میرے گھر کی آگ

گھر کے دروازوں پر موٹے موٹے تالے لگانے کے بعد بھی، اگر چور دن دھاڑے لوٹ مار کر کے چلے جائیں تو دوسروں پر...

muhammad.anis@expressnews.tv

گھر کے دروازوں پر موٹے موٹے تالے لگانے کے بعد بھی، اگر چور دن دھاڑے لوٹ مار کر کے چلے جائیں تو دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے ۔کسی کو شک نہیں کہ بھارت کے پانچ فوجی مرے ہیں اور نہ ہی کسی کو شبہ ہوناچاہیے کہ بھارت جنھیں دہشت گرد قرار دے کر مارڈالنے کا تمغہ سینے پر سجا رہا ہے وہ پاکستان کے عام شہری تھے ۔ بھارت تسلیم کر رہا ہے کہ اس نے درجنوں شرپسندوں کو مارا مگر صرف چار کی لاشیں دکھا رہا ہے ۔

پاکستان مسلسل انکار کر رہا ہے کہ اُس نے سرحد پر کوئی فائرنگ نہیں کی تو بھارت کے اندر پانچ کلومیٹر تک داخل ہونے کے بعد کون مار سکتا ہے ؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب دونوں ممالک بات کرنا چاہتے ہیں تو کسی فوجی کی گردن مل جاتی ہے تو کبھی ہاتھ غائب ہو جاتا ہے ۔ سازشوں کے انبار میں حقیقت کی تلاش کو اتنا مشکل کیوں کر دیا جاتا ہے ؟ آصف علی زرداری اپنی حکومت شروع ہونے سے ختم ہونے تک یہ کہتے رہے کہ بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ مگر یہ دو گھروں کے درمیان کہکشاں کون بناتا ہے ؟ایک تردید کر رہا ہے دوسرا تصدیق نہیں کر رہا تو پھر تماشہ کھڑا کر کے میدان میں تماشائی بن کر کون مزے لے رہا ہے ؟ یہ تماشائی، میں یا میرا پاکستان تو نہیں وہ آپ یا ہندوستان تو نہیں...تو پھر کون ہے؟؟

سر عام اپنے جلسوں میں بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے والا شیر کیوں خاموش ہے؟؟ خواہشات کے باوجود بھی اگر قدم منزل کی جانب نہ بڑھ سکے تو اپنے اندر کی خرابی اور کمزوری کو ڈھونڈھ لینا چاہیے ۔اس خطے کے لوگ بہت خوش تھے جب پچھلے سال پاکستان کی جانب سے دفاعی پالیسی لائی گئی تو 66 سالوں میں پہلی بار یہ لکھا گیا تھا کہ اب بھارت سے ملی سرحدوں پر زیادہ خطرہ نہیں تو پھر یہ خطرے کی گھنٹی کیوں بار بار بجنے لگتی ہے؟؟یہ کون سے تھے جنھوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ دوماہ گزرجانے کے بعد بھی وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک میز پر بیٹھ کر پالیسی نہیں بنا سکے اور آج تک کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس نہیں ہو سکا ۔ اور یہ کون سی حکمت تھی کہ انڈیا کے جنگی جنون کے بعد اب وزیر اعظم نے اس کمیٹی کا اجلاس اگلے ہفتے طلب کیا ہے ۔ عید سے ایک دن پہلے جب انڈیا میں پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں تو یقیناً اعلیٰ حکام کو بہت فکر تھی اسی لیے سب لوگ خصوصی دعا کرنے کے لیے سعودیہ میں موجودتھے ۔انڈیا کے چینل یہ بتا رہے تھے کہ اگر د لی سے جہاز اڑے تو لاہور کتنی دیر میں پہنچے گا ۔

اپنے گھر کو آگ لگا کر روشنی کرنی ہے تو پھر دل جلانے کی ضرورت نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا کے چینلز کے پاس ریٹنگ بڑھانے کا ایک ہی فارمولا ہے،پاکستان ، پاکستان اور بس پاکستان ۔ دنیا جنگ کے بادلوں سے نکلنا چاہتی ہے صدیوں پر محیط دشمنیاںختم کی جارہی ہیں ۔ سرحدوں پر ایک دوسرے کو پھول دیے جا رہے ہیں ۔اس بار پاکستان اور انڈیاکی سرحد پر ایک ساتھ آزادی کا جشن منانا تھا مگر قربان جائوں ان خوبصورت بھارتی میڈیا کے اداکاروں پر ، جو ناجانے کس کی لائن پر اتنا اشتعال پھیلا رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ آخر کون لوگ پاکستان اور انڈیا کے دل نہیں ملانا چاہتا ۔ جنگ اور خون کی ندیاں بہانا ہی جیت کا نشان ہوتا تو ہیروشیما پر بم گرانے والے ہیرو ہوتے مگر چند دن پہلے لوگوں نے اس واقعے کی برسی میں صرف مرنے والوں کو یاد کیا۔ کیسے انسان ہیں جو میڈیا پر بیٹھے، بغیر کسی دلیل کے جہالت کے مینار تعمیر کر رہے ہیں ۔ بھارت کے سابق فوجی کہہ رہے تھے کہ ہمیں جنگ کرنی چاہیے اور ایک کے بدلے دس لوگ مارنے چاہیں ۔ یہاں بھی ایسے بہت لوگ موجود ہیں جو قتل کی دکان چمکا کر سیاست کی پہاڑی پر چڑھنا چاہتے ہیں ۔


برسات کے موسم میں مینڈک نکلنا کوئی معجزہ نہیں۔ایسے میں ہر طرف سے انتہا پسندوں کا نکلنا بھی کوئی کمال نہیں ۔ بقول ندا فاضلی کے

نہ کرتے شور شرابا تو اور کیا کرتے

تمھارے شہر میں کوئی کام کاج بھی تو ہو

کانگریس ہو یا BJP ، پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ(ن) سب یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پڑوسی کپڑے کی طرح نہیں جو ہر تہوار پر نئے خریدے جائیں ۔ نہ ہی یہ کاغذ پر بنی دو لکیریں ہیں جنھیں نفرت کی قینچی سے الگ کیا جاسکتا ہے ۔یہ ایک ہی زمین کاحصہ ہے جسے علیحدہ علیحدہ کر کے دو الگ براعظم نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ ایک ہی گھر میں قائم دو کمرے ہیں جن کا کچن بھی ایک ہی ہے یا تو بہو اور ساس کی طرح لڑتے رہیں یا پھر محبت سے گھرکو جنت کر دیں ۔ لڑ کر بھی جینا ہے اور محبت سے بھی جینا ہے ۔ نہ ہم گجرات سے آئے بادلوں کو کراچی میں برسنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت کے فوجی ریگستان کی مٹی کو روک سکتے ہیں ۔ کیوں ہم نفرتوں کے جذبات کی بجائے محبتوں کی خوشبو نہیں پھیلا سکتے ؟؟

صرف آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے گھروں کے جلنے سے کس کے دل میں ٹھنڈک ہوگی ؟ غلط فہمی کے دھواں سے کس کو زندگی ملے گی؟ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو نفرت کی آگ میں مار ڈالنے کے بعد بھی نتیجہ مذاکرات کی میز سے ہی نکلتا ہے ۔ ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان جینا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو نا چاہتے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں جو جنگ کے ذریعہ سیاست کی بساط سجانا چاہتے ہیں ؟ہم تو لوگوں کی جنگ بھی سیاست سے جیتنا چاہتے ہیں ۔ آج اگر محبتوں کے بیج کو نم مٹی ملی تو میری آنے والی نسلوں کو ترقی ، خوشحالی اور امن کی فصل ملے گی۔ اور ضرور ملے گی ۔
Load Next Story