پاکستان کو عالمی ثالثیوں کی تلاش ہے
یہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دونوں کی آزمائش ہے
ہمارے وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی، خوشخبری سناتے ہیں کہ پاک ، بھارت جنگ کے سائے چھَٹ گئے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے بعض قریبی دوست وسیلہ اور واسطہ بنے ہیں جس نے پاکستان اور بھارت کو کسی بڑے تصادم سے بچایا ہے۔
پسِ پردہ امریکا ، سعودی عرب اور چین کا کردار نظر آ رہا ہے۔ اگر خدا نخواستہ دونوں ملکوں کی میدانِ جنگ ہوتی تو دونوں خسارے میں رہتے ۔ جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن مستقل امن کے لیے پاکستان اپنے وزیر خارجہ کے توسط سے عالمی ثالثیوں کی تلاش میں ہے ۔رُوس نے پاکستان اور بھارت میں (خصوصاً تنازع کشمیر کے حوالے سے) ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
بھارت کی ضد مگر برقرار ہے کہ اُسے پاکستان کے حوالے سے کسی عالمی ثالثی کی احتیاج نہیں ہے۔ رُوس میں متعین بھارتی سفیر نے عالمی میڈیا سے مخاطب ہوتے ہُوئے یوں کہا ہے کہ'' ہمیں رُوس سمیت (پاکستان سے مکالمہ کرنے کے لیے)کسی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔''بھارتی انکار کے باوجودپا کستان مگر پھر بھی کسی موثر اور طرحدار ثالثی کا متلاشی ہے ۔
مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ( چین کے ویٹو کرنے پر) اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھارت کو چوتھی بار جس پسپائی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اِس پر پاکستان کے خلاف بھارتی طیش میں مزید اضافہ ہُوا ہے ۔ ایسے میں پاکستان کے حوالے سے کسی عالمی ثالثی اور درمیان دار کو قبول کرنا اُس کے لیے خاصا دشوار ہے۔
بعض عالمی تجزیہ کاروں کا مگر کہنا ہے کہ اب چین ثالثی کی شکل میں سامنے ضرور آئیگا۔ مثال کے طور پر مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل میں وقوع پذیر ہونے والے تازہ فیصلے کے پس منظر میں چین میں بروئے کار بی بی سی کے نمایندے ایڈراج راٹھور نے بیجنگ میں رہنے والے سینئر صحافی ،اتل انیجا، سے اِسی پس منظر میں گفتگو کی تو انھوں نے یوں کہا:''اگر آپ قلیل المدتی نظریہ سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھارتی شکست ہے، لیکن مسعود اظہر اور دہشتگردی کا مسئلہ طویل المدتی مسئلہ ہے۔
چین طویل المدتی سفارتکاری کر رہا ہے کیونکہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا ہے۔چین نے اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان بھیجا اور انڈیا سے بھی بات کرکے ثالثی کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت قریبی ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ چین اب اس گفتگو میں انڈیا کو کیسے شامل کرتا ہے۔ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے (جب سے چین اور انڈیا کے درمیان ڈوکلام تنازع ہوا ہے) چین اپنی سفارت کاری کے تحت انڈیا کو بات چیت میں شامل کر رہا ہے۔
اس تبدیلی کو آپ عالمی منظر نامے میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جب سے چین اور امریکا کے تعلقات ناساز ہوئے ہیں، چین اب دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ چین کی سفارتکاری موجودہ سال میں بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔
تاہم اس میں پاکستان کا پلڑا اب بھی بھاری ہے۔'' وہ مزید کہتے ہیں: '' سعودی عرب کی طرح چین بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا ہے ۔چین بار بار بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرنے میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ وہ ایک ایسے نتیجے پر پہنچے جس سے پاکستان بھی ناراض نہ ہو اور انڈیا کے ساتھ اس کے نئے تعلقات بھی متاثر نہ ہوں۔یہ توازن بنائے رکھنا تھوڑا مشکل ہے، لیکن اگر چین ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک منصوبہ بنانا ہوگا، جس میں انڈیا اور پاکستان دونوں کے مفادات کو سامنے رکھا جائے۔
لگتا ہے کہ اس سمت میں کام جاری ہے۔ چین کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے سے واپس آ چکے ہیں ۔ انھوں نے انڈیا کے دَورے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ اب یہ انڈیا پر ہے کہ وہ کس طرح چین کے اس اقدام کا جواب دیتا ہے اور پاکستان کے حوالے سے چین کی ثالثی کی خواہش اور کوشش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔''
پلوامہ ( مقبوضہ کشمیر) میں خود کش سانحہ کے بعد امریکیوں اور مغربیوں کا بھارت کی طرف جھکاؤ واضح طور پر سامنے آیا ہے ۔ ایسے میں بھارت کی اکڑ میں اضافہ ہُوا ہے ۔ پھر وہ کسی عالمی ثالثی کا دامن کیوں تھامے گا؟ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نریندر مودی کے ساتھ ہے اور مودی جی انتخابات سے قبل کسی ثالثی کے ساتھ بیٹھ کر اپنا انتخابی' نقصان' برداشت نہیں کرنا چاہتے ۔ پاکستان کو بہرحال ثالثیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ ایران سے بھی درخواست کی جا سکتی ہے۔
ایرانی اور بھارتی تعلقات مضبوط ہیں ۔بھارت ایرانی تیل کا دُنیا میں دوسرا بڑا خریدار ہے۔ دونوں نے اسٹرٹیجک معاہدوں پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔سیستان میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ کے پس منظر میں اگرچہ ایران نے پاکستان کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود پاکستان بیک چینل ڈپلومیسی بروئے کار لاتے ہُوئے ایران کا ثالثی کردار مانگ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ایرانی صدر جناب حسن روحانی کے درمیان جو ٹیلیفونک گفتگو ہُوئی ، اس نے دونوں کے درمیان برف پگھلائی ہے۔
اس موقع سے پاکستان استفادہ کر سکتا ہے ۔پاکستان کو مسائل کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے دوستوں اور اعانت کاروں کی بے حد ضرورت ہے۔پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے ایرانی ثالثی کردار شائد سعودی عرب کے لیے ناقابلِ قبول ہو مگر ایران ، سعودی کشمکش کی موجودگی میں بھارت سے ایرانی تعلقات کا فائدہ اٹھانا پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ذہانت اور فنکاری کا ایک امتحان ہے۔
چین کے بعد سعودی عرب بھی آگے بڑھ کر پاکستان اور بھارت میںثالثی کا کردار نبھانے کا خواہشمند دکھائی دے رہا ہے ۔ اس میںپاکستان کی خواہش بھی شامل لگتی ہے ۔ او آئی سی نے اپنے تازہ اسلامی وزرا خارجہ کانفرنس میں (پاکستانی ناراضی کے باوصف)''محبت'' سے بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا۔ یوں او آئی سی کا فورم بھی پاک ، بھارت ثالثی کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ۔ سعودی عرب کو مگر پاکستان میں جو اثرو رسوخ حاصل ہے ، وہ او آئی سی کے مجموعی کردارسے یقیناً زیادہ فعال اور قابلِ اعتبار ہے۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی حالیہ پاک ، بھارت دَوروں میں دونوں ممالک کی کشیدگی کم کرانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ فوری نتیجہ تو مگر کوئی سامنے نہیں آ سکا تھا لیکن بعد کے حالات نے واضح کیا ہے کہ یہ کوششیں بے ثمر نہیں گئی تھیں۔ مارچ 2019کے دوسرے ہفتے (یقیناًسعودی بادشاہ اور سعودی ولی عہد کے حکم سے) سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر صاحب نے پاکستان کا دَورہ کیا ۔
یہاں وہ ہمارے تینوں بڑوں سے ملے۔ پاکستان کے بعد وہ بھارت بھی پہنچے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ملاقات کی۔ تین ہفتوں کے مختصر وقت میں عادل الجبیر کی پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ سے یہ تیسری ملاقات تھی۔ اندازے ہیں کہ وہ پاکستان کا کوئی خاص پیغام لے کر بھارت پہنچے تھے۔ہمارا حُسنِ ظن ہے کہ اِس پیغام اور سعودی وزیر خارجہ کے کردار نے بھی پاک، بھارت کشیدگی کم کرنے میں معاونت کی ہے ۔
شہزادہ محمد بن سلمان کی متحرک شخصیت کی بِنا پر بھارت اور سعودی عرب کی قربتوں میں خاصا اضافہ ہُوا ہے۔ نریندر مودی نے جب سعودی عرب کا دَورہ کیا تو زبردست پروٹوکول سے نوازا گئے۔ انھیں سعودی عرب کااعلیٰ تر ایوارڈ بھی دیا گیا ۔ امریکا اور چین کے بعد بھارت سعودی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ کوئی چالیس لاکھ بھارتی شہری سعودی عر ب میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سالانہ 25ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ بھارت بھجواتے ہیں۔
یوں سعودی عرب سے بھارت کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں ۔ یہ معاشی طاقت سعودی ثالثی کردار کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ کیسے، کیونکر اور کب حکمت کے ساتھ اِس کردار سے مستفید ہو تا ہے ۔ یہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، دونوں کی آزمائش ہے۔
پسِ پردہ امریکا ، سعودی عرب اور چین کا کردار نظر آ رہا ہے۔ اگر خدا نخواستہ دونوں ملکوں کی میدانِ جنگ ہوتی تو دونوں خسارے میں رہتے ۔ جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن مستقل امن کے لیے پاکستان اپنے وزیر خارجہ کے توسط سے عالمی ثالثیوں کی تلاش میں ہے ۔رُوس نے پاکستان اور بھارت میں (خصوصاً تنازع کشمیر کے حوالے سے) ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
بھارت کی ضد مگر برقرار ہے کہ اُسے پاکستان کے حوالے سے کسی عالمی ثالثی کی احتیاج نہیں ہے۔ رُوس میں متعین بھارتی سفیر نے عالمی میڈیا سے مخاطب ہوتے ہُوئے یوں کہا ہے کہ'' ہمیں رُوس سمیت (پاکستان سے مکالمہ کرنے کے لیے)کسی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔''بھارتی انکار کے باوجودپا کستان مگر پھر بھی کسی موثر اور طرحدار ثالثی کا متلاشی ہے ۔
مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ( چین کے ویٹو کرنے پر) اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھارت کو چوتھی بار جس پسپائی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اِس پر پاکستان کے خلاف بھارتی طیش میں مزید اضافہ ہُوا ہے ۔ ایسے میں پاکستان کے حوالے سے کسی عالمی ثالثی اور درمیان دار کو قبول کرنا اُس کے لیے خاصا دشوار ہے۔
بعض عالمی تجزیہ کاروں کا مگر کہنا ہے کہ اب چین ثالثی کی شکل میں سامنے ضرور آئیگا۔ مثال کے طور پر مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل میں وقوع پذیر ہونے والے تازہ فیصلے کے پس منظر میں چین میں بروئے کار بی بی سی کے نمایندے ایڈراج راٹھور نے بیجنگ میں رہنے والے سینئر صحافی ،اتل انیجا، سے اِسی پس منظر میں گفتگو کی تو انھوں نے یوں کہا:''اگر آپ قلیل المدتی نظریہ سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھارتی شکست ہے، لیکن مسعود اظہر اور دہشتگردی کا مسئلہ طویل المدتی مسئلہ ہے۔
چین طویل المدتی سفارتکاری کر رہا ہے کیونکہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا ہے۔چین نے اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان بھیجا اور انڈیا سے بھی بات کرکے ثالثی کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت قریبی ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ چین اب اس گفتگو میں انڈیا کو کیسے شامل کرتا ہے۔ تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے (جب سے چین اور انڈیا کے درمیان ڈوکلام تنازع ہوا ہے) چین اپنی سفارت کاری کے تحت انڈیا کو بات چیت میں شامل کر رہا ہے۔
اس تبدیلی کو آپ عالمی منظر نامے میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جب سے چین اور امریکا کے تعلقات ناساز ہوئے ہیں، چین اب دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ چین کی سفارتکاری موجودہ سال میں بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔
تاہم اس میں پاکستان کا پلڑا اب بھی بھاری ہے۔'' وہ مزید کہتے ہیں: '' سعودی عرب کی طرح چین بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانا چاہتا ہے ۔چین بار بار بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرنے میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ وہ ایک ایسے نتیجے پر پہنچے جس سے پاکستان بھی ناراض نہ ہو اور انڈیا کے ساتھ اس کے نئے تعلقات بھی متاثر نہ ہوں۔یہ توازن بنائے رکھنا تھوڑا مشکل ہے، لیکن اگر چین ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک منصوبہ بنانا ہوگا، جس میں انڈیا اور پاکستان دونوں کے مفادات کو سامنے رکھا جائے۔
لگتا ہے کہ اس سمت میں کام جاری ہے۔ چین کے وزیر خارجہ پاکستان کے دورے سے واپس آ چکے ہیں ۔ انھوں نے انڈیا کے دَورے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ اب یہ انڈیا پر ہے کہ وہ کس طرح چین کے اس اقدام کا جواب دیتا ہے اور پاکستان کے حوالے سے چین کی ثالثی کی خواہش اور کوشش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔''
پلوامہ ( مقبوضہ کشمیر) میں خود کش سانحہ کے بعد امریکیوں اور مغربیوں کا بھارت کی طرف جھکاؤ واضح طور پر سامنے آیا ہے ۔ ایسے میں بھارت کی اکڑ میں اضافہ ہُوا ہے ۔ پھر وہ کسی عالمی ثالثی کا دامن کیوں تھامے گا؟ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نریندر مودی کے ساتھ ہے اور مودی جی انتخابات سے قبل کسی ثالثی کے ساتھ بیٹھ کر اپنا انتخابی' نقصان' برداشت نہیں کرنا چاہتے ۔ پاکستان کو بہرحال ثالثیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ ایران سے بھی درخواست کی جا سکتی ہے۔
ایرانی اور بھارتی تعلقات مضبوط ہیں ۔بھارت ایرانی تیل کا دُنیا میں دوسرا بڑا خریدار ہے۔ دونوں نے اسٹرٹیجک معاہدوں پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔سیستان میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ کے پس منظر میں اگرچہ ایران نے پاکستان کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود پاکستان بیک چینل ڈپلومیسی بروئے کار لاتے ہُوئے ایران کا ثالثی کردار مانگ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ایرانی صدر جناب حسن روحانی کے درمیان جو ٹیلیفونک گفتگو ہُوئی ، اس نے دونوں کے درمیان برف پگھلائی ہے۔
اس موقع سے پاکستان استفادہ کر سکتا ہے ۔پاکستان کو مسائل کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے دوستوں اور اعانت کاروں کی بے حد ضرورت ہے۔پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے ایرانی ثالثی کردار شائد سعودی عرب کے لیے ناقابلِ قبول ہو مگر ایران ، سعودی کشمکش کی موجودگی میں بھارت سے ایرانی تعلقات کا فائدہ اٹھانا پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ذہانت اور فنکاری کا ایک امتحان ہے۔
چین کے بعد سعودی عرب بھی آگے بڑھ کر پاکستان اور بھارت میںثالثی کا کردار نبھانے کا خواہشمند دکھائی دے رہا ہے ۔ اس میںپاکستان کی خواہش بھی شامل لگتی ہے ۔ او آئی سی نے اپنے تازہ اسلامی وزرا خارجہ کانفرنس میں (پاکستانی ناراضی کے باوصف)''محبت'' سے بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا۔ یوں او آئی سی کا فورم بھی پاک ، بھارت ثالثی کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ۔ سعودی عرب کو مگر پاکستان میں جو اثرو رسوخ حاصل ہے ، وہ او آئی سی کے مجموعی کردارسے یقیناً زیادہ فعال اور قابلِ اعتبار ہے۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی حالیہ پاک ، بھارت دَوروں میں دونوں ممالک کی کشیدگی کم کرانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ فوری نتیجہ تو مگر کوئی سامنے نہیں آ سکا تھا لیکن بعد کے حالات نے واضح کیا ہے کہ یہ کوششیں بے ثمر نہیں گئی تھیں۔ مارچ 2019کے دوسرے ہفتے (یقیناًسعودی بادشاہ اور سعودی ولی عہد کے حکم سے) سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر صاحب نے پاکستان کا دَورہ کیا ۔
یہاں وہ ہمارے تینوں بڑوں سے ملے۔ پاکستان کے بعد وہ بھارت بھی پہنچے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ملاقات کی۔ تین ہفتوں کے مختصر وقت میں عادل الجبیر کی پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ سے یہ تیسری ملاقات تھی۔ اندازے ہیں کہ وہ پاکستان کا کوئی خاص پیغام لے کر بھارت پہنچے تھے۔ہمارا حُسنِ ظن ہے کہ اِس پیغام اور سعودی وزیر خارجہ کے کردار نے بھی پاک، بھارت کشیدگی کم کرنے میں معاونت کی ہے ۔
شہزادہ محمد بن سلمان کی متحرک شخصیت کی بِنا پر بھارت اور سعودی عرب کی قربتوں میں خاصا اضافہ ہُوا ہے۔ نریندر مودی نے جب سعودی عرب کا دَورہ کیا تو زبردست پروٹوکول سے نوازا گئے۔ انھیں سعودی عرب کااعلیٰ تر ایوارڈ بھی دیا گیا ۔ امریکا اور چین کے بعد بھارت سعودی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ کوئی چالیس لاکھ بھارتی شہری سعودی عر ب میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سالانہ 25ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ بھارت بھجواتے ہیں۔
یوں سعودی عرب سے بھارت کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں ۔ یہ معاشی طاقت سعودی ثالثی کردار کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ کیسے، کیونکر اور کب حکمت کے ساتھ اِس کردار سے مستفید ہو تا ہے ۔ یہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، دونوں کی آزمائش ہے۔