سر سبز پاکستان
انسانوں کی دنیا میں جتنی ترقی وسعت اور نکھار پیدا ہوا ہے وہ سب انسانی زندگیوں کے میل جول کا ثمر ہے۔
موسم معتدل ہے اور سردیاں اگرچہ اپنا قہر برسا کر جانے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن ان کے حملے ابھی بھی جاری ہیں یہ وہ اطلاع ہے جو میرے ایک عزیز نے گاؤں سے ٹیلی فون پر دی ہے۔میں عرض کردوں کہ میں ایک سرد گاؤں کا باشندہ ہوں اور سردیاں ایک ایسا موسم ہے جو ہر سال جھومتا ہوا آتا ہے اور جسم میں مسلسل کپکپی دوڑا کر گزر جاتا ہے۔
قدرت نے وادیٔ سون کے لیے ایک سخت موسم بھی رکھ دیا ہے اگرچہ گرم موسم میں یہاں کے باسی لطف اٹھاتے ہیں لیکن اس کی کسر سردیوں میں نکل جاتی ہے جب جسموں پر ایسی کپکپی طاری ہوتی ہے کہ ان کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ سرد کپکپی بس طاری ہی رہے گی اور جسموں کو اس سے نجات نہیں ملے گی لیکن قدرت انسانوں کو اس سرد آزمائش میں کچھ ہچکولے دے کر گزر جاتی ہے اور ان کے جسم پھر سے معقول موسم میں لوٹ آتے ہیں یعنی ایسا موسم جس میں انسانوں کی زندگی معمول پر آجاتی ہے یا یوں کہیے کہ وہ بحال ہو جاتے ہیں اور ان کے جسم رفتہ رفتہ اپنی قدرتی زندگی پر لوٹ آتے ہیں یعنی وہ اس موسم میں لوٹ آتے ہیں جو ان کے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔
موسم کے مطابق ہوتا ہے بہرکیف وادیٔ سون کے ہر آن بدلتے ہوئے موسم کو بیان کرنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اس موسم کو برداشت کرنا آسان ہے مگر قدرت نے انسان کو وہ طاقت عطا کر دی ہے جو ہر قسم کے موسم کو برداشت کرتی ہے اور انسان کے لیے ہر موسم میں کام کرنے کو آسان بنا دیتی ہے یہ انسان کی ہمت اور شوق ہے جو اسے موسموں کی تبدیلی اور ان کے اتار چڑھاؤ کو برداشت کرتا ہے اور اپنے آپ یعنی اپنے خیالات کو انسانوں تک پہنچاتا ہے ۔ اب یہ اس کے قارئین اور اس کے پڑھنے والوںکی مرضی ہے کہ وہ ان خیالات کو قبول کرتے ہیں یا نہیں اور کس حد تک قبول کرتے ہیں اور کس حد تک مسترد کردیتے ہیں۔
قدرت نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کس بات کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا ۔کوئی انسان کسی کا پابند نہیں ہے وہ آزاد ہے اور قدرت نے اس کی آزادی کو اس کا حق تسلیم کیا ہے۔انسان کی یہی آزادی ہے جس نے انسان سے کئی کارنامے دوسرے انسانوں کو عطاکیے ہیں اور انسانوں کے درمیان ان کے کارناموں کا تبادلہ سرزد ہوا ہے۔ یہ تبادلہ ہی انسانوں کی زندگیوں کو آگے لے جاتا ہے اور ان کی زندگیوں کو نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔
انسانوں کی دنیا میں جتنی ترقی وسعت اور نکھار پیدا ہوا ہے وہ سب انسانی زندگیوں کے میل جول کا ثمر ہے یہاں تک کہ اس وسیع و عریض دنیا میں انسانوں نے نقل و حرکت کے ساتھ ایک نئی بلکہ کئی نئی دنیائیں تخلیق کر دی ہیں اور انسانی فکر ان دنیاؤں میں گھومتی پھرتی اور خیالات کو پھیلاتی ہے جس سے انسانوں کے تعلقات بڑھتے ہیں پھیلتے ہیں اور تنگ نظری رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان آپس میں گھل مل جاتے ہیں جس سے ان کے خیالات کو نئی پرواز ملتی ہے اور وہ نئی دنیا سے آشنا ہوتے ہیں ۔
انسانوں کی یہی وہ زندگی ہے جو ان کی معاشی اور فکری پرواز کو پھیلاتی اور اوپر اٹھاتی ہے اسی رویے سے انسانی زندگی ایک نئی زندگی سے آشنا ہوتی ہے ۔ یہی نئی زندگی ان زندگیوں کا نیا موڑ بنتی ہے انھیں نئے راستے دکھاتی ہے اور اس کے سامنے نئی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کھلتے دروازے ہی انسان کا مستقبل ہوتے ہیں جن سے گزر کر وہ کسی نئی اور اجنبی دنیا میں داخل ہوتا ہے اور علوم و فنون کی اَن دیکھی دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ان دنیاؤں سے اپنی فکر کو جلا بخشتا ہے ۔ کوئی انسان الگ تھلگ رہ کر اور بند ہو کر فکر میں وسعت اور زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ۔ لازم ہے کہ ہر انسان ترقی اور فکر میں وسعت پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میل جول رکھے اپنی فکر کو جلا بخشے اور دنیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
دنیا کی خوبصورتی اوربنی نوع انسان کو اچھا اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیںاور ان درختوں کی کٹائی جس بے دردی کے ساتھ پاکستان میں جاری ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ہم اپنی آکسیجن کا اہم ترین ذریعہ اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیںاور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے لیے صحت بخش فضاء کے دروازے خود سے بند کرتے جا رہے ہیں ۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نئے حکمران عمران خان کا جنہوں نے پہلے تو خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگا کر پاکستان کے خوبصورت ترین صوبے کی فضاؤں کو معطر کرنے کے لیے ایک بھر پور کوشش کی ہے جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے اور اب انھوں نے پاکستان بھر میں شجر کاری کی اہمیت کو عام لوگوں میں اجاگر کیا اور شجر کاری کی بھر پور مہم شروع کی ہے۔
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں ایک سر سبز وادی سے تعلق رکھتا ہوں جس کی خوبصورتی ہی درختوں کی مرہون منت ہے لیکن دوسرے علاقوں کی طرح ہماری وادیٔ سون بھی درختوں کی بے دریغ کٹائی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ لاکھوں کی آبادی کے لیے سوئی گیس کی سہولت کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ وادی کے باسی لکڑیوں سے آگ جلانے پر مجبور ہیں اور لکڑی کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات میں تیزی سے کمی ہوتی جارہی ہے اس لیے گزشتہ کچھ برس سے وادیٔ سون میں بارشیں بھی کم ہو رہی ہیں، بارشوں کی کمی بارانی علاقے کی معاشی بدحالی میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
درختوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اور حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے وادیٔ سون کے چند لوگوں نے سون ویلی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے جس کے روح رواں نوجوان عبدالحق نے گزشتہ دنوں اپنی تنظیم کے دوسرے عہدیداروں کی مدد سے ایک لاکھ پودے وادیٔ سون میں مفت تقسیم کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ پودے ضایع نہ ہوںاور لگانے والا ان کی دیکھ بھال کا ذمے لے تا کہ زیادہ سے زیادہ پودے پروان چڑھیں۔اس سے پہلے میرے ایک عزیز میجر خالد یورپ سے زیتون کے دس ہزار درخت لا کر کامیابی سے لگا چکے ہیں۔
وادیٔ سون میں شجر کاری کی اس مہم میں مقامی لوگوں کے ساتھ اسکولوں کے طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔حکومتی اداروں کے علاوہ شجر کاری کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے جس کو سراہا جانا چاہیے اور ہم سب کو سنت نبویﷺ کی تقلید کرتے ہوئے اپنے حصے کا ایک درخت ضرورلگانا چاہیے ۔ حضور پاک کا تو یہ بھی حکم تھا کہ جنگ کے دوران بھی درختوں اور فصلوں کو نہ اجاڑا جائے کیونکہ درخت اور فصلیں انسانی ضروریات پوری کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس جدید دنیا میں انسانی نشو و نماء کے لیے ضروری اور ناگزیر قدرتی چیزوں سے دور ہوتے جا رہے اور قدرت سے دوری کا خمیازہ ہم گندی آب و ہوا کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہمیں اب اپنے بنائے گئے بند خولوں سے نکل کر ایک بہتر معاشرے کی ترویج اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے اپنے بال و پر پھیلا کر اپنی نئی نسل کو ایک صحت مند فضاء والاسر سبز پاکستان دینا ہے جو اس کی ترقی کے لیے لازم ہے اور اس کے لیے نئی دنیا کے دروازے کھولنے ہیں ورنہ بند دروازوں میں سمٹ کر زندگی بسر کرنے میں کوئی نیا راستہ کہاں سے کھلتا ہے اور کون کھولتا ہے ان بند دروازوں کو ہمیں خود ہی کھولنا ہے۔
قدرت نے وادیٔ سون کے لیے ایک سخت موسم بھی رکھ دیا ہے اگرچہ گرم موسم میں یہاں کے باسی لطف اٹھاتے ہیں لیکن اس کی کسر سردیوں میں نکل جاتی ہے جب جسموں پر ایسی کپکپی طاری ہوتی ہے کہ ان کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ سرد کپکپی بس طاری ہی رہے گی اور جسموں کو اس سے نجات نہیں ملے گی لیکن قدرت انسانوں کو اس سرد آزمائش میں کچھ ہچکولے دے کر گزر جاتی ہے اور ان کے جسم پھر سے معقول موسم میں لوٹ آتے ہیں یعنی ایسا موسم جس میں انسانوں کی زندگی معمول پر آجاتی ہے یا یوں کہیے کہ وہ بحال ہو جاتے ہیں اور ان کے جسم رفتہ رفتہ اپنی قدرتی زندگی پر لوٹ آتے ہیں یعنی وہ اس موسم میں لوٹ آتے ہیں جو ان کے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔
موسم کے مطابق ہوتا ہے بہرکیف وادیٔ سون کے ہر آن بدلتے ہوئے موسم کو بیان کرنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی اس موسم کو برداشت کرنا آسان ہے مگر قدرت نے انسان کو وہ طاقت عطا کر دی ہے جو ہر قسم کے موسم کو برداشت کرتی ہے اور انسان کے لیے ہر موسم میں کام کرنے کو آسان بنا دیتی ہے یہ انسان کی ہمت اور شوق ہے جو اسے موسموں کی تبدیلی اور ان کے اتار چڑھاؤ کو برداشت کرتا ہے اور اپنے آپ یعنی اپنے خیالات کو انسانوں تک پہنچاتا ہے ۔ اب یہ اس کے قارئین اور اس کے پڑھنے والوںکی مرضی ہے کہ وہ ان خیالات کو قبول کرتے ہیں یا نہیں اور کس حد تک قبول کرتے ہیں اور کس حد تک مسترد کردیتے ہیں۔
قدرت نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کس بات کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا ۔کوئی انسان کسی کا پابند نہیں ہے وہ آزاد ہے اور قدرت نے اس کی آزادی کو اس کا حق تسلیم کیا ہے۔انسان کی یہی آزادی ہے جس نے انسان سے کئی کارنامے دوسرے انسانوں کو عطاکیے ہیں اور انسانوں کے درمیان ان کے کارناموں کا تبادلہ سرزد ہوا ہے۔ یہ تبادلہ ہی انسانوں کی زندگیوں کو آگے لے جاتا ہے اور ان کی زندگیوں کو نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے۔
انسانوں کی دنیا میں جتنی ترقی وسعت اور نکھار پیدا ہوا ہے وہ سب انسانی زندگیوں کے میل جول کا ثمر ہے یہاں تک کہ اس وسیع و عریض دنیا میں انسانوں نے نقل و حرکت کے ساتھ ایک نئی بلکہ کئی نئی دنیائیں تخلیق کر دی ہیں اور انسانی فکر ان دنیاؤں میں گھومتی پھرتی اور خیالات کو پھیلاتی ہے جس سے انسانوں کے تعلقات بڑھتے ہیں پھیلتے ہیں اور تنگ نظری رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان آپس میں گھل مل جاتے ہیں جس سے ان کے خیالات کو نئی پرواز ملتی ہے اور وہ نئی دنیا سے آشنا ہوتے ہیں ۔
انسانوں کی یہی وہ زندگی ہے جو ان کی معاشی اور فکری پرواز کو پھیلاتی اور اوپر اٹھاتی ہے اسی رویے سے انسانی زندگی ایک نئی زندگی سے آشنا ہوتی ہے ۔ یہی نئی زندگی ان زندگیوں کا نیا موڑ بنتی ہے انھیں نئے راستے دکھاتی ہے اور اس کے سامنے نئی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کھلتے دروازے ہی انسان کا مستقبل ہوتے ہیں جن سے گزر کر وہ کسی نئی اور اجنبی دنیا میں داخل ہوتا ہے اور علوم و فنون کی اَن دیکھی دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ان دنیاؤں سے اپنی فکر کو جلا بخشتا ہے ۔ کوئی انسان الگ تھلگ رہ کر اور بند ہو کر فکر میں وسعت اور زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ۔ لازم ہے کہ ہر انسان ترقی اور فکر میں وسعت پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میل جول رکھے اپنی فکر کو جلا بخشے اور دنیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
دنیا کی خوبصورتی اوربنی نوع انسان کو اچھا اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیںاور ان درختوں کی کٹائی جس بے دردی کے ساتھ پاکستان میں جاری ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ہم اپنی آکسیجن کا اہم ترین ذریعہ اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیںاور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے لیے صحت بخش فضاء کے دروازے خود سے بند کرتے جا رہے ہیں ۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نئے حکمران عمران خان کا جنہوں نے پہلے تو خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگا کر پاکستان کے خوبصورت ترین صوبے کی فضاؤں کو معطر کرنے کے لیے ایک بھر پور کوشش کی ہے جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے اور اب انھوں نے پاکستان بھر میں شجر کاری کی اہمیت کو عام لوگوں میں اجاگر کیا اور شجر کاری کی بھر پور مہم شروع کی ہے۔
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں ایک سر سبز وادی سے تعلق رکھتا ہوں جس کی خوبصورتی ہی درختوں کی مرہون منت ہے لیکن دوسرے علاقوں کی طرح ہماری وادیٔ سون بھی درختوں کی بے دریغ کٹائی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ لاکھوں کی آبادی کے لیے سوئی گیس کی سہولت کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ وادی کے باسی لکڑیوں سے آگ جلانے پر مجبور ہیں اور لکڑی کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات میں تیزی سے کمی ہوتی جارہی ہے اس لیے گزشتہ کچھ برس سے وادیٔ سون میں بارشیں بھی کم ہو رہی ہیں، بارشوں کی کمی بارانی علاقے کی معاشی بدحالی میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
درختوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اور حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے وادیٔ سون کے چند لوگوں نے سون ویلی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے جس کے روح رواں نوجوان عبدالحق نے گزشتہ دنوں اپنی تنظیم کے دوسرے عہدیداروں کی مدد سے ایک لاکھ پودے وادیٔ سون میں مفت تقسیم کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ پودے ضایع نہ ہوںاور لگانے والا ان کی دیکھ بھال کا ذمے لے تا کہ زیادہ سے زیادہ پودے پروان چڑھیں۔اس سے پہلے میرے ایک عزیز میجر خالد یورپ سے زیتون کے دس ہزار درخت لا کر کامیابی سے لگا چکے ہیں۔
وادیٔ سون میں شجر کاری کی اس مہم میں مقامی لوگوں کے ساتھ اسکولوں کے طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔حکومتی اداروں کے علاوہ شجر کاری کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے جس کو سراہا جانا چاہیے اور ہم سب کو سنت نبویﷺ کی تقلید کرتے ہوئے اپنے حصے کا ایک درخت ضرورلگانا چاہیے ۔ حضور پاک کا تو یہ بھی حکم تھا کہ جنگ کے دوران بھی درختوں اور فصلوں کو نہ اجاڑا جائے کیونکہ درخت اور فصلیں انسانی ضروریات پوری کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس جدید دنیا میں انسانی نشو و نماء کے لیے ضروری اور ناگزیر قدرتی چیزوں سے دور ہوتے جا رہے اور قدرت سے دوری کا خمیازہ ہم گندی آب و ہوا کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہمیں اب اپنے بنائے گئے بند خولوں سے نکل کر ایک بہتر معاشرے کی ترویج اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے اپنے بال و پر پھیلا کر اپنی نئی نسل کو ایک صحت مند فضاء والاسر سبز پاکستان دینا ہے جو اس کی ترقی کے لیے لازم ہے اور اس کے لیے نئی دنیا کے دروازے کھولنے ہیں ورنہ بند دروازوں میں سمٹ کر زندگی بسر کرنے میں کوئی نیا راستہ کہاں سے کھلتا ہے اور کون کھولتا ہے ان بند دروازوں کو ہمیں خود ہی کھولنا ہے۔