ممنون صاحب سے ممکن ہے

نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اردو زبان کے ترقی پسند رہنماؤں اور دانشوروں نے مجموعی طور پر اس خیال کو رد کر دیا۔

anisbaqar@hotmail.com

یہ قلم امانت ہے ان رفتگان علم کی جو نام و نمود کے لیے نہیں بلکہ انسانی عظمت، حقوق، اتحاد، مساوات کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے اور جنوں کی حکایات خونچکاں لکھتے رہے۔ اگر یہ قلم ان رفتگان کی امانت نہ ہوتا جنرل یحییٰ خان کے اس پیغام کو کراچی شہر میں عام کیا جاتا کہ کراچی کو صوبائی خود مختاری دی جائے۔ ملک جنگ ہار چکا تھا، مشرقی پاکستان آگ و خون سے گزر چکا تھا، سیاسی پارٹیاں اپنے بلوں میں گھسی ہوئی اور عوام سے شرمندہ تھیں، بھلا کون تھا جو این ایس ایف کے مد مقابل آتا جب کہ کاروباری حلقہ اور بڑا تجارتی طبقہ کراچی صوبے کی حمایت میں تھا اور طلبا بھی کوٹہ سسٹم سے بیزار تھے، یہ پیشکش یوسف ہارون کے ذریعے آئی تھی، اب نہ کوئی حساب ہے نہ کتاب البتہ ابتدا میں چند یوم این ایس ایف میں اس پر سیر حاصل بحث ہوئی مگر صوبہ بننے کی شکل میں اردو زبان بولنے والے جنھیں 1980ء کے بعد مہاجر کہا جانے لگا ان کی نازک پوزیشن کا خیال اور پھر اندرون سندھ خصوصاً چھوٹے شہروں اور سندھ کے دیہاتوں میں اس کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ردعمل کیا ہوں گے، تصویر صاف نظر آنے لگی، ایک اور آگ ایک اور خون کی ہولی۔

نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اردو زبان کے ترقی پسند رہنماؤں اور دانشوروں نے مجموعی طور پر اس خیال کو رد کر دیا اور یہ طے کیا کہ ہم سندھ کے ہاریوں اور کراچی کے مزدوروں کو ایک دوسرے کے مد مقابل نہ آنے دیں گے اور تقسیم کی ہر قوت کی نفی کریں گے۔ کراچی اور خصوصاً سندھ کے معاملات کو ممنون حسین صاحب کافی گہرائی سے جانتے ہیں کیونکہ یہ دائیں اور بائیں بازو کی چپقلش میں ہرگز نہیں رہے جن کے دامن کے دونوں سرے متضاد خیالات رکھنے والوں سے مزین ہیں۔ ماضی میں اگر ایک دامن سندھ ہاری کمیٹی کے لیڈر حیدر بخش جتوئی سے بندھا تھا تو دوسرا دامن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے۔ دیکھیں اب ممنون صاحب ایک نئی بزم کے چراغ بن چکے ہیں، صدارت کی منزلت طے کر چکے، ہر چند اس صدارتی انتخاب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، کوئی پوچھے کہ بائیکاٹ کیوں کیا؟ کیا رضا ربانی صاحب یہ انتخاب جیت سکتے تھے؟ مگر یہ سب سیاسی عمل غیر سیاسی قدم بن کر رہ گیا۔ آپ عام انتخابات پر شکوک کر سکتے ہیں مگر صدارتی انتخاب ہر شک سے بالاتر ہے۔ خیر بات اب تک ممنون حسین کے حلقہ احباب کی ہو رہی تھی تو میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں سے بھی ان کی راہ و رسم رہی ہے، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں میں ایک خاصا بڑا طبقہ ہے جو فقر کو جسم سے لگائے بیٹھا رہتا ہے۔

درویشوں کی صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے۔ مے خوری میں مست یہ لوگ فکر کی بھنور میں ڈوبے علمی اور سیاسی گتھیاں سلجھاتے رہتے ہیں مگر اقتدار کی بدمست قوت میں ڈوبے لوگ ان حضرات کی چوکھٹ پر قدم نہیں رکھتے ہیں۔ ماضی میں کئی بار اپنے کالم میں اس حلقے کی استعداد علمی و سیاسی دور بینی کا تذکرہ کر چکا ہوں، یہ کسی گفتگو برائے گفتگو کے لیے کسی کاروباری پروگرام کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ فکری اور منطقی مواد سے بھرپور ہوتا ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ جلال الدین اکبر شہنشاہ کہلاتا ہے اور آج بھی وہ سیاسی عالم پر چھایا ہوا ہے، یہ سائبان اس کے 9 رتنوں کی ہے جب کہ جمہوری اسمبلی کا احوال یہ ہے کہ باپ، بھائی، چچا، ماموں، داماد، بہو، آل اولاد ہی ان کے رتن ہیں اور سب مل کر ایک کشکول بناتے ہیں اور جو پیسہ اس میں آتا ہے سب اسمبلی کے ممبران، وزرا، مشیروں کی نذر ہوتا ہے لہٰذا ہر بار پچھلے سے بڑا کشکول، اگر کوئی دانشور آیا، کوئی شاعر و ادیب آیا تو پھر کیا ہو گا، حبیب جالبؔ کے گھر والوں کی طرح مرغی کی دکان چلانی ہو گی۔


جالبؔ صاحب کئی مرتبہ خاکسار کے گھر کراچی ٹھہرے، بعض اوقات اجمل خٹک اور جالبؔ ساتھ آئے، غالباً یہ 1969ء کا دور تھا، کیا خوب تھا وہ لمحہ جب دو درویش ہم کلام ہوتے ایک پشتو کا شاعر تو ایک اردو کا، کیا پر درد تھے یہ لوگ جن کو زمانے نے بہت یاد کیا مگر اولاد کے لیے کوئی رخت سفر نہ چھوڑا ماسوائے کرب اور کٹھن جدوجہد سے لڑنے کے لیے۔ ہمیں یاد ہے کہ سبط حسن صاحب یا نیشنل عوامی پارٹی آج زندہ ہوتی، دور کیوں جائیے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی عملاً زندہ ہوتی تو جالبؔ کا گھرانا یوں بے آسرا نہ ہوتا۔ جالبؔ کے بھائی بقید حیات ہیں، وہ سال میں ایک پروگرام کراتے ہیں شاید وہ بھی محض خرچ ہی خرچ آمد کجا بمشکل پروگرام کے اخراجات پورے ہوتے ہوں گے، سڑکوں پر وکلا کے جلوس دیکھے، جالبؔ کا کلام سنایا، اعتزاز صاحب خوب پھر ملک کے نامور لیڈران بھی سناتے رہے مگر کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ در جالبؔ تک جاتا، نہ حکومت نہ آرٹس کونسل، آرٹس کونسل بس توسیع عمارت میں مصروف رہتی ہے یہ ایک بڑا معنی خیز بار آور درخت ہے مگر شاعروں ادیبوں کے لیے کوئی فنڈ نہیں۔

جو گزر گئے ہم نے اب تک انھی کی بات کی مگر جو حیات ہیں اور جن بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں ان کا تذکرہ کوئی بھی کرنا نہیں چاہتا۔ ہر سال کی طرح اس سال یکم مئی کو حبیب جالبؔ کی برسی آرٹس کونسل کراچی میں منائی گئی، جن مقررین نے وہاں تقریریں کیں ان میں جسٹس حاذق الخیری، جسٹس رانا بھگوان داس، معراج محمد خان اور کم از کم کل دس مقررین تھے، ان میں معروف شاعر کاوشؔؔ رضوی بھی تھے جن کو منتظمین گود میں لے کر اسٹیج تک لائے اور کرسی صدارت پر بٹھایا گیا، دراصل کاوشؔؔ رضوی صاحب وہ شخص ہیں جو جب سندھ میں ہاری تحریک حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں عروج پر تھی جس کو اس وقت ''ہاری حقدار تحریک'' کے نام سے یاد کیا جاتا تھا تو وہ ایک قافلہ 250 افراد پر مشتمل مزدور، طالب علم اور دانشوروں کا نوابشاہ تک پیدل لے گئے تھے، جب ممتاز بھٹو کی عاقبت نا اندیش پالیسی کی وجہ سے سندھ میں لسانی تعصبات نے جنم لیا تو انھوں نے سندھی اردو سنگت قائم کی تا کہ اختلافات کی خلیج کو کم کیا جائے۔

دونوں زبانوں میں مشاعرے باقاعدگی سے 1973ء میں ہوتے تھے جو برسوں جاری رہے، یہاں تک کہ 28 جون 1978ء کی ایک شام جب اردو سندھی مشترکہ محفل خدیجہ مارکیٹ نارتھ ناظم آباد میں ختم ہوئی اور کاوشؔؔ صاحب جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو ایک کار نے ان کو 3 بار ٹکر ماری اور غائب ہونے میں کامیاب ہو گئی، نصف بائیں ٹانگ کا نچلا حصہ ضایع ہو گیا، جب سے وقت معذوری میں گزر رہا ہے البتہ مشق سخن جاری ہے، گھر پر اضافی آمدنی نہ ہونے کی بنا پر مصنوعی ٹانگ بھی نہ لگوا سکے جب کہ آج کل با آسانی لگائی جا سکتی ہے، نہ یہ کام صاحب ثروت لوگوں نے کیا اور نہ ہی سیاسی حلقوں نے جب کہ ایں جناب آتے رہے اور آں جناب جاتے رہے مگر جالبؔ کے گھر کی کسمپرسی اور کاوشؔؔؔ کی مایوسی نے ان کی زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے، نہ کوئی دائیں بازو سے بڑھا اور نہ کوئی بائیں بازو سے آیا۔ یہ ہماری قوم کا مخصوص رویہ ہے ایسا کام کیا جاتا ہے جس میں نمائش کا پہلو نمایاں ہو، اور علم و ادب، فہم و سخن، ادب و آگہی، والوں کو کون پوچھتا ہے۔

دراصل ملک کی بربادی کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ یہاں صاحبان علم کی ناقدری اور فرض شناس سیاست دانوں کی تذلیل کی جاتی رہی۔ کاوشؔؔ صاحب تو ہمارے بے ضمیر معاشرے کی ایک تصویر ہیں اگر کاوشؔؔ رضوی سے لوگوں کو فیض پہنچتا تو لوگ ان کی داد رسی کو پہنچتے۔ سیاست میں لوٹ مار کے فلسفے نے جگہ لے رکھی ہے، موجودہ صدر مملکت ممنون حسین صاحب بھی کاوشؔؔ رضوی کے مداحوں میں رہے ہیں، دیکھیں کب انھیں یاد آتا ہے یا پیپلز پارٹی کو یاد آتا ہے کہ ضیاء دور میں جدوجہد کرنے والا 300 کلومیٹر دیہات دیہات ہاریوں کی خدمت کرنے والے کو کون پاؤں پر کھڑا کرنے کو تیار ہوتا ہے، کوئی بہت بڑا سرمایہ نہیں کاوشؔؔ رضوی جو فرد نہیں افراد کے رہنما رہے ہیں، کون ان کے لیے آگے بڑھتا ہے وہ تو خود کبھی فریاد کرنے سے رہے، جمہور کے لیے قربانی دینے والے جمہوری دور میں دیکھیں کون ان کا قدردان بنتا ہے۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ قطرہ آب کو گہر بننے تک کتنا عرصہ لگتا ہے البتہ بعض ادبی حلقے ان کی کتابیں چھاپ کر کاوشؔؔ کے جہد مسلسل کی آگ کو ٹھنڈا کیے دیتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں سے نیکی کی توقع کم ہی ہے البتہ نومنتخب صدر ممنون حسین سے ممکن ہے کہ سیاست کی میز پر ایک ساتھ بیٹھنے والے کاوشؔؔ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں۔
Load Next Story