خضر صورت مسیحا

میں بڑی مشکل سے یہ خوشخبری ہضم کرکے حیران پریشان آگے بڑھا۔

ایک خضر صورت مسیحا اکثر میرے خواب میں آجاتے ہیں اور بس ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں، کہ یہ کیا حال بنایا ہوا ہے ملک کا ، ہرکام الٹا۔ بارہا عرض کیا کہ قبلہ من آنم کہ من دانم، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ، مجھے کیوں پھٹکارتے ہیں جاکر ذرا ارباب اختیار واقتدار کو سمجھائیں، تو ناراض ہوکر غائب ہوجاتے ہیں، کل شب پھر یہی ماجرا رہا ، آگئے قبلہ اور اس دفعہ بجائے پھٹکارنے کے فرمایا چل تجھے ایک جگہ لے چلتا ہوں یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑا اور زورکا جھٹکا مارا اور میں نے خواب کے اندر ایک اور خواب دیکھنا شروع کردیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ میں اٹھ کر گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ہمارے محلے کی ساری ابلتی ہوئی گٹر لائنیں بالکل ٹھیک ہوچکی ہیں ۔کوڑے دان بالکل صاف ہیں بلکہ فینائل کی مہک نے ماحول کو مہکا رکھا تھا دیکھا ساری ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تو گویا موٹر وے کا منظر پیش کررہی ہیں۔

لوگ ٹریفک سگنلز پر نہ صرف رک رہے ہیں بلکہ کوئی بے وجہ ہارن بھی نہیں بجا رہا ہے۔ پھر بازار کی طرف آ نکلا،کیا دیکھتا ہوں کہ مارکیٹیں یورپی شاپنگ مال کی طرح چمک رہی ہیں، دکاندار اورگاہک بہت محبت سے ایک دوسرے سے پیش آرہے ہیں ۔کوئی چیز واپس کرنے آرہا ہے تو دکاندار نہ صرف واپس لے رہا بلکہ معذرت بھی کر رہا ہے۔ ذرا آگے بڑھا تو چوک پر بڑا سا ٹی وی لگا دیکھا جس میں اپوزیشن لیڈر اور حکومتی ارکان کسی ٹاک شو میں یوں محو گفتگو تھے۔ اعلیٰ منطقی معیارکی دانشورانہ گفتگو بڑے مہذب انداز میں کی جارہی تھی۔

کچھ مزید آگے بڑھا تو ایک پنڈال سا لگا دیکھا اندر جھانکا تو تمام فرقوں کے علما ایک لمبے دسترخوان پر بیٹھے ساتھ کھانا کھا رہے اور آپس میں ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی کر رہے تھے ۔ انداز سے محبت اور خلوص عیاں تھا۔ میں عش عش کر اٹھا۔ اور آگے بڑھا تو سامنے صاف ستھرا رنگ و روغن کیا ہوا بڑے سے میدان کا حامل سرکاری اسکول نظر پڑا ، جہاں بڑی بڑی عالیشان گاڑیوں سے بچے اترکر تعلیم حاصل کرنے کے لیے غریب بچوں کے ساتھ ساتھ اسکول میں داخل ہورہے تھے۔ ان عالیشان گاڑیوں میں سے چند گاڑیاں جھنڈے والی بھی تھیں، میں نے پاس کسی سے یہ معاملہ دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ تمام ملک میں یکساں نصاب تعلیم اردو زبان میں نافذ کر دیا گیا ہے اور اب امیر غریب، وزیر، مشیر، صدر وزریر اعظم سب کے بچے سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھتے ہیں۔


میں بڑی مشکل سے یہ خوشخبری ہضم کرکے حیران پریشان آگے بڑھا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ملک کے عالی مرتبت صدر مملکت ایک سرکاری اسپتال سے بنا کسی پروٹوکول باہر آ رہے ہیں اور چہرے پرمعمولی کمزوری و بیماری عیاں ہے۔ میں ہمت کرکے ان کے پاس گیا، مجھے کسی نے نہ روکا۔ میں نے بڑے ادب سے مزاج پرسی کی اور طبعیت دریافت کی تو کمال شفقت سے فرمایا کہ'' الحمداللہ! اب تین دن یہاں سے دوا لینے کے بعد طبعیت بہت بہتر ہے، بس ذراکمزوری ہے ۔ '' میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ '' سر! اپ باہر سے علاج نہیں کروانے گئے'' تو کچھ خفگی سے مجھے دیکھ کر فرمانے لگے '' میاں ، یہ سب دور جہالت کی باتیں ہیں ، تب ہوا کرتی تھیں ،اب تو وطن بدل چکا ہے، یہ کہہ کر اللہ حافظ کہا اور ٹیکسی روک کر اپنے اکلوتے گارڈ کے ہمراہ بیٹھ کر چلے گئے۔

حیرت میں ڈوبا ہوا گم سم سا وہیں کھڑا تھا کہ مزید حیرت کا جھٹکا لگا دیکھا کہ ملک کے ارب پتی خاتون اپوزیشن لیڈر ایک رکشے سے اتریں اور سرکاری اسپتال کی پرچی کی لائن میں جاکر کھڑی ہوگئیں جہاں چند اور خواتین بھی کھڑی تھیں،دل تو بہت ہوا کہ جاکر ان سے بھی دعا سلام لوں کچھ حال احوال دریافت کروں ،لیکن ان کے پر جلال اور بارعب چہرے کو دیکھ کر ہمت نہ ہوئی اتنے میں کہ ایک صاحب جو میری اور عالیٰ جناب صدرِ ذی وقارکی گفتگو سن رہے تھے ،کہنے لگے ،بھائی لگتا ہے آپ کہیں باہر سے تشریف لائے ہیں۔

یہاں تو اب برسوں سے سب ہی چاہے امیر ہو یا غریب، وزیر و سفیر ہو یا کوئی چھوٹے درجے کا ملازم ، سرکاری بندہ ہو یا عوام الناس ، سب سرکاری اسپتالوں میں ہی علاج کراتے ہیںاور اس اسپتالوں اور ان کے ملحقہ میڈیکل کالجز کا معیار اتنا اچھا ہے کہ لوگ بیرون ممالک سے خاص طور پر یورپ اور امریکا سے یہاں پڑھنے آیا کرتے ہیں،وہ دیکھیے انھوں نے ایک جانب اشارہ کیا میں نے دیکھا تو ایک سادہ مگر باوقار سی عمارت جو وسیع رقبے پر محیط تھی نظر پڑی،اس پر لکھا تھا کہ باقاعدہ تصدیق شدہ دنیا کی نمبر ایک میڈیکل یونیورسٹی، اور بے شمار غیر ملکی طلباء و طالبات رنگ برنگے پیراہن میں اندر جارہے اور باہر آتے نظر پڑے کہ گویا میلہ سا لگا تھا، وہی صاحب بولے کہ ہماری باقی شعبوں کی تعلیمی یونیورسٹیاں بھی کم و بیش دنیا میں اگر نمبر ایک نہیں تو دو یا تین پر ضرور ہیں ۔میں ایک بے یقینی کے عالم میں آنکھیں پھاڑے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔

وہ بھی یہ داستان عجائب سنا کر تیزی سے آگے بڑھ گئے،کہ اچانک ایک شور سا بلند ہوا اس طرف بھاگا کہ دیکھوں تو کیا معاملہ ہے تو دیکھا کہ چھوٹا سا مجمع لگا ہوا ہے اور ایک وکیل صاحب اپنے کلائنٹ کو فیس واپس کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ جناب بہت شرمندہ ہوں کہ مقدمہ نہیں جتوا سکا آپ یہ آدھے پیسے واپس لے لیں،مگر وہ کلائنٹ صاحب بھی شد ومد سے انکاری ہیں نفی میں سر ہلا رہے ہیں کہ نہیں صاحب! آپ نے تو پوری کوشش اور محنت کی،یہ تو میرا ہی کیس کمزور تھا۔آپ کی کیا غلطی ہے۔ قارئینِ باتمکین پتہ نہیں کیسے یہ عجائب و غرائب دیکھ کر میرے اوسان خطا نہیں ہوئے اور کیسے اپنے حواس میں تھا نہیں جانتا۔

انھی حیرتوں میں ڈوبا وہاں سے آگے ذرا اشتیاق سے بڑھا کہ کچھ اس طلسم ہوش ربا، اس یوٹوپیا اس عجائب و غرائب سے بھرپور فلاحی ریاست اس مثالی جگہ کے کچھ اور عجائبات اور نظارے بھی نظر حسرت و حیرت سے ذرا دیکھوں تو، پر منظر ہی بدل گیا اور یکایک جیسے کہیں سے گھنے بادل سے آگئے اور ایک دم چاروں طرف اندھیرا ساچھا گیا، تیز ہوائیں سنسنانے لگیں، اور ایک کڑک دار دار ندائے سروش (غیبی آواز) کانوں میں پڑی کہ دیکھو، سوچو، سمجھو، تمھیں تو ایسا ہونا تھا اور تم کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے اور پھر یہ سب منظر دفعتا نگا ہ سے اوجھل ہوگیا اور وہی خضر صورت مسیحا خفگی کے عالم میں مجھے گھور رہے تھے، میں فورا ان کی جانب لپکا کہ ان سے ذرا کچھ وضاحت کچھ رہنمائی مزیدحاصل کروں مگر وہ یونہی ناراض انداز میں غائب ہوگئے اور میری آنکھ کھل گئی، پھر جانے کیا ہوا کہ اٹھنے کے بعد میں بستر پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
Load Next Story