شیرو شکر
وڈیرے نے پولیس کو طلب کر کے معاملہ اس کے سامنے رکھا تو اس نے جواب دیا بے فکر ہو جائیں۔
کچھ روز قبل شیخ لطفی کراچی سے آئے ہوئے تھے نہ معلوم کیا سوجھی کہ میں نے پوچھا شیخ صاحب اس وڈیرے کے ملازم کا کیا حال چال ہے جو چالیس سال قبل ایک سڑک کے حادثے میں مارا گیا تھا۔ شیخ صاحب ہنسے اور بولے کہ اس وقت مرحوم کی یاد کیسے آ گئی۔ جواب دیا کہ خدا جانے آپ کو دیکھا تو نہ معلوم کیوں اور کیسے کمزور یاد داشت کے با وجود ذہن نے ایک دم چالیس سال سے دبا کر رکھا ہوا فضول سا واقع سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
انسانی دماغ بھی کیسی خدائی نعمت ہے، کبھی ایک ضروری بات باوجود کوشش کے وقت پر یاد نہیں آتی اور کبھی ایک بھولی بسری غیر ضروری بات کی یاد اچانک ذہن پر دستک دے مارتی ہے۔ میرے سوال کا جواب شیخ صاحب نے قہقہ مار کے دیا اور بتایا کہ میںو ڈیرے کی دعوت پر اس کے ہمراہ شکار کھیلنے گیا تواس کا وہ مرحوم ملازم بھی ہمارے ساتھ تھا۔
اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے امیروں، وزیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا کھلے عام نظر نہ آنے والالائف اسٹائل کیسا ہوتا ہے اور وہ قانون سے بھی کیساکھلواڑ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب ایک وڈیرے کے ایکسیڈنٹ میں مارے گئے زندہ ملازم کی عرصہ دراز پرانی یا د آ ہی گئی ہے تو اس کا ذکر کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے جعلی ایکسیڈنٹ میں مارے جانے سے پہلے تک کے حصے کا میں عینی شاہد ہوں۔کہانی اس روز شروع ہوئی جب مجھے حکم ملا کہ کوہ مری کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے سندھ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی شکایت رفع کروں، پرابلم معمولی تھی۔
میرے متعلقہ محکمے کو ٹیلیفون ہی پر حل ہو گئی۔ کوہ مری میں میرے مہمان کراچی سے آئے ہوئے شیخ صاحب تھے۔ وہیں CM صاحب کے صاحبزادے یعنی چھوٹے وڈیرے سے ہماری ملاقات پر کراچی اور شکار کے شوق نے بے تکلفی کی صورت اختیار کر لی اور آیندہ ہفتے میرے راولپنڈی والے مکان پر ڈنر کا پروگرام طے پا گیا۔ ویک اینڈ پر ہم راولپنڈی اکٹھے ہو کرگپ شپ میں مصروف تھے کہ میرا بھائی بھی وہاں آ گیا اور شکار موضوع ِ گفتگو تھا۔ جب وڈیرے نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی فالتو Unlicensed ریوالور تو نہیں پڑا ہوا۔ میرا جواب نفی میں تھا لیکن بھائی نے کہا کہ اس کے پاس ایک فالتو ریوالور ہے، کیا آپ کو چاہیے۔
وڈیرے نے کہا کہ اسے اسلحہ جمع کرنے کا شوق ہے جس پر بھائی دوسرے کمرے میں گیا اور ایک Unlicensed ریوالور لا کر چھوٹے وڈیرے کو پیش کر دیا۔ میرے لیے یہ سارا معاملہ نا پسندیدہ تھا لیکن چپ رہا۔ دوبارہ کو ہ ِ مری میں ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان دونوں Karachiets کے درمیان بہت سی چیزیں کامن تھیں اور ان کا آیندہ ہفتے واپس کراچی جاکر ملتے رہنے کا ارادہ تھا۔ وہ دونوں واپس جا چکے تھے، اس کے دو روز بعد کراچی سے شیخ صاحب کا فون آیا کہ وہ اگلی صبح کی فلائیٹ سے راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، ایئرپورٹ ہی سے ٹیکسی لے کر میرے راولپنڈی والے مکان پر آئیں گے لہٰذا میں بھی مری سے راولپنڈی پہنچ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔
شیخ صاحب واقعی صبح دس بجے پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو بتایا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو ضلع کچہری جہلم پہنچنے کا کہا ہے۔ میرے تجسس پر بولے کہ '' قصہ یہ ہے کہ چھوٹے وڈیرے نے کراچی پہنچنے کے لیے جہاز پکڑا اور اپنے ملازم خاص کو اپنے سامان سمیت بذریعہ ٹرین روانہ کر دیا۔ جہلم ریلوے پولیس نے شک کی بنیاد پر ملازم کے صندوق کی تلاشی لی تو اس میں سے سات Unlicensed پستول برآمد ہوئے اور اب وہ ملازم جہلم کی جیل میں ہے۔ قبل اس کے کہ چھوٹے وڈیرے کے باپ کو جو CM بھی ہے واقعے کا پتہ چلے ملازم ِ خاص کی ضمانت آج ہی کروا کر اسے کراچی روانہ کرنا ہے اور یہ کام تم ہی کروا سکتے ہو ''۔ یہ اسٹوری سن کر میں چپ ہو گیا اور ٹیکسی جی ٹی روڈ پر جہلم کی طرف فراٹے بھرتی رہی۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجہ اسلم سے مل کر ملازم ِ خاص یعنی ملزم زیر ِ دفعہ 13-20-65 آرمز آرڈیننس کی اُسی روز ضمانت اور جیل سے رہائی کی درخواست پر اُسی شام سے پہلے عمل درآمد ہو گیا۔ شیخ صاحب نے اُسے واپسی کے لیے خرچہ دیا اور میں اس کا ضامن ٹھہرا، اسے ریلوے اسٹیشن روانہ کیا اور ہم دونوں نے واپس راولپنڈی کا سفر اختیار کیا۔ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار کسی ملزم کی رہائی کے لیے Bail Bond پر دستخط کیے تھے۔ شیخ صاحب کو اگلی صبح کراچی روانہ کر کے ڈیوٹی پر کچہری پہنچا اس نوعیت کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
دو یا تین ماہ بعد جہلم سے راجہ محمد اسلم کا ٹیلیفون آیا کہ ''ملزم دو پیشیوں پر غیر حاضر تھا اب اس کی حاضری کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں اور آپ یعنی ضامن کو نوٹس''۔ پریشانی تو ہوئی لیکن چھوٹے وڈیرے اور شیخ صاحب کو فوراً ٹیلیفون کر دیئے اور آیندہ کی تاریخ سماعت کی اطلاع بھی دے دی۔ آیندہ تاریخ سماعت سے چند روز پہلے کراچی سے فون آیا کہ افسوسناک اطلاع دے رہے ہیں کہ ملزم ایک سڑک کے حادثے میں وفات پا گیا ہے اس کا پوسٹ مارٹم ہو گیا ہے، حادثے کی FIR بھی علاقہ کے تھانے میں درج ہے۔ یہ تمام ریکارڈ عدالت کو پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ میں نے ٹیلیفون پر اظہار افسوس کیا۔
راجہ اسلم صاحب سے دستاویز کی وصولی کنفرم کی اور ایک لحاظ سے مطمئن ہوا کہ میری ضمانت دینے والی ذمے داری ختم ہوئی، لیکن دل میں ایک کھٹکا موجود رہا۔ چند ماہ کے بعد شیخ صاحب کراچی سے آئے تو ان سے ملزم کے روڈ ایکسیڈنٹ کی تفصیل دریافت کی۔ انھوں نے میرے تجسس میں شک محسوس کر کے بتایا کہ تمہیں معلوم ہے یہ وڈیرے اور سیاست دان پولیس کے ساتھ شیِر و شکر ہوتے ہیں۔ وڈیرے نے پولیس کو طلب کر کے معاملہ اس کے سامنے رکھا تو اس نے جواب دیا بے فکر ہو جائیں دو تین گھنٹے کے لیے اس ملازم کو میرے پاس تھانے بھیج دیں اس کے بعد جو فرضی کارروائی ہوئی اس کی رپورٹ عدالت میں موجود ہے۔ تھانے میں بھی اور میڈیکو لیگل کے ڈاکٹر کے پاس بھی۔
شیخ صاحب سے گزشتہ ملاقات میں جب معلوم ہوا کہ مرحوم ہٹا کٹا ہے تو خیال آیا کہ ریکارڈ میں تو ملزم مر چکا ہے، اب اگر اس نے گزشتہ چالیس سال میں کوئی وارداتیں کی ہوں گی تو ان میں صاف بچ نکلا ہو گا۔ اپنے نظام عدل کے باے میں تو کیا کہنا اپنے یہاں کے امیروں، وزیروں، وڈیروں اور جاگیر داروں کے علاوہ انصاف کے قیام میں مدد گار اور ذمے دار اداروں اور ایجنسیوں کو کس پیمانے پر پرکھیں۔ پڑھنے والے اسے Food for Thought سمجھیں اور سوچیں، پھر ہنس پڑیں یا ہاتھ اُٹھا کر دُعا کریں۔
انسانی دماغ بھی کیسی خدائی نعمت ہے، کبھی ایک ضروری بات باوجود کوشش کے وقت پر یاد نہیں آتی اور کبھی ایک بھولی بسری غیر ضروری بات کی یاد اچانک ذہن پر دستک دے مارتی ہے۔ میرے سوال کا جواب شیخ صاحب نے قہقہ مار کے دیا اور بتایا کہ میںو ڈیرے کی دعوت پر اس کے ہمراہ شکار کھیلنے گیا تواس کا وہ مرحوم ملازم بھی ہمارے ساتھ تھا۔
اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے امیروں، وزیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا کھلے عام نظر نہ آنے والالائف اسٹائل کیسا ہوتا ہے اور وہ قانون سے بھی کیساکھلواڑ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اب ایک وڈیرے کے ایکسیڈنٹ میں مارے گئے زندہ ملازم کی عرصہ دراز پرانی یا د آ ہی گئی ہے تو اس کا ذکر کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے جعلی ایکسیڈنٹ میں مارے جانے سے پہلے تک کے حصے کا میں عینی شاہد ہوں۔کہانی اس روز شروع ہوئی جب مجھے حکم ملا کہ کوہ مری کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے سندھ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی شکایت رفع کروں، پرابلم معمولی تھی۔
میرے متعلقہ محکمے کو ٹیلیفون ہی پر حل ہو گئی۔ کوہ مری میں میرے مہمان کراچی سے آئے ہوئے شیخ صاحب تھے۔ وہیں CM صاحب کے صاحبزادے یعنی چھوٹے وڈیرے سے ہماری ملاقات پر کراچی اور شکار کے شوق نے بے تکلفی کی صورت اختیار کر لی اور آیندہ ہفتے میرے راولپنڈی والے مکان پر ڈنر کا پروگرام طے پا گیا۔ ویک اینڈ پر ہم راولپنڈی اکٹھے ہو کرگپ شپ میں مصروف تھے کہ میرا بھائی بھی وہاں آ گیا اور شکار موضوع ِ گفتگو تھا۔ جب وڈیرے نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی فالتو Unlicensed ریوالور تو نہیں پڑا ہوا۔ میرا جواب نفی میں تھا لیکن بھائی نے کہا کہ اس کے پاس ایک فالتو ریوالور ہے، کیا آپ کو چاہیے۔
وڈیرے نے کہا کہ اسے اسلحہ جمع کرنے کا شوق ہے جس پر بھائی دوسرے کمرے میں گیا اور ایک Unlicensed ریوالور لا کر چھوٹے وڈیرے کو پیش کر دیا۔ میرے لیے یہ سارا معاملہ نا پسندیدہ تھا لیکن چپ رہا۔ دوبارہ کو ہ ِ مری میں ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان دونوں Karachiets کے درمیان بہت سی چیزیں کامن تھیں اور ان کا آیندہ ہفتے واپس کراچی جاکر ملتے رہنے کا ارادہ تھا۔ وہ دونوں واپس جا چکے تھے، اس کے دو روز بعد کراچی سے شیخ صاحب کا فون آیا کہ وہ اگلی صبح کی فلائیٹ سے راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، ایئرپورٹ ہی سے ٹیکسی لے کر میرے راولپنڈی والے مکان پر آئیں گے لہٰذا میں بھی مری سے راولپنڈی پہنچ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔
شیخ صاحب واقعی صبح دس بجے پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر روانہ ہوئے تو بتایا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو ضلع کچہری جہلم پہنچنے کا کہا ہے۔ میرے تجسس پر بولے کہ '' قصہ یہ ہے کہ چھوٹے وڈیرے نے کراچی پہنچنے کے لیے جہاز پکڑا اور اپنے ملازم خاص کو اپنے سامان سمیت بذریعہ ٹرین روانہ کر دیا۔ جہلم ریلوے پولیس نے شک کی بنیاد پر ملازم کے صندوق کی تلاشی لی تو اس میں سے سات Unlicensed پستول برآمد ہوئے اور اب وہ ملازم جہلم کی جیل میں ہے۔ قبل اس کے کہ چھوٹے وڈیرے کے باپ کو جو CM بھی ہے واقعے کا پتہ چلے ملازم ِ خاص کی ضمانت آج ہی کروا کر اسے کراچی روانہ کرنا ہے اور یہ کام تم ہی کروا سکتے ہو ''۔ یہ اسٹوری سن کر میں چپ ہو گیا اور ٹیکسی جی ٹی روڈ پر جہلم کی طرف فراٹے بھرتی رہی۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجہ اسلم سے مل کر ملازم ِ خاص یعنی ملزم زیر ِ دفعہ 13-20-65 آرمز آرڈیننس کی اُسی روز ضمانت اور جیل سے رہائی کی درخواست پر اُسی شام سے پہلے عمل درآمد ہو گیا۔ شیخ صاحب نے اُسے واپسی کے لیے خرچہ دیا اور میں اس کا ضامن ٹھہرا، اسے ریلوے اسٹیشن روانہ کیا اور ہم دونوں نے واپس راولپنڈی کا سفر اختیار کیا۔ زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار کسی ملزم کی رہائی کے لیے Bail Bond پر دستخط کیے تھے۔ شیخ صاحب کو اگلی صبح کراچی روانہ کر کے ڈیوٹی پر کچہری پہنچا اس نوعیت کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
دو یا تین ماہ بعد جہلم سے راجہ محمد اسلم کا ٹیلیفون آیا کہ ''ملزم دو پیشیوں پر غیر حاضر تھا اب اس کی حاضری کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں اور آپ یعنی ضامن کو نوٹس''۔ پریشانی تو ہوئی لیکن چھوٹے وڈیرے اور شیخ صاحب کو فوراً ٹیلیفون کر دیئے اور آیندہ کی تاریخ سماعت کی اطلاع بھی دے دی۔ آیندہ تاریخ سماعت سے چند روز پہلے کراچی سے فون آیا کہ افسوسناک اطلاع دے رہے ہیں کہ ملزم ایک سڑک کے حادثے میں وفات پا گیا ہے اس کا پوسٹ مارٹم ہو گیا ہے، حادثے کی FIR بھی علاقہ کے تھانے میں درج ہے۔ یہ تمام ریکارڈ عدالت کو پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ میں نے ٹیلیفون پر اظہار افسوس کیا۔
راجہ اسلم صاحب سے دستاویز کی وصولی کنفرم کی اور ایک لحاظ سے مطمئن ہوا کہ میری ضمانت دینے والی ذمے داری ختم ہوئی، لیکن دل میں ایک کھٹکا موجود رہا۔ چند ماہ کے بعد شیخ صاحب کراچی سے آئے تو ان سے ملزم کے روڈ ایکسیڈنٹ کی تفصیل دریافت کی۔ انھوں نے میرے تجسس میں شک محسوس کر کے بتایا کہ تمہیں معلوم ہے یہ وڈیرے اور سیاست دان پولیس کے ساتھ شیِر و شکر ہوتے ہیں۔ وڈیرے نے پولیس کو طلب کر کے معاملہ اس کے سامنے رکھا تو اس نے جواب دیا بے فکر ہو جائیں دو تین گھنٹے کے لیے اس ملازم کو میرے پاس تھانے بھیج دیں اس کے بعد جو فرضی کارروائی ہوئی اس کی رپورٹ عدالت میں موجود ہے۔ تھانے میں بھی اور میڈیکو لیگل کے ڈاکٹر کے پاس بھی۔
شیخ صاحب سے گزشتہ ملاقات میں جب معلوم ہوا کہ مرحوم ہٹا کٹا ہے تو خیال آیا کہ ریکارڈ میں تو ملزم مر چکا ہے، اب اگر اس نے گزشتہ چالیس سال میں کوئی وارداتیں کی ہوں گی تو ان میں صاف بچ نکلا ہو گا۔ اپنے نظام عدل کے باے میں تو کیا کہنا اپنے یہاں کے امیروں، وزیروں، وڈیروں اور جاگیر داروں کے علاوہ انصاف کے قیام میں مدد گار اور ذمے دار اداروں اور ایجنسیوں کو کس پیمانے پر پرکھیں۔ پڑھنے والے اسے Food for Thought سمجھیں اور سوچیں، پھر ہنس پڑیں یا ہاتھ اُٹھا کر دُعا کریں۔