غیر یقینی صورتحال
حکومتی اتحادی بھی اس غیر یقینی صورتحال کو گرماتے رہے۔
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے لفظ ''غیر یقینی صورتحال'' ایک زہر ہلاہل کی طرح ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک تو دور کی بات ہے بڑی بڑی ترقی یافتہ معیشتیں غیر یقینی صورتحال میں تباہ حال ہو جاتی ہیں۔ یہ غیر یقینی صورتحال معاشی ہو' امن و امان کے حوالے سے ہو' خارجہ پالیسی کا معاملہ ہو' حکومت کے استحکام کے حوالے سے ہو یا اداروں کے باہمی تصادم کے حوالے سے۔ کوئی بھی ملک اوپر بیان کی گئی ایک بھی غیر یقینی صورتحال میں اپنی ترقی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ معیشتیں سرمایہ کاری سے چلتی ہیں اور سرمایہ وہیں لگایا جاتا ہے جہاں استحکام ہو اور مستقبل کسی بھی قسم کی غیر یقینی صورتحال سے محفوظ رہے۔
مگر موجودہ حکومت کے چار سال میں اس ملک نے کوئی ایک نہیں بلکہ اوپر بیان کی گئی ہر قسم کی غیریقینی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ حکومت کے استحکام اور اداروں کے تصادم پر تو غیر یقینی صورتحال کی تلوار گویا پورے ساڑھے چار سال ہی لٹکی رہی اور یہ سلسلہ فروری 2008ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کے بعد سے یہ غیر یقینی صورتحال کہ یہ اتحاد چلے گا بھی یا نہیں، صدر زرداری وعدے کے مطابق ججز بحال کریں گے یا نہیں، اتحاد ٹوٹا تو یہ مسئلہ کہ اب حکومت بچے گی یا نہیں، بچ گئی تو یہ مسئلہ کہ (ن) لیگ اور دیگر جماعتیں ججز بحال کیے بغیر حکومت چلنے دیں گی یا نہیں۔
لانگ مارچ ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ اگر صدر زرداری نے ضد نہ چھوڑی تو حکومت تو رہے نہ رہے نظام رہے گا یا نہیں؟ نظام بچ گیا' حکومت بھی بچ گئی' ججز بھی بحال ہو گئے' تو نیا سوال یہ اٹھا کہ اب چیف جسٹس اور حکومت کے درمیان تعاون کی فضا ممکن ہو پائے گی یا تصادم کی؟ این آر او کیس پر سماعت شروع ہوتے ہی صورتحال واضح ہونے لگی اور جو لوگوں کی مختصر تعداد حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعاون کی امید لگائے بیٹھی تھی ان کی امید ٹوٹ گئی۔ یعنی مزید غیر یقینی صورتحال۔ این آر او کا فیصلہ کس حد تک حکومت کو نقصان پہنچائے گا۔
صدر زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں؟ وہ صدر رہ پائیں گے یا نہیں؟ فیصلہ آ گیا تو نیا سوال یہ کہ خط لکھا جائے گا یا نہیں؟ وزیراعظم اور صدر نے صاف کہہ دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے خط نہیں لکھیںگے تو توہین عدالت ہو گئی۔ جو غیر یقینی صورتحال زرداری صاحب کے صدر رہنے یا نہ رہنے تک محدود تھی وہ وزیراعظم تک پھیل گئی۔ وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تو یہ سوال کہ وہ نااہل ہوئے ہیں یا نہیں۔ نااہل قرار دیدیے گئے تو یہ صورتحال کہ پیپلزپارٹی کی حکومت رہ پائے گی؟ کیا اتحادی ایک اور وزیراعظم منتخب کرنے میں پیپلزپارٹی کی مدد کریں گے؟ نیا وزیراعظم منتخب ہو گیا تو مزیدغیر یقینی صورتحال۔
کیا نیا وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ دے گا؟ نئے وزیراعظم نے بھی کہہ دیا کہ صدر کو استثنیٰ ہے خط نہیں لکھا جائے گا تو نئے وزیراعظم کے ساتھ فوراً ایک نیا سوال منسلک کر دیا گیا کہ اب وہ وزیراعظم رہ بھی پائیں گے یا نہیں؟ اب یہی سوال ہے جو اس وقت بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کیے ہوئے ہے اور ہر قسم کی قیاس آرائیوں کا موجب ہے۔ وزیراعظم کے نہ رہنے کی صورت میں ایک تیسرا وزیراعظم منتخب ہو پائے گا؟ نگران سیٹ اپ آ جائے گا؟ اگر نگراں سیٹ اپ آیا تین ماہ کے اندر انتخابات کرا دے گا یا پھر ایک طویل مدت کے لیے عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے ساتھ ملکی باگ ڈور سنبھال لے گا؟ اب بھلا بتایئے گزشتہ ساڑھے چار سال میں کونسا ایسا موقع آیا کہ جب اس ملک کی معیشت میں سرمایہ کاری کے لیے سکون کا ایک ایسا لمحہ آیا ہو کہ حکومت مستحکم اور کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے مبرا نظر آئی ہو۔
حکومتی اتحادی بھی اس غیر یقینی صورتحال کو گرماتے رہے۔ یہ سوال بار بار اٹھا کہ کیا ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ چل پائے گی۔ حکومت سے چلی گئی ہے تو کیا واپس حکومت میں آئے گی اور اب آ گئی ہے تو کہیں پھر تو حکومت سے نہیں چلی جائے گی۔ (ن) لیگ مرکز میں تو پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہو گئی مگر پنجاب میں کیا ہو گا۔ پنجاب میں علیحدگی ہو گئی تو سوال پیدا ہوا کہ کیا اب (ن) لیگ فرینڈلی اپوزیشن کے کردار سے نکل کر حکومت کو غیر مستحکم کر دے گی۔ پیپلزپارٹی نے سونے پر سہاگہ پنجاب میں گورنر راج لگا کر پیپلزپارٹی نے اپنے پائوں پر بھرپور کلہاڑی ماری اور مرکز میں پہلے سے کمزور حکومت کو مزید غیر مستحکم کیا اور غیر یقینی صورتحال میں اضافہ بھی کیا۔ حکومت نے اپنی کارکردگی سے بھی اس بات کا بھرپور ثبوت دیا کہ وہ قطعی طور پر ایک مستحکم ماحول میسر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
جس میں سرمایہ کار کسی غیر یقینی صورتحال سے متاثر نہ ہوں۔ کبھی یہ مسئلہ کہ وزیر خزانہ کون ہو گا تو کبھی یہ کہ جو ہے وہ کتنے دن کے لیے ہے۔ اسی صورتحال کا سامنا گورنر اسٹیٹ بینک کے معاملے میں بھی رہا۔ پھر معاشی مسائل حل کرنے کے دعوے مگر آئی ایم ایف کا پروگرام۔ اس پر بھی یہ سوال کہ کیا آئی ایم ایف کا پروگرام مل پائے گا۔ مل گیا تو کیا اس کی شرائط پوری ہو پائیں گی۔ ایک مرحلے پر جا کر شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے پروگرام ختم ہوا تو یہ سوال کے اب اگر آئی ایم ایف کو پیسے واپس کرنے پڑیں گے تو زرمبادلہ کے ذخائر کا کیا ہو گا۔
معیشت پر کتنے برے اثرات پڑیں گے۔ خبر آئی کہ حکومت ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے قرض لے گی تو پھر یہ سوال کہ آئی ایم ایف کیسے ایک ایسی صورتحال میں قرض دے گا کہ جب موجودہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ کسی بھی وقت فارغ کر سکتی ہے۔ پھر ساڑھے چار سال یہ سوال بھی منڈلاتا رہا کہ حکومت لوڈشیڈنگ کے مسئلے سے نمٹ پائے گی یا نہیں۔ رینٹل پاور پلانٹ کا منصوبہ کامیاب ہو پائے گا یا نہیں۔ گیس کے مسائل حل ہوں گے یا نہیں۔
امن و امان کے حوالے سے بھی ہر طرف غیر یقینی صورتحال ہی کا سامنا ہے۔ کراچی میں کسی بھی وقت حالات خراب ہو جانے کا ڈر۔ کبھی لسانی کبھی فرقہ وارانہ۔ سیاسی جماعتیں اتحادی بھی اور ایک دوسرے کے قتل میں ملوث بھی۔ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے اور جب یہ بات یہ طلوع ہوتے سورج کے ساتھ غیر یقینی ہو کہ اس معاشی شہ رگ میں آج کتنی ٹارگٹ کلنگ ہو گی' کتنے لوگ اغوا کیے جائیں گے' مختلف واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کا رد عمل کیا ہو گا' کتنی ہڑتالیں ہوں گی' کتنی بسوں اور دکانوں کو آگ لگا دی جائے گی' کتنے افراد ایک فرد کے قتل کے رد عمل میں قتل کر دیے جائیں گے۔
معاملہ آگے بڑھے گا یا سیاسی جماتیں سر جوڑ کر بیٹھ جائیں گی اور معاملہ فی الحال رفع دفع ہو جائے گا اور عارضی امن کراچی کو حاصل ہو جائے گا۔ پھر یہ مسئلہ کہ جو ہوا وہ کس نے کرایا۔ سیاسی جماعتوں نے' کالعدم تنظیموں نے یا پھر گرل فرینڈز اور بیویوں نے۔ اور یہ صورتحال کسی ایک دن' ایک ہفتہ یا مہینے کی نہیں بلکہ ملک کی اس معاشی شہ رگ کراچی نے گزشتہ ساڑھے چار سال میں یہی کچھ دیکھا ہے اور آج بھی لوگ اسی غیر یقینی صورتحال میں گھر سے نکلے ہیں کہ پتہ نہیں باہر جا کر کیا ہو۔ واپسی سلامتی سے ممکن ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ سیاسی جماعتیں اتنی شہادتوں کے بعد بھی کسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہیں۔
سیاسی جماعتیں تو ایک طرف امن و امان قائم رکھنے والے ادارے بھی کسی بات پر متفق نظر نہیں آتے۔ پولیس اگر کہیں آپریشن کرے تو رینجرز ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ کیا کسی اور ملک میں یہ ممکن ہے کہ پولیس کے جوان شہید ہو رہے ہوں اور رینجرز خود کو آپریشن سے الگ تھلگ رکھیں اور اگر رینجرز کو پہلے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا تو کیا کسی ملک میں یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی پولیس والا اٹھے اپنے ساتھ نفری لے ایک علاقے میں آپریشن کرے اپنے پولیس اہلکار شہید ہوں' عام شہری شہید ہوں مگر کسی کا کوئی احتساب نہ ہو۔
اس سے زیادہ غیر یقینی صورتحال کا بھلا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے۔ یہ امن و امان کی صورتحال کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا' بلوچستان اور پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتحال گو کہ کراچی کی طرح سیاسی وجوہات کی وجہ سے نہیں مگر بہر حال ایک مسئلہ بنی رہی۔ باقی باتیں اگلی نشت میں کروں گا۔
مگر موجودہ حکومت کے چار سال میں اس ملک نے کوئی ایک نہیں بلکہ اوپر بیان کی گئی ہر قسم کی غیریقینی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ حکومت کے استحکام اور اداروں کے تصادم پر تو غیر یقینی صورتحال کی تلوار گویا پورے ساڑھے چار سال ہی لٹکی رہی اور یہ سلسلہ فروری 2008ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کے بعد سے یہ غیر یقینی صورتحال کہ یہ اتحاد چلے گا بھی یا نہیں، صدر زرداری وعدے کے مطابق ججز بحال کریں گے یا نہیں، اتحاد ٹوٹا تو یہ مسئلہ کہ اب حکومت بچے گی یا نہیں، بچ گئی تو یہ مسئلہ کہ (ن) لیگ اور دیگر جماعتیں ججز بحال کیے بغیر حکومت چلنے دیں گی یا نہیں۔
لانگ مارچ ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ اگر صدر زرداری نے ضد نہ چھوڑی تو حکومت تو رہے نہ رہے نظام رہے گا یا نہیں؟ نظام بچ گیا' حکومت بھی بچ گئی' ججز بھی بحال ہو گئے' تو نیا سوال یہ اٹھا کہ اب چیف جسٹس اور حکومت کے درمیان تعاون کی فضا ممکن ہو پائے گی یا تصادم کی؟ این آر او کیس پر سماعت شروع ہوتے ہی صورتحال واضح ہونے لگی اور جو لوگوں کی مختصر تعداد حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعاون کی امید لگائے بیٹھی تھی ان کی امید ٹوٹ گئی۔ یعنی مزید غیر یقینی صورتحال۔ این آر او کا فیصلہ کس حد تک حکومت کو نقصان پہنچائے گا۔
صدر زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں؟ وہ صدر رہ پائیں گے یا نہیں؟ فیصلہ آ گیا تو نیا سوال یہ کہ خط لکھا جائے گا یا نہیں؟ وزیراعظم اور صدر نے صاف کہہ دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے خط نہیں لکھیںگے تو توہین عدالت ہو گئی۔ جو غیر یقینی صورتحال زرداری صاحب کے صدر رہنے یا نہ رہنے تک محدود تھی وہ وزیراعظم تک پھیل گئی۔ وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تو یہ سوال کہ وہ نااہل ہوئے ہیں یا نہیں۔ نااہل قرار دیدیے گئے تو یہ صورتحال کہ پیپلزپارٹی کی حکومت رہ پائے گی؟ کیا اتحادی ایک اور وزیراعظم منتخب کرنے میں پیپلزپارٹی کی مدد کریں گے؟ نیا وزیراعظم منتخب ہو گیا تو مزیدغیر یقینی صورتحال۔
کیا نیا وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ دے گا؟ نئے وزیراعظم نے بھی کہہ دیا کہ صدر کو استثنیٰ ہے خط نہیں لکھا جائے گا تو نئے وزیراعظم کے ساتھ فوراً ایک نیا سوال منسلک کر دیا گیا کہ اب وہ وزیراعظم رہ بھی پائیں گے یا نہیں؟ اب یہی سوال ہے جو اس وقت بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کیے ہوئے ہے اور ہر قسم کی قیاس آرائیوں کا موجب ہے۔ وزیراعظم کے نہ رہنے کی صورت میں ایک تیسرا وزیراعظم منتخب ہو پائے گا؟ نگران سیٹ اپ آ جائے گا؟ اگر نگراں سیٹ اپ آیا تین ماہ کے اندر انتخابات کرا دے گا یا پھر ایک طویل مدت کے لیے عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے ساتھ ملکی باگ ڈور سنبھال لے گا؟ اب بھلا بتایئے گزشتہ ساڑھے چار سال میں کونسا ایسا موقع آیا کہ جب اس ملک کی معیشت میں سرمایہ کاری کے لیے سکون کا ایک ایسا لمحہ آیا ہو کہ حکومت مستحکم اور کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے مبرا نظر آئی ہو۔
حکومتی اتحادی بھی اس غیر یقینی صورتحال کو گرماتے رہے۔ یہ سوال بار بار اٹھا کہ کیا ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ چل پائے گی۔ حکومت سے چلی گئی ہے تو کیا واپس حکومت میں آئے گی اور اب آ گئی ہے تو کہیں پھر تو حکومت سے نہیں چلی جائے گی۔ (ن) لیگ مرکز میں تو پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہو گئی مگر پنجاب میں کیا ہو گا۔ پنجاب میں علیحدگی ہو گئی تو سوال پیدا ہوا کہ کیا اب (ن) لیگ فرینڈلی اپوزیشن کے کردار سے نکل کر حکومت کو غیر مستحکم کر دے گی۔ پیپلزپارٹی نے سونے پر سہاگہ پنجاب میں گورنر راج لگا کر پیپلزپارٹی نے اپنے پائوں پر بھرپور کلہاڑی ماری اور مرکز میں پہلے سے کمزور حکومت کو مزید غیر مستحکم کیا اور غیر یقینی صورتحال میں اضافہ بھی کیا۔ حکومت نے اپنی کارکردگی سے بھی اس بات کا بھرپور ثبوت دیا کہ وہ قطعی طور پر ایک مستحکم ماحول میسر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
جس میں سرمایہ کار کسی غیر یقینی صورتحال سے متاثر نہ ہوں۔ کبھی یہ مسئلہ کہ وزیر خزانہ کون ہو گا تو کبھی یہ کہ جو ہے وہ کتنے دن کے لیے ہے۔ اسی صورتحال کا سامنا گورنر اسٹیٹ بینک کے معاملے میں بھی رہا۔ پھر معاشی مسائل حل کرنے کے دعوے مگر آئی ایم ایف کا پروگرام۔ اس پر بھی یہ سوال کہ کیا آئی ایم ایف کا پروگرام مل پائے گا۔ مل گیا تو کیا اس کی شرائط پوری ہو پائیں گی۔ ایک مرحلے پر جا کر شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے پروگرام ختم ہوا تو یہ سوال کے اب اگر آئی ایم ایف کو پیسے واپس کرنے پڑیں گے تو زرمبادلہ کے ذخائر کا کیا ہو گا۔
معیشت پر کتنے برے اثرات پڑیں گے۔ خبر آئی کہ حکومت ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے قرض لے گی تو پھر یہ سوال کہ آئی ایم ایف کیسے ایک ایسی صورتحال میں قرض دے گا کہ جب موجودہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ کسی بھی وقت فارغ کر سکتی ہے۔ پھر ساڑھے چار سال یہ سوال بھی منڈلاتا رہا کہ حکومت لوڈشیڈنگ کے مسئلے سے نمٹ پائے گی یا نہیں۔ رینٹل پاور پلانٹ کا منصوبہ کامیاب ہو پائے گا یا نہیں۔ گیس کے مسائل حل ہوں گے یا نہیں۔
امن و امان کے حوالے سے بھی ہر طرف غیر یقینی صورتحال ہی کا سامنا ہے۔ کراچی میں کسی بھی وقت حالات خراب ہو جانے کا ڈر۔ کبھی لسانی کبھی فرقہ وارانہ۔ سیاسی جماعتیں اتحادی بھی اور ایک دوسرے کے قتل میں ملوث بھی۔ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے اور جب یہ بات یہ طلوع ہوتے سورج کے ساتھ غیر یقینی ہو کہ اس معاشی شہ رگ میں آج کتنی ٹارگٹ کلنگ ہو گی' کتنے لوگ اغوا کیے جائیں گے' مختلف واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کا رد عمل کیا ہو گا' کتنی ہڑتالیں ہوں گی' کتنی بسوں اور دکانوں کو آگ لگا دی جائے گی' کتنے افراد ایک فرد کے قتل کے رد عمل میں قتل کر دیے جائیں گے۔
معاملہ آگے بڑھے گا یا سیاسی جماتیں سر جوڑ کر بیٹھ جائیں گی اور معاملہ فی الحال رفع دفع ہو جائے گا اور عارضی امن کراچی کو حاصل ہو جائے گا۔ پھر یہ مسئلہ کہ جو ہوا وہ کس نے کرایا۔ سیاسی جماعتوں نے' کالعدم تنظیموں نے یا پھر گرل فرینڈز اور بیویوں نے۔ اور یہ صورتحال کسی ایک دن' ایک ہفتہ یا مہینے کی نہیں بلکہ ملک کی اس معاشی شہ رگ کراچی نے گزشتہ ساڑھے چار سال میں یہی کچھ دیکھا ہے اور آج بھی لوگ اسی غیر یقینی صورتحال میں گھر سے نکلے ہیں کہ پتہ نہیں باہر جا کر کیا ہو۔ واپسی سلامتی سے ممکن ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ سیاسی جماعتیں اتنی شہادتوں کے بعد بھی کسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہیں۔
سیاسی جماعتیں تو ایک طرف امن و امان قائم رکھنے والے ادارے بھی کسی بات پر متفق نظر نہیں آتے۔ پولیس اگر کہیں آپریشن کرے تو رینجرز ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ کیا کسی اور ملک میں یہ ممکن ہے کہ پولیس کے جوان شہید ہو رہے ہوں اور رینجرز خود کو آپریشن سے الگ تھلگ رکھیں اور اگر رینجرز کو پہلے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا تو کیا کسی ملک میں یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی پولیس والا اٹھے اپنے ساتھ نفری لے ایک علاقے میں آپریشن کرے اپنے پولیس اہلکار شہید ہوں' عام شہری شہید ہوں مگر کسی کا کوئی احتساب نہ ہو۔
اس سے زیادہ غیر یقینی صورتحال کا بھلا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے۔ یہ امن و امان کی صورتحال کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا' بلوچستان اور پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتحال گو کہ کراچی کی طرح سیاسی وجوہات کی وجہ سے نہیں مگر بہر حال ایک مسئلہ بنی رہی۔ باقی باتیں اگلی نشت میں کروں گا۔