انا کی قربانی اور نرمی کی امید

تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے

mjgoher@yahoo.com

KARACHI:
ملک میں امن و امان کی صورت حال ابتر اور اس کا دائرہ مزید پھیلتا اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ شدت پسند عناصر نے اسکولوں، امام بارگاہوں، مساجد، سڑکوں، بازاروں، گلیوں اور حساس تنصیبات، اہم سیاسی، سماجی، مذہبی اور حکومتی شخصیات اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد اب جیلوں میں قید اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے ملک کی اہم جیلوں پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں۔ چند ماہ قبل بنوں جیل پر رات کی تاریکی میں حملہ کر کے شدت پسندوں نے اپنے متعدد ساتھیوں کو چھڑوا لیا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کے بعد خفیہ ایجنسیاں اور سیکیورٹی ادارے ہوشیار ہو جاتے اور ملک کی دیگر جیلوں کے حفاظتی حصار کو مزید سخت کر دیا جاتا لیکن افسوس کہ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور سرکار کی روایتی بے حسی، تساہل پسندی، غفلت اور لاپرواہی کے باعث چند روز پیشتر دہشت گرد عناصر اپنے ایک اور منصوبے پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جب انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت رات کے اندھیرے میں بڑے منظم انداز سے حملہ کیا اور وہاں قید اپنے 248 ساتھیوں کو رسمی سے ایک مقابلے کے بعد چھڑوا کر لے گئے۔ شدت پسندوں نے جیل پر حملے کی ایسی کامیاب منصوبہ بندی کی کہ پورے واقعے کی ویڈیو بھی بنائی جس نے جیل میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی کارکردگی کے ڈھول کا پول کھول دیا۔

تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے بلکہ وارننگ بھی دی ہے کہ وہ ملک کی دیگر جیلوں پر بھی حملے کریں گے اور اپنے ساتھیوں کو چھڑوا کر لے جائیں گے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ملک کی اعلیٰ خفیہ ایجنسی FIA نے ڈی آئی جی جیل کی انتظامیہ کو طالبان کے مذکورہ حملے کے حوالے سے تحریری طور پر تفصیل سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس کے باوجود جیل انتظامیہ اور سیکیورٹی کے ذمے دار اداروں کی جانب سے شدت پسندوں کے متوقع حملے سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے، لہٰذا اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر تفصیلی تحقیقات کی جانی چاہیے اور ذمے دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔

شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد اگرچہ راولپنڈی، لاہور، حیدر آباد اور کراچی میں واقع جیلوں میں جہاں انتہائی خطرناک مجرم قید ہیں حفاظتی اقدامات کو سخت کر دیا گیا ہے لیکن یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایبٹ آباد سانحے سے ڈی آئی خان جیل تک نیول بیس کراچی سے ایئر بیس کامرہ تک کیے گئے حملوں کے بعد ہمارے خفیہ اداروں اور سیکیورٹی پر مامور ذمے داروں کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔ شومیٔ قسمت دیکھیے کہ ہم ہر ایسے سانحے کے بعد جاگتے ضرور ہیں اور پھر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت ترین و فول پروف اقدامات اٹھانے کے حوالے سے ارباب اقتدار کے بیانات اور قوم کو کرائی جانے والی یقین دہانیوں سے اخبارات کے صفحات بھر جاتے ہیں لیکن شدت پسندوں کی جانب سے مخصوص حکمت عملی کے تحت چند دنوں کی خاموشی کے باعث خطرہ ٹل جانے کے خیال سے ہمیں پھر اونگھ آ جاتی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر شدت پسند عناصر اپنے منصوبے کے تحت پھر کوئی نہ کوئی کارروائی کر کے ارباب اقتدار کے دعوؤں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔


ملک و قوم کے محافظوں کی یہی کمزوریاں ہمارا سب سے بڑا المیہ اور ہماری ناکامیوں اور محرومیوں کی بنیادی وجہ ہیں جس کا خمیازہ 18 کروڑ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر اسلام آباد میں دہشت گردی کا خطرہ ہے، خفیہ اداروں نے خبردار کیا ہے کہ شدت پسند عناصر پارلیمنٹ ہاؤس، ایئرفورس اور پاک بحریہ کے ہیڈکوارٹرز پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ خطرے کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، داخلی و خارجی راستوں کی سیکیورٹی اور چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ پولیس و فضائیہ کے کمانڈوز کو بھی مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ اب شدت پسند اتنے بے وقوف بھی نہیں کہ وہ دیدہ دانستہ ''ہائی سیکیورٹی الرٹ'' کے بعد بھی اسلام آباد میں داخل ہونے کی نادانی کریں گے یہ تو ''آبیل مجھے مار'' والی بات ہو گی لہٰذا اراکین پارلیمنٹ خاطر جمع رکھیں ان کی عید خیریت سے گزر جائے گی، عارضی اقدامات سے فوری خطرہ تو ٹل ہی جاتا ہے۔

تاہم بعد از عید پیش آمدہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کیے جانے چاہئیں، جیسا کہ انٹرپول پولیس نے پاکستان سمیت 9 ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہاں موجود جیلوں میں قید خطرناک مجرموں کو رہائی دلانے کے لیے دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے لہٰذا حفاظتی اقدامات کو سخت کر دیا جائے اور فرار ہونے والے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کے عمل کو بھی تیز کیا جائے۔ انٹرپول نے 90 رکن ممالک سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جیلوں پر حملوں کے واقعات کی تحقیقات کر کے کھوج لگائیں کہ یہ حملے انفرادی نوعیت کے تھے یا ان میں کوئی باہمی تعلق و تعاون بھی شامل تھا۔ حکومتی ذمے داروں کو انٹرپول کی وارننگ کو نظرانداز کرنے کے بجائے سنجیدگی سے لینا اور اس کے مضمرات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ شدت پسندوں کی جانب سے جس منظم انداز میں جیلوں پر حملے ہو رہے ہیں اور مزید حملوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ امکانی حملوں کے تدارک اور فرار ہونے والے قیدی مجرموں کی گرفتاری کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے ورنہ فراری قیدیوں کے دوبارہ ''سرگرم'' ہونے کی صورت میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایک جانب امن و امان کی ابتر صورت حال نے اہل وطن کو فکر و پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے تو دوسری طرف پی پی پی کے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم صاحب کے استعفیٰ اور عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر اعلیٰ عدلیہ سے معافی نہ مانگنے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے باعث سیاسی ماحول میں کشیدگی اور تناؤ کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عمران خان کیا ساری سیاسی جماعتیں 11 مئی کے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔ عمران خان نے دھاندلی پر الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے کردار کو ''شرم ناک'' قرار دیا جس پر انھیں توہین عدالت کا نوٹس مل گیا۔

2 اگست کی پیشی پر عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے عدالت نے انھیں 28 اگست کو دوبارہ جواب داخل کرنے کو کہا ہے اور ساتھ ہی باور کرایا ہے کہ انھیں ذوالفقار علی بھٹو یاد ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ عدالت نے کس پس منظر میں عمران خان کو بھٹو کیس کی یاد دہانی کرائی ہے۔ خان صاحب کا حافظہ اتنا کمزور نہیں ہے انھیں یقیناً بھٹو کیس بھی یاد ہو گا اور جسٹس (ر) مولوی مشتاق بھی۔ بہرحال عمران خان کہتے ہیں کہ انھوں نے توہین عدالت نہیں کی اس لیے معافی نہیں مانگیں گے۔ ان کے بقول ''شرمناک'' گالی نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو شفاف الیکشن کرانے کی ذمے داری دی گئی تھی وہ نہیں کروا سکے تو یہ شرم کی بات ہے۔ بہرحال عمران کا سخت گیر موقف انھیں مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ لچکدار رویہ اپنائیں کیونکہ سیاسی میدان میں انھیں ابھی آگے جانا ہے، منزل کے حصول کے لیے انا کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ عدالت سے بھی نرمی کی امید کی جانی چاہیے۔
Load Next Story