تقسیم کی کہانی
یہ حقیقت ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک مشترکہ ثقافت پیدا کر لی تھی
برصغیر ہندوستان کی تقسیم کو 66 سال ہو گئے ہیں۔ 14اگست 1947 کو تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان کی ریاستیں معرض وجود میں آئیں لیکن آج کے دن تک وہ پڑوسیوں کی طرح ساتھ ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہو سکیں چہ جائیکہ ان میں دوستی کی بات کی جائے۔ سرحدوں پر فوجیں جمع ہیں اور گاہے بگاہے تصادم کا ہونا فطری امر ہے۔ چند روز قبل بھارتی فوج کے پانچ آدمیوں کو ہلاک کر دیا گیا ممکن ہے اس حوالے سے پاکستان براہ راست ملوث نہ ہو لیکن ایسے لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد اور نئی دہلی میں مفاہمت میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ دونوں ملکوں میں جب بھی بات چیت کا آغاز ہونے لگتا ہے، ایک یا دو ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ جس بات سے مجھے حیرت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ صف اول کے سیاستدان، تاریخ دان یا امتیازی حیثیت کے حامل کسی اور شخص نے اس حوالے سے کبھی کوئی وجہ نہیں بتائی کہ ہندو اور مسلمان جو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک اکٹھے رہتے رہے تھے، آخر کیوں علیحدہ ہو گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک مشترکہ ثقافت پیدا کر لی تھی جو دونوں تہذیبوں کے اختلاط کا نتیجہ تھی اور جس نے معاشرے کے انتشار پر قابو پا لیا تھا۔ سماجی رابطے باقاعدہ تھے اور دونوں برادریوں کے تہوار مشترکہ طور پر منائے جاتے تھے۔ جداگانہ مذہبی شناخت کی بات کرنے والے بھی معاشرے کو منتشر نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کیا اجتماعیت کی باتیں محض اختلافات کو چھپانے کی خاطر کی جاتی تھیں؟ اور حقیقت میں دونوں قومیتوں میں کوئی اشتراک نہیں تھا بلکہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے فاصلے پر رہیں۔
لیکن اگر یہ بات درست ہے تو تقسیم کے وقت آبادی کے تبادلے کو کیوں خارج از امکان قرار دیا گیا حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے ان کی تعداد مسلمانوں کے نئے وطن پاکستان میں جانے والوں سے زیادہ تھی۔ ہندو پاکستان سے چلے گئے جب کہ مسلمان پنجاب اور شمالی ہند کے بعض شہروں سے گئے۔ انھیں جبری طور پر نکالا گیا تھا۔
زندہ جسموں کی چیر پھاڑ کا غیر حقیقی مطالبہ طویل عرصے سے پس منظر میں تھا لیکن اس نے مسلمانوں کے قدم کبھی متزلزل نہیں کیے تھے تآنکہ 1930ء کے عشرے میں دو قومی نظریہ سامنے آ گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ نے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔
1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے گیارہ صوبوں کی 57 نشستوں میں سے مسلمانوں کی 48 نشستیں جیت لیں۔ دس سال کے بعد 1946ء میں اس نے پورے بھارت سے نشستیں جیتیں۔ بنگال کی 119 نشستوں میں سے 116 بہار کی 50 میں سے 43 یو پی کی61 میں سے 54 سندھ کی 34 میں سے پوری 34 نشستیں جیت لیں۔ مسلم لیگ صرف شمال مغربی سرحدی صوبے سے اکثریت حاصل نہ کر پائی۔ جہاں پر کانگریس پارٹی کے سرخ پوشوں نے کامیابی حاصل کی۔
پاکستان کے قیام پر بات کرنا اب بے معنی ہے جو دن بدن انتہا پسند اور ''طالبنائزڈ'' ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں میں آزاد خیال ہندو اور مسلمان لیڈرز بھی ہیں اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ان دونوں برادریوں کے مل جل کر رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔
کانگریس کے چوٹی کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے خبر دار کیا تھا کہ یو پی 'بہار اور مدراس کے مسلمان ایک صبح اٹھیں گے اور ان پر یہ انکشاف ہو گا کہ وہ راتوں رات اجنبی اور غیر ملکی بن گئے ہیں۔ صنعتی 'تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے وہ پسماندہ ہو گئے ہیں اور اب وہ خالص ہندو راج کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔
جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ بھارت کی تقسیم سے دو قومی نظریہ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ ہندو اور مسلمان پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا آزاد کے پرائیویٹ سیکریٹری ہمایوں کبیر نے مجھے بتایا تھا کہ آزاد کے خیال میں کانگریس کا لیڈر (نہرو 58 سال اور سردار پٹیل 72 سال کا تھا) جنہوں نے تقسیم کو اس وجہ سے قبول کیا ہے کیونکہ وہ خاصے بوڑھے ہو گئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں۔ اب وہ برطانوی حکومت کے خلاف مزید احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے اور چاہتے ہیں کہ اپنی باقی زندگی میں وہ بھارت کی اپنے خوابوں کے مطابق تعمیر کریں۔ مسلم کمیونٹی آزاد کو ''ہندو شو بوائے'' کہتی تھی۔
تقسیم کے بعد تو آبادی کے تبادلے کا ایک طوفان آ گیا۔ دونوں طرف سے انسانیت بے گھر ہو گئی تھی لیکن کسی کو اس کی توقع نہیں تھی۔ کوئی ایسا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن کوئی بھی اسے روک نہ سکا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی اور تقسیم سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ دونوں ملکوں سے پناہ گزین بن کر جانے والے نہ صرف ہجرت کی تلخیاں بلکہ ظلم و ستم کی وہ کہانیاں اور انتقامی جذبات بھی ساتھ لے کر گئے حالانکہ ان دیہات میں وہ صدیوں سے پر امن طور پر رہتے آ رہے تھے۔ اگر تقسیم مذہب کی بنیاد پر تھی تو ان واقعات نے تقسیم کو اور زیادہ گہرا کر دیا۔
مجھے ذاتی طور پر تقسیم کی اذیت کا احساس صرف اس وقت ہوا جب میں نے خالی جیب سرحد عبور کی۔ میں اکیلا نہیں تھا۔ یہ تقریباً ان سب ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا جن کو پورا اعتماد تھا کہ جب بھی حالات معمول پر آئیں گے تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ یو پی اور بہار کے بعض لوگ جو مسلم لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے تھے قیام پاکستان تک سیکولر ازم کے نظریے کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ آج وہ سیکولرازم کی قسم تک کھاتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کے سامنے دو متضاد موقفوں کی کیا وضاحت پیش کریں گے؟
سیکولرازم علیحدگی کا ''اینٹی تھیسس'' (یعنی متضاد) ہے۔ اگر یہ کمیونٹی کا عقیدہ نہیں ہے تو پھر اس پر گہرائی سے غور کیا جانا چاہیے۔ بہت سے ہندو بھی اسی قومیت دشمن روش کا شکار بن رہے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اور پاکستان کے قیام کے بعد مذہبی جنون ختم ہو جائے گا لیکن مجھے ان علیحدگی پسندوں کی سمجھ نہیں آئی جو ہندو کمیونٹی کے اندر سرگرم عمل تھے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ہندوتوا کے سب سے بڑے پرچارک بن کر ابھرے ہیں۔
مذہبی نکتہ نظر نے برصغیر کو تقسیم کرا دیا، اب بی جے پی اس نظریے پر عمل کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو تباہ کر رہی ہے۔ تصور کریں جس مودی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کی، وہ اب انڈیا کا وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر سیاست کے لیے لڑائی از سر نو لڑنا پڑے گی۔ اس کا متبادل اور کوئی نہیں کیونکہ اکثریت کی جارحیت فاشزم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ وہ لوگ جو جمہوریت اور اجتماعت پر یقین رکھتے ہیں، انھیں اس وقت میں ہاتھ پرہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
یہ حقیقت ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک مشترکہ ثقافت پیدا کر لی تھی جو دونوں تہذیبوں کے اختلاط کا نتیجہ تھی اور جس نے معاشرے کے انتشار پر قابو پا لیا تھا۔ سماجی رابطے باقاعدہ تھے اور دونوں برادریوں کے تہوار مشترکہ طور پر منائے جاتے تھے۔ جداگانہ مذہبی شناخت کی بات کرنے والے بھی معاشرے کو منتشر نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کیا اجتماعیت کی باتیں محض اختلافات کو چھپانے کی خاطر کی جاتی تھیں؟ اور حقیقت میں دونوں قومیتوں میں کوئی اشتراک نہیں تھا بلکہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے فاصلے پر رہیں۔
لیکن اگر یہ بات درست ہے تو تقسیم کے وقت آبادی کے تبادلے کو کیوں خارج از امکان قرار دیا گیا حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے ان کی تعداد مسلمانوں کے نئے وطن پاکستان میں جانے والوں سے زیادہ تھی۔ ہندو پاکستان سے چلے گئے جب کہ مسلمان پنجاب اور شمالی ہند کے بعض شہروں سے گئے۔ انھیں جبری طور پر نکالا گیا تھا۔
زندہ جسموں کی چیر پھاڑ کا غیر حقیقی مطالبہ طویل عرصے سے پس منظر میں تھا لیکن اس نے مسلمانوں کے قدم کبھی متزلزل نہیں کیے تھے تآنکہ 1930ء کے عشرے میں دو قومی نظریہ سامنے آ گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ نے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔
1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے گیارہ صوبوں کی 57 نشستوں میں سے مسلمانوں کی 48 نشستیں جیت لیں۔ دس سال کے بعد 1946ء میں اس نے پورے بھارت سے نشستیں جیتیں۔ بنگال کی 119 نشستوں میں سے 116 بہار کی 50 میں سے 43 یو پی کی61 میں سے 54 سندھ کی 34 میں سے پوری 34 نشستیں جیت لیں۔ مسلم لیگ صرف شمال مغربی سرحدی صوبے سے اکثریت حاصل نہ کر پائی۔ جہاں پر کانگریس پارٹی کے سرخ پوشوں نے کامیابی حاصل کی۔
پاکستان کے قیام پر بات کرنا اب بے معنی ہے جو دن بدن انتہا پسند اور ''طالبنائزڈ'' ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں میں آزاد خیال ہندو اور مسلمان لیڈرز بھی ہیں اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ان دونوں برادریوں کے مل جل کر رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔
کانگریس کے چوٹی کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد نے خبر دار کیا تھا کہ یو پی 'بہار اور مدراس کے مسلمان ایک صبح اٹھیں گے اور ان پر یہ انکشاف ہو گا کہ وہ راتوں رات اجنبی اور غیر ملکی بن گئے ہیں۔ صنعتی 'تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے وہ پسماندہ ہو گئے ہیں اور اب وہ خالص ہندو راج کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔
جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ بھارت کی تقسیم سے دو قومی نظریہ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ ہندو اور مسلمان پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا آزاد کے پرائیویٹ سیکریٹری ہمایوں کبیر نے مجھے بتایا تھا کہ آزاد کے خیال میں کانگریس کا لیڈر (نہرو 58 سال اور سردار پٹیل 72 سال کا تھا) جنہوں نے تقسیم کو اس وجہ سے قبول کیا ہے کیونکہ وہ خاصے بوڑھے ہو گئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں۔ اب وہ برطانوی حکومت کے خلاف مزید احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے اور چاہتے ہیں کہ اپنی باقی زندگی میں وہ بھارت کی اپنے خوابوں کے مطابق تعمیر کریں۔ مسلم کمیونٹی آزاد کو ''ہندو شو بوائے'' کہتی تھی۔
تقسیم کے بعد تو آبادی کے تبادلے کا ایک طوفان آ گیا۔ دونوں طرف سے انسانیت بے گھر ہو گئی تھی لیکن کسی کو اس کی توقع نہیں تھی۔ کوئی ایسا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن کوئی بھی اسے روک نہ سکا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی اور تقسیم سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ دونوں ملکوں سے پناہ گزین بن کر جانے والے نہ صرف ہجرت کی تلخیاں بلکہ ظلم و ستم کی وہ کہانیاں اور انتقامی جذبات بھی ساتھ لے کر گئے حالانکہ ان دیہات میں وہ صدیوں سے پر امن طور پر رہتے آ رہے تھے۔ اگر تقسیم مذہب کی بنیاد پر تھی تو ان واقعات نے تقسیم کو اور زیادہ گہرا کر دیا۔
مجھے ذاتی طور پر تقسیم کی اذیت کا احساس صرف اس وقت ہوا جب میں نے خالی جیب سرحد عبور کی۔ میں اکیلا نہیں تھا۔ یہ تقریباً ان سب ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا جن کو پورا اعتماد تھا کہ جب بھی حالات معمول پر آئیں گے تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ یو پی اور بہار کے بعض لوگ جو مسلم لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے تھے قیام پاکستان تک سیکولر ازم کے نظریے کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ آج وہ سیکولرازم کی قسم تک کھاتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کے سامنے دو متضاد موقفوں کی کیا وضاحت پیش کریں گے؟
سیکولرازم علیحدگی کا ''اینٹی تھیسس'' (یعنی متضاد) ہے۔ اگر یہ کمیونٹی کا عقیدہ نہیں ہے تو پھر اس پر گہرائی سے غور کیا جانا چاہیے۔ بہت سے ہندو بھی اسی قومیت دشمن روش کا شکار بن رہے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اور پاکستان کے قیام کے بعد مذہبی جنون ختم ہو جائے گا لیکن مجھے ان علیحدگی پسندوں کی سمجھ نہیں آئی جو ہندو کمیونٹی کے اندر سرگرم عمل تھے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ہندوتوا کے سب سے بڑے پرچارک بن کر ابھرے ہیں۔
مذہبی نکتہ نظر نے برصغیر کو تقسیم کرا دیا، اب بی جے پی اس نظریے پر عمل کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو تباہ کر رہی ہے۔ تصور کریں جس مودی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کی، وہ اب انڈیا کا وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولر سیاست کے لیے لڑائی از سر نو لڑنا پڑے گی۔ اس کا متبادل اور کوئی نہیں کیونکہ اکثریت کی جارحیت فاشزم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ وہ لوگ جو جمہوریت اور اجتماعت پر یقین رکھتے ہیں، انھیں اس وقت میں ہاتھ پرہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)