گراں فروشی نہ رکی
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کو ابھی دو ماہ ہی گزرے ہیں اور نئی حکومتوں سے رمضان المبارک سے قبل عوام ...
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کو ابھی دو ماہ ہی گزرے ہیں اور نئی حکومتوں سے رمضان المبارک سے قبل عوام کو توقعات بہت تھیں کہ وفاق اور چاروں صوبوں میں نئی حکومتیں قائم ہوئی ہیں جن کی بدولت رمضان کا مقدس مہینہ قوم کے لیے مبارک ثابت ہوگا اور عیدالفطر بھی گزشتہ 5 سالوں میں ہونے والی عیدوں سے کچھ بہتر ثابت ہوگی کیونکہ ملک کے عوام کی اکثریت نے اپنی جھولیاں مسائل سے بھری ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ اور آزمائی ہوئی پیپلز پارٹی کو تیسرے نمبر پر اور تبدیلی لانے کے دعویدار عمران خان کو (ن) لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر ووٹ دیے تھے۔
وفاق، کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں میں تبدیلی آئی جب کہ سندھ اور پنجاب میں 5 سال آزمائی ہوئی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتیں اور وہی وزرائے اعلیٰ سامنے آئے جن میں صرف یہ فرق تھا کہ اس بار ان کے پاس واضح مینڈیٹ تھا اور وہ گزشتہ کی طرح اتحادیوں کے محتاج نہیں ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں وزیر اعلیٰ نئے ہیں مگر ماضی میں وہ بھی وزیر رہ چکے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اپنی انتخابی مہم میں عوام کو درپیش مسائل کی کچھ اس طرح تصویر کشی کی تھی کہ عوام نے سمجھ لیا تھا کہ یہ اقتدار میں آتے ہی تبدیلی لائیں گے اور عوام کو دکھوں سے نجات جلد دلائیں گے کیونکہ پی پی اور اس کے اتحادیوں کی حکومتوں میں عوام کو تو مہنگائی و بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں ملا تھا اور ملک میں عرصے سے جاری دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کی سزا بھی عوام ہی نے بھگتی تھی۔
عوام لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے عادی تو ہوہی چکے ہیں اور انھیں نئی حکومتوں سے توقع تھی کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اس کی روک تھام فوری نہ سہی کچھ عرصے میں کر ہی لیں گے مگر مہنگائی ایسا مسئلہ تھا جس پر نئی حکومتیں فوری توجہ دے کر کنٹرول کرسکتی تھیں۔ امن وامان برقرار اور مہنگائی پر قابو پانے کی ذمے داری اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے اور مہنگائی بڑھانے کی ذمے داری اب صرف وفاقی حکومت کا فرض اولین بن کر رہ گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی کے نرخ، جی ایس ٹی اور دیگر بڑے ٹیکس اب وفاقی حکومت بڑھاتی ہے جن کا براہ راست اثر مہنگائی پر پڑتا ہے اور صوبائی حکومتیں اس بڑھ جانے والی مہنگائی پر کنٹرول میں تو ناکام ہیں ہی البتہ وہ اپنی نااہلی سے مہنگائی مزید بڑھوا دیتی ہیں اور قیمتوں پر کنٹرول نہیں کرتیں۔
وفاق میں تبدیلی کے لیے عوام نے مسلم لیگ (ن) کے پلڑوں کو ووٹوں سے لاد دیا تھا اور باقی ووٹ دوسری جماعتوں کو ملے تھے جس کا صلہ مسلم لیگ (ن) نے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو مزید ٹیکس لاد کر دیا اور دو ماہ میں تین بار پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا ریکارڈ بھی (ن) لیگ کی اس حکومت نے قائم کیا جو اقتدار سے قبل عوام کے مسائل گھٹانے کی دعویدار تھی جس کا اعتراف وزیر بجلی خواجہ آصف نے یوں کیا کہ انتخابی مہم کے دوران جذباتی وعدے بھی ہوجاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر نے کہا ہے کہ زرداری حکومت کو جتنی بدنامی 5 سالوں میں ملی تھی وہ (ن) لیگ کی حکومت نے دو ماہ میں حاصل کرلی ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی فخر کر رہے ہیں کہ عوام دو ماہ ہی میں پی پی حکومت کو یاد کرنے لگ گئے ہیں۔
مسلم لیگ کی حکومت نے عوام کی توقعات دو ماہ ہی میں خاک میں ملادی ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کا کام بھی اب جنرل پرویز مشرف اور پی پی حکومت کی طرح مہنگائی بڑھانا ہی رہ گیا ہے (ن) لیگ سمیت پی پی، تحریک انصاف اور بلوچستان کی مخلوط حکومتیں پنجاب، سندھ کے پی کے اور بلوچستان میں رمضان میں مہنگائی روکنے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے برعکس کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی کہ وہ اپنے صوبوں میں رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول کرکے کوئی اچھی مثال قائم کریں گی مگر چاروں حکومتیں اس رمضان المبارک میں بھی ایک جیسی ثابت ہوئیں اور کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ یا ان کے وزیر مارکیٹوں میں نظر نہیں آئے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ نے مہنگائی روکنے کی ذمے داری کمشنری نظام کے ماضی میں ناکام رہنے والے کرتا دھرتاؤں پر چھوڑ دی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام میں مالی و انتظامی اختیار رکھنے والے ناظمین کے پاس میونسپل مجسٹریٹ نہیں تھے تو انھیں رمضان میں قیمتوں پر کنٹرول کی ذمے داری دے دی جاتی تھی تو وہ مارکیٹوں میں نظر آجاتے تھے مگر نئی حکومتوں میں کسی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول کی توفیق نہیں ہوئی۔ کہیں کہیں اسسٹنٹ کمشنر رمضان میں کچھ دیر کے لیے ضرور نکلے مگر ہزاروں شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں میں کبھی کبھی چکر لگا کر اکیلا اسسٹنٹ کمشنر کیا کرسکتا تھا۔ انھوں نے تھوڑی دیر چکر لگا کر گراں فروشوں پر جرمانے کرکے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا اور روزہ کھولنے گھر چل دیے۔
مہنگائی روکنے کی اپنی سی کوشش کچھ ٹی وی چینلز کے اینکروں نے کی اور وہ اسسٹنٹ کمشنروں کو لے کر سبزی اور پھلوں کی فروخت کے مقامات پر گئے مگر ہول سیل مارکیٹوں میں جانے کی فرصت انھیں بھی نہیں ملی۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنروں نے رمضان میں فروخت کے لیے حقیقی کم اور غیر حقیقی نرخ ضرور مقرر کیے مگر عمل نہ کرا سکے۔سرکاری قیمتوں پر فروخت تو دور کی بات وہ ریٹیلرز کو سرکاری نرخ نامے ہی فراہم نہ کرسکے اورسرکاری نرخوں کے جعلی نرخ نامے بھی منظر عام پر آگئے پورے رمضان حسب سابق لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ماضی کی طرح جاری رہا۔ ہر جگہ ضلعی انتظامیہ قیمتوں پر کنٹرول کرانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ پھل، سبزیاں، مصالحہ جات اور رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیا کی من مانے نرخوں پر فرخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ نرخوں پر بحث کرنے والے شہریوں کو گراں فروشوں سے بے عزتی اور منہ ماری کرکے بھی مہنگی اشیائے ضرورت مجبوراً خریدنا پڑیں۔ ٹی وی چینلوں اور اخباری دفاتر میں گراں فروشوں کی لوٹ کھسوٹ کی روزانہ شکایات ملتی رہیں مگر صوبائی حکومتوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان کہلانے والے گراں فروشوں نے گیارہ ماہ کی کمائی صرف ایک ماہ میں حاصل کرلی۔ سیاسی حکمران افطار پارٹیاں اڑاتے رہے اور افسران ماضی کی طرح خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ عوام نئی حکومتوں میں بھی لٹتے رہے اور حکمرانوں کو کوستے رہے کہ عید پھر آئی مگر گراں فروشی نہ رکی۔
وفاق، کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں میں تبدیلی آئی جب کہ سندھ اور پنجاب میں 5 سال آزمائی ہوئی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتیں اور وہی وزرائے اعلیٰ سامنے آئے جن میں صرف یہ فرق تھا کہ اس بار ان کے پاس واضح مینڈیٹ تھا اور وہ گزشتہ کی طرح اتحادیوں کے محتاج نہیں ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں وزیر اعلیٰ نئے ہیں مگر ماضی میں وہ بھی وزیر رہ چکے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اپنی انتخابی مہم میں عوام کو درپیش مسائل کی کچھ اس طرح تصویر کشی کی تھی کہ عوام نے سمجھ لیا تھا کہ یہ اقتدار میں آتے ہی تبدیلی لائیں گے اور عوام کو دکھوں سے نجات جلد دلائیں گے کیونکہ پی پی اور اس کے اتحادیوں کی حکومتوں میں عوام کو تو مہنگائی و بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں ملا تھا اور ملک میں عرصے سے جاری دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کی سزا بھی عوام ہی نے بھگتی تھی۔
عوام لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے عادی تو ہوہی چکے ہیں اور انھیں نئی حکومتوں سے توقع تھی کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اس کی روک تھام فوری نہ سہی کچھ عرصے میں کر ہی لیں گے مگر مہنگائی ایسا مسئلہ تھا جس پر نئی حکومتیں فوری توجہ دے کر کنٹرول کرسکتی تھیں۔ امن وامان برقرار اور مہنگائی پر قابو پانے کی ذمے داری اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے اور مہنگائی بڑھانے کی ذمے داری اب صرف وفاقی حکومت کا فرض اولین بن کر رہ گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی کے نرخ، جی ایس ٹی اور دیگر بڑے ٹیکس اب وفاقی حکومت بڑھاتی ہے جن کا براہ راست اثر مہنگائی پر پڑتا ہے اور صوبائی حکومتیں اس بڑھ جانے والی مہنگائی پر کنٹرول میں تو ناکام ہیں ہی البتہ وہ اپنی نااہلی سے مہنگائی مزید بڑھوا دیتی ہیں اور قیمتوں پر کنٹرول نہیں کرتیں۔
وفاق میں تبدیلی کے لیے عوام نے مسلم لیگ (ن) کے پلڑوں کو ووٹوں سے لاد دیا تھا اور باقی ووٹ دوسری جماعتوں کو ملے تھے جس کا صلہ مسلم لیگ (ن) نے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو مزید ٹیکس لاد کر دیا اور دو ماہ میں تین بار پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا ریکارڈ بھی (ن) لیگ کی اس حکومت نے قائم کیا جو اقتدار سے قبل عوام کے مسائل گھٹانے کی دعویدار تھی جس کا اعتراف وزیر بجلی خواجہ آصف نے یوں کیا کہ انتخابی مہم کے دوران جذباتی وعدے بھی ہوجاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر نے کہا ہے کہ زرداری حکومت کو جتنی بدنامی 5 سالوں میں ملی تھی وہ (ن) لیگ کی حکومت نے دو ماہ میں حاصل کرلی ہے۔ اپوزیشن لیڈر بھی فخر کر رہے ہیں کہ عوام دو ماہ ہی میں پی پی حکومت کو یاد کرنے لگ گئے ہیں۔
مسلم لیگ کی حکومت نے عوام کی توقعات دو ماہ ہی میں خاک میں ملادی ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کا کام بھی اب جنرل پرویز مشرف اور پی پی حکومت کی طرح مہنگائی بڑھانا ہی رہ گیا ہے (ن) لیگ سمیت پی پی، تحریک انصاف اور بلوچستان کی مخلوط حکومتیں پنجاب، سندھ کے پی کے اور بلوچستان میں رمضان میں مہنگائی روکنے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے برعکس کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی کہ وہ اپنے صوبوں میں رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول کرکے کوئی اچھی مثال قائم کریں گی مگر چاروں حکومتیں اس رمضان المبارک میں بھی ایک جیسی ثابت ہوئیں اور کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ یا ان کے وزیر مارکیٹوں میں نظر نہیں آئے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ نے مہنگائی روکنے کی ذمے داری کمشنری نظام کے ماضی میں ناکام رہنے والے کرتا دھرتاؤں پر چھوڑ دی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام میں مالی و انتظامی اختیار رکھنے والے ناظمین کے پاس میونسپل مجسٹریٹ نہیں تھے تو انھیں رمضان میں قیمتوں پر کنٹرول کی ذمے داری دے دی جاتی تھی تو وہ مارکیٹوں میں نظر آجاتے تھے مگر نئی حکومتوں میں کسی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول کی توفیق نہیں ہوئی۔ کہیں کہیں اسسٹنٹ کمشنر رمضان میں کچھ دیر کے لیے ضرور نکلے مگر ہزاروں شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں میں کبھی کبھی چکر لگا کر اکیلا اسسٹنٹ کمشنر کیا کرسکتا تھا۔ انھوں نے تھوڑی دیر چکر لگا کر گراں فروشوں پر جرمانے کرکے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا اور روزہ کھولنے گھر چل دیے۔
مہنگائی روکنے کی اپنی سی کوشش کچھ ٹی وی چینلز کے اینکروں نے کی اور وہ اسسٹنٹ کمشنروں کو لے کر سبزی اور پھلوں کی فروخت کے مقامات پر گئے مگر ہول سیل مارکیٹوں میں جانے کی فرصت انھیں بھی نہیں ملی۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنروں نے رمضان میں فروخت کے لیے حقیقی کم اور غیر حقیقی نرخ ضرور مقرر کیے مگر عمل نہ کرا سکے۔سرکاری قیمتوں پر فروخت تو دور کی بات وہ ریٹیلرز کو سرکاری نرخ نامے ہی فراہم نہ کرسکے اورسرکاری نرخوں کے جعلی نرخ نامے بھی منظر عام پر آگئے پورے رمضان حسب سابق لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ماضی کی طرح جاری رہا۔ ہر جگہ ضلعی انتظامیہ قیمتوں پر کنٹرول کرانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ پھل، سبزیاں، مصالحہ جات اور رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیا کی من مانے نرخوں پر فرخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ نرخوں پر بحث کرنے والے شہریوں کو گراں فروشوں سے بے عزتی اور منہ ماری کرکے بھی مہنگی اشیائے ضرورت مجبوراً خریدنا پڑیں۔ ٹی وی چینلوں اور اخباری دفاتر میں گراں فروشوں کی لوٹ کھسوٹ کی روزانہ شکایات ملتی رہیں مگر صوبائی حکومتوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان کہلانے والے گراں فروشوں نے گیارہ ماہ کی کمائی صرف ایک ماہ میں حاصل کرلی۔ سیاسی حکمران افطار پارٹیاں اڑاتے رہے اور افسران ماضی کی طرح خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ عوام نئی حکومتوں میں بھی لٹتے رہے اور حکمرانوں کو کوستے رہے کہ عید پھر آئی مگر گراں فروشی نہ رکی۔