انسان اور حیوان

ایک پولیس افسر گگن دیب سنگھ نے اس لڑکے کو خود سے چپکا کر سنگساری سے بچا لیا۔

ali.dhillon@ymail.com

کہتے ہیں مولانا روم کا سامنا ایک دن کسی ''ظالم'' سے ہوا۔ ظالم نے کہا ''تم اچھے ہو یا میرا یہ کتا اچھا ہے؟'' کچھ توقف کے بعد مولانا روم نے فرمایا '' اگر ایمان (اخلاقیات) نصیب ہو تو میں اچھا ہوں، ورنہ یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔'' سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا روم نے یہ نہیں کہا ''میں انسان ہوں، اس لیے اچھا ہوں''۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہونا کوئی معیار نہیں ہے۔تو پھر فرق کہاں آتا ہے ؟جناب فرق آتا ہے ''حدود اور اخلاقیات'' کا ۔ الغرض انسان اور حیوان میں بنیادی فرق اخلاقیات اور حدود ہی کا ہوتا ہے۔

اگر آپ میں اخلاقیات نہیں ہیں تو آپ نیوزی لینڈ جیسے مہذب ملک میں رہ کر بھی پرامن نہیں ہیں اور گن لے کر نکلتے ہیں، 50مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ بکھیرتے ہیں۔اور اگر آپ میں اخلاقیات ہیں تو دنیا میں کہیں بھی ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتے ہوں تو مذکورہ ''حیوان'' کے کیے پر کم از کم مذمت ضرور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یقین جانیں سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد جس قدر ''انسانی یکجہتی'' کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ پہلی جرأت وزیرِ اعظم نیوزی لینڈ جاسنڈا آرڈرن کی طرف سے آئی۔ واردات کے چند منٹ بعد انھوں نے میڈیا کے سامنے بھرائی آواز میں کہا ''اس دہشت گردی کا شکار وہ تارکینِ وطن ہیں جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا۔ہاں یہ ان کا گھر ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔جس شخص نے اس بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔آج کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ براہ کرم حملہ آور کی پرتشدد وڈیوز اور اس کے تحریری جواز کو آگے نہ بڑھائیں تاکہ اس پرتشدد سوچ کو آکسیجن نہ مل سکے۔'' پھر کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لیے قائم خصوصی فیس بک پیج ''Give a little'' پر چوبیس گھنٹے میں 65ہزار سے زائد ڈونر زنے 50لاکھ ڈالر سے زائد چندہ دیا اور یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔

www.launchgood.comویب سائٹ پر اب تک لگ بھگ35ہزار لوگ چندہ دے چکے ہیں،جس کی مالیت2ملین ڈالرز بنتی ہے۔ اسی طرح مقامی افراد نے بڑا اہم کردار ادا کیا، یوتی لوآنو اور ان کی اہلیہ نے جب اسپتال کے باہر فٹ پاتھ پر زخمی عزیزوں کی خیر خبر کے انتظار میں سیکڑوں سوگوار چہرے دیکھے تو انھیں پہلا خیال آیا کہ یہ تو بھوکے پیاسے ہوں گے۔ یوتی نے فوراً ایک فیس بک پیج بنایا اور حلال فوڈ کی اپیل کر دی۔

یوتی اور ان کی اہلیہ کی اس اپیل پر خوراک کے تھیلوں سے لدے پھندے شہریوں کی لمبی قطار بن گئیں۔ اس قطار سے خوراک جمع کرنے کے لیے رضاکاروں کا ایک جتھا خود بخود وجود میں آگیا۔ چند گھنٹے بعد یوتی کو فیس بک پیج پر ایک اور اپیل جاری کرنا پڑی ''آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مزید نہیں چاہیے۔ نیوزی لینڈرز جیتے رہیے۔۔'' گرو نانک فری کچن آک لینڈ (نیوزی لینڈ کا شہر)کی جانب سے ٹویٹر اور فیس بک پر اپیل ہوئی۔ مسلمان بھائیوں کی سیوا کے لیے ایسے رضاکار چاہئیں، جو میت کو غسل، جنازوں اور ان کے عزیزوں کو قبرستان تک پہنچا سکیں، قبر کی کھدائی میں مدد کر سکیں، سوگواروں کو کھانا کھلانے کے لیے لنگر کی ڈیوٹی سنبھال سکیں۔ بہت سے لوگ اُمڈ آئے۔ پھر ویلنگٹن شہر (نیوزی لینڈ)کی شہری لیانس ہوورڈ کا فیس بک پیج چند ہی گھنٹے میں سولہ ہزار سے زائد نیوزی لینڈرز نے شئیر کیا۔ پیغام بس اتنا ہے ''اگر ویلنگٹن کی کوئی مسلمان خاتون اس وقت خوفزدہ ہے تو مجھ سے رابطہ کرے۔''


حملوں کے بعد وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے مسلم کمیونٹی سے اسلامی لباس پہن کر تعزیت کا اظہار کیا،سیاہ لباس میں ملبوس سر پر دوپٹہ لیے جیسنڈا آرڈن نے مسلمان خواتین کو گلے لگایاجب کہ اپنے جواب سے امریکی صدر ٹرمپ کو بھی شرمندہ کردیا،ٹرمپ نے انھیں کہا کہ آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ جس پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ امریکا تمام مسلم کمیونٹی سے محبت و ہمدردی کا اظہار کرے،اس کے علاوہ جیسنڈا نے اسپتال میں عیادت کے دوران مذہبی و ثقافتی آزادی یقینی بنانے ومتاثرین کو بڑا مالی پیکیج دینے کا اعلان کیا۔ الغرض اس سانحہ سے امت مسلمہ سمیت پوری دنیا اشک بار اورصدمے میں دکھائی دی اور اسی سلسلے میں جرمنی کے دارلحکومت برلن میں مختلف مقامات پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ۔پھر ایک آسٹریلوی شہری نے غروب آفتاب کے وقت گھر کے باہر اذان کی ریکارڈنگ چلائی اور کہا کہ میں مذہبی نہیں ہوں لیکن مغرب کے وقت اذان سنا کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہوں۔

اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کے حملے کے بعد قومی پرچم سرنگوں رکھا گیا۔ النور مسجد کے باہر شہریوں کی جانب سے شہید ہونے والوں کے لیے تعزیتی پیغامات اور گلدستے رکھے گئے ، نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ کے آؤٹیا اسکوائر پر ہزاروں شہریوں نے شہدا کی یاد میں شمع روشن کیں، آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی مساجد میں بھی کرائسٹ چرچ میں تعزیتی ریفرنس اور دعائیہ تقریب منعقد کی گئی، کرائسٹ چرچ کے واقعے پر نیویارک مسلمانوں کے حق میں مظاہرے دیکھنے میں آئے، لندن کے ہائیڈ پارک میں شہری اظہار یکجہتی کے لیے اکٹھا ہوئے۔ امریکا کی پینسلوینا یونیورسٹی کے طلبا نے بھی مظاہرہ کیا۔ سانحہ کے پیش نظر سوگ میں فرانس کے ایفل ٹاور کی روشنیاں بند رکھی گئیں۔ آسٹریلوی سینیٹر نے اگر حیوانیت دکھائی بھی تو وہیں کے ایک عیسائی نوعمر لڑکے نے اُس پرانڈا مار کریہ پیغام دیا کہ انسانیت کاپیغام ہی امن کا ہے۔

اگر ماضی میں اگر جھانک کر دیکھا جائے تو 20اکتوبر 2009کو ایک خود کش بمبار اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں طالبات سے بھری کینٹین میں گھسنا چاہ رہا تھا۔ مگر اس سے خاکروب پرویز مسیح لپٹ گیا۔ خودکش بمبار کینٹین کے دروازے پر پھٹ گیا۔ تین ہلاکتیں ہوئیں۔ پرویز مسیح جان نہ دیتا تو بیسیوں ہلاکتیں ہوتیں۔

8جنوری 2015ء کو جب داعش نے پیرس میں توہین آمیز کارٹون چھاپنے والے رسالے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر ہلہ بولا تو ایک فرانسیسی پولیس افسر احمد مراتب انھیں روکنے کی کوشش میں شہید ہوگیا۔ جنازے میں شریک ہر شخص نے بیج لگا رکھا تھا ''میں احمد ہوں۔'' اسی دن پیرس میں سپر مارکیٹ پر دہشت گرد حملہ ہوا۔ وہاں مالی سے آیا ہوا ایک مسلمان پناہ گزیں لسانا بتیلی بھی مزدوری کرتا تھا۔ اس نے حالات بھانپ لیے اور جتنے بھی یہودی گاہکوں کو سپر مارکیٹ کے زیرِ زمین کمرے میں دھکیل سکتا تھا دھکیل کر باہر سے تالا لگا کے بچا لیا۔ صدر فرانسوا ہولاندے نے اس سیاہ فام مسلمان تارکِ وطن کو صدارتی محل میں بلایا اور مصافحہ کرتے ہوئے کہا 'تمہارے جیسا فرانسیسی کوئی نہیں۔'

گزشتہ برس مئی میں بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں رام نگر کے ایک مندر کے باہر انتہا پسندوں نے ایک ہندو لڑکی کے ہمراہ آنے والے مسلمان لڑکے کو گھیر لیا۔ ایک پولیس افسر گگن دیب سنگھ نے اس لڑکے کو خود سے چپکا کر سنگساری سے بچا لیا۔ بعد میں گگن دیپ نے کہا ''میں نے کیا خاص کیا؟ یہ تو ہر بھارتی کو کرنا چاہیے۔''

بہرکیف کرائسٹ چرچ واقعہ سوشل میڈیا کے کردار پر بھی سوال اٹھا گیا ہے، جس طریقے سے دہشت گردی کی واردات کو براہ راست نشر کیا گیا اور پھر کئی گھنٹے تک فیس بک نے اس ویڈیو کو نہیں ہٹایا، یہ بات بے حد خطرناک ہے۔ مستقبل میں ٹیکنالوجی کیا روپ دھارے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر یہ بات طے ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا مزید گنجلک اور خطرناک ہوتی چلی جائے گی، بظاہر سائنس کے کمالات نے ہماری زندگیاں سہل بنا دی ہیں مگر ٹیکنالوجی کے اندر چھپی ہوئی شیطانیت ہم ابھی تک جان نہیں پائے، کرائسٹ چرچ واقعے نے اس کی فقط ایک جھلک ہمیں دکھلائی ہے!
Load Next Story