پاکستان میں برفانی چیتوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا
برفانی چیتے کا مستقبل بچانے کیلئے عالمی اداروں نے پاکستان میں سنو لیپرڈ کے بچاؤ کے پروگرام کا آغاز کردیا
موسیماتی تبدیلی اور انسانی حملوں کے باعث پاکستان میں برفانی چیتوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
برفانی چیتے کا شمار دنیا کے نایاب جانوروں میں ہوتا ہے، برفانی چیتا پاکستان کے بالائی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، موسیماتی تبدیلی اور انسانی حملوں کے باعث پاکستان میں برفانی چیتوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، برفانی چیتا کوہ ہندو کش، قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے لیکن اب اسکی تعداد میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے جب کہ پاکستان میں مختلف اعداد و شمار کے مطابق برفانی چیتوں کی تعداد صرف 200 کے لگ بھگ رہ گئی ہے، برفانی چیتا پاکستان، بھوٹان، نیپال، انڈیا، کرغیزستان، تاجکستان، منگولیا اور روس میں پایا جاتا ہے۔
برفانی چیتے کا مستقبل اور اسکی افزائش نسل کو بچانے کے لئے عالمی اداروں نے پاکستان میں اسنو لیپرڈ کے بچاؤ کے پروگرام کا آغاز کر دیا ہے، پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے مطابق چترال کے پہاڑوں میں سال 2007ء میں کئے گئے سروے کے مطابق برفانی چیتوں کی تعداد 36 رہ گئی تھی، 2007ء سے 2018ء تک پاکستان میں برفانی چیتے کی تعداد معلوم کرنے کے لئے کوئی سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھائے گئے۔
29 نومبر 2018ء میں پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ اور اسکی تعداد معلوم کرنے کے لئے یو این ڈی پی کے تعاون سے پانچ سالہ پروگرام ''پاکستان اسنو لیپرڈ اینڈ ایکو سسٹم پروٹیکشن پروگرام'' کا آغاز کیا گیا، اس پراجیکٹ کے تحت آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور چترال سمیت ملک کے دیگر شمالی علاقوں میں برفانی چیتے کے لئے قدرتی ماحول، اسکے شکار میں کمی، کمیونٹی میں برفانی چیتے کے حوالے سے آگاہی پر کام جاری ہے۔
چترال میں اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جعفر الدین نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چترال کے 15 سے 20 دیہاتوں میں برفانی چیتے کے تحفظ، کمیونٹی میں آگاہی، اس کی رہائش اور وائلڈ لائف سے متعلق کام ہو رہا ہے، برفانی چیتا اپرچترال کے علاقوں میں پایا جاتا ہے اور گزشتہ دس سالوں کے دوران چترال میں برفانی چیتے کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے اور شکار میں بھی کمی آئی ہے۔
امریکہ میں برفانی چیتے پر کام کرنے والی عالمی تنظیم اسنو لیپرڈ ٹرسٹ کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں برفانی چیتوں کی تعداد مجموعی طور پر 200 سے 420 کے درمیان ہے لیکن اسکے حتمی اعداد و شمار تاحال جمع نہیں کئے جا سکے۔ سال 2008ء سے 2016ء کے دوران ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں 300 سے زائد برفانی چیتوں کو شکار کے شوق میں مارا جاتا ہے۔
چترال میں برفانی چیتے سے متعلق خواتین میں آگاہی پیدا کرنے والی اسنو لیپڑ فاؤنڈیشن سے وابستہ انٹر پرائز ڈیویلمنٹ آفیسر یاسمین نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت چترال کے تین دیہاتوں میں فی میل اسنو لیپرڈ کنزرویشن پروگرام چلا رہی ہیں جس میں کوغزی، کوجو اور گولین شامل ہیں جہاں چترال سے تعلق رکھنے والی 108 ہنر مند خواتین حصہ لے رہی ہیں خواتین سالانہ 6 ہزار روایتی رومال تیار کرتیں ہیں جس پر انکو ماہانہ مزدوری دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتی ہیں۔
اسنو لیپڑ فاونڈیشن کی جانب سے خواتین کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ برفانی چیتے کا شکار نہیں کریں گی اور شکار کرنے والوں کو بھی منع کریں گی جب کہ اگر مال مویشی برفانی چیتا چکار کرلیتا ہے تو پھر انہیں اسکی ادائیگی بھی جاتی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے برفانی چیتے کا وزن 27 سے 35 کلو گرام ہوتا ہے جب کہ اسکی سر سے دم تک لمبائی 150 انچ تک ہوتی ہے، برفانی چیتے جون اور اپریل میں بچے دیتے ہیں جب کہ انکی مجموعی طور پر عمر 18 سال تک ہوتی ہے، دنیا میں برفانی چیتوں کی تیزی سے نسل ختم ہوتی جا رہی ہے جسکی بڑی وجہ غیرقانونی شکار، موسمیاتی تبدلی، برفانی چیتوں کیلئے خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے شکار کا کم ہونا، برفانی علاقوں میں آبادی کا بڑھنا وغیرہ شامل ہے۔
عالمی سروے کے مطابق برفانی چیتے کا 90 فیصد شکار، چین، پاکستان، انڈیا، منگولیا اور تاجکستان میں ہو رہا ہے، برفانی چیتے کا شکار اسکی کھال، اسکے قیمتی دانتوں اور ہڈیوں کو مہنگے داموں فروخت کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی سے پانی اور موسمیاتی تبدیلی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے انجرنئینگ یونیورسٹی پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف نے ایکپسریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات ہر سال بڑھ رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
ہمالیہ میں گلیشئرز کی (3 سے 5 میٹر) کوہ ہندوکش (1 سے 3 میٹر) میلٹنگ ہو رہی ہے، کوہ ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں موسماتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے لئے قدرتی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے تیزی سے پگھلتے گلیشئرز کی وجہ سے برفانی چیتے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، انکو خوراک سمیت دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر چترال اور گلگت میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے شکار، رہائش گاہیں اور قدرتی ماحول کافی متاثر ہو رہا ہے۔
چیف کنزویٹو وائلڈ لائف خیبر پختونخوا صفدر خان کے مطابق برفانی چیتے کے مستقبل کے لئے ضلع چترال میں بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے، گزشتہ دس سالوں کے دوران خیبر پختونخوا میں کسی نے برفانی چیتے کا شار نہیں کیا، سخت قوانین اور کمیونٹی میں بہتر آگاہی مہم اور مقامی لوگوں کو مختلف اویئرنس پروگرامز کے زریعے روزگار دیا جا رہا ہے جس کے باعث چترال میں برفانی چیتے کو کسی نے نقصان نہیں پہنچایا، کیمروں کے ذریعے برفانی چیتوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے، برفانی چیتے کے شکار کے لئے آئی بیکس، بکریوں اور دیگر مویشوں کی افزائش نسل کے لئے بھی محکمہ وائلد لائف کی جانب سے بہتر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
گلگت میں برفانی چیتے کے انسانوں پر اور مویشیوں پر حملے رپورٹ ہوئے ہیں لیکن چترال میں ایسی صورتحال نہیں، چترال گول نیشنل پارک میں برفانی چیتوں کی مانیٹرنگ، انکے لئے قدرتی ماحول اور رہنے کی بہتر جگہ کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
برفانی چیتے کا شمار دنیا کے نایاب جانوروں میں ہوتا ہے، برفانی چیتا پاکستان کے بالائی پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، موسیماتی تبدیلی اور انسانی حملوں کے باعث پاکستان میں برفانی چیتوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، برفانی چیتا کوہ ہندو کش، قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے لیکن اب اسکی تعداد میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے جب کہ پاکستان میں مختلف اعداد و شمار کے مطابق برفانی چیتوں کی تعداد صرف 200 کے لگ بھگ رہ گئی ہے، برفانی چیتا پاکستان، بھوٹان، نیپال، انڈیا، کرغیزستان، تاجکستان، منگولیا اور روس میں پایا جاتا ہے۔
برفانی چیتے کا مستقبل اور اسکی افزائش نسل کو بچانے کے لئے عالمی اداروں نے پاکستان میں اسنو لیپرڈ کے بچاؤ کے پروگرام کا آغاز کر دیا ہے، پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے مطابق چترال کے پہاڑوں میں سال 2007ء میں کئے گئے سروے کے مطابق برفانی چیتوں کی تعداد 36 رہ گئی تھی، 2007ء سے 2018ء تک پاکستان میں برفانی چیتے کی تعداد معلوم کرنے کے لئے کوئی سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھائے گئے۔
29 نومبر 2018ء میں پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ اور اسکی تعداد معلوم کرنے کے لئے یو این ڈی پی کے تعاون سے پانچ سالہ پروگرام ''پاکستان اسنو لیپرڈ اینڈ ایکو سسٹم پروٹیکشن پروگرام'' کا آغاز کیا گیا، اس پراجیکٹ کے تحت آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور چترال سمیت ملک کے دیگر شمالی علاقوں میں برفانی چیتے کے لئے قدرتی ماحول، اسکے شکار میں کمی، کمیونٹی میں برفانی چیتے کے حوالے سے آگاہی پر کام جاری ہے۔
چترال میں اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جعفر الدین نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چترال کے 15 سے 20 دیہاتوں میں برفانی چیتے کے تحفظ، کمیونٹی میں آگاہی، اس کی رہائش اور وائلڈ لائف سے متعلق کام ہو رہا ہے، برفانی چیتا اپرچترال کے علاقوں میں پایا جاتا ہے اور گزشتہ دس سالوں کے دوران چترال میں برفانی چیتے کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے اور شکار میں بھی کمی آئی ہے۔
امریکہ میں برفانی چیتے پر کام کرنے والی عالمی تنظیم اسنو لیپرڈ ٹرسٹ کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں برفانی چیتوں کی تعداد مجموعی طور پر 200 سے 420 کے درمیان ہے لیکن اسکے حتمی اعداد و شمار تاحال جمع نہیں کئے جا سکے۔ سال 2008ء سے 2016ء کے دوران ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں 300 سے زائد برفانی چیتوں کو شکار کے شوق میں مارا جاتا ہے۔
چترال میں برفانی چیتے سے متعلق خواتین میں آگاہی پیدا کرنے والی اسنو لیپڑ فاؤنڈیشن سے وابستہ انٹر پرائز ڈیویلمنٹ آفیسر یاسمین نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت چترال کے تین دیہاتوں میں فی میل اسنو لیپرڈ کنزرویشن پروگرام چلا رہی ہیں جس میں کوغزی، کوجو اور گولین شامل ہیں جہاں چترال سے تعلق رکھنے والی 108 ہنر مند خواتین حصہ لے رہی ہیں خواتین سالانہ 6 ہزار روایتی رومال تیار کرتیں ہیں جس پر انکو ماہانہ مزدوری دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتی ہیں۔
اسنو لیپڑ فاونڈیشن کی جانب سے خواتین کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ برفانی چیتے کا شکار نہیں کریں گی اور شکار کرنے والوں کو بھی منع کریں گی جب کہ اگر مال مویشی برفانی چیتا چکار کرلیتا ہے تو پھر انہیں اسکی ادائیگی بھی جاتی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والے برفانی چیتے کا وزن 27 سے 35 کلو گرام ہوتا ہے جب کہ اسکی سر سے دم تک لمبائی 150 انچ تک ہوتی ہے، برفانی چیتے جون اور اپریل میں بچے دیتے ہیں جب کہ انکی مجموعی طور پر عمر 18 سال تک ہوتی ہے، دنیا میں برفانی چیتوں کی تیزی سے نسل ختم ہوتی جا رہی ہے جسکی بڑی وجہ غیرقانونی شکار، موسمیاتی تبدلی، برفانی چیتوں کیلئے خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے شکار کا کم ہونا، برفانی علاقوں میں آبادی کا بڑھنا وغیرہ شامل ہے۔
عالمی سروے کے مطابق برفانی چیتے کا 90 فیصد شکار، چین، پاکستان، انڈیا، منگولیا اور تاجکستان میں ہو رہا ہے، برفانی چیتے کا شکار اسکی کھال، اسکے قیمتی دانتوں اور ہڈیوں کو مہنگے داموں فروخت کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی سے پانی اور موسمیاتی تبدیلی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے انجرنئینگ یونیورسٹی پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف نے ایکپسریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات ہر سال بڑھ رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
ہمالیہ میں گلیشئرز کی (3 سے 5 میٹر) کوہ ہندوکش (1 سے 3 میٹر) میلٹنگ ہو رہی ہے، کوہ ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں موسماتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے لئے قدرتی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے تیزی سے پگھلتے گلیشئرز کی وجہ سے برفانی چیتے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، انکو خوراک سمیت دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر چترال اور گلگت میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے شکار، رہائش گاہیں اور قدرتی ماحول کافی متاثر ہو رہا ہے۔
چیف کنزویٹو وائلڈ لائف خیبر پختونخوا صفدر خان کے مطابق برفانی چیتے کے مستقبل کے لئے ضلع چترال میں بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے، گزشتہ دس سالوں کے دوران خیبر پختونخوا میں کسی نے برفانی چیتے کا شار نہیں کیا، سخت قوانین اور کمیونٹی میں بہتر آگاہی مہم اور مقامی لوگوں کو مختلف اویئرنس پروگرامز کے زریعے روزگار دیا جا رہا ہے جس کے باعث چترال میں برفانی چیتے کو کسی نے نقصان نہیں پہنچایا، کیمروں کے ذریعے برفانی چیتوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے، برفانی چیتے کے شکار کے لئے آئی بیکس، بکریوں اور دیگر مویشوں کی افزائش نسل کے لئے بھی محکمہ وائلد لائف کی جانب سے بہتر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
گلگت میں برفانی چیتے کے انسانوں پر اور مویشیوں پر حملے رپورٹ ہوئے ہیں لیکن چترال میں ایسی صورتحال نہیں، چترال گول نیشنل پارک میں برفانی چیتوں کی مانیٹرنگ، انکے لئے قدرتی ماحول اور رہنے کی بہتر جگہ کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔