سیاسی کشیدگی میں کمی کی ضرورت
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کی وجہ احتساب کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات بھی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ بھارتی جارحیت کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو دوریاں ختم ہوئی تھیں وہ وزیر اعظم عمران خان کے بیانات کے بعد دوبارہ بڑھ گئی ہیں۔ مفاہمت کے ماحول کو حکومت کی طرف سے برقرار نہیں رکھا گیا، جس کے بعد سیاسی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گیا ہے۔
بھارتی جارحیت کے بعد اپوزیشن نے حکومت سے اپنے اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ میں ذمے داری کا مظاہرہ کیا تھا جس سے ملک کی سیاست میں کشیدگی واقعی کم ہوئی تھی۔ اس کشیدگی کو نقصان اس وقت پہنچا جب پارلیمانی لیڈروں کو دفاعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اس میں وزیر اعظم نے جو تحریک انصاف کے چیئرمین اور قائد ایوان بھی ہیں اس بریفنگ میں شرکت نہیں کی، جو اپوزیشن کو ناگوار گزری اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے تکبرکا مظاہرہ کیا اور اجلاس میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ انھیں اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانا پڑتا ۔
بعد میں وزیراعظم نے تھرپارکر کے جلسے میں بلاول زرداری کے بھٹوکہلانے اور اسمبلی میں ان کی انگریزی زبان میں تقریر پر بھی تنقید کی جس کا سخت جواب نہ صرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے دیا بلکہ خود بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد دیا اور کہا کہ اپوزیشن سے خود وزیر اعظم نے فاصلے بڑھا لیے ہیں اور بڑھتی سیاسی کشیدگی کے ذمے دار وزیر اعظم ہیں ، اپوزیشن کے اچھے رویے کی قدر نہیں کی گئی اور اپوزیشن کی مفاہمتی کوشش کو نقصان ہوا ہے۔ بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کے بیانات میں کس قدر وزن ہے ، اس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے کیونکہ الزام یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے مفاہمتی جذبے کی قدر نہیں کی گئی جس کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کی وجہ احتساب کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات بھی ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن پر مقدمات اور گرفتاریاں بڑھی ہیں ،جس کے نتیجے میں بلاول زرداری نیب پر کڑی تنقید میں مسلم لیگ (ن) سے بھی بڑھ گئے ہیں اور اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری بھی ایک اہم وجہ ہے ۔اس سے قبل وزیر اعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کے ساتھ نرم رویے کی وجہ سے اپوزیشن پہلے ہی الزام لگا رہی تھی کہ احتساب کے لیے روا رکھے جانے والے رویے اپوزیشن کے ساتھ سخت اور حکومتی حلقوں کے لیے نرم ہے اور اہم حکومتی عہدیدار بھی نیب کی تفتیش کی زد میں ہیں مگر انھیں مبینہ طور پر رعایت دی جا رہی ہے۔ بلاول زرداری اسپیکر سندھ اسمبلی سے اظہار یکجہتی کے لیے سندھ اسمبلی گئے اور سندھ کے اسپیکر کی گرفتاری کو سندھ اسمبلی پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آئینی طور پر منتخب اسپیکر ہیں جنھیں غلط طور پر اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ (ق) کی وجہ سے قائم ہے، جہاں سینئر وزیر علیم خان گرفتاری کے بعد جیل جاچکے ہیں، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت اپنے گرفتار اسپیکر کے ساتھ بھرپور طور پرکھڑی ہے۔ آغا سراج کی گرفتاری کے روز ہی پیپلز پارٹی نے ریکوزیشن کے ذریعے سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا اور گرفتار اسپیکر آغا سراج کو سندھ اسمبلی لانا پڑا، بالکل اسی طرح جس طرح اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں میں پیش کیا جاتا رہا۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف کا عہدہ نہ دینے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر اعلانیہ بیان دینے کے بعد بھی کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ اس سلسلے میں اپوزیشن نے سخت موقف اختیار کیا تھا جس کے بعد حکومت کو نہ صرف اپنا فیصلہ بدلنا پڑا بلکہ شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر ہی نہیں بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی بھی دینی پڑی تھی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے سلسلے میں حکومت کو دو بار اپوزیشن کے سامنے جھکنا تو پڑا مگر شہباز شریف کی گرفتاری کے دوران تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور شہباز شریف سے استعفیٰ دینے کا بھی مطالبہ کیا اور یہ حکومتی مہم شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد ختم ہوئی۔
حکمرانوں نے اپوزیشن کے خلاف جتنا سخت مخالفانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی تین تین حکومتوں میں بھی کسی حکمران نے اپوزیشن کے خلاف اتنا سخت رویہ کبھی اختیار نہیں کیا حالانکہ ایک بار نواز شریف نے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کرکے بھی ایسا سخت رویہ کبھی اختیار نہیں کیا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات اور تقاریر تو نہیں کی تھیں مگر مقدمات ضرور قائم کیے تھے اور احتساب کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی تھیں۔
مسلم لیگ (ق) کی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح معمولی برتری سے قائم ہوئی تھی اور اس کی اپوزیشن بھی موجودہ اپوزیشن کی طرح مضبوط تھی مگر (ق) لیگ کی حکومت کو اپنے بااختیار صدرکی مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے اپوزیشن (ق) لیگ حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی تھی اور صدر پرویز مشرف نے اپوزیشن کے سخت احتجاج کے بعد قومی اسمبلی سے اپنا سالانہ خطاب بھی چھوڑ دیا تھا۔
حکومت کے لہجے میں اپوزیشن کے لیے معمولی نرمی بھی نظر نہیں آرہی اور وہ سابق حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر خوب برس رہی ہے اور سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کرتی ہے ۔اسے نریندر مودی سے بات کرنا گوارا ہے مگر سابق دونوں حکمرانوں سے ملنا گوارا نہیں ہے۔ حکومت سابق صدر پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) پر بالکل تنقید نہیں کرتی اور اس اقتدار میں شامل مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو اپنی حکومت میں نہ صرف شامل کیے بیٹھی ہیں ، بلکہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کی ہر بات بھی ماننے پر مجبور ہے مگر اپوزیشن کے خلاف اپنے سخت موقف میں لچک لانے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے سیاسی کشیدگی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔
بھارتی جارحیت کے بعد اپوزیشن نے حکومت سے اپنے اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ میں ذمے داری کا مظاہرہ کیا تھا جس سے ملک کی سیاست میں کشیدگی واقعی کم ہوئی تھی۔ اس کشیدگی کو نقصان اس وقت پہنچا جب پارلیمانی لیڈروں کو دفاعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اس میں وزیر اعظم نے جو تحریک انصاف کے چیئرمین اور قائد ایوان بھی ہیں اس بریفنگ میں شرکت نہیں کی، جو اپوزیشن کو ناگوار گزری اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے تکبرکا مظاہرہ کیا اور اجلاس میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ انھیں اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانا پڑتا ۔
بعد میں وزیراعظم نے تھرپارکر کے جلسے میں بلاول زرداری کے بھٹوکہلانے اور اسمبلی میں ان کی انگریزی زبان میں تقریر پر بھی تنقید کی جس کا سخت جواب نہ صرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے دیا بلکہ خود بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد دیا اور کہا کہ اپوزیشن سے خود وزیر اعظم نے فاصلے بڑھا لیے ہیں اور بڑھتی سیاسی کشیدگی کے ذمے دار وزیر اعظم ہیں ، اپوزیشن کے اچھے رویے کی قدر نہیں کی گئی اور اپوزیشن کی مفاہمتی کوشش کو نقصان ہوا ہے۔ بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کے بیانات میں کس قدر وزن ہے ، اس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے کیونکہ الزام یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے مفاہمتی جذبے کی قدر نہیں کی گئی جس کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کی وجہ احتساب کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات بھی ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن پر مقدمات اور گرفتاریاں بڑھی ہیں ،جس کے نتیجے میں بلاول زرداری نیب پر کڑی تنقید میں مسلم لیگ (ن) سے بھی بڑھ گئے ہیں اور اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری بھی ایک اہم وجہ ہے ۔اس سے قبل وزیر اعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کے ساتھ نرم رویے کی وجہ سے اپوزیشن پہلے ہی الزام لگا رہی تھی کہ احتساب کے لیے روا رکھے جانے والے رویے اپوزیشن کے ساتھ سخت اور حکومتی حلقوں کے لیے نرم ہے اور اہم حکومتی عہدیدار بھی نیب کی تفتیش کی زد میں ہیں مگر انھیں مبینہ طور پر رعایت دی جا رہی ہے۔ بلاول زرداری اسپیکر سندھ اسمبلی سے اظہار یکجہتی کے لیے سندھ اسمبلی گئے اور سندھ کے اسپیکر کی گرفتاری کو سندھ اسمبلی پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آئینی طور پر منتخب اسپیکر ہیں جنھیں غلط طور پر اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ (ق) کی وجہ سے قائم ہے، جہاں سینئر وزیر علیم خان گرفتاری کے بعد جیل جاچکے ہیں، پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت اپنے گرفتار اسپیکر کے ساتھ بھرپور طور پرکھڑی ہے۔ آغا سراج کی گرفتاری کے روز ہی پیپلز پارٹی نے ریکوزیشن کے ذریعے سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا اور گرفتار اسپیکر آغا سراج کو سندھ اسمبلی لانا پڑا، بالکل اسی طرح جس طرح اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں میں پیش کیا جاتا رہا۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف کا عہدہ نہ دینے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر اعلانیہ بیان دینے کے بعد بھی کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ اس سلسلے میں اپوزیشن نے سخت موقف اختیار کیا تھا جس کے بعد حکومت کو نہ صرف اپنا فیصلہ بدلنا پڑا بلکہ شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر ہی نہیں بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی بھی دینی پڑی تھی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے سلسلے میں حکومت کو دو بار اپوزیشن کے سامنے جھکنا تو پڑا مگر شہباز شریف کی گرفتاری کے دوران تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور شہباز شریف سے استعفیٰ دینے کا بھی مطالبہ کیا اور یہ حکومتی مہم شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد ختم ہوئی۔
حکمرانوں نے اپوزیشن کے خلاف جتنا سخت مخالفانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی تین تین حکومتوں میں بھی کسی حکمران نے اپوزیشن کے خلاف اتنا سخت رویہ کبھی اختیار نہیں کیا حالانکہ ایک بار نواز شریف نے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کرکے بھی ایسا سخت رویہ کبھی اختیار نہیں کیا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات اور تقاریر تو نہیں کی تھیں مگر مقدمات ضرور قائم کیے تھے اور احتساب کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی تھیں۔
مسلم لیگ (ق) کی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح معمولی برتری سے قائم ہوئی تھی اور اس کی اپوزیشن بھی موجودہ اپوزیشن کی طرح مضبوط تھی مگر (ق) لیگ کی حکومت کو اپنے بااختیار صدرکی مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے اپوزیشن (ق) لیگ حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی تھی اور صدر پرویز مشرف نے اپوزیشن کے سخت احتجاج کے بعد قومی اسمبلی سے اپنا سالانہ خطاب بھی چھوڑ دیا تھا۔
حکومت کے لہجے میں اپوزیشن کے لیے معمولی نرمی بھی نظر نہیں آرہی اور وہ سابق حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر خوب برس رہی ہے اور سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کرتی ہے ۔اسے نریندر مودی سے بات کرنا گوارا ہے مگر سابق دونوں حکمرانوں سے ملنا گوارا نہیں ہے۔ حکومت سابق صدر پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) پر بالکل تنقید نہیں کرتی اور اس اقتدار میں شامل مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو اپنی حکومت میں نہ صرف شامل کیے بیٹھی ہیں ، بلکہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کی ہر بات بھی ماننے پر مجبور ہے مگر اپوزیشن کے خلاف اپنے سخت موقف میں لچک لانے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے سیاسی کشیدگی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔