فنی تربیت کی اہمیت اور سندھ

بے پناہ مالی و معدنی وسائل کے باوجود ہم فنی و معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں۔

دنیا میں 17ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد انسانی زندگی کروٹ لیتے ہوئے قدیم زرعی زندگی سے مشینی صنعتی زندگی میں شامل ہوگئی ۔ تب سے قدیم زرعی ہنر کی جگہ جدید صنعتی فنی و ہنری تربیت کی حامل افرادی قوت کی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ جو ابتداء میں مکینیکل دور سے ترقی کرتے کرتے الیکٹریکل اور پھر ڈیجیٹل ڈیٹا بیس میں تبدیل ہوگئی ۔

جو قومیں وقت کے ساتھ جتنی جلدی اجتماعی جدت اختیار کرتی گئیں ، انھوں نے اُتنی ہی جلدی ترقی یافتہ اقوام کا درجہ پایا ۔ باقی قومیں آج تک ترقی پذیری کے سفر کی منازل زینہ بہ زینہ طے کر رہی ہیں ۔ ہمارا ملک پاکستان بھی انھی ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں آتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اس فہرست میں بھی ہماری ترقی کی رفتار انتہائی سست ترین رہی ہے ۔ یوں تو ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن آج بھی ہم شاہراہوں اور نالیوں کی تعمیر کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ زندگی کے تمام شعبہ جات میں کارپوریٹ ترقی و تعمیر کے لیے ہم دوسرے ممالک کی اور دیکھتے رہتے ہیں ۔

بے پناہ مالی و معدنی وسائل کے باوجود ہم فنی و معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں، حالانکہ پاکستان دنیا میں افرادی قوت میں 10ویں نمبر پر ہے لیکن یہ سب انفرادی طور پر حاصل کردہ فنی مہارت کا نتیجہ ہے ، اجتماعی طور پر ہم آج تک فنی و ہنری اہمیت کو سمجھ نہیں سکے ہیں ۔ یہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ 21ویں صدی کے ابتدائی چوتھائی حصہ گذرنے کے دہانے پر کھڑے ہونے پر بھی جب ہمارے یہاں ایک پروجیکٹ سی پیک کے نام سے شروع ہوتا ہے تو اس جدید دور میں بھی ہمارے یہاں اس کی افرادی قوت پوری کرنے کے لیے چائنہ سے 10لاکھ افراد آتے ہیں ۔

داخلی طور پر جب ہم اس سے متعلق ملکی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دو عشرے قبل ہی اس مد میں کچھ بڑے انتظامات ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔جب NAVTTCقائم کیا گیا اورپھر صوبائی سطح پر ماتحت ادارے قائم کرکے ملک بھر میں فنی و ہنری تربیت کے مراکز قائم کیے گئے۔ تاکہ فنی تربیت کے ذریعے تیار ہونے والے نوجوانوں کو نہ صرف ملکی اداروں میں خدمات سرانجام دینے کے اہل بنایا جائے بلکہ اُن میں بیرون ِ ملک خلیج و یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں افرادی قوت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مسابقتی و فنی اہلیت پیدا کی جائے ۔ اسی پروگرام کے تحت سندھ میں STEVTAمعرض ِ وجود میں آیا ۔

سندھ جو پاکستان کا سب سے زیادہ قدرتی وسائل کا حامل صوبہ ہے ۔ صوبہ کے کونے کونے میںجہاں تیل ، گیس، کوئلے ، ہیرے ، فاسفورس ، یورینیم اور دیگر معدنی ذخائر ہیں وہیں 250کلومیٹر کی طویل سمندری کوسٹل لائین بھی موجود ہے ،جہاں سمندر میں بھی گیس و تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں ۔تخمینی اندازے کے مطابق 50کروڑ بیرل تیل سمندر سے نکلنے سے پاکستان دنیا کے 10بڑے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ ایک طرف تھر کول ذخائر سے بجلی کی پیداوار کا کامیاب آغاز بھی ہوچکا ہے تو دوسری طرف ڈیڑھ لاکھ میگا واٹ بجلی کی گنجائش کے حامل کوسٹل ونڈ کوریڈور سے جھمپیر ونڈ پروجیکٹ کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

اس کے علاوہ کراچی میں کورنگی تا گھارو ، دھابے جی ،ٹھٹہ تک ، ماڑیپور -شیر شاہ اور سائٹ کراچی سے نوری آباد تک انڈسٹریل زونز کے ساتھ ساتھ حیدرآباد ، کوٹڑی ، دادو ، سکھر ، روہڑی میں انڈسٹریل ایریاز کی موجودگی اور پھر خیرپور اکنامک زون ، لاڑکانہ اکنامک زون کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے ۔سندھ میں اوورسیز سے ہٹ کرصرف صوبہ میں پھیلے اس وسیع نیٹ ورک کے لیے ہی بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی شدید طلب موجود ہے ۔ تو ایسے میں تربیت کے مواقع میں اضافہ کرنا نہ صرف صوبائی حکومت کا فرض ہے بلکہ وفاق کی بھی ذمے داری ہے ۔ لیکن یہاں نئے اور جدید فنی و ہنری تربیتی مراکز قائم کرنے کے بجائے نوجوانوں سے موجود تربیتی مراکز بھی چھینے جا رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو ملکی و عالمی قوانین میں واضح طور پردرج ہے کہ تمام معدنی و صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ جس خطے میں پروجیکٹ یا پلانٹ (منصوبہ) شروع کیا جائے اس منصوبے کے 60فیصد حصے پر وہاں کے مقامی افراد کا حق ہے ، جنھیں فنی و ہنری تربیت دیکر روزگار مہیا کرنا اس منصوبہ لگانے والوں کی ذمے داری ہوگی اور ساتھ ہی فیلڈ کے علاقے میں فلاحی ، رفاحی اور ترقیاتی کام کرانے کی ذمے داری بھی اسی پروجیکٹ پر عائد ہوگی ۔ لیکن سندھ میں صورتحال یکسر اسکے اُلٹ رہی ہے ۔ 60سال سے بدین ، ٹھٹہ ، سانگھڑ ، دادو و دیگر اضلاع سے تیل ، گیس اور کوئلے کے ذخائر نکالنے والے آئل وگیس کے وفاقی ادارے اور کمپنیاں نہ تو یہاں کے لوگوں کو روزگار کا حق دیتے ہیں ، نہ یہاں کے ترقیاتی و فلاحی کاموں کی ذمے داری نبھاتے ہیں اور نہ ہی یہاں کے نوجوانوں کی تعلیم و فنی تربیت کا انتظام کرنے کی آئینی و قانونی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔

یہاں تو اُلٹا مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے جاتے ہیں اور معدنیات کی رائلٹی کا حق بھی غصب کیا جاتا ہے ۔ اس روش کا نتیجہ ہے کہ صوبہ بھر میں ان اداروں کے خلاف مقامی لوگ بالخصوص نوجوان جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں ۔ وسائل سے مالامال صوبے میں دیرپا ترقی اور خوشحالی تب ہی ممکن ہے جب وفاقی حکومت ان چیزوں پر سندھ کے لوگوں کا حق سمجھتے ہوئے اداراتی فلاحی ، ترقیاتی کاموں اور فنی و ہنری تربیت کے پروگرام شروع کرنا اپنی ذمے داری سمجھے ، جب کہ سندھ حکومت صوبہ کے عوام اور اپنے ووٹروں کی حقیقی معنوں میں خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر یہاں تعلیم و تدریس اور تربیت کے معیار کو بہتر کرکے یہاں بڑے پیمانے پر معدنیات ، زراعت اور دیگر صنعتوں کے لیے مقامی افرادی قوت کی فراہمی کے لیے ٹیکنیکل اور ووکیشنل مراکز قائم کرے ۔

سندھ بنیادی طور پر زرعی خطہ ہونے کے باوجود صوبہ میں زرعی تحقیق و تربیت کے معیاری مراکز کی عدم موجودگی پر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ یہاں دنیا کی بہترین کپاس کی فصل ہونے کے باوجود تحقیق و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اس میں ترقی کے بجائے تنزلی ہوتی جارہی ہے ۔ گندم میں خود کفیل ہیں لیکن یہاں کے نوجوانوں کو گندم کی مصنوعات کی صنعتوں کی تربیت میسر نہیں ۔ نتیجتاً گندم سے نہ کاشتکار ہی بھرپور فائدہ حاصل کرپاتے ہیں اور نہ ہی یہ ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرنے میں کارگر رہتی ہے ۔


صوبہ میں ڈویژنل سطح پر 10سال قبل قائم کیے گئے کولڈ اسٹوریج مراکز بھی مقامی فروٹ و سبزی کے کاشتکاروں اور تاجروں کو کوئی خاص فائدہ نہیں دے سکے ہیں ، جس کے پیچھے بھی فنی تربیت سے عاری عملہ اور شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب و معلومات نہ ہونا ہے ۔ پھر صوبہ تیل ، گیس ، کوئلہ اور دیگر کئی اقسام کے قدرتی وسائل اورسی فوڈ، شپنگ و دیگر سمندری صنعتوں میں سینٹرل ایشیا کے لیے تجارتی حب ہونے کے باوجود، صوبہ میں نوجوانوں کو گڈز و ٹرانسپورٹ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔

ملک کے مجموعی بجٹ میں 70فیصد آمدن دینے والے صوبہ کے لیے وفاق کے پاس اتنا بھی حصہ نہیں کہ اس صوبہ کے نوجوانوں کی فنی و ہنری تربیت کامعیاری انتظام کرسکے ؟ کیوں وفاقی ادارے ملکی قوانین کی پابندی نہیں کرتے ؟ موجودہ سندھ حکومت کی کرپشن کی آڑ میں سندھ کا حق دوسروں میں کیوں ریوڑیوں کی طرح بانٹا جارہا ہے ؟ صوبہ کے تقریباً چوتھائی حصے پر وفاقی اداروں کا قبضہ ہے ، وہاں براہ ِ راست کوئی ترقیاتی و تربیتی اسکیم کیوں نہیں دی جاتی ؟ سوال تو یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ موجودہ سندھ حکومت کے 11سال نکال لیے جائیں تو بھی ملک کے 61سال جو دودھ سے نہائے ہوئے فرشتوں کی حکومتیں رہی ہیں ، اُن میں کیوں سندھ کے لوگوں کے آئینی و قانونی حق پر ڈاکے ڈالے جاتے رہے ہیں ؟

صرف 2019کے تین ماہ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے وفاق کی جانب سے صوبہ سندھ کے نوجوانوں کے ساتھ حق تلفی کا پتا چلتا ہے ۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران اب تک اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد 43ہزار ہوچکی ہے ، جس کے حساب سے سندھ کا حصہ 11ہزارافراد بنتا ہے لیکن سندھ سے صرف 4ہزار افراد ہی بیرون ِ ملک روزگار کے لیے جاسکے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی دلیل ہیں کہ وفاقی و صوبائی پالیسیوں میں سندھ کا نوجوان اولیت نہیں ہے ،ورنہ پنجاب کے 21ہزار اور کے پی کے اور فاٹا کے 13ہزار افراد اولیتی بنیاد پربیرون ِ ملک نہ بھیجے جاتے۔۔!

انتہائی حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے تھر کا دورہ کیا اور وہاں سوائے صحت کارڈ اور آر او پلانٹ کی آزمائی ہوئی ناکارہ بھیک کے ، کوئی بھی حق نہیں دیا ۔وہ تھر جو مستقبل میں پاکستان بھر کی معیشت کا حب بننے والا ہے ،وہاںایسا کوئی فنی و ہنری تربیت کا ادارہ یا اعلیٰ تعلیمی درسگاہ بنانے کا اعلان نہیں کیا ، جویہاں کے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنائے ۔

دوسری جانب سندھ کے ان حقوق کی حفاظت کی ذمے داری حکومت ِ سندھ اور سندھ اسمبلی پر ہے ،تو وہ بغیر کسی خوف وخطر اور بلا کسی عذر ایسی پالیسیاں بنائے اور ان پر عمل کرے جن سے یہاں کے لوگوں کو روزگار اور تعلیم و تربیت کے مواقع میسر ہوسکیں ۔ کیونکہ پی پی پی کی موجودہ سندھ حکومت کو بھی اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں ،کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب صرف نعروں اور آسروں کے بل بوتے پر حکومت کو طول دیا جاسکے ۔ بلکہ اب تو اعلانات پر بھی لوگ توجہ نہیں دیتے ۔ اب لوگ نتیجہ دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ اور سندھ کے لوگ 72سال سے دیے گئے اپنے امتحانات کے اس نتیجے کے اعداد وشمار کا حساب کتاب کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنی دھرتی ، اپنے وسائل اور اپنے ووٹ کے حق کا حساب مانگنا سیکھ گئے ہیں ۔ وہ اس ملک اور صوبہ کے قوانین کے مطابق حاصل اختیارات و حقوق کا تحفظ اور ان قوانین پر بجا طور پر عملدرآمد چاہتے ہیں ۔

اس لیے لازم ہے کہ وفاق مختلف حیلے بہانوں سے سندھ کے این ایف سی کے تحت ملنے والے حصے کو یقینی فراہمی کے ساتھ ساتھ وفاقی اداروں میں یہاں کے افراد کو روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرے ، نوجوانوں کی فنی و ہنری تربیت کا انتظام کرے اور یہاں کے نوجوانوں کو ملکی و عالمی روزگار کے مواقع تک رسائی فراہم کرنے کے قوانین پر اُن کی روح کے مطابق نیک نیتی سے عمل کرے، تاکہ بڑے پیمانے پر صلاحیتیں رکھنے والایہاں کا نوجوان ملکی ترقی میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرسکے ۔ اس لیے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں صوبہ میں وفاقی و صوبائی ادارے نہ صرف ترقیاتی اور فلاحی و رفاحی کاموں کا نیٹ ورک مضبوط کریں بلکہ یہاں کے نوجوانوں کے فنی تربیت کا مؤثر انتظام کیا جائے اور متبادل روزگار کے وسائل پیدا کیے جائیں ، یا پھر صنعتی انفرا اسٹرکچر کے مضبوط و مربوط نظام کے تحت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔

سعودی شہزادے کے دورے کے وقت صوبہ میں ریفائنری لگانے اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے اعلان سے مستقبل میں صوبہ میں فنی و ہنری افرادی قوت کی طلب مزید بڑھے گی ۔ جسے پورا کرنے کے لیے مقامی افراد کو زیادہ سے زیادہ تربیت دیکر ان مواقع سے مستفید ہونے کے اہل بنایا جاسکتا ہے ، لیکن کیا کیا جائے کہ وفاقی حکومت کا توصوبہ کے لوگوں کی طرف نظراندازی والا رویہ عروج پر ہے ہی مگر سندھ کی صوبائی حکومت بھی اس میں غیر سنجیدہ نظر آتی ہے ۔ حالانکہ کچھ روز قبل ہی اسٹیوٹا کے اُمور میں بہتری کے لیے سندھ اسمبلی سے اسٹیوٹا ترمیمی بل پاس کیا گیا تھا، لیکن یہ کیسی بہتری ہے کہ ادارے بنانے کے بجائے بند کیے جارہے ہیں ؟

ان اداروں کو بند کرنے کی بنیادی وجہ جرمنی سے فنڈنگ بند ہونا بتایا جارہا ہے ، جسے سندھ حکومت اپنے بجٹ سے چلا سکتی تھی مگر اس سے متعلق سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبہ کے حصے کے 120ارب روپے روک رکھے ہیں ، جس کی وجہ سے ہم ترقیاتی و دیگر اسکیموں کو جاری نہیں رکھ پارہے جب کہ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ہم نے یہ رقم کرپشن کی وجہ سے روک رکھی ہے ۔ ملک میں وفاقی طرز عمل تو یہ ہے کہ ایک طرف قبائلی علاقوں کے لیے فوری اضافی 100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جارہا ہے تو سندھ کو اپنے حصے سے بھی محروم رکھ کر پھر 10سال کے طویل دورانیے کے لیے برائے نام سندھ پیکیج دینے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ وسائل سے مالامال سندھ صوبہ کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صوبہ میں بے روزگاری اور خودکشی کا سلسلہ عروج پر ہے ۔

باقی جہاں تک بات سندھ حکومت کی تو اس کے ایگریکلچر ورکس، فیملی ہیلتھ ، بے نظیر ہاری پروگرام اور ''ایجوکیشن کوالٹی اشورنس'' قائم کرنے اور اساتذہ کی تربیت و غیرہ جیسے اچھے اقدامات بھی نتائج دینے سے اگر قاصر ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی صوبائی حکومت کی صوبہ کے انتظامی اُمور پر گرفت مضبوط نہ ہونا ہے جوکہ کرپشن سے پاک اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل قیادت و بیورو کریسی کا نہ ہونااور وفاقی بے جا مداخلت کی وجہ سے ہے ۔اور دیکھا جائے تو سندھ حکومت کی کرپشن بھی اب روشن دن کی طرح سب پر عیاں ہے، جسے سندھ حکومت لاکھ کوششوں کے باوجود چھپا نہیں سکتی ۔ اُسے اب اپنی توانائیاں اس پر صرف کرنے کے بجائے سندھ میں شفافیت کے ساتھ بہتر حکمرانی پر کام کرنا چاہیے ۔ جوکہ نہ صرف سندھ کی ترقی و تعمیر کا سبب بنے گا بلکہ خود پی پی پی کے لیے ایک بہتر Revival بھی ثابت ہوگا ۔
Load Next Story