قصہ ایک باغی کا پہلا حصہ
قصہ مختصر یہ کہ ہماری تاریخ رقم کرنے کا بنیادی پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ آزادی کی جنگ کون لڑا تھا؟
ہمارے ساتھ یوں تو بہت سی ستم ظریفیاں ہوئیں لیکن آزادی پانے کے بعد جو زخم بھرنے تھے، تاریخ کی جو سمت طے کرنی تھی کہ آیندہ کی نسلوں کو اپنے شاندار ماضی اور ان ہیروز کے بارے میں خبر ملے جو انگریز سامراج نے اپنے مفادات کی خاطر دبا کے رکھ دیے تھے کہ وہ اس کے غاصبیت کی بقا سے ٹکرائو میں تھے، بد نصیبی سے وہ کام ہم نہ کر سکے۔
اس کے برعکس جو مقامی لوگوں کی جنگ لڑے، سامراج سے ٹکر لی ان کو اس بنیاد پر خاطر میں نہ لائے کیونکہ وہ مسلم لیگ کے یا یوں کہیے کہ پاکستان بننے کے فورا بعد حکمران جماعت کے بنائے ہوئے پیمانوں سے ملتے نہ تھے وہ مسلم لیگی نہ تھے۔
ہم نے پھر غوریوں، تغلقوں، ترکوں کو اپنا ہیروز جانا اور یہ کام ہم آج بھی کر رہے ہیں، اس کے باوجود کہ ہمیں تاریخ کو مسخ کرنے سے جوکچھ نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کا سدباب ہم کر بھی نہیں سکتے۔ فرق صرف اتنا ہے جو ہوا سو ہوا مگر اب کے بار ایسا نہ ہو کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہماری تاریخ رقم کرنے کا بنیادی پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ آزادی کی جنگ کون لڑا تھا؟ انگریز سامراج کے خلاف کو ن کھڑا ہوا تھا، ان علاقوں سے جس پر آج پاکستان بنا ہے۔ اس وادی مہران کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے ہمیں اس ساری تاریخ کے اوراق خندہ پیشانی سے کھولنے پڑیں گے۔ تاریخ خود ایک مادیت ہے اس کے پیمانے بھی مادی ہونے چاہئیں۔
آج میں اس باغی کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں ، جس کو خود سندھ کے لوگ بھی وہ مقام نہ دے سکے جو اس کا حق بنتا تھا ۔ ہم پیر پگاڑا کا نام تو بہت سنتے ہیں لیکن اس باغی پیر پگاڑا کے بارے میں ذرہ بھر بھی نہیں جانتے جو 20 مارچ 1943 کو 33 سال کی عمر میں انگریز کے بنائے ہوئے بغاوت کے مقدمے سے ملی سزائے موت کے نتیجے میں حیدرآباد جیل کے پھانسی گھاٹ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور یوں پھر ایک طویل پس منظر ہے ان سیکڑوں حْروں کا جو اپنے اس پیر پگاڑا کے حکم پر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ انگریز سامراج کو للکارنے والی اس تحریک کو ''حر تحریک'' کے نام سے تاریخ رقم کرتی ہے جس کے سالار پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ تھے جو شاہ مردان شاہ کے والد تھے جن کو ہم مسلم لیگ کی سیاست کے حوالے سے بہت جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو وہ ''سورھیہ بادشاہ'' ہیں۔
12 سال کی عمر میں یہ شخص جو اپنے والد جن کا نام بھی شاہ مردان شاہ اول تھا، اس کے دوسرے بیٹے تھے ان کے جو پہلے بیٹے تھے وہ پہلے ہی انتقال کر گئے اب یہ بات خلیفوں پر منحصر تھی کہ پیر پگاڑا کون بنے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ انگریز چاہتا تھا کہ جو سورھیہ بادشاہ کے بھتیجے ہیں وہ بنے، اس لیے کہ وہ پہلے بیٹے سے ہیں لیکن خلیفوں کو ان کے تیور اچھے نہ لگے انگریزوں کی جی حضوری بہت کیا کرتے تھے۔ اپنے دادا کی انتقال کی خبر سن کر وہ انگریزوں کے پاس بھاگے کہ وہ ان کو پیر پگاڑا بننے میں مدد کریں ۔
انگریز جب وہاں پہنچے تو خلیفہ پیر پگاڑا کی پگ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ کو پہنا چکے تھے اور وہی سورھیہ بادشاہ 12 سال کی عمر میں پیر پگاڑا بنتے ہیں، جس کا اثرورسوخ راجھستان ، چولستان ، تھر اور سندھ میں تھا ، اتنا شدید ترکہ اس کے حْرکچھ بھی کر سکتے تھے اپنے پیر پگاڑا کے حکم پر ۔ یہ روایت آج بھی زندہ ہے فرق یہ ہے کہ ان پیر پگاڑوں کی تاریخ میں صرف ایک ہی باغی پیر پگاڑا پیدا ہوا اور وہ بھی اس زمانے میں جب انگریز سامراج کی یہاں حکومت تھی۔ 1890ء میں بھی ان ْحروں نے اپنے پیر پگاڑا کے حکم پر بغاوت کی تھی جس تحریک کو کچلنے کے لیے انگریز نے بگٹی اور مری قبیلے کے جنگجو یہاں لاکے سانگھڑ میں آبا د کیے اور ان کو زمینوں اور جاگیروں سے نوازا جن کی اولادآج بھی وہاںمکین ہے مگر اب وہ سندھ میں جذب ہوگئے ہیں ۔
12 سال کی عمر میں یہ پیر پگاڑا بننے والا سورھیہ بادشاہ اپنے گرد ونواح کوگہری نظر سے دیکھتا ہے ۔ اسے ہر طرف غلامی کے طوق نظر آتے ہیں، ہر طرف غربت اور افلاس دکھائی دیتا ہے۔ انگریز سامراج اس انتہائی اثرو رسوخ رکھنے والے پیرکو بہت قریب سے اور باریک بینی سے دیکھ رہا تھا ۔ انھیں یہ پیر غیر رواجی نظر آیا جو ان کے ساتھ ملنا جلنا کم رکھتا تھا ۔ جس کے حْر (مرید ) بہت شورش پسند اور انگریز سامراج سے نفرت کرتے تھے۔
انگریز سامراج نے پھر ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا، سورھیہ بادشاہ کو بائیس سال کی عمر میں آٹھ سال کی سزا ہوئی اور اس طرح یہ موصوف یہاں کے جیلوں سے بہت دور والی جیل بھیج دیے گئے کہ ان سے ان کے ْحروں کا ملنا جلنا کم ہو۔ بہت سارا یہ وقت بنگال کی جیلوں میں گزارا، وہاں ان آزادی کے متوالے بنگالیوں سے ملے جو سبھاش چندر بوس کے پیروکار تھے اور اس طرح انگریز کو سورھیہ بادشاہ کو بنگال جیل میں رکھنا مہنگا پڑ گیا۔ وہ سبھاش چندر بوس کے رنگ میں رنگ گئے۔
لال میرے لال کی جت دیکھوں تت لال
لالی دیکھن میں گئی میں بھی ہوگئی لال
(کبیر)
جیل کاٹ کے واپس لوٹے تو اپنے پیرہن کا وہی زاویہ بنایا جو سبھاش چندر بوس کے پیرہن کا تھا اور کم ازکم اس پیرہن تک کی روایت سورھیہ بادشاہ کے بیٹے شاہ مردان شاہ نے بھی رکھی ۔اپنے خاص ْحروں کو بنگال ٹریننگ کے لیے بھیجا اور اس طرح پہلی ٹرین جو یہاں ٹنڈوآدم میں ایک خطرناک کارروائی کرکے ڈی ریل کی گئی یہ ان ْحروں کا کارنامہ تھا، انگریز بھانپ گیا ۔ جب انگریز دوسری جنگ عظیم میں کمزور ہوا اورکانگریس نے ''ہندوستان چھوڑو'' (quit india movement) تحریک شروع کی تو سندھ میں ْحروں نے اپنی حر موومنٹ تحریک شروع کی جو امن پسند نہیں بلکہ شورش پسند تحریک تھی۔
سورھیہ بادشاہ دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے۔ ْحر پاگل ہوگئے۔ خیرپور ریاست کے آئی جی پولیس نے اسے گرفتارکرنے کی جرات کی ۔ سید غلام رسول شاہ جو ہمارے گائوں کے اور ہمارے پڑوسی تھے۔ اس کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے کہ دہشت پھیلے اور اس طرح یہ حر افسروں کو مارتے گئے۔ سورھیہ بادشاہ نے جیل سے بغاوت کرنے کے واضع احکامات ان کو دے دیے اور اس طرح ْحر سندھ میں ''حْر موومنٹ'' شروع ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
اس کے برعکس جو مقامی لوگوں کی جنگ لڑے، سامراج سے ٹکر لی ان کو اس بنیاد پر خاطر میں نہ لائے کیونکہ وہ مسلم لیگ کے یا یوں کہیے کہ پاکستان بننے کے فورا بعد حکمران جماعت کے بنائے ہوئے پیمانوں سے ملتے نہ تھے وہ مسلم لیگی نہ تھے۔
ہم نے پھر غوریوں، تغلقوں، ترکوں کو اپنا ہیروز جانا اور یہ کام ہم آج بھی کر رہے ہیں، اس کے باوجود کہ ہمیں تاریخ کو مسخ کرنے سے جوکچھ نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کا سدباب ہم کر بھی نہیں سکتے۔ فرق صرف اتنا ہے جو ہوا سو ہوا مگر اب کے بار ایسا نہ ہو کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہماری تاریخ رقم کرنے کا بنیادی پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ آزادی کی جنگ کون لڑا تھا؟ انگریز سامراج کے خلاف کو ن کھڑا ہوا تھا، ان علاقوں سے جس پر آج پاکستان بنا ہے۔ اس وادی مہران کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے ہمیں اس ساری تاریخ کے اوراق خندہ پیشانی سے کھولنے پڑیں گے۔ تاریخ خود ایک مادیت ہے اس کے پیمانے بھی مادی ہونے چاہئیں۔
آج میں اس باغی کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں ، جس کو خود سندھ کے لوگ بھی وہ مقام نہ دے سکے جو اس کا حق بنتا تھا ۔ ہم پیر پگاڑا کا نام تو بہت سنتے ہیں لیکن اس باغی پیر پگاڑا کے بارے میں ذرہ بھر بھی نہیں جانتے جو 20 مارچ 1943 کو 33 سال کی عمر میں انگریز کے بنائے ہوئے بغاوت کے مقدمے سے ملی سزائے موت کے نتیجے میں حیدرآباد جیل کے پھانسی گھاٹ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور یوں پھر ایک طویل پس منظر ہے ان سیکڑوں حْروں کا جو اپنے اس پیر پگاڑا کے حکم پر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ انگریز سامراج کو للکارنے والی اس تحریک کو ''حر تحریک'' کے نام سے تاریخ رقم کرتی ہے جس کے سالار پیر پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ تھے جو شاہ مردان شاہ کے والد تھے جن کو ہم مسلم لیگ کی سیاست کے حوالے سے بہت جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو وہ ''سورھیہ بادشاہ'' ہیں۔
12 سال کی عمر میں یہ شخص جو اپنے والد جن کا نام بھی شاہ مردان شاہ اول تھا، اس کے دوسرے بیٹے تھے ان کے جو پہلے بیٹے تھے وہ پہلے ہی انتقال کر گئے اب یہ بات خلیفوں پر منحصر تھی کہ پیر پگاڑا کون بنے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ انگریز چاہتا تھا کہ جو سورھیہ بادشاہ کے بھتیجے ہیں وہ بنے، اس لیے کہ وہ پہلے بیٹے سے ہیں لیکن خلیفوں کو ان کے تیور اچھے نہ لگے انگریزوں کی جی حضوری بہت کیا کرتے تھے۔ اپنے دادا کی انتقال کی خبر سن کر وہ انگریزوں کے پاس بھاگے کہ وہ ان کو پیر پگاڑا بننے میں مدد کریں ۔
انگریز جب وہاں پہنچے تو خلیفہ پیر پگاڑا کی پگ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ کو پہنا چکے تھے اور وہی سورھیہ بادشاہ 12 سال کی عمر میں پیر پگاڑا بنتے ہیں، جس کا اثرورسوخ راجھستان ، چولستان ، تھر اور سندھ میں تھا ، اتنا شدید ترکہ اس کے حْرکچھ بھی کر سکتے تھے اپنے پیر پگاڑا کے حکم پر ۔ یہ روایت آج بھی زندہ ہے فرق یہ ہے کہ ان پیر پگاڑوں کی تاریخ میں صرف ایک ہی باغی پیر پگاڑا پیدا ہوا اور وہ بھی اس زمانے میں جب انگریز سامراج کی یہاں حکومت تھی۔ 1890ء میں بھی ان ْحروں نے اپنے پیر پگاڑا کے حکم پر بغاوت کی تھی جس تحریک کو کچلنے کے لیے انگریز نے بگٹی اور مری قبیلے کے جنگجو یہاں لاکے سانگھڑ میں آبا د کیے اور ان کو زمینوں اور جاگیروں سے نوازا جن کی اولادآج بھی وہاںمکین ہے مگر اب وہ سندھ میں جذب ہوگئے ہیں ۔
12 سال کی عمر میں یہ پیر پگاڑا بننے والا سورھیہ بادشاہ اپنے گرد ونواح کوگہری نظر سے دیکھتا ہے ۔ اسے ہر طرف غلامی کے طوق نظر آتے ہیں، ہر طرف غربت اور افلاس دکھائی دیتا ہے۔ انگریز سامراج اس انتہائی اثرو رسوخ رکھنے والے پیرکو بہت قریب سے اور باریک بینی سے دیکھ رہا تھا ۔ انھیں یہ پیر غیر رواجی نظر آیا جو ان کے ساتھ ملنا جلنا کم رکھتا تھا ۔ جس کے حْر (مرید ) بہت شورش پسند اور انگریز سامراج سے نفرت کرتے تھے۔
انگریز سامراج نے پھر ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا، سورھیہ بادشاہ کو بائیس سال کی عمر میں آٹھ سال کی سزا ہوئی اور اس طرح یہ موصوف یہاں کے جیلوں سے بہت دور والی جیل بھیج دیے گئے کہ ان سے ان کے ْحروں کا ملنا جلنا کم ہو۔ بہت سارا یہ وقت بنگال کی جیلوں میں گزارا، وہاں ان آزادی کے متوالے بنگالیوں سے ملے جو سبھاش چندر بوس کے پیروکار تھے اور اس طرح انگریز کو سورھیہ بادشاہ کو بنگال جیل میں رکھنا مہنگا پڑ گیا۔ وہ سبھاش چندر بوس کے رنگ میں رنگ گئے۔
لال میرے لال کی جت دیکھوں تت لال
لالی دیکھن میں گئی میں بھی ہوگئی لال
(کبیر)
جیل کاٹ کے واپس لوٹے تو اپنے پیرہن کا وہی زاویہ بنایا جو سبھاش چندر بوس کے پیرہن کا تھا اور کم ازکم اس پیرہن تک کی روایت سورھیہ بادشاہ کے بیٹے شاہ مردان شاہ نے بھی رکھی ۔اپنے خاص ْحروں کو بنگال ٹریننگ کے لیے بھیجا اور اس طرح پہلی ٹرین جو یہاں ٹنڈوآدم میں ایک خطرناک کارروائی کرکے ڈی ریل کی گئی یہ ان ْحروں کا کارنامہ تھا، انگریز بھانپ گیا ۔ جب انگریز دوسری جنگ عظیم میں کمزور ہوا اورکانگریس نے ''ہندوستان چھوڑو'' (quit india movement) تحریک شروع کی تو سندھ میں ْحروں نے اپنی حر موومنٹ تحریک شروع کی جو امن پسند نہیں بلکہ شورش پسند تحریک تھی۔
سورھیہ بادشاہ دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے۔ ْحر پاگل ہوگئے۔ خیرپور ریاست کے آئی جی پولیس نے اسے گرفتارکرنے کی جرات کی ۔ سید غلام رسول شاہ جو ہمارے گائوں کے اور ہمارے پڑوسی تھے۔ اس کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے کہ دہشت پھیلے اور اس طرح یہ حر افسروں کو مارتے گئے۔ سورھیہ بادشاہ نے جیل سے بغاوت کرنے کے واضع احکامات ان کو دے دیے اور اس طرح ْحر سندھ میں ''حْر موومنٹ'' شروع ہوتی ہے۔
(جاری ہے)