹر شہر یار شیخ کے مریض رہے ہیں بلکہ اگر انھوں نے بیرون ملک علاج کے لیے جانا ہوتا تھا تو شہر یار بھی ان کے ساتھ جاتے تھے۔ خود میاں نواز شریف کی دل کی بیماری بھی بہت پرانی ہے۔ وہ بائی پاس بھی کرا چکے ہیں لیکن ان کا دل پھر بھی اپنی دھڑکن درست نہیں کر پا رہا اور اب جیل میں ان کی پرانی بیماری عود کر آئی ہے ۔

میری ناقص اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف دل کی جس بیماری کا شکار ہیں اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔ مجھے اس کے بارے میں تھوڑی بہت شدھ بد اس لیے بھی ہے کہ دل کی یہی بیماری میرے ایک قریبی عزیز کو بھی لاحق ہے اور اس کو بھی ڈاکٹروں نے بیرون ملک علاج کا مشورہ دے رکھا ہے۔

یہی وہ وجہ ہے جو میاں نواز شریف کو اسپتال منتقلی سے روک رہی ہے وہ خود یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے دل کا علاج بیرون ملک ہی ممکن ہے اس لیے ان کے رفقاء اس بات پر زور دے ہیں کہ حکومت علاج کے لیے میاں صاحب کو بیرون ملک بھجوا دے لیکن دوسری طرف حکومتی رد عمل اس کے برعکس ہے۔ حکومتی ترجمانوں کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے میں حکومت کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی بلکہ میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی عدالت سے مشروط ہے ۔

حکومت کے بڑے ترجمان فواد چوہدری کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے پاس بیرون ملک جانے کے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ عدالت سے اپنے کیس کی ضمانت کرا لیں یا پھر دوسرے لفظوں میں ان کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نیب سے پلی بارگین کر لیں یعنی وہ یہ مان جائیں کہ ان پر جو کیس کیے گئے ہیں وہ درست ہیں اور اس طرح وہ نیب سے معاملہ طے کر کے بیرون ملک روانہ ہو جائیں ۔

اس ضمن میں یہ بات عرض کی جا سکتی ہے کہ میاں نواز کی عدالت سے رہائی تو عدالت کا معاملہ ہے اور اس کے بارے میں وکیل بہتر جانتے ہیں لیکن اگر میاں نواز شریف نیب سے پلی بارگین کرتے ہیں تو گویا وہ خود اپنے اور اپنے خاندان کی سیاست کا مکمل خاتمہ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جب یہ بات مان جائیں گے کہ ان کے ذمے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں اور وہ ان کا خمیازہ قومی خزانے میں روپے پیسے جمع کرا کر بھگتنے کو تیار ہیں تو پھر پاکستان کی سیاست میں ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میاں نواز شریف اس وقت دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں اور فی الحال یہ دونوں راستے کسی اچھی منزل کی طرف جاتے نظر نہیں آ رہے ۔


میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان جیل میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں تبصرے جاری ہیں۔ اس نازک وقت میں نوجوان بلاول بھٹو نے میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کو سیاسی طور پر سہارا دینے کی کوشش کی ہے ۔ بلاول بھٹو نے اس ملاقات سے حکومت پر اپنا دبائو بڑھانے کی کوشش کی ہے اور دونوں رہنمائوں نے جمہوریت کی خاطر مشترکہ جدو جہد پر آمادگی بھی ظاہر کی ہے۔

بلاول کی جیل میں ملاقات کے بعد میاں نواز شریف نے تما م جماعتوں کو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے میثاق جمہوریت کا پیغام دیتے ہوئے انھیں خوش آمدید کہا ہے ۔ اپوزیشن کی جماعتیں رفتہ رفتہ حکومت پر اپنا دبائو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ چونکہ حکومت اپنی ابتدائی کارکردگی سے عوام کو متاثر کرنے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے اور نظام بدلنے کے دعوئوں کے باوجود کوئی واضح تبدیلی بھی نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی حکومت پر اپنا دبائو بڑھا کر مراعات حاصل کر رہی ہیں۔ جب کہ اپوزیشن کی جماعتیں اپنے معاملات سدھارنے کے لیے حکومت کو آنکھیں دکھانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ باری سب کی آنی ہے۔

میاں نواز شریف اس کا پہلا شکار بنے ہیں جب کہ شکاری مزید پرندوں کو پھنسانے کے لیے جال لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن ان پرندوں نے جال میں پھنسنے سے پہلے ہی پھڑ پھڑانا شروع کر دیا ہے اور اس کوشش میں ہیں کہ جال ان تک پہنچ نہ پائے یا پھر وہ جال سے کنی کترا جائیں ۔

بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ اس جال میں پھنسنے کے لیے پرندوں کا انتخاب ہو چکا ہے۔ لیکن جو پرندہ میاں نواز شریف کی صورت میں پکڑا جا چکا ہے اس کی صحت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بیرون ملک علاج کی اجازت دینے سے حکومت کی نیک نامی میں اضا فہ ہو گا اور یہ بات سند ہو گی کہ حکومت کسی کے ساتھ انتقامی کاروائی میں ملوث نہیں۔ میاں نواز شریف اس رعائت کے مستحق ہیں ان کی اس ملک کے لیے خدمات کی ایک طویل فہرست ہے اور خاص طور ملک اس نازک صورتحال میں اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ عوام کا ایک مقبول رہنما جیل میںپڑا علاج کی اپیلیں کرتا رہے ۔ حکومت کو انسانی ہمدردی کے تحت اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ۔ میاں صاحب کی بیرون ملک علاج کے بعد واپسی کی ضمانت ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف بخوشی دینے کو تیار ہوں گے۔ حسرتؔ موہانی نے شاید میاں نواز شریف کے لیے یہ کہا تھا۔۔۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طُرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

جوچاہو سزا دے لو تم اور بھی کُھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لوکی ہو جو شکایت بھی
Load Next Story