یہ شکران نعمت ہے
بڑی بڑی فیکٹریوں میں مختلف مادوں کو پگھلانے کے لیے علیحدہ علیحدہ بھٹیاں ان کے درجہ حرارت کے لحاظ سے بنائی جاتی ہیں
''بوائلنگ پوائنٹ سے کیا مراد ہے؟''اس سے مراد ہے وہ نقطہ درجہ حرارت جس پرکوئی بھی شے چاہے محلول کی شکل میں ہو یا مادے کی شکل میں ابلنا شروع کردے ، اسے اس شے کا بوائلنگ پوائنٹ کہیں گے جیسے پانی کا درجہ ابلاؤ سو ڈگری سینٹی گریڈ ہے، کیا دوسرے میٹرزکا بھی یہی بوائلنگ پوائنٹ ہوگا۔
سوال پوچھا گیا۔ جواب ملا، نہیں۔ پوچھا کیوں؟ اس لیے کہ دوسرے میٹرز کے مالیکیولز پانی کے مالیکیولز کی مانند ایک دوسرے سے جڑے نہیں ہوتے مثلاً سلورکا بوائلنگ پوائنٹ اور المونیم کا بوائلنگ پوائنٹ مختلف ہے ، اسی لیے بڑی بڑی فیکٹریوں میں ایسے مادوں کو پگھلانے کے لیے علیحدہ علیحدہ بھٹیاں ان کے درجہ حرارت کے لحاظ سے بنائی جاتی ہیں ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک بھٹی جس میں آپ لوہا پگھلاتے ہوں یا سلور پگھلاتے ہوں اس میں آپ کوئی دوسرا مادہ پگھلا دو۔ بصورت دیگر شدید حادثے کا خطرہ ہوسکتا ہے
جیسے: کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے فیس بک پرکسی نے ایک پوسٹ شیئرکی جس میں ایک نوجوان ہنستا مسکراتا نظر آرہا تھا اس کے ساتھ ہی ایک ایسے سفید پٹیوں میں جکڑے انسان کو اسپتال کے بیڈ پر دیکھا جس کے چہرے کی رنگت جلی ہوئی سیاہ دکھائی دے رہی تھی۔یہ دراصل اسی ہنستے مسکراتے نوجوان کی تصویر تھی جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ موت برحق ہے لیکن ہر انسان کو اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی کی حفاظت کرنا اس کا خیال کرنا ضروری ہے یہ ہمارا اخلاقی فرض ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے پھر ایسا اس نوجوان کے ساتھ کیا ہوا جو وہ اپنی زندگی ہار گیا ۔ وہ نوجوان پڑھا لکھا ایک بڑی کمپنی میں ملازم تھا اس کمپنی کا نام بہت بڑا تھا لیکن پاکستان میں اس کمپنی کے خاص شعبے کے کرتا دھرتا شاید نئے تجربات کرنے کے شوقین تھے لیکن اس شوق کے لیے انھوں نے اپنی ذات کا نہیں بلکہ ماتحت عملے کا انتخاب کیا، انھیں یقینا علم تھا کہ یہ ایک بہت بڑا رسک ہے اسی لیے انھوں نے وہاں آگ بجھانے کے آلات پہلے ہی رکھ دیے تھے گو اس نوجوان نے اپنے نگران عملے کو باخبر کردیا تھا کہ ایک ایسی بھٹی جس دھات کے لیے مختص ہے اسے دوسری دھات کے پگھلانے میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے بم پھاڑ دینا لیکن ایسی باتیں تو ہم جیسے کم علم لوگ ہی اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جب کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے مہنگی مہنگی فیس ادا کرکے ڈگریاں حاصل کرکے بڑی بڑی پوسٹوں پر فائز لوگ تو بہت کچھ بہت زیادہ علم رکھتے ہیں لیکن یہ شوق ہی تھا یا آسانی۔ کم خرچہ تھا یا بے مول انسانی جانیں، بہرحال نوجوان نے اس ٹاسک کو پورا کرنے کا ارادہ کر ہی لیا کہ نوکری تو نوکری ہی ہوتی ہے اور ایسا ہی ہوا کہ جس کا خدشہ تھا۔
دھماکہ ہوا آگ لگی اور وہ نوجوان اس کے شعلوں کی نذر ہوگیا اور چند ہی روز میں دنیا سے منہ موڑ لیا۔ اب اس کے پیچھے اس کے گھر والے سراپا احتجاج بن گئے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا ہی کون ہے، لے دے کر ایک سوشل میڈیا ہی رہ گیا تھا تو انھوں نے اپنے درد کی آواز کو درد مندوں تک شیئرکرنے کی کوشش کی۔بوائلنگ پوائنٹ ایک بہت اہم نقطہ ہے جو چھٹی ساتویں جماعت سے ہی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے لیکن اتنی شروع سے اتنا کچھ پڑھنے کا کیا فائدہ کہ جب اسے عملی زندگی پر اختیار ہی نہ کیا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سیفٹی کے اصولوں کو غیر اہم سمجھتا ہے۔ آپ نے بھی اکثر دیکھا ہوگا گاڑی کے ٹائر میں پنکچر ہوجائے تو بہت سے لوگ بداحتیاطی سے کام کرتے ہیں کیونکہ وہ اکثر ٹائر بدلتے رہتے ہیں لہٰذا ان کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے۔ اس سترہ سولہ سال کے بچے کی روتی شکل اب بھی یاد ہے کہ جس کا باپ ٹرک کا ٹائر بدلتے اس کے نیچے دب گیا تھا، سنا گیا کہ وہ شخص مر گیا۔
اکثر ویلڈنگ کرنیوالے حفاظتی چشمے اور ماسک کے بغیر ہی اس قدر خطرناک کام انجام دیتے ہیں۔ سفیدی والے اپنے تئیں کمزور سیڑھیوں پر دوسری تیسری منزل تک چڑھ جاتے ہیں، گھروں اور دفاتر میں آگ کے بجھاؤ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہوتا، کیونکہ ہم سب روزمرہ کی مصروفیات اور عادات کیمطابق کام کرتے چلے جاتے ہیں۔
11 اکتوبر 2012 کی صبح بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب کیلی فورنیا کی ایک فوڈ پراسسنگ کمپنی (بمبل بی ٹیونا پلانٹ) میں پلانٹ کی دیکھ بھال کرنیوالا 62 سالہ جوس میلینا، 30 فٹ طویل اوون کی دیکھ بھال کرنے اندرگیا، ابھی تو طلوع آفتاب بھی نہ ہوا تھا، یہ پلانٹ اعلیٰ نسل کی مچھلیوں کو پکانے کا کام انجام دیتا تھا۔ جوس میلینا کے سپروائزر نے خیال کیا کہ شاید وہ باتھ روم میں ہوگا لہٰذا اس نے بنا کسی الارم یا جوس میلینا سے تعلق جوڑے بنا ہی پلانٹ کے طویل اوون میں بارہ ہزار پاؤنڈ مچھلیاں ڈال دیں اور اوون چلا دیا، کچھ وقت بعد جب اسے احساس ہوا کہ جوس میلینا ابھی تک غائب ہے تو اس نے الارم بجایا، پارکنگ لاٹ اور باغیچوں کو بھی دیکھا گیا۔
اس بھاگ دوڑ کے دو گھنٹوں بعد اوون کو کھولا گیا جب اس کا درجہ حرارت 270 ڈگری تک جا پہنچا تھا تب اسے اپنی بداحتیاطی کا شدت سے احساس ہوا کیونکہ جب اس نے بنا کسی دیکھ بھال اور الارم کے اوون کھولا تھا اس وقت جوس اس اوون کی چیکنگ کے لیے اس میں موجود تھا بعد میں کمپنی کے پلانٹ آپریشنز ڈائریکٹر اور سابقہ سیفٹی منیجر پر پیشہ ورانہ سیفٹی اور ہیلتھ ایڈمنسٹریشن رولز کے تحت جوس کی موت پر جرمانے اور سزا مقرر ہوئی۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایک ناکارہ جہاز کو توڑنے کے لیے جس ناقص انداز سے ویلڈنگ کی کارروائی کی گئی کہ جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا، کئی بار ہم گٹروں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کے اخراج سے انسانی جانوں کے گزر جانے کی خبر سنتے رہتے ہیں اور ابھی حال ہی میں ایک عمارت سے گرنیوالے چھ مزدوروں کی ہلاکت کی خبر بھی پڑھی۔
یہ خبر بھی کچھ ایسی نئی نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی تعمیراتی کاموں کے سلسلے میں کام کرنے والوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھتے ہی رہے ہیں لیکن کیا انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ذمے دار افراد اور خود کام کرنے والے بھی اگر یوں ہی سوچ لیں کہ اس طرح ہم اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرسکتے ہیں تو۔۔۔۔کوئی برائی تو نہیں!
سوال پوچھا گیا۔ جواب ملا، نہیں۔ پوچھا کیوں؟ اس لیے کہ دوسرے میٹرز کے مالیکیولز پانی کے مالیکیولز کی مانند ایک دوسرے سے جڑے نہیں ہوتے مثلاً سلورکا بوائلنگ پوائنٹ اور المونیم کا بوائلنگ پوائنٹ مختلف ہے ، اسی لیے بڑی بڑی فیکٹریوں میں ایسے مادوں کو پگھلانے کے لیے علیحدہ علیحدہ بھٹیاں ان کے درجہ حرارت کے لحاظ سے بنائی جاتی ہیں ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایک بھٹی جس میں آپ لوہا پگھلاتے ہوں یا سلور پگھلاتے ہوں اس میں آپ کوئی دوسرا مادہ پگھلا دو۔ بصورت دیگر شدید حادثے کا خطرہ ہوسکتا ہے
جیسے: کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے فیس بک پرکسی نے ایک پوسٹ شیئرکی جس میں ایک نوجوان ہنستا مسکراتا نظر آرہا تھا اس کے ساتھ ہی ایک ایسے سفید پٹیوں میں جکڑے انسان کو اسپتال کے بیڈ پر دیکھا جس کے چہرے کی رنگت جلی ہوئی سیاہ دکھائی دے رہی تھی۔یہ دراصل اسی ہنستے مسکراتے نوجوان کی تصویر تھی جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ موت برحق ہے لیکن ہر انسان کو اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگی کی حفاظت کرنا اس کا خیال کرنا ضروری ہے یہ ہمارا اخلاقی فرض ہی نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے پھر ایسا اس نوجوان کے ساتھ کیا ہوا جو وہ اپنی زندگی ہار گیا ۔ وہ نوجوان پڑھا لکھا ایک بڑی کمپنی میں ملازم تھا اس کمپنی کا نام بہت بڑا تھا لیکن پاکستان میں اس کمپنی کے خاص شعبے کے کرتا دھرتا شاید نئے تجربات کرنے کے شوقین تھے لیکن اس شوق کے لیے انھوں نے اپنی ذات کا نہیں بلکہ ماتحت عملے کا انتخاب کیا، انھیں یقینا علم تھا کہ یہ ایک بہت بڑا رسک ہے اسی لیے انھوں نے وہاں آگ بجھانے کے آلات پہلے ہی رکھ دیے تھے گو اس نوجوان نے اپنے نگران عملے کو باخبر کردیا تھا کہ ایک ایسی بھٹی جس دھات کے لیے مختص ہے اسے دوسری دھات کے پگھلانے میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے بم پھاڑ دینا لیکن ایسی باتیں تو ہم جیسے کم علم لوگ ہی اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جب کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے مہنگی مہنگی فیس ادا کرکے ڈگریاں حاصل کرکے بڑی بڑی پوسٹوں پر فائز لوگ تو بہت کچھ بہت زیادہ علم رکھتے ہیں لیکن یہ شوق ہی تھا یا آسانی۔ کم خرچہ تھا یا بے مول انسانی جانیں، بہرحال نوجوان نے اس ٹاسک کو پورا کرنے کا ارادہ کر ہی لیا کہ نوکری تو نوکری ہی ہوتی ہے اور ایسا ہی ہوا کہ جس کا خدشہ تھا۔
دھماکہ ہوا آگ لگی اور وہ نوجوان اس کے شعلوں کی نذر ہوگیا اور چند ہی روز میں دنیا سے منہ موڑ لیا۔ اب اس کے پیچھے اس کے گھر والے سراپا احتجاج بن گئے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا ہی کون ہے، لے دے کر ایک سوشل میڈیا ہی رہ گیا تھا تو انھوں نے اپنے درد کی آواز کو درد مندوں تک شیئرکرنے کی کوشش کی۔بوائلنگ پوائنٹ ایک بہت اہم نقطہ ہے جو چھٹی ساتویں جماعت سے ہی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے لیکن اتنی شروع سے اتنا کچھ پڑھنے کا کیا فائدہ کہ جب اسے عملی زندگی پر اختیار ہی نہ کیا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سیفٹی کے اصولوں کو غیر اہم سمجھتا ہے۔ آپ نے بھی اکثر دیکھا ہوگا گاڑی کے ٹائر میں پنکچر ہوجائے تو بہت سے لوگ بداحتیاطی سے کام کرتے ہیں کیونکہ وہ اکثر ٹائر بدلتے رہتے ہیں لہٰذا ان کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے۔ اس سترہ سولہ سال کے بچے کی روتی شکل اب بھی یاد ہے کہ جس کا باپ ٹرک کا ٹائر بدلتے اس کے نیچے دب گیا تھا، سنا گیا کہ وہ شخص مر گیا۔
اکثر ویلڈنگ کرنیوالے حفاظتی چشمے اور ماسک کے بغیر ہی اس قدر خطرناک کام انجام دیتے ہیں۔ سفیدی والے اپنے تئیں کمزور سیڑھیوں پر دوسری تیسری منزل تک چڑھ جاتے ہیں، گھروں اور دفاتر میں آگ کے بجھاؤ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہوتا، کیونکہ ہم سب روزمرہ کی مصروفیات اور عادات کیمطابق کام کرتے چلے جاتے ہیں۔
11 اکتوبر 2012 کی صبح بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب کیلی فورنیا کی ایک فوڈ پراسسنگ کمپنی (بمبل بی ٹیونا پلانٹ) میں پلانٹ کی دیکھ بھال کرنیوالا 62 سالہ جوس میلینا، 30 فٹ طویل اوون کی دیکھ بھال کرنے اندرگیا، ابھی تو طلوع آفتاب بھی نہ ہوا تھا، یہ پلانٹ اعلیٰ نسل کی مچھلیوں کو پکانے کا کام انجام دیتا تھا۔ جوس میلینا کے سپروائزر نے خیال کیا کہ شاید وہ باتھ روم میں ہوگا لہٰذا اس نے بنا کسی الارم یا جوس میلینا سے تعلق جوڑے بنا ہی پلانٹ کے طویل اوون میں بارہ ہزار پاؤنڈ مچھلیاں ڈال دیں اور اوون چلا دیا، کچھ وقت بعد جب اسے احساس ہوا کہ جوس میلینا ابھی تک غائب ہے تو اس نے الارم بجایا، پارکنگ لاٹ اور باغیچوں کو بھی دیکھا گیا۔
اس بھاگ دوڑ کے دو گھنٹوں بعد اوون کو کھولا گیا جب اس کا درجہ حرارت 270 ڈگری تک جا پہنچا تھا تب اسے اپنی بداحتیاطی کا شدت سے احساس ہوا کیونکہ جب اس نے بنا کسی دیکھ بھال اور الارم کے اوون کھولا تھا اس وقت جوس اس اوون کی چیکنگ کے لیے اس میں موجود تھا بعد میں کمپنی کے پلانٹ آپریشنز ڈائریکٹر اور سابقہ سیفٹی منیجر پر پیشہ ورانہ سیفٹی اور ہیلتھ ایڈمنسٹریشن رولز کے تحت جوس کی موت پر جرمانے اور سزا مقرر ہوئی۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایک ناکارہ جہاز کو توڑنے کے لیے جس ناقص انداز سے ویلڈنگ کی کارروائی کی گئی کہ جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا، کئی بار ہم گٹروں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کے اخراج سے انسانی جانوں کے گزر جانے کی خبر سنتے رہتے ہیں اور ابھی حال ہی میں ایک عمارت سے گرنیوالے چھ مزدوروں کی ہلاکت کی خبر بھی پڑھی۔
یہ خبر بھی کچھ ایسی نئی نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی تعمیراتی کاموں کے سلسلے میں کام کرنے والوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھتے ہی رہے ہیں لیکن کیا انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ذمے دار افراد اور خود کام کرنے والے بھی اگر یوں ہی سوچ لیں کہ اس طرح ہم اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرسکتے ہیں تو۔۔۔۔کوئی برائی تو نہیں!