غیر مسلم پاکستانی ہمیں کچھ یاد نہیں

شملہ کے قریب دھرم پورہ کے مقام پر ایک سو ایکڑ زمین ان کی ذاتی ملکیت تھی جس پرانھوں نے ٹی بی سینی ٹوریم قائم کیا۔

zahedahina@gmail.com

پچھلے کالم میں بات ہمارے ایک نامور اور معتبر دانشور پیر علی محمد راشدی کے ان جملوں پر ختم ہوئی تھی کہ 'شاہ جو رسالو' کی تدوین و ترتیب اور اس کی اشاعت کا سہرا ڈاکٹر گربخشانی کے سر ہے۔ انھوں نے 'رسالو' کی3 جلدوں کی اشاعت اپنی گرہ سے کی لیکن چوتھی جلد رقم کے نہ ہونے کی وجہ سے شایع نہ ہو سکی۔ سندھی مسلمانوں نے اپنے شاعرِ بے مثال کے کلام کے جس طرح 'قدر' کی اس کے بارے میں پیر علی محمد راشدی نے دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ'' ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی اشاعت سے پہلے کا زمانہ مجھے یاد ہے۔

یوں تو بھٹائی کی شہرت عام تھی مگر پڑھے لکھے لوگوں میں ان کے کام کی مقبولیت ایسی نہ تھی جیسی ڈاکٹر گربخشانی کی کتابوں کے منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی۔ شاہ کا کلام گایا تو ضرور جاتا تھا مگر اس کی گہرائی اور شرح سے واقفیت بہت کم لوگوں کو تھی...ناقدری کا یہ حال تھا کہ ڈاکٹر گربخشانی کا مرتب کردہ رسالہ شایع ہوا تو اسے خریدنے والا کوئی نہ ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کی تیاری اور چھپائی میں اپنی گرہ سے خاصا خرچ کیا تھا۔ نفع تو دور کی بات ہے یہ خرچ بھی گلے پڑ گیا۔ مجبور ہوکر انھوں نے اپنی کتابوں کی نسخے ان ذاتی دوستوں اور بزرگوں کو بھیجے جو اب سرکاری عہدوں پر تھے کہ وہ زبردستی انھیں سندھ کے زمینداروں کو دیں اور ان سے قیمت وصول کریں۔ قیمت کچھ ایسی زیادہ نہ تھی مگر خوشی سے لینے والا کوئی نہ ملا۔

مختیارکاروں اور ڈپٹی کلکٹروں کا زور پڑا تو بہت سے وڈیروں نے کتاب خریدی، مگر گھر پہنچتے ہی اسے ایک طرف ڈال دیا۔ میں (پیر علی محمد راشدی) نے کئی زمینداروں کے اوطاقوں میںپرندوں کو اس لاجواب کتاب پر بیٹ کرتے دیکھا۔'' اس بیان پر شک کرنے کی اس لیے کوئی گنجائش نہیں کہ راشدی صاحب جدی پشتی سندھی اور ایک ادب دوست علم نواز خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔

آج یہ بات کیسے بھلائی جا سکتی ہے کہ کراچی کا این جے وی اسکول، ڈی جے کالج، لا کالج، اوجھا سینی ٹوریم، میٹھا رام ہاسٹل، سوبھراج میٹرنٹی ہوم اور کئی دوسرے تعلیمی ادارے اور اسپتال ان مخیر ہندوئوں کی دولت سے قائم ہوئے جو یہاں سے جا چکے ہیں اور اس دنیا سے پردہ کر چکے ہیں لیکن اب ہم ان کا نام بھی نہیں جانتے۔ اسی طرح ڈی جے کالج قائم کرنے والے دیا رام جیٹھ مل جب جج بنے اور ان کا تبادلہ کراچی سے احمد آباد (گجرات) ہوا تو انھوں نے احمد آباد کی جامع مسجد کے مقدمے کا وہ فیصلہ دیا جس کی عرصے تک مثالیں دی جاتی رہیں۔

اس مسجدکے ٹرسٹی مسجد کی زمین فروخت کر کے اس کی رقم خود ہڑپ کر رہے تھے۔ اس بارے میں یہ تاریخی تحریر موجود ہے کہ ''اس بد دیانتی کے خلاف مسجد کے امام نے عدالت سے رجوع کیا اور یہ مقدمہ بارہ سال سے چل رہا تھا۔ جب دیا رام ڈسٹرکٹ جج مقرر ہوئے تو انھوں نے مسلسل بارہ دن مقدمے کی سماعت کی۔ تمام فارسی دستاویزات کا مطالعہ کیا اور ساری زمین مسجد کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے اپنا یہ فیصلہ کاغذ کے بجائے کپڑے پر تحریر کیا تاکہ طویل عرصے تک محفوظ رہ سکے۔ دیا رام کی عوامی خدمات سندھ تک محدود نہ تھیں۔

شملہ کے قریب دھرم پورہ کے مقام پر ایک سو ایکڑ زمین ان کی ذاتی ملکیت تھی جس پرانھوں نے ٹی بی سینی ٹوریم قائم کیا۔ بمبئی کے علاقے باندرہ میں' سیوا سدن 'بنایا۔ 1925ء میں امرتسر میں شانتی آشرم لائبریری قائم کی اور بعد میں اسے شرومنی گردوارہ پر بندھک کمیٹی کے سپرد کر دیا جس نے اس کا نام بدل کر گرو رام داس لائبریری رکھ دیا۔'' یہ ایک سندھی ہندو کی بے نفسی اور عوامی فلاح کی مثالیں ہیں جب کہ ہم مسجد کے نام پر ناجائز قبضے کرتے ہیں اور اس پر اپنی دکانیں اور مکان بناتے ہیں۔ شاید اسی موقعے کے لیے کہا گیا ہے کہ 'رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی'۔ یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے سندھ کو عظمت عطا کی اور سندھ میں تہذیبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے لیے رہ ہموار کی۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ آج کتنی ہی بلند آواز سے کہیں کہ پاکستان میں ہندوئوں کے ساتھ لوگ بدسلوکی نہیں کر رہے۔ یہ تو کوئی اور ہیں جن کی وجہ سے ہندو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لیکن جان کی امان ملے تو ان سے کوئی پوچھے کہ جن انتہا پسند عناصر کی وجہ سے یہ نقل مکانی ہو رہی ہے ان کو اب تک کس کی سرپرستی حاصل رہی ہے؟ کیا یہ حکومت پاکستان کا فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے؟


یہ لوگ اور ان جیسے دوسرے ہزاروں افراد راہی ملک عدم ہوئے لیکن انھوں نے ایک روادار ، مہذب اور انصاف پر مبنی سماج قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ سماج قائم نہ رہ سکا یہ ایک المناک بات ہے لیکن وہ تو اپنی سی کر گئے۔ تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیںکہ پاکستان جب قائم ہوا تو یہاں لگ بھگ 95 فیصد مسلمان تھے اور 5 فیصد غیر مسلم۔ ان میں ہندو، پارسی، عیسائی ، سکھ اور کئی دوسرے گروہ تھے۔ لیکن ہم نے 65 برس میں ان میں سے بے شمار لوگوں کو اپنی جنم بھومی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں سے کیسے کیسے انمول لوگ چلے گئے، استاد، ڈاکٹر، فلموں میں کام کرنے والے، موسیقی کا جادو جگانے والے۔

یہ غیر مسلم تھے۔ ہم تو مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بسوں سے کلمہ گو اتارے جاتے ہیں اور ان کی شناخت کر کے ان کو چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ نفرت اور قتل و غارت گری کی یہ روش ہمیں کن پستیوں میں لے جائے گی اس کا تصور کر کے روح کانپ جاتی ہے۔ ایسے میں دنیا ہم سے منہ موڑ لینے میں کیا حق بجانب نہ ہوگی؟

دنیا کے اخباروں میں شایع ہونے والی خبریں صرف ہندوئوں کے ترک وطن کے بارے میں نہیں، اس کے سوا بھی وہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں جو بعض قوانین کے ناجائز اور غلط استعمال کا شاخسانہ ہیں۔ ان قوانین کی آڑ لے کر اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی ایک طویل اور المناک داستان ہے۔ کبھی ان کی جائیداد پر قبضے، کبھی کسی لڑکی کو بہ جبر مسلمان بنا کر اس کے ساتھ شادی رچانے اور کبھی گلی محلے کا جھگڑا چکانے کے لیے ان پڑھ اور نابالغ لڑکے یا لڑکی پر کوئی الزام لگا کر اسے قتل کر دینے یا زد و کوب کرنے اور جیل بھیج دینے کے واقعات اب نئے اور انوکھے نہیں رہے۔

انھی معاملات پر احتجاج کرتے ہوئے بشپ جان جوزف نے سرعام خود کشی کر لی تھی اور یہ خبر ساری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ ہمیں عالمی سطح پر جس شرمساری کا سامنا کرنا پڑا تھا، اسے ہم بھول گئے ہوں لیکن دنیا نہیں بھولی ہے۔

اس وقت گیارہ برس کی ذہنی معذور بچی رمشا مسیح اسلام آباد کی حوالات میں بند ہے۔ دوسری طرف فیصل آباد میں ایک بارہ سالہ مسیحی لڑکا سنیل مسیح چاند رات کو اغواء ہوا اور عید کے دن اس کی لاش ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کے بدن پر کسی تیز دھار آلے کے 23 زخم ہیں۔ قتل کے بعد اس کی لاش جلائی بھی گئی۔ یہ قتل کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے یا یہ بھی مذہبی منافرت کا شاخسانہ ہے، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن دنیا اسے بھی پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے حساب میں ڈالے گی۔

یہ وہی مسیحی ہیں جن کے تعلیم یافتہ طبقے نے 1947ء سے آج تک تعلیم، طب، قانون، صحافت، بینک کاری، سول سروس اور دفاع کے شعبوں میں ملک کی خدمت کی بلکہ کئی شعبوں میں متعدد افراد کی تربیت کی۔ اور جن کے کسان اور مزدور ملک کی تعمیر میں پیش پیش رہے۔ یہ وہی تھے جن کی انڈین کرسچن ایسوسی ایشن نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی اور پنجاب کی حد تک اس میں ان کا بنیادی حصہ تھا۔ ان کے اسکول اور ان کے بنائے ہوئے اسپتال آج بھی مذہب یا فرقے کی تفریق کے بغیر معیاری خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں داخلے کے لیے وزیر ان سے مودبانہ درخواست کرتے ہیں۔

ہمیں یہ بھی یاد نہیں کہ جسٹس کارنیلس نے 1954ء میں مولوی تمیز الدین کیس میں فل بنچ سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا تھا ۔ اگر مسلمان جج صاحبان بھی ان کی پیروی کرتے تو پاکستان پر ڈکٹیٹر شپ کا عذاب نازل نہ ہوتا۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے سے اختلاف ایک بلوچ نژاد پارسی جج جسٹس دراب پٹیل نے کیا تھا اور اس اختلاف کی قیمت بھی ادا کی۔ انسانی حقوق کی ترویج اور بچھڑے ہوئے لوگوں کے لیے انصاف کی فراہمی کے نقطہ نظر سے یہ وہ تھے جنہوں نے 1987ء میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ ہمیں کچھ یاد نہیں کہ تمام غیر مسلم پاکستانیوں نے پاکستان کو سجانے، سنوارنے اور اسے ایک جدید ریاست بنانے میں اپنا کیا کردار ادا کیا ہے۔ یاد ہوتا تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
Load Next Story