قبائلی اضلاع کیلئے اعلان کردہ منصوبوں پر عملدرآمد کی ضرورت

وزیراعظم سات میں سے تین قبائلی اضلاع کا دورہ تو کرگئے ہیں اب آنے والے دنوں میں مزید قبائلی اضلاع کے دورے بھی کریں گے۔

وزیراعظم سات میں سے تین قبائلی اضلاع کا دورہ تو کرگئے ہیں اب آنے والے دنوں میں مزید قبائلی اضلاع کے دورے بھی کریں گے۔فوٹو: فائل

وزیراعظم پاکستان عمران خان جب سے وزیرستان کا دورہ کرکے گئے تھے اسی وقت سے انتظار کیا جا رہا تھاکہ وہ دیگر قبائلی اضلاع کے بھی دورے کریں تاکہ ان قبائلی اضلاع کے لیے بھی اہم اعلانات ہو سکیں اور باجوڑ اور مہمند کے اضلاع کے باسیوں کا انتظار بالآخر ختم ہوگیا ہے کیونکہ وزیراعظم ایک ہی دن ان دونوں قبائلی اضلاع کا دورہ کرگئے ہیں جس کے دوران جہاں انہوں نے ان دونوں قبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا وہیں انہوں نے یہ موقع بھی اپنے سیاسی مخالفین کو رگڑا دینے کے حوالے سے ضائع نہیں کیا اور ساتھ ہی پاک، بھارت کشیدگی کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی۔

وزیراعظم کی جانب سے ان دونوں اضلاع کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں خیبر،کرم اور اورکزئی کے اضلاع کے دورے بھی کیے جائیں گے جبکہ ساتھ ہی جنوبی وزیرستان کی عوام بھی ان کا انتظار کر رہی ہے کیونکہ ان قبائلی اضلاع میں بسنے والے لوگوں نے عسکریت پسندی اوردہشت گردی کی وجہ سے جن بدترین حالات کا سامنا کیا ان کو یقینی طور پر الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور اب انھیں صرف اور صرف ریلیف اور سہولیات کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم سات میں سے تین قبائلی اضلاع کا دورہ تو کرگئے ہیں اور اب آنے والے دنوں میں مزید قبائلی اضلاع کے دورے بھی کریں گے، تاہم ان ہی کی مرکزی حکومت ان قبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی فنڈز کے اجراء میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں جس کے لیے صوبہ کے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی سے ملاقات بھی کی اور ان کی جانب سے فنڈز اجراء کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جاری مالی سال کی تیسری سہ ماہی اپنے اختتام کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اپریل سے چوتھی سہ ماہی شروع ہو جائے گی جس کے دوران صرف ان منصوبوں پر توجہ دی جاتی ہے کہ جن کی تکمیل ممکن ہو جبکہ دیگر سکیموں اور منصوبوں کو تھروفاروڈ کی صورت آئندہ مالی سال کی طرف دھکیل دیاجاتا ہے اور اس وقت صوبہ کے بندوبستی اضلاع کے حوالے سے تھرو فارورڈ 6 تک پہنچ چکا ہے یعنی ہر ترقیاتی سکیم کی مدت تکمیل 6 سالوں تک پہنچ چکی ہے جبکہ اب قبائلی اضلاع کی ادھوری اور نامکمل سکیموں سے یہ تھروفارورڈ مزید بڑھ جائے گا جس سے صوبہ میں نئے ترقیاتی کاموں کے لیے گنجائش مزید کم ہو جائے گی۔

چونکہ صوبہ میں پہلے ہی سے انتظامی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ترقیاتی بجٹ بڑھنے کی بجائے کمی کا شکار ہے ایسے میں اگر مرکزی حکومت صوبہ کوقبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی فنڈزکی فراہمی بھی نہیں کرے گا تو اس سے صوبہ کے لیے مشکلات بڑھیں گی وہ بھی اس صورت حال میں کہ اس وقت تک نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی جس سے آئینی طور پر صوبہ کا مالی حصہ بڑھنے کا امکان نظر نہیں آرہا اور اس صورت میں صوبہ کو ایک مرتبہ پھر فنڈز کے حصول کے لیے مرکز کی منتیں،ترلے کرنے پڑیں گے۔

تاکہ مرکز سے پیسہ حاصل کیا جا سکے تاہم اگر نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری ہو گیا اور صوبہ کو قبائلی اضلاع کے لیے تین فیصد رقم مل گئی تو اس سے یقینی طور پر صوبہ کو درپیش مالی مشکلات کم ہو جائیں گی تاہم ایسا آئندہ مالی سال کے دوران ہی ہو پائے گا تاہم جہاں تک جاری مالی سال کا تعلق ہے تو اس سال کے دوران مرکز نے قبائلی اضلاع کے لیے جو 100 ارب روپے فراہم کرنے ہیں وہ تاحال صوبہ کونہیں مل سکے ۔


اور یہ رقم اگر مرکز کی جانب سے اس سال جاری نہیں کی جاتی تو اس صورت میں یہ رقم آئندہ سال صوبہ کو فراہم کی جائے گی جس سے صوبہ پر بوجھ بن جائے گا کیونکہ اگر جاری سال کے سو ارب میں سے بیس،تیس ارب اس سال ملتے ہیں اور بقایا ستر، اسی ارب آئندہ سال ملتے ہیں اور ساتھ ہی آئندہ مالی سال کے سو ارب روپے بھی فراہم کیے جاتے ہیں تو یہ صوبہ کے بندوبستی اضلاع کی اے ڈی پی کے مساوی ہوگی جس کا استعمال صوبہ کے بس میں نہیں ہوگا اس لیے صوبائی حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں اور اداروں کو قبائلی اضلاع کے لیے بہرکیف موجودہ حالات میں الگ میکنزم تیار کرنا چاہیے تاکہ یہ رقم استعمال کی جاسکے۔ صوبہ کی صورت حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کابینہ سات میں سے صرف ایک قبائلی ضلع میں اپنا اجلاس منعقد کرپائی ہے۔

ماہ جنوری میں قبائلی ضلع خیبر میں خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ماہ فروری میں کسی دوسرے قبائلی ضلع میں بھی کابینہ اپنا اجلاس منعقد کرے گی تاہم ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے یقینی طور پر ان اضلاع میں مایوسی پیدا ہو گی جس کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی کابینہ اپنا پروگرام تشکیل دے۔

اور بڑی پختون قوم پرست جماعتوں کی جانب سے''کولڈ شولڈر'' دکھانے کے باوجود قومی وطن پارٹی مایوسی کا شکار نہیں ہوئی اور اس نے پختون قوم پرست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی جس کے نتیجے میں وہ پانچ جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تاہم جن جماعتوں کو کیوڈبلیو پی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے نہ تو ان کی پارلیمانی حیثیت ہے اور نہ ہی وہ اس قدر عوامی طاقت رکھتی ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے بھرپور قوت بن کر سامنے آسکیں۔

اگر ان قوم پرست جماعتوں کے اکٹھ کو ماضی کے قوم پرست جماعتوں کے اتحاد ''پونم'' کی طرز کا اتحاد تصور کیاجا رہا ہے تو یقینی طور پر یہ غلط فہمی ہی ہوگی کیونکہ پونم میں نہ صرف یہ کہ بڑی پختون قوم پرست جماعتیں شامل تھیں بلکہ ساتھ ہی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتیں بھی اس کا حصہ تھیں اور پھر اجمل خٹک مرحوم، ڈاکٹرعبدالقادر مگسی، تاج محمد لنگا، میر حاصل بزنجو اور دیگر ہیوی ویٹ شخصیات اس اتحاد کا حصہ تھیں یہی وجہ ہے کہ قوم پرست جماعتوں کے مذکورہ اتحاد پونم کو روایتی جماعتیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں تاہم قومی وطن پارٹی نے جن جماعتوں کو اکٹھے کرتے ہوئے قوم پرست اتحاد تشکیل دیا ہے وہ اس طریقے سے دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔

چونکہ قوم پرست جماعتوں کے اس نئے اتحاد میں قومی وطن پارٹی ہی ایسی سیاسی پارٹی ہے جو پارلیمانی سیاست کرتی اور ماضی میں پارلیمان میں نمائندگی کرتی آئی ہے ا س لیے یہ اتحاد بنیادی طور پر قومی وطن پارٹی ہی کے گردگھومتا نظر آئے گا اور اس کے روح رواں بھی کیوڈبلیوپی کے چیئرمین آفتاب احمدخان شیرپائو اور ان کے صاحبزادے سکندر شیر پائو ہی ہونگے، اگر اس پلیٹ فارم پر عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اکٹھی ہوجاتیں اور بعدازاں پنجاب اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جاتا تو اس صورت میں یقینی طور پر یہ دیگر جماعتوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا سکتا تھا تاہم موجودہ حالات میں ایسا کوئی تاثر پیدا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اوراپوزیشن کی ریکوزیشن پر خیبرپخونخوا اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا ہے جس میں اپوزیشن کی جانب سے دیئے گئے ایجنڈے پر بھرپور طریقے سے بحث کرانے کے لیے وقفہ سوالات اور تحاریک التواء کو بھی ملتوی کردیا گیا ہے جس سے اپوزیشن کے ہاتھ کھلا میدان آگیا ہے کہ وہ اپنے دیئے ہوئے ایجنڈے پر بھرپور طریقے سے بحث کرتے ہوئے پالیسی سازی کی طرف جا سکے کیونکہ یہی وہ فورم ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن مل کر عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بات کر سکتے ہیں تاہم اگر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ اپوزیشن کے چند قائدین پر چھوڑ دیا تو اس سے اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی اجلاس ریکوزٹ کرنے اور ساتھ ہی لمبا چوڑا ایجنڈا دینے کا اصل مقصد فوت ہوکر رہ جائے گا۔
Load Next Story