موت کے کھلونے
کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اُڑجائیں تو اسے غم زندگی کے بار سے ایک ہی بار اسے نجات تو مل جاتی ہے
ہمارے خطے میں کھلونا بم افغان جنگ کے دوران متعارف ہوئے جب روسی افواج نے افغان شہریوں کو مجاہدین کا ساتھ دینے کی پاداش میں سبق سکھانے کے لیے ہوائی جہازوں سے ہزاروں کھلونا بم افغانستان کے دیہات میں گرائے۔
یہ موت کے کھلونے بچوں کے ہاتھ لگے تو افغان عوام کو ایک نئے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ آئے دن کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک، زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور ہوتے رہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو یہ افتاد عام شہریوں پر بھی آپڑی۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جہاں ایک جانب عام شہریوں کا خون بہایا جارہا ہے، وہاں اس جنگ میں بلاامتیاز عمر و جنس ہر خاص و عام نے اپنا خون دے کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کھلونا بم بنانے والے ذہن میں ظاہر ہے کہ کسی بڑی عمر کے مرد یا عورت کو نقصان پہنچانے کا خیال نہیں ہوتا۔ یہ بھیانک اور وحشیانہ خیال صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جائیں۔
موت کا کھلونا بنانے والے کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اُڑجائیں تو اسے غم زندگی کے بار سے ایک ہی بار اسے نجات تو مل جاتی ہے، لیکن اگر یہی موت کا کھلونا دو معصوم ہاتھ تن سے جدا کردے، ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم کردے ایک یا دونوں آنکھوں سے محروم کردے، تو اس محرومی کا شکار ہونے والے بچے پر کیا گزرے گی، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوچنا موت کا کھلونا بنانے والے، بچے کے ہاتھ میں پکڑانے والے یا اسے بچوں کے کھیلنے والی جگہوں پر پھینکنے والے کا کام نہیں ہے۔
بے چہرہ لوگوں کا یہ مکروہ فعل کتنے خاندانوں پر زندگی بھر کے دکھ اور اذیت سے دوچار کردیتا ہے۔ یہ نقاب پوشوں کے سوچنے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے مختلف قبائلی و بندوبستی علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے کے واقعات سے پتا لگتا ہے کہ معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والی سوچ یہاں بھی موجود ہے۔ روسی افواج کے ہاتھوں افغان بچوں میں موت کے کھلونے تقسیم کرنے کی کوئی نہ کوئی تُک اس لیے بھی بنتی تھی کہ وہاں افغان شہری براہ راست روسی فوج کے خلاف سینہ سپر تھے، یہاں کے بچوں نے بے چہرہ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟ کون ہے جو قبائلی علاقوں اور ملحقہ اضلاع میں کھلونا بم پھیلا کر دشمن کے عزائم کی تکمیل کررہا ہے؟
صرف کھلونا بم ہی نہیں، دہشت گردی کے دیگر واقعات میں بھی بچے بری طرح متاثر ہورہے ہیں، دھماکوں میں نہ صرف بچے خود نشانہ بن رہے ہیں بل کہ اپنے خاندان کے افراد کے جانی نقصان کی وجہ سے بھی بچے بالواسطہ طور پر متاثر ہورہے ہیں۔پچھلے دو سال میں کھلونا بم کے ذریعے معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملاکنڈ کے علاقے شاہ کوٹ کی ننھی شمائلہ ہو یا ضلع ٹانک کا نو سالہ عارف کسی کو اپنے جرم کا پتا نہیں۔ یہ دونوں بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کو کھلونے کی صورت میں موت کا تحفہ دینے والے لوگ کیا چاہتے تھے۔
اسی طرح کا واقعہ شیوائی ضلع بونیر میں تین ماہ قبل پیش آیا، جب بچوں کو گھر کے باہر ایک ''کھلونا'' ملا وہ اسے گھر لے آئے۔ اس سے مٹی وغیرہ صاف کرنے کے دوران دھماکا ہوا اور دو بچے اپنی ماں سمیت وحشیوں کے خونیں ایجنڈے کی نذر ہوگئے۔ 15 جون کو شمالی وزیرستان میں ایک چودہ سالہ لڑکے محسن خان کو دریائے ٹوچی سے ایک کھلونا بم ملا جو وہ گھر لے آیا، جہاں موت کا یہ کھلونا پھٹ گیا اور وہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا۔ 19مئی کو بنوں کے علاقے بسیہ خیل میں کھلونا بم گھر لاکر چاقو سے اسے کھولنے کی کوشش کے دوران ایک بچہ عارف ہلاک ہوگیا، جب کہ اس کے دیگر رشتہ دار بچے عرفان، عثمان، اسفندیار، محمد یوسف، عامل اور فرہاد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح کوٹکہ بلند فاطمہ خیل بنوں میں ایک بچی سمیرا کھلونا بم پھٹنے سے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئی، جب کہ اس کی چچی اس واقعے میں زخمی ہوئی۔
کھلونا بم سے جانی نقصانات کے واقعات بونیر اور ملاکنڈ کے دیگر علاقوں کے علاوہ سوات اپر دیر، لوئر دیر وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں۔ باجوڑ اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے بچے بھی خونیں عزائم کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔ اسی طرح بنوں، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔افغانستان میں جن کھلونا بموں نے تباہی پھیلائی وہ کھلونے اسی مقصد کے لیے تیار کئے گئے تھے، جب کہ پاکستان میں ایسے کھلونوں نے تباہی پھیلائی جو تھے تو عام ہی کھلونے مگر ان کے اندر بم نصب کیے گئے تھے۔
کھلونا بم کرکٹ بیٹ کی شکل میں، بال کی شکل میں یا اس قسم کے دیگر کھلونوں کی شکل میں ہوسکتے ہیں، اکوڑہ خٹک میں فورسز نے اسی قسم کا ایک بم کرکٹ بیٹ کے دستے کی شکل میں برآمد کیا تھا۔ اسی طرح میک اپ بکس کی شکل میں بھی بم کی نشان دہی ہوچکی ہے۔ پشاور کے رہائشی سبز علی گل کے مطابق اس کا پانچ سالہ بچہ باہر سے بطخ کی شکل کا ایک کھلونا لایا جو اسے پہلی ہی نظر میں مشکوک لگا، اس نے فوری طور پر اسے باہر لے جاکر پھینکا جو زمین پر لگتے ہی پھٹ گیا۔ اب سبز علی گل اپنے بچوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔
پاکستان میں دیسی طریقے سے بنائے جانے والے بموں میں جو بارودی مواد استعمال ہوتا ہے وہ مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب ہے، اس مواد میں پوٹاشیم کاربونیٹ، نائٹروجن ٹرائکلو رائیڈ، ایمونیم فاسفیٹ، پوٹاشیم کلوریٹ، یوریا اور ایمونیم نائٹریٹ، آرڈی ایکس، نائٹرک ایسڈ، ایلومینم کلورائیڈ، میٹل ڈسٹ، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ اور یوریا نائٹریٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے ڈیٹونیٹر بھی مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتے ہیں، جب کہ ریموٹ کنٹرول بموں میں استعمال ہونے والے ریموٹ تو بازار میں ہر جگہ دست یاب ہیں۔
سیکیوریٹی پر مامور اداروں کے اہل کاروں کو بطور خاص ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ مواد جہاں بھی زیادہ مقدار میں نظر آئے تو محتاط ہوجائیں اور کسی بھی ایسے مواد کو خود چھیڑنے یا چیک کرنے کے بجائے متعلقہ ماہرین کے ذریعے ہی پرکھا جائے۔ سیکیوریٹی اہل کار جب کوئی مشکوک گاڑی چیک کرتے ہیں تو ان کا اپنا مخصوص طریقۂ کار ہوتا ہے، یعنی کسی بھی مشکوک گاڑی کے ڈرائیور سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس یا وائپر آن آف کروائے جاتے ہیں، اگر ڈرائیور بٹن تلاش کرنے میں لگ جائے تو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ گاڑی اس کی اپنی نہیں ہے اور وہ کوئی دہشت گرد ہوسکتا ہے۔
کسی بھی گاڑی میں مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب مواد میں سے کوئی بھی چیز کم یا زیادہ مقدار میں برآمد ہو تب بھی اس گاڑی کو مشکوک سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈرائیور سے جلدی جلدی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر یا گاڑی کا ماڈل پوچھا جائے اور وہ فوری جواب نہ دے پائے تب بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ گاڑیاں چیک کرنے والے سیکیوریٹی اہل کار اپنی تربیت کے مطابق گاڑی کے مختلف حصے چیک کرتے ہیں۔ ماہر اہل کار ایک ہی نظر میں خطرہ بھانپ سکتے ہیں مثلاً سی این جی کٹ کے ساتھ اگر کوئی اضافی تار لگی ہوئی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔
دیسی بموں کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً اسے کسی پریشر ککر میں بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں پریشر ککر کے ذریعے دھماکوں کی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح دودھ کے ڈرموں میں بھی اس قسم کے بم نصب کیے جاتے رہے ہیں۔ گیس کے سیلنڈروں میں بھی بم نصب کیے جاتے ہیں جب کہ گاڑی کے اسپیکروں، ظاہری طور پر بریف کیس، سی این جی سیلنڈروں، ڈائری، ڈکشنری یا کسی موٹی کتاب وغیرہ اور کمپیوٹر کے مانیٹر میں بھی بم نصب ہوسکتے ہیں۔ خودکش گاڑی کا ٹریگر سوئچ عموماً ڈرائیور کے بہت قریب ہوتا ہے، اس لیے سیکیوریٹی اہل کار پہلی نظر میں یہ سوئچ تلاش کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ خودکش حملہ آور اہل کار کو تلاشی کا موقع دے۔
خیبرپختون خوا اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں عام لوگوں کی آگاہی کے لیے بھی ہدایات جاری کی جاتی ہیں، مثلاً عام لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی مشکوک چیز نظر آئے تو اس کو ہاتھ نہ لگائیں، اس چیز کو کسی بھی دوسری چیز سے ضرب نہ لگائیں، معمولی رقم کی خاطر مشکوک چیز سے لوہا الگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، ایسی مشکوک چیز کو آگ میں بھی نہ پھینکا جائے، جہاں ہے اس کو وہیں پڑا رہنے دیں اور اس کو اٹھاکر دور پھینکنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ہاتھ کے علاوہ کسی چیز کا سہارا لے کر بھی اس مشکوک چیز کو ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں اس مواد کو ہاتھ ہر گز نہ لگایا جائے جو پھٹ نہ سکا ہو۔ پاکستان کے مخصوص حالات نے بچوں کی نفسیات پر بھی برے اثرات مرتب کیے ہیں۔
جن علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں وہاں کے بچے اب کھلونے کے نام سے بھی خوف زدہ ہیں اور ظاہر ہے جب ناخوش گوار واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہوں تو بچے تو بچے بڑی عمر کے افراد بھی نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے مواد کے حوالے سے شعور دلانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر شروع میں خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہی دلائی جائے تو مستقبل میں ناخوش گوار واقعات کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ عام لوگ خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہ ہوں گے تو ان کا تعاون بھی سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ بڑھے گا جس سے دہشت گردوں کو کم از کم ہدف تک پہنچنے میں آسانی نہیں رہے گی، سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی نظریں بھی ملک کے دفاع میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
یہ موت کے کھلونے بچوں کے ہاتھ لگے تو افغان عوام کو ایک نئے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ آئے دن کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک، زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور ہوتے رہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو یہ افتاد عام شہریوں پر بھی آپڑی۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جہاں ایک جانب عام شہریوں کا خون بہایا جارہا ہے، وہاں اس جنگ میں بلاامتیاز عمر و جنس ہر خاص و عام نے اپنا خون دے کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کھلونا بم بنانے والے ذہن میں ظاہر ہے کہ کسی بڑی عمر کے مرد یا عورت کو نقصان پہنچانے کا خیال نہیں ہوتا۔ یہ بھیانک اور وحشیانہ خیال صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جائیں۔
موت کا کھلونا بنانے والے کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی معصوم بچے کے جسم کے چیتھڑے اُڑجائیں تو اسے غم زندگی کے بار سے ایک ہی بار اسے نجات تو مل جاتی ہے، لیکن اگر یہی موت کا کھلونا دو معصوم ہاتھ تن سے جدا کردے، ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم کردے ایک یا دونوں آنکھوں سے محروم کردے، تو اس محرومی کا شکار ہونے والے بچے پر کیا گزرے گی، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوچنا موت کا کھلونا بنانے والے، بچے کے ہاتھ میں پکڑانے والے یا اسے بچوں کے کھیلنے والی جگہوں پر پھینکنے والے کا کام نہیں ہے۔
بے چہرہ لوگوں کا یہ مکروہ فعل کتنے خاندانوں پر زندگی بھر کے دکھ اور اذیت سے دوچار کردیتا ہے۔ یہ نقاب پوشوں کے سوچنے کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے مختلف قبائلی و بندوبستی علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے کے واقعات سے پتا لگتا ہے کہ معصوم بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والی سوچ یہاں بھی موجود ہے۔ روسی افواج کے ہاتھوں افغان بچوں میں موت کے کھلونے تقسیم کرنے کی کوئی نہ کوئی تُک اس لیے بھی بنتی تھی کہ وہاں افغان شہری براہ راست روسی فوج کے خلاف سینہ سپر تھے، یہاں کے بچوں نے بے چہرہ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟ کون ہے جو قبائلی علاقوں اور ملحقہ اضلاع میں کھلونا بم پھیلا کر دشمن کے عزائم کی تکمیل کررہا ہے؟
صرف کھلونا بم ہی نہیں، دہشت گردی کے دیگر واقعات میں بھی بچے بری طرح متاثر ہورہے ہیں، دھماکوں میں نہ صرف بچے خود نشانہ بن رہے ہیں بل کہ اپنے خاندان کے افراد کے جانی نقصان کی وجہ سے بھی بچے بالواسطہ طور پر متاثر ہورہے ہیں۔پچھلے دو سال میں کھلونا بم کے ذریعے معصوم بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملاکنڈ کے علاقے شاہ کوٹ کی ننھی شمائلہ ہو یا ضلع ٹانک کا نو سالہ عارف کسی کو اپنے جرم کا پتا نہیں۔ یہ دونوں بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کو کھلونے کی صورت میں موت کا تحفہ دینے والے لوگ کیا چاہتے تھے۔
اسی طرح کا واقعہ شیوائی ضلع بونیر میں تین ماہ قبل پیش آیا، جب بچوں کو گھر کے باہر ایک ''کھلونا'' ملا وہ اسے گھر لے آئے۔ اس سے مٹی وغیرہ صاف کرنے کے دوران دھماکا ہوا اور دو بچے اپنی ماں سمیت وحشیوں کے خونیں ایجنڈے کی نذر ہوگئے۔ 15 جون کو شمالی وزیرستان میں ایک چودہ سالہ لڑکے محسن خان کو دریائے ٹوچی سے ایک کھلونا بم ملا جو وہ گھر لے آیا، جہاں موت کا یہ کھلونا پھٹ گیا اور وہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا۔ 19مئی کو بنوں کے علاقے بسیہ خیل میں کھلونا بم گھر لاکر چاقو سے اسے کھولنے کی کوشش کے دوران ایک بچہ عارف ہلاک ہوگیا، جب کہ اس کے دیگر رشتہ دار بچے عرفان، عثمان، اسفندیار، محمد یوسف، عامل اور فرہاد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح کوٹکہ بلند فاطمہ خیل بنوں میں ایک بچی سمیرا کھلونا بم پھٹنے سے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئی، جب کہ اس کی چچی اس واقعے میں زخمی ہوئی۔
کھلونا بم سے جانی نقصانات کے واقعات بونیر اور ملاکنڈ کے دیگر علاقوں کے علاوہ سوات اپر دیر، لوئر دیر وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں۔ باجوڑ اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے بچے بھی خونیں عزائم کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔ اسی طرح بنوں، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔افغانستان میں جن کھلونا بموں نے تباہی پھیلائی وہ کھلونے اسی مقصد کے لیے تیار کئے گئے تھے، جب کہ پاکستان میں ایسے کھلونوں نے تباہی پھیلائی جو تھے تو عام ہی کھلونے مگر ان کے اندر بم نصب کیے گئے تھے۔
کھلونا بم کرکٹ بیٹ کی شکل میں، بال کی شکل میں یا اس قسم کے دیگر کھلونوں کی شکل میں ہوسکتے ہیں، اکوڑہ خٹک میں فورسز نے اسی قسم کا ایک بم کرکٹ بیٹ کے دستے کی شکل میں برآمد کیا تھا۔ اسی طرح میک اپ بکس کی شکل میں بھی بم کی نشان دہی ہوچکی ہے۔ پشاور کے رہائشی سبز علی گل کے مطابق اس کا پانچ سالہ بچہ باہر سے بطخ کی شکل کا ایک کھلونا لایا جو اسے پہلی ہی نظر میں مشکوک لگا، اس نے فوری طور پر اسے باہر لے جاکر پھینکا جو زمین پر لگتے ہی پھٹ گیا۔ اب سبز علی گل اپنے بچوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔
پاکستان میں دیسی طریقے سے بنائے جانے والے بموں میں جو بارودی مواد استعمال ہوتا ہے وہ مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب ہے، اس مواد میں پوٹاشیم کاربونیٹ، نائٹروجن ٹرائکلو رائیڈ، ایمونیم فاسفیٹ، پوٹاشیم کلوریٹ، یوریا اور ایمونیم نائٹریٹ، آرڈی ایکس، نائٹرک ایسڈ، ایلومینم کلورائیڈ، میٹل ڈسٹ، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ اور یوریا نائٹریٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے ڈیٹونیٹر بھی مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتے ہیں، جب کہ ریموٹ کنٹرول بموں میں استعمال ہونے والے ریموٹ تو بازار میں ہر جگہ دست یاب ہیں۔
سیکیوریٹی پر مامور اداروں کے اہل کاروں کو بطور خاص ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ مواد جہاں بھی زیادہ مقدار میں نظر آئے تو محتاط ہوجائیں اور کسی بھی ایسے مواد کو خود چھیڑنے یا چیک کرنے کے بجائے متعلقہ ماہرین کے ذریعے ہی پرکھا جائے۔ سیکیوریٹی اہل کار جب کوئی مشکوک گاڑی چیک کرتے ہیں تو ان کا اپنا مخصوص طریقۂ کار ہوتا ہے، یعنی کسی بھی مشکوک گاڑی کے ڈرائیور سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس یا وائپر آن آف کروائے جاتے ہیں، اگر ڈرائیور بٹن تلاش کرنے میں لگ جائے تو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ گاڑی اس کی اپنی نہیں ہے اور وہ کوئی دہشت گرد ہوسکتا ہے۔
کسی بھی گاڑی میں مارکیٹ میں بہ آسانی دست یاب مواد میں سے کوئی بھی چیز کم یا زیادہ مقدار میں برآمد ہو تب بھی اس گاڑی کو مشکوک سمجھ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈرائیور سے جلدی جلدی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر یا گاڑی کا ماڈل پوچھا جائے اور وہ فوری جواب نہ دے پائے تب بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ گاڑیاں چیک کرنے والے سیکیوریٹی اہل کار اپنی تربیت کے مطابق گاڑی کے مختلف حصے چیک کرتے ہیں۔ ماہر اہل کار ایک ہی نظر میں خطرہ بھانپ سکتے ہیں مثلاً سی این جی کٹ کے ساتھ اگر کوئی اضافی تار لگی ہوئی ہے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔
دیسی بموں کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً اسے کسی پریشر ککر میں بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں پریشر ککر کے ذریعے دھماکوں کی مثالیں موجود ہیں، اسی طرح دودھ کے ڈرموں میں بھی اس قسم کے بم نصب کیے جاتے رہے ہیں۔ گیس کے سیلنڈروں میں بھی بم نصب کیے جاتے ہیں جب کہ گاڑی کے اسپیکروں، ظاہری طور پر بریف کیس، سی این جی سیلنڈروں، ڈائری، ڈکشنری یا کسی موٹی کتاب وغیرہ اور کمپیوٹر کے مانیٹر میں بھی بم نصب ہوسکتے ہیں۔ خودکش گاڑی کا ٹریگر سوئچ عموماً ڈرائیور کے بہت قریب ہوتا ہے، اس لیے سیکیوریٹی اہل کار پہلی نظر میں یہ سوئچ تلاش کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ خودکش حملہ آور اہل کار کو تلاشی کا موقع دے۔
خیبرپختون خوا اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں عام لوگوں کی آگاہی کے لیے بھی ہدایات جاری کی جاتی ہیں، مثلاً عام لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی مشکوک چیز نظر آئے تو اس کو ہاتھ نہ لگائیں، اس چیز کو کسی بھی دوسری چیز سے ضرب نہ لگائیں، معمولی رقم کی خاطر مشکوک چیز سے لوہا الگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، ایسی مشکوک چیز کو آگ میں بھی نہ پھینکا جائے، جہاں ہے اس کو وہیں پڑا رہنے دیں اور اس کو اٹھاکر دور پھینکنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ہاتھ کے علاوہ کسی چیز کا سہارا لے کر بھی اس مشکوک چیز کو ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں اس مواد کو ہاتھ ہر گز نہ لگایا جائے جو پھٹ نہ سکا ہو۔ پاکستان کے مخصوص حالات نے بچوں کی نفسیات پر بھی برے اثرات مرتب کیے ہیں۔
جن علاقوں میں کھلونا بم پھٹنے سے بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں وہاں کے بچے اب کھلونے کے نام سے بھی خوف زدہ ہیں اور ظاہر ہے جب ناخوش گوار واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہوں تو بچے تو بچے بڑی عمر کے افراد بھی نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے مواد کے حوالے سے شعور دلانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر شروع میں خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہی دلائی جائے تو مستقبل میں ناخوش گوار واقعات کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ عام لوگ خطرناک مواد کے حوالے سے آگاہ ہوں گے تو ان کا تعاون بھی سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ بڑھے گا جس سے دہشت گردوں کو کم از کم ہدف تک پہنچنے میں آسانی نہیں رہے گی، سیکیوریٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی نظریں بھی ملک کے دفاع میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔