پاکستان افغانستان میں امن اور بھارت
کشمیر کی جدوجہد آزادی کو طالبان کے ساتھ نتھی کر کے بھارت نے اسے دہشت گردی قرار دینے کے لیے بہت ڈھنڈورا پیٹا۔
افغانستان سے طالبان کے خاتمے کے لیے امریکا کی قیادت میں نیٹو کی جانب سے دو دہائیوں تک جاری رہنے والی مداخلت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ امریکی فوج نے نہ سہی لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام نے اپنی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے عزت سے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں میں افغانستان(عراق اور شام) سے انخلا سر فہرست تھا، لیکن پینٹاگون کی اضافی فوج کی تجویز منظور کی گئی جس کے باوجود صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
2001ء میں حکومت کے خاتمے کے بعد آج سب سے بڑا علاقہ طالبان کے زیر انتظام ہے۔ ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا'' کے ایجنڈے کی تکمیل اور عسکری سطح پر موجودہ صورت حال کو سمجھتے ہوئے قدرے عجلت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ سیکریٹری ڈیفینس جیمز میٹیس احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ امریکا کی نمایندگی کے لیے افغان نژاد زلمے خیل زاد کا انتخاب کیا گیا۔
2018ء میں پہلے ہی دن ٹرمپ نے علی الصبح اپنی ایک ٹوئٹ میں اربوں ڈالر امداد وصول کرنے کے باوجود افغانستان کی جنگ میں امریکا کی مدد نہ کرنے کا الزام عائد کرکے پاکستان کو پیمان شکنی کا طعنہ دیا۔ اس بات کو سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کی اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے تعاون کے لیے رابطہ کیا۔ آج وہ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے کردار کی ناگزیریت کا اعتراف کرتے ہیں، جو بھارت کی جانب سے گمراہ کیے گئے حلقوں اور پراپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کے لیے تکلیف دہ سچ ثابت ہورہا ہے۔ ان کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسائل کے حل میں مرکزی کردار رکھتا ہے، خود ان مسائل کو پیدا کرنے والا نہیں۔ افواج کے انخلا کا حتمی فیصلہ کرنے کے بعد امریکا اب طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوچکا ہے۔
خطے کے تناظر میں بین الاقوامی تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کی نئی حکومت افغانستان میں امن عمل کے لیے مکمل معاونت فراہم کررہی ہے کہ اس کے بغیر پاکستان کا استحکام بھی ممکن نہیں۔ بطور اسٹرٹیجک پارٹنر امریکا کے اعتبار کو ٹھیس پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان امریکی مؤقف پر مکمل یقین نہیں کرسکتا۔ تاہم ہمارے دیگر قریبی دوست ممالک کو بھی پُر امن افغانستان مطلوب ہے اور اس حوالے سے ان کے مفادات بھی یقینی نوعیت کے ہیں۔ خطے میں واحد بھارت ہے جسے افغانستان کے امن میں کوئی دل چسپی نہیں۔ بھارت اس تباہ حال ملک میں صرف اس لیے کشیدگی جاری رہنے کا خواہاں ہے تاکہ اس کے ذریعے سے پاکستان میں انتشار کو ہوا دی جاتی رہے۔
مزید یہ کہ اس پراکسی جنگ میں بھارت مالی وسائل، افرادی قوت یا رسد کی صورت میں بڑی بھاری سرمایہ کاری کرچکا تھا۔ امریکا بھی یہاں قیام کی بھاری قیمت چکا رہا ہے جب کہ افغانستان میں نہ صرف بھاری جانی نقصان ہورہا ہے بلکہ اسے انفرااسٹرکچر اور بڑے شہروں کی تباہی کا بھی سامنا ہے۔ افغان خفیہ ادارے خاد کے ساتھ مل کر بھارتی 'را' پاکستان کی نظریاتی اور زمینی حدود پر تحریک طالبان پاکستان اور دیگر نام نہاد جہادی گروہوں کے ذریعے حملہ آور ہے۔
کشمیر کی جدوجہد آزادی کو طالبان کے ساتھ نتھی کر کے بھارت نے اسے دہشت گردی قرار دینے کے لیے بہت ڈھنڈورا پیٹا۔ پاکستان کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسے دہشت گردی کا معاون و مددگار بنا کر پیش کیا گیا۔ اس دوران امریکا کو افغان فوج، حکومت اور معیشت کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات برداشت کرنا پڑے جب کہ اسے خود اربوں ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ حقیقت یہ تھی کہ امریکا پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی جنگ میں مہرہ بنا ہوا تھا اور بڑی چالاکی سے بھارت نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا۔
افغان ، امریکی اور پاکستانی جان سے گئے اور فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ پیٹنز کے بقول'' کوئی بھی شخص اپنے ملک کے لیے جان دے کر جنگ نہیں جیت سکتا ہے، جب وہ دوسروں کو اپنے ملک کے لیے جان دینے پر آمادہ کرلیتا ہے، یہی اس کی کام یابی ہوتی ہے۔'' اسے بھارت نے اپنے حق میں یوں ثابت کیا ''ہم پاکستان کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں اگر امریکی اور افغانوں کو اپنے ملک کے لیے مرنے دیا جاتا رہے۔''
گزشتہ 10برس سے مجھے مختلف تھنک ٹینکس میں امریکی دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے انھیں پاکستان سے متعلق زیادہ پُرامید نہیں پایا اور وہ افغانستان کی جنگ میں امریکا کی کام یابی سے متعلق بھی مایوس نظر آئے۔ بدقسمتی سے آصف زرداری نے حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا اور حقانی نے اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا میں پاکستان مخالف مہم چلائے رکھی۔ حقانی نے اپنی چرب زبانی کا بھرپور استعمال کرکے امریکی دانشوروں تک بھارتی ساختہ ''حقائق'' پہنچائے جس پر انھوں نے اعتبار بھی کیا۔ حقانی نے پاکستان واپس آنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی کی خلاف ورزی کی۔ سفارت سے برطرفی کے بعد حقانی نے کھل کر بھارتی پراپیگنڈے میں کردار ادا کرنا شروع کردیا۔خطے میں بارسوخ رہنے کے لیے بھارت کی پالیسی میں افغانستان کو مرکزیت حاصل ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں بھارت نے صرف اس لیے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی مدد کی تھی کہ یہ اتحاد پاکستان سے بھی عناد رکھتا تھا۔
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جو افغانستان میں جنگ جاری رہنے کا خواہش مند ہے۔ بھارت نے افغانستان میں متعدد قونصلیٹ بنائے، اقوام متحدہ کے ڈس آرمیمنٹ ، ڈی ملٹرائزیشن اینڈ ری انٹگریشن کورز(ڈی ڈی آر) اور تعمیراتی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2001 کے بعد بھارت نے افغانستان میں امداد اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کی مد میں 2ارب ڈالر خرچ کرکے اپنے خفیہ اداروں کا بھی خاصا اثر و رسوخ پیدا کیا۔ اقوام متحدہ اور افغان حکومت میں رسوخ بڑھا کر بھارت کو پاکستانی سرحد کے نزدیک عسکریت اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے اور ان کا الزام پاکستان پر دھرنے کی تقریباً کھلی چھٹی مل گئی۔ افغانستان کی تعیمر و ترقی میں بھارت کی معاونت دراصل ایک جامع منصوبہ بندی کا حصہ تھا جس میں کسی بھی ممکنہ تنازعہ کی صورت میں پاکستان کی دشواریوں میں اضافہ پیش نظر تھا۔ اسی بناء پر پاکستان نے بھارت کو ان مذاکرات سے دور رکھنے کی شرط رکھی تھی اور اسی وجہ سے بھارت کی بے چینی عروج پر پہنچ گئی۔
افغانستان کی حکومت میں چاہے کرزئی برسر اقتدار ہو یا اشرف غنی، انھیں سلامتی اور استحکام کے لیے امریکا نے معاونت فراہم کی۔ امریکی چھتر چھایا کے بغیر یہ کردار جلد یا بدیر ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت مذاکرات کی ناکامی کے لیے ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ جنگ کے بعد والے افغانستان میں طالبان اہم ترین سیاسی قوت بن کر ابھریں گے اور بھارت کی افغان پالیسی کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے بعد کئی برسوں تک بھارت نے پاکستانی مفادات کو زد پہنچانے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیا۔ ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے بعد بھی افغانستان میں بھارت کا کردار باقی رہے گے لیکن اس صورت حال میں اسے گزشتہ دو دہائیوں جیسی کھلی آزادی حاصل نہیں ہوگی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں طالبان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کرنے میں ناکامی پر بھارت کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی، افغانستان میں بدلتے حقائق سے متعلق صورت حال واضح ہوتی ہے۔
بھارت کی افغان پالیسی میں پاکستان ہی کو نشانے پر رکھا گیا۔ انھیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہزاروں افغان اپنی جان سے جائیں اور یہ ملک مزید تباہ کاریوں سے دو چار ہوتا رہے؟ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعہ کا فائدہ اٹھاکر بھارت کشمیر کی مقامی تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان کو اس خطے میں الجھانے کی کاوشیں جاری رکھے گا۔ پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کا تنازعہ افغانستان سے متعلق ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ خطے میں حقیقی امن صرف اس صورت میں قائم ہوگا جب یہ بنیادی اور غیر معمولی تنازعات حل کیے جائیں گے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
2001ء میں حکومت کے خاتمے کے بعد آج سب سے بڑا علاقہ طالبان کے زیر انتظام ہے۔ ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا'' کے ایجنڈے کی تکمیل اور عسکری سطح پر موجودہ صورت حال کو سمجھتے ہوئے قدرے عجلت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ سیکریٹری ڈیفینس جیمز میٹیس احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ امریکا کی نمایندگی کے لیے افغان نژاد زلمے خیل زاد کا انتخاب کیا گیا۔
2018ء میں پہلے ہی دن ٹرمپ نے علی الصبح اپنی ایک ٹوئٹ میں اربوں ڈالر امداد وصول کرنے کے باوجود افغانستان کی جنگ میں امریکا کی مدد نہ کرنے کا الزام عائد کرکے پاکستان کو پیمان شکنی کا طعنہ دیا۔ اس بات کو سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کی اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے تعاون کے لیے رابطہ کیا۔ آج وہ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے کردار کی ناگزیریت کا اعتراف کرتے ہیں، جو بھارت کی جانب سے گمراہ کیے گئے حلقوں اور پراپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کے لیے تکلیف دہ سچ ثابت ہورہا ہے۔ ان کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ پاکستان افغانستان کے مسائل کے حل میں مرکزی کردار رکھتا ہے، خود ان مسائل کو پیدا کرنے والا نہیں۔ افواج کے انخلا کا حتمی فیصلہ کرنے کے بعد امریکا اب طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوچکا ہے۔
خطے کے تناظر میں بین الاقوامی تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کی نئی حکومت افغانستان میں امن عمل کے لیے مکمل معاونت فراہم کررہی ہے کہ اس کے بغیر پاکستان کا استحکام بھی ممکن نہیں۔ بطور اسٹرٹیجک پارٹنر امریکا کے اعتبار کو ٹھیس پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان امریکی مؤقف پر مکمل یقین نہیں کرسکتا۔ تاہم ہمارے دیگر قریبی دوست ممالک کو بھی پُر امن افغانستان مطلوب ہے اور اس حوالے سے ان کے مفادات بھی یقینی نوعیت کے ہیں۔ خطے میں واحد بھارت ہے جسے افغانستان کے امن میں کوئی دل چسپی نہیں۔ بھارت اس تباہ حال ملک میں صرف اس لیے کشیدگی جاری رہنے کا خواہاں ہے تاکہ اس کے ذریعے سے پاکستان میں انتشار کو ہوا دی جاتی رہے۔
مزید یہ کہ اس پراکسی جنگ میں بھارت مالی وسائل، افرادی قوت یا رسد کی صورت میں بڑی بھاری سرمایہ کاری کرچکا تھا۔ امریکا بھی یہاں قیام کی بھاری قیمت چکا رہا ہے جب کہ افغانستان میں نہ صرف بھاری جانی نقصان ہورہا ہے بلکہ اسے انفرااسٹرکچر اور بڑے شہروں کی تباہی کا بھی سامنا ہے۔ افغان خفیہ ادارے خاد کے ساتھ مل کر بھارتی 'را' پاکستان کی نظریاتی اور زمینی حدود پر تحریک طالبان پاکستان اور دیگر نام نہاد جہادی گروہوں کے ذریعے حملہ آور ہے۔
کشمیر کی جدوجہد آزادی کو طالبان کے ساتھ نتھی کر کے بھارت نے اسے دہشت گردی قرار دینے کے لیے بہت ڈھنڈورا پیٹا۔ پاکستان کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسے دہشت گردی کا معاون و مددگار بنا کر پیش کیا گیا۔ اس دوران امریکا کو افغان فوج، حکومت اور معیشت کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات برداشت کرنا پڑے جب کہ اسے خود اربوں ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ حقیقت یہ تھی کہ امریکا پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی جنگ میں مہرہ بنا ہوا تھا اور بڑی چالاکی سے بھارت نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا۔
افغان ، امریکی اور پاکستانی جان سے گئے اور فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ پیٹنز کے بقول'' کوئی بھی شخص اپنے ملک کے لیے جان دے کر جنگ نہیں جیت سکتا ہے، جب وہ دوسروں کو اپنے ملک کے لیے جان دینے پر آمادہ کرلیتا ہے، یہی اس کی کام یابی ہوتی ہے۔'' اسے بھارت نے اپنے حق میں یوں ثابت کیا ''ہم پاکستان کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں اگر امریکی اور افغانوں کو اپنے ملک کے لیے مرنے دیا جاتا رہے۔''
گزشتہ 10برس سے مجھے مختلف تھنک ٹینکس میں امریکی دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے انھیں پاکستان سے متعلق زیادہ پُرامید نہیں پایا اور وہ افغانستان کی جنگ میں امریکا کی کام یابی سے متعلق بھی مایوس نظر آئے۔ بدقسمتی سے آصف زرداری نے حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا اور حقانی نے اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا میں پاکستان مخالف مہم چلائے رکھی۔ حقانی نے اپنی چرب زبانی کا بھرپور استعمال کرکے امریکی دانشوروں تک بھارتی ساختہ ''حقائق'' پہنچائے جس پر انھوں نے اعتبار بھی کیا۔ حقانی نے پاکستان واپس آنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی کی خلاف ورزی کی۔ سفارت سے برطرفی کے بعد حقانی نے کھل کر بھارتی پراپیگنڈے میں کردار ادا کرنا شروع کردیا۔خطے میں بارسوخ رہنے کے لیے بھارت کی پالیسی میں افغانستان کو مرکزیت حاصل ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں بھارت نے صرف اس لیے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی مدد کی تھی کہ یہ اتحاد پاکستان سے بھی عناد رکھتا تھا۔
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جو افغانستان میں جنگ جاری رہنے کا خواہش مند ہے۔ بھارت نے افغانستان میں متعدد قونصلیٹ بنائے، اقوام متحدہ کے ڈس آرمیمنٹ ، ڈی ملٹرائزیشن اینڈ ری انٹگریشن کورز(ڈی ڈی آر) اور تعمیراتی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 2001 کے بعد بھارت نے افغانستان میں امداد اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کی مد میں 2ارب ڈالر خرچ کرکے اپنے خفیہ اداروں کا بھی خاصا اثر و رسوخ پیدا کیا۔ اقوام متحدہ اور افغان حکومت میں رسوخ بڑھا کر بھارت کو پاکستانی سرحد کے نزدیک عسکریت اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے اور ان کا الزام پاکستان پر دھرنے کی تقریباً کھلی چھٹی مل گئی۔ افغانستان کی تعیمر و ترقی میں بھارت کی معاونت دراصل ایک جامع منصوبہ بندی کا حصہ تھا جس میں کسی بھی ممکنہ تنازعہ کی صورت میں پاکستان کی دشواریوں میں اضافہ پیش نظر تھا۔ اسی بناء پر پاکستان نے بھارت کو ان مذاکرات سے دور رکھنے کی شرط رکھی تھی اور اسی وجہ سے بھارت کی بے چینی عروج پر پہنچ گئی۔
افغانستان کی حکومت میں چاہے کرزئی برسر اقتدار ہو یا اشرف غنی، انھیں سلامتی اور استحکام کے لیے امریکا نے معاونت فراہم کی۔ امریکی چھتر چھایا کے بغیر یہ کردار جلد یا بدیر ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت مذاکرات کی ناکامی کے لیے ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ جنگ کے بعد والے افغانستان میں طالبان اہم ترین سیاسی قوت بن کر ابھریں گے اور بھارت کی افغان پالیسی کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے بعد کئی برسوں تک بھارت نے پاکستانی مفادات کو زد پہنچانے کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیا۔ ممکنہ طور پر جنگ کے خاتمے کے بعد بھی افغانستان میں بھارت کا کردار باقی رہے گے لیکن اس صورت حال میں اسے گزشتہ دو دہائیوں جیسی کھلی آزادی حاصل نہیں ہوگی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں طالبان رہنماؤں پر پابندیاں عائد کرنے میں ناکامی پر بھارت کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی، افغانستان میں بدلتے حقائق سے متعلق صورت حال واضح ہوتی ہے۔
بھارت کی افغان پالیسی میں پاکستان ہی کو نشانے پر رکھا گیا۔ انھیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہزاروں افغان اپنی جان سے جائیں اور یہ ملک مزید تباہ کاریوں سے دو چار ہوتا رہے؟ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعہ کا فائدہ اٹھاکر بھارت کشمیر کی مقامی تحریک کو دبانے کے لیے پاکستان کو اس خطے میں الجھانے کی کاوشیں جاری رکھے گا۔ پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کا تنازعہ افغانستان سے متعلق ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ خطے میں حقیقی امن صرف اس صورت میں قائم ہوگا جب یہ بنیادی اور غیر معمولی تنازعات حل کیے جائیں گے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)