دیر آید درست آید
دنیا کو لگتا ہے کہ ہم کئی چیزوں میں دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ گزری صدی میں انگریزوں سے...
KARACHI:
دنیا کو لگتا ہے کہ ہم کئی چیزوں میں دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ گزری صدی میں انگریزوں سے اپنا ملک حاصل کرنے کی ریس تو ہم جیت گئے لیکن اس کے بعد کئی ریسوں میں دوسرے ملکوں سے پیچھے رہ گئے، دنیا ہمارا دوسرے ملکوں سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ پاکستان ہر چیز میں سب سے پیچھے نہیں ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جو نیوکلیئر پاور رکھتا ہے اور دنیا کے ایٹمی ممالک کی لسٹ میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان میں دنیا بھر کے سب سے بہترین ایئرفورس پائلٹ بھی تیار کیے جاتے ہیں، ہمارے یہاں دنیا کا سب سے بڑا ملک پروسسنگ پلانٹ موجود ہے، پاکستان دنیا بھر میں ساتواں وہ ملک ہے جس میں سب سے زیادہ انجینئرز اور سائنسدان موجود ہیں۔
دنیا میں استعمال کی جانے والی پچاس فیصد فٹ بال پاکستان میں بنتی ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ نیٹ ورک کی لسٹ پر پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی چھٹے نمبر کی بہترین فوج مانی جاتی ہے، پاکستان کا ترانہ دنیا کی ٹاپ تھری دھنوں میں اول نمبر پر آتا ہے، پاکستان سب سے کم عمر سول جج کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے جہاں محمد الیاس 1952 میں بیس سال کی عمر میں سول جج بنے تھے۔
ہمیں تھرڈ ورلڈ ملک سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سپر پاور ملکوں کی لسٹوں پر پاکستان نویں نمبر پر آتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی کئی اچھی چیزوں کے باوجود دنیا بھر کے عام اور خاص لوگ ہمیں ''پچھڑا'' ہوا کیوں سمجھتے ہیں؟
پاکستان کاٹن، چاول، کپڑوں یا کھیلوں کے سامان کی تو بہت ایکسپورٹ کرتا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے معاملے میں ہم دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں، نہ ہی ہمارے یہاں چین، انڈیا کی طرح بڑی بڑی امریکن، برٹش کمپنیاں، فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں نہ ہی پاکستان کے بنائے ریڈیو، ٹی وی، موبائل فون جیسی چیزیں دنیا میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔
دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک پاکستان جہاں لیبر دنیا کے بیشتر ملکوں سے سستی وہاں ٹیکنالوجی سے متعلق انڈسٹریز نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہمارے آس پاس کے ملکوں کی نسبت ہم ترقی میں پیچھے ہیں، مانا کہ کراچی لاہور میں کئی اہم پیش رفت ہوئی ہیں لیکن اگر انڈیا یا بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے مقابلہ کیا جائے تو ہم اپنی صلاحیتوں کے حساب سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تب ہی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دنیا ہمیں تھرڈ ورلڈ مانتی ہے۔
ٹیکنالوجی اور ڈیولپمنٹ کے علاوہ جو چیز ملک کو دنیا کے سامنے متعارف کرواتی ہے وہ سینما ہے یعنی اس ملک کی فلمیں اور اس معاملے میں ہم دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں فلمیں بنتی نہیں تھیں، جب پاکستان بنا تو لاہور اور ممبئی دو ہی شہر ایسے تھے جہاں فلمیں بنتی تھیں۔ ممبئی اپنی فلم انڈسٹری میں آگے سے آگے بڑھتا گیا اور لاہور فلم انڈسٹری نے دم توڑ دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں پورے سال ایک بھی اردو کی فلم نہیں بنی اور اس لیے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو آسکر کی سو ملکوں کی لسٹ میں ہونے کے باوجود پچھلے پچاس سال میں مقابلے کے لیے ایک فلم بھی جمع نہ کروا پایا۔
آسکر ایوارڈ دنیا کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ مانا جاتا ہے جو امریکا میں ہر سال منعقد ہوتا ہے ان میں ایک کیٹیگری ''فارن فلمز'' کی بھی ہے جس میں ہر ملک اپنی ایک فلم ہر سال بھیج سکتا ہے۔ آسکر کی جیوری یعنی اکیڈمی اپنی مرضی سے ان ساری فلموں میں سے چار کو منتخب کرتی ہے جس میں سے ایک فلم بہترین فارن فلم کا ایوارڈ جیتتی ہے۔
آسکر میں فلم بھیجنے سے ہر ملک اپنے کلچر اور ٹیلنٹ کو پروموٹ کر پاتا ہے، ساتھ ہی دنیا بھر کے لوگ اس فلم کے آسکر میں بھیجے جانے پر ہی اس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور ایک اچھی فلم چاہے وہ ایوارڈ نہ جیتے ملک کو فائدہ ضرور پہنچاتی ہے۔
انڈیا جو 1947 سے پہلے ہمارے بغیر فلم نہیں بنا پاتا تھا، پارٹیشن کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور ہر سال کئی فلموں میں سے منتخب کرکے ایک فلم آسکر میں بھیجتا رہا لیکن ہم تو پارٹیشن کے بعد جیسے فلمیں بنانا بھول ہی گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے آج تک آسکرز میں صرف دو فلمیں بھیجی ہیں۔ 1959 میں ''جاگو ہوا سویرا'' اور 1963 میں ''گھونگھٹ'' جس کے بعد ہم آسکرز ایوارڈ کے لیے بھیجی جانے والی فلموں کی لسٹ میں سب سے نیچے پائے جانے لگے، دنیا تک ہم اپنا ٹیلنٹ نہیں پہنچا پائے۔ دنیا تک پہنچی تو صرف وہ ویڈیو جو نیوز میں دکھائی جاتی ہیں جس میں یا تو پاکستان میں موجود طالبان ٹریننگ کیمپس نظر آتے ہیں یا کسی بم دھماکے یا زلزلے کی کوریج۔ ہمارے کلچر، ہماری سوچ، ہماری کہانیوں سے دنیا پچھلے پچاس سال سے ناواقف ہے لیکن لگتا ہے پاکستان کا پھر جاگو ہوا سویرا ہونے والا ہے یعنی پچاس سال بعد پاکستان اپنی فلم آسکر میں بھیجنے والا ہے۔
شرمین عبید چنائے کے نام سے سب واقف ہیں وہ واحد پاکستانی جنھوں نے آسکر جیتا ہے، شرمین نے حال ہی میں پاکستان میں آسکر کمیٹی بنائی ہے جو کسی ایک فلم کا انتخاب کرکے آسکرز میں بھیجیں گے، کمیٹی میں شامل لوگ جن میں محسن حامد، راحت کاظمی اور ثمینہ پیرزادہ شامل ہیں۔ یکم اکتوبر 2013 سے پہلے پاکستان کی کوئی فلم آسکرز میں مقابلے کے لیے بھیج کر پچاس سال کا طویل وقفہ اپنے اختتام کو پہنچائیں گے۔
پاکستان کی حکومت اس آسکرز نامزدگی کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کر رہی جب کہ آسکرز کی یہ ضرورت نہیں ہے لیکن آسکرز ایوارڈ کی اہمیت کے پیش نظر بیشتر ممالک کی حکومتیں بھی اپنی سطح پر اس میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی کسی بھی حکومت نے آسکرز نامزدگیوں میں کبھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔
اس سال پاکستان میں کل ملا کر تیرہ اردو فلمیں ریلیز ہوں گی، پاکستانی فلم میکرز وسائل کی کمی کے باوجود رفتار پکڑ رہے ہیں، فلمیں بنانے کے سلسلے میں اور ہر فلم کے ساتھ وہ بہتر ہوتے جارہے ہیں ایک طرح پاکستان کا اتنے عرصے تک آسکرز میں کوئی فلم نہ بھیجنا ٹھیک تھا جس طرح کی فلمیں پاکستان میں بن رہی تھیں وہ دکھا کر شاید شرمندگی کا سامنا ہی کرنا پڑتا اور کچھ نہیں اسی لیے اس معاملے میں اگر ہم نے دیر کی تو درست کیا۔
جیسے شرمین کی پہلی نامزد ہونے والی ڈاکومنٹری آسکر جیت گئی تھی، ویسے ہی ہم امید کرتے ہیں کہ پچاس سال بعد انٹر ہونے والی پاکستانی فلم بھی خوش خبری لائے اور اگر یہ فلم ایوارڈ نہ بھی جیتے تو دنیا کے کچھ لوگوں کی پاکستان کے بارے میں سوچ بدلنے میں مدد ضرور کرے۔
دنیا کو لگتا ہے کہ ہم کئی چیزوں میں دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ گزری صدی میں انگریزوں سے اپنا ملک حاصل کرنے کی ریس تو ہم جیت گئے لیکن اس کے بعد کئی ریسوں میں دوسرے ملکوں سے پیچھے رہ گئے، دنیا ہمارا دوسرے ملکوں سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ پاکستان ہر چیز میں سب سے پیچھے نہیں ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جو نیوکلیئر پاور رکھتا ہے اور دنیا کے ایٹمی ممالک کی لسٹ میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان میں دنیا بھر کے سب سے بہترین ایئرفورس پائلٹ بھی تیار کیے جاتے ہیں، ہمارے یہاں دنیا کا سب سے بڑا ملک پروسسنگ پلانٹ موجود ہے، پاکستان دنیا بھر میں ساتواں وہ ملک ہے جس میں سب سے زیادہ انجینئرز اور سائنسدان موجود ہیں۔
دنیا میں استعمال کی جانے والی پچاس فیصد فٹ بال پاکستان میں بنتی ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ نیٹ ورک کی لسٹ پر پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی چھٹے نمبر کی بہترین فوج مانی جاتی ہے، پاکستان کا ترانہ دنیا کی ٹاپ تھری دھنوں میں اول نمبر پر آتا ہے، پاکستان سب سے کم عمر سول جج کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے جہاں محمد الیاس 1952 میں بیس سال کی عمر میں سول جج بنے تھے۔
ہمیں تھرڈ ورلڈ ملک سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ سپر پاور ملکوں کی لسٹوں پر پاکستان نویں نمبر پر آتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی کئی اچھی چیزوں کے باوجود دنیا بھر کے عام اور خاص لوگ ہمیں ''پچھڑا'' ہوا کیوں سمجھتے ہیں؟
پاکستان کاٹن، چاول، کپڑوں یا کھیلوں کے سامان کی تو بہت ایکسپورٹ کرتا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے معاملے میں ہم دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں، نہ ہی ہمارے یہاں چین، انڈیا کی طرح بڑی بڑی امریکن، برٹش کمپنیاں، فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں نہ ہی پاکستان کے بنائے ریڈیو، ٹی وی، موبائل فون جیسی چیزیں دنیا میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔
دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک پاکستان جہاں لیبر دنیا کے بیشتر ملکوں سے سستی وہاں ٹیکنالوجی سے متعلق انڈسٹریز نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہمارے آس پاس کے ملکوں کی نسبت ہم ترقی میں پیچھے ہیں، مانا کہ کراچی لاہور میں کئی اہم پیش رفت ہوئی ہیں لیکن اگر انڈیا یا بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے مقابلہ کیا جائے تو ہم اپنی صلاحیتوں کے حساب سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تب ہی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دنیا ہمیں تھرڈ ورلڈ مانتی ہے۔
ٹیکنالوجی اور ڈیولپمنٹ کے علاوہ جو چیز ملک کو دنیا کے سامنے متعارف کرواتی ہے وہ سینما ہے یعنی اس ملک کی فلمیں اور اس معاملے میں ہم دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں فلمیں بنتی نہیں تھیں، جب پاکستان بنا تو لاہور اور ممبئی دو ہی شہر ایسے تھے جہاں فلمیں بنتی تھیں۔ ممبئی اپنی فلم انڈسٹری میں آگے سے آگے بڑھتا گیا اور لاہور فلم انڈسٹری نے دم توڑ دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں پورے سال ایک بھی اردو کی فلم نہیں بنی اور اس لیے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو آسکر کی سو ملکوں کی لسٹ میں ہونے کے باوجود پچھلے پچاس سال میں مقابلے کے لیے ایک فلم بھی جمع نہ کروا پایا۔
آسکر ایوارڈ دنیا کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ مانا جاتا ہے جو امریکا میں ہر سال منعقد ہوتا ہے ان میں ایک کیٹیگری ''فارن فلمز'' کی بھی ہے جس میں ہر ملک اپنی ایک فلم ہر سال بھیج سکتا ہے۔ آسکر کی جیوری یعنی اکیڈمی اپنی مرضی سے ان ساری فلموں میں سے چار کو منتخب کرتی ہے جس میں سے ایک فلم بہترین فارن فلم کا ایوارڈ جیتتی ہے۔
آسکر میں فلم بھیجنے سے ہر ملک اپنے کلچر اور ٹیلنٹ کو پروموٹ کر پاتا ہے، ساتھ ہی دنیا بھر کے لوگ اس فلم کے آسکر میں بھیجے جانے پر ہی اس میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور ایک اچھی فلم چاہے وہ ایوارڈ نہ جیتے ملک کو فائدہ ضرور پہنچاتی ہے۔
انڈیا جو 1947 سے پہلے ہمارے بغیر فلم نہیں بنا پاتا تھا، پارٹیشن کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور ہر سال کئی فلموں میں سے منتخب کرکے ایک فلم آسکر میں بھیجتا رہا لیکن ہم تو پارٹیشن کے بعد جیسے فلمیں بنانا بھول ہی گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے آج تک آسکرز میں صرف دو فلمیں بھیجی ہیں۔ 1959 میں ''جاگو ہوا سویرا'' اور 1963 میں ''گھونگھٹ'' جس کے بعد ہم آسکرز ایوارڈ کے لیے بھیجی جانے والی فلموں کی لسٹ میں سب سے نیچے پائے جانے لگے، دنیا تک ہم اپنا ٹیلنٹ نہیں پہنچا پائے۔ دنیا تک پہنچی تو صرف وہ ویڈیو جو نیوز میں دکھائی جاتی ہیں جس میں یا تو پاکستان میں موجود طالبان ٹریننگ کیمپس نظر آتے ہیں یا کسی بم دھماکے یا زلزلے کی کوریج۔ ہمارے کلچر، ہماری سوچ، ہماری کہانیوں سے دنیا پچھلے پچاس سال سے ناواقف ہے لیکن لگتا ہے پاکستان کا پھر جاگو ہوا سویرا ہونے والا ہے یعنی پچاس سال بعد پاکستان اپنی فلم آسکر میں بھیجنے والا ہے۔
شرمین عبید چنائے کے نام سے سب واقف ہیں وہ واحد پاکستانی جنھوں نے آسکر جیتا ہے، شرمین نے حال ہی میں پاکستان میں آسکر کمیٹی بنائی ہے جو کسی ایک فلم کا انتخاب کرکے آسکرز میں بھیجیں گے، کمیٹی میں شامل لوگ جن میں محسن حامد، راحت کاظمی اور ثمینہ پیرزادہ شامل ہیں۔ یکم اکتوبر 2013 سے پہلے پاکستان کی کوئی فلم آسکرز میں مقابلے کے لیے بھیج کر پچاس سال کا طویل وقفہ اپنے اختتام کو پہنچائیں گے۔
پاکستان کی حکومت اس آسکرز نامزدگی کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کر رہی جب کہ آسکرز کی یہ ضرورت نہیں ہے لیکن آسکرز ایوارڈ کی اہمیت کے پیش نظر بیشتر ممالک کی حکومتیں بھی اپنی سطح پر اس میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی کسی بھی حکومت نے آسکرز نامزدگیوں میں کبھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔
اس سال پاکستان میں کل ملا کر تیرہ اردو فلمیں ریلیز ہوں گی، پاکستانی فلم میکرز وسائل کی کمی کے باوجود رفتار پکڑ رہے ہیں، فلمیں بنانے کے سلسلے میں اور ہر فلم کے ساتھ وہ بہتر ہوتے جارہے ہیں ایک طرح پاکستان کا اتنے عرصے تک آسکرز میں کوئی فلم نہ بھیجنا ٹھیک تھا جس طرح کی فلمیں پاکستان میں بن رہی تھیں وہ دکھا کر شاید شرمندگی کا سامنا ہی کرنا پڑتا اور کچھ نہیں اسی لیے اس معاملے میں اگر ہم نے دیر کی تو درست کیا۔
جیسے شرمین کی پہلی نامزد ہونے والی ڈاکومنٹری آسکر جیت گئی تھی، ویسے ہی ہم امید کرتے ہیں کہ پچاس سال بعد انٹر ہونے والی پاکستانی فلم بھی خوش خبری لائے اور اگر یہ فلم ایوارڈ نہ بھی جیتے تو دنیا کے کچھ لوگوں کی پاکستان کے بارے میں سوچ بدلنے میں مدد ضرور کرے۔