ترقی اور تہذیب امید اور خواب
یورپ کی موجودہ ترقی پر اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے بڑا سبب ہے اہل یورپ کا عیسائیت کی اخلاقی و روحانی تعلیم ...
یورپ کی موجودہ ترقی پر اگر غور کیا جائے تو اس کا سب سے بڑا سبب ہے اہل یورپ کا عیسائیت کی اخلاقی و روحانی تعلیم کی سخت قید سے نکل کر ہمہ تن مادی ترقی کی طرف متوجہ ہونا اور لذائذ دنیاوی کو زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد سمجھنا، اسی وجہ سے ہر یورپی قوم کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یورپ میں ہر فرد کی ضرورتوں میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ ان کی تکمیل کے لیے روز بروز نت نئی ایجادات کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔
جب کہ اسلام اگرچہ عیسائیت کی طرح سائنس کا مخالف نہیں ہے لیکن اسلام کی تعلیمات ایسی نہیں ہیں کہ انسان دنیاوی لذتوں کے تعاقب میں روحانی برکات سے بے خبر ہوجائے اور یہی سبب رہا ہے کہ اگرچہ خالص عملی ترقی میں مسلمانوں کے قدم کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اکثر علوم میں ان کی انوکھی تحقیقات آج تک سائنس کے لیے مشعل راہ کا کام دے رہی ہیں۔ لیکن صنعت وحرفت اور خصوصاً فن میکنیکس، جدید طبی تحقیقات، جوہری مادہ سے استفادہ، خلائی و سمندری سلسلے میں جیسے ترقی اس عہد میں ہورہی ہے اور بالخصوص ذرائع ابلاغ اور اس سے متعلق جدید ترین کمپیوٹرز، سوفٹ ویئر پروگرامنگ، سیٹلائٹس سسٹم وغیرہ میں جو ترقی اہل یورپ، امریکا اور وسطی ایشیا کے کچھ ممالک نے کی ہے، اس کی عشر عشیر بھی مسلمانوں کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی اور نہ ہورہی ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی بے اصل نہیں ہے کہ عیسائیت کی طرح اسلام بھی تمدن کا مخالف نہیں ہے۔ لہٰذا تمدنی ترقی کے ساتھ خواہ وہ کسی درجے کی ہوں ایجادات کا ہونا لوازمات میں آتا ہے۔ دراصل ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ ضرورت پیدا ہو اور ذہن اس کے رفع کرنے کی کوئی صورت نہ نکالے۔ اس لیے اگر یہ قیاس کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ عربوں نے جب بدویت سے نکل کر مدینیت میں قدم رکھا تو اس کی مناسبت سے اس وقت بھی بہت سی ایجادات ہوئی ہوںگی۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مورخین اور محققین نے ان کو اتنا اہم خیال نہیں کیا ہوگا کہ انھیں تاریخ کا حصہ بناتے۔ نتیجتاً وہ ایجادات جس خود رو طریقے پر وجود میں آئی ہوںگی اسی طرح گمنامی کے پردے میں مٹ بھی گئی ہوںگی۔ یہاں پر ہم اپنے پہلے موضوع کی لفظی نشست برخاست کرتے ہوئے دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں کیونکہ ان دنوں ہم اہل پاکستان بہت دکھی ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ
ایسا لگتا ہے ہر امتحاں کے لیے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے
لہٰذا میں اپنے تمام پاکستانی بھائیوں، بہنوں، بزرگوں اور بالخصوص نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی کی سختی اور کرختگی کے مقابلے میں بلا شبہ خوابوں کی پراسرار اور مسرت انگیز دنیا ایک دلچسپ تضاد پیش کرتی ہے۔ زندگی اپنی سختی کو یکسانیت کے ساتھ ایک ساعت سے زیادہ قائم نہیں رکھ پاتی لہٰذا جب وہ لمحہ بیت جاتاہے تو ماضی کی دھندلکوں میں اس کی سختی کا بیشتر حصہ تباہ ہوجاتا ہے۔ بوجوہ وقت کے سیل رواں کے ساتھ ساتھ زندگی کے دکھ درد بھی مندمل ہونے لگتے ہیں اور وہ ایک زخم بھی جو کسی وقت جان لیوا محسوس ہوتا ہے، مندمل ہوتا ہوا ماضی کے پراسرار کہرے میں کہیں کھو جاتا ہے یا تحلیل ہوجاتا ہے اور پھر اس لمحے کے آنے کے بعد تمام لمحات مستقبل کی امانت ہوتے ہیں اور ان کی سختی و درستگی کو مزید امیدیں آرزوئیں اپنے لطیف آنچل میں روپوش کرلیتی ہیں۔
بلا شبہ ملک کے موجودہ حالات ناقابل یقین حد تک ناگفتہ بہ ہیں اور ہم تمام اہل وطن بھی ناقابل برداشت حد تک مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بجلی، گیس، بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ، بدترین کرپشن، اقربا پروری کی چکی کے تمام پاٹوں میں اور ہر آتی جاتی حکومت کے جھوٹے وعدوں اور ارادوں کے گھاٹوں میں پس بھی چکے ہیں اور دھل بھی چکے ہیں۔ لیکن بالآخر تسلیم کرنا ہوگا کہ زندگی امکان کا نام ہے۔ اسے صرف امید کے دیے سے ہی روشن رکھا جاسکتا ہے اور اسے خواب دیکھ کر ہی گزارا جاسکتا ہے۔ اے عزیزان وطن، اﷲ نے جو سانسیں ہمیں عطا فرمائی ہیں بالآخر وہ بھی جینی ہیں تو آئیے پھر سے امید کرتے ہیں اور ہم نے، آپ نے یا ایک اکثریت نے جو حکومت بنائی ہے وہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور اس مرتبہ میاں نواز شریف کو اپنا میر کارواں مقرر کیا ہے۔
آئیے پھر سے اپنے نئے وزیراعظم پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ پاک انھیں اور ان کی جماعت کو ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار فرمائے اور اس بھوک، افلاس، مہنگائی اور ڈرون اٹیکس سے مرتی ہوئی قوم کے لیے ایک مسیحا کا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بلاشبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کوئی آسان ہدف نہیں ہے اور عمران خان کے ماضی کو دیکھ کر باآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک اچھے منتظم بھی ہیں اور ایماندار بھی لہٰذا خیبرپختونخوا کے لیے تحریک انصاف کے پانچ سال کی حکومت وہاں کے حالات کے لیے جو ''اس وقت خاصے پیچیدہ اور خراب ہیں'' ایک مثبت تبدیلی کا ذریعہ ہوگی۔
کسی کو بھی اس سے انکار نہیں، مطلقاً انکار نہیں۔ لیکن میں خان صاحب اور ان کے پارٹی رہنمائوں سے یہ درخواست ضرور کرنا چاہوںگا کہ ''بہتری لاکر دکھائیے، انقلاب لاکر ثابت کیجیے'' قبل از وقت یا اصلاح بہت سارے دعوے کرنا شاید آپ کے اور آپ کی جماعت کے لیے مناسب نہ ہوگا کیونکہ کل کس نے دیکھا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ وہ سب کرنے میں ناکام رہیں جس کا یقین آپ قوم کو میڈیا پر ان دنوں شد ومد سے دلا رہے ہیں۔ محترم خان صاحب ہمارے کانوں میں ہماری سماعت میں آپ کے قبل از الیکشن کیے ہوئے دعوے، نعرے اور وعدے اب تک گونج رہے ہیں۔ آپ کی اچھی نیت پر مجھ سمیت پوری قوم کو شک نہیں ہے، لیکن ہر بات، ہر وعدہ، ایک عمل کا متقاضی ہوتا ہے اور ہم آپ کی جانب سے اسی کے منتظر ہیں۔
جب کہ اسلام اگرچہ عیسائیت کی طرح سائنس کا مخالف نہیں ہے لیکن اسلام کی تعلیمات ایسی نہیں ہیں کہ انسان دنیاوی لذتوں کے تعاقب میں روحانی برکات سے بے خبر ہوجائے اور یہی سبب رہا ہے کہ اگرچہ خالص عملی ترقی میں مسلمانوں کے قدم کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اکثر علوم میں ان کی انوکھی تحقیقات آج تک سائنس کے لیے مشعل راہ کا کام دے رہی ہیں۔ لیکن صنعت وحرفت اور خصوصاً فن میکنیکس، جدید طبی تحقیقات، جوہری مادہ سے استفادہ، خلائی و سمندری سلسلے میں جیسے ترقی اس عہد میں ہورہی ہے اور بالخصوص ذرائع ابلاغ اور اس سے متعلق جدید ترین کمپیوٹرز، سوفٹ ویئر پروگرامنگ، سیٹلائٹس سسٹم وغیرہ میں جو ترقی اہل یورپ، امریکا اور وسطی ایشیا کے کچھ ممالک نے کی ہے، اس کی عشر عشیر بھی مسلمانوں کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی اور نہ ہورہی ہے۔
لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی بے اصل نہیں ہے کہ عیسائیت کی طرح اسلام بھی تمدن کا مخالف نہیں ہے۔ لہٰذا تمدنی ترقی کے ساتھ خواہ وہ کسی درجے کی ہوں ایجادات کا ہونا لوازمات میں آتا ہے۔ دراصل ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ ضرورت پیدا ہو اور ذہن اس کے رفع کرنے کی کوئی صورت نہ نکالے۔ اس لیے اگر یہ قیاس کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ عربوں نے جب بدویت سے نکل کر مدینیت میں قدم رکھا تو اس کی مناسبت سے اس وقت بھی بہت سی ایجادات ہوئی ہوںگی۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مورخین اور محققین نے ان کو اتنا اہم خیال نہیں کیا ہوگا کہ انھیں تاریخ کا حصہ بناتے۔ نتیجتاً وہ ایجادات جس خود رو طریقے پر وجود میں آئی ہوںگی اسی طرح گمنامی کے پردے میں مٹ بھی گئی ہوںگی۔ یہاں پر ہم اپنے پہلے موضوع کی لفظی نشست برخاست کرتے ہوئے دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں کیونکہ ان دنوں ہم اہل پاکستان بہت دکھی ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ
ایسا لگتا ہے ہر امتحاں کے لیے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے
لہٰذا میں اپنے تمام پاکستانی بھائیوں، بہنوں، بزرگوں اور بالخصوص نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی کی سختی اور کرختگی کے مقابلے میں بلا شبہ خوابوں کی پراسرار اور مسرت انگیز دنیا ایک دلچسپ تضاد پیش کرتی ہے۔ زندگی اپنی سختی کو یکسانیت کے ساتھ ایک ساعت سے زیادہ قائم نہیں رکھ پاتی لہٰذا جب وہ لمحہ بیت جاتاہے تو ماضی کی دھندلکوں میں اس کی سختی کا بیشتر حصہ تباہ ہوجاتا ہے۔ بوجوہ وقت کے سیل رواں کے ساتھ ساتھ زندگی کے دکھ درد بھی مندمل ہونے لگتے ہیں اور وہ ایک زخم بھی جو کسی وقت جان لیوا محسوس ہوتا ہے، مندمل ہوتا ہوا ماضی کے پراسرار کہرے میں کہیں کھو جاتا ہے یا تحلیل ہوجاتا ہے اور پھر اس لمحے کے آنے کے بعد تمام لمحات مستقبل کی امانت ہوتے ہیں اور ان کی سختی و درستگی کو مزید امیدیں آرزوئیں اپنے لطیف آنچل میں روپوش کرلیتی ہیں۔
بلا شبہ ملک کے موجودہ حالات ناقابل یقین حد تک ناگفتہ بہ ہیں اور ہم تمام اہل وطن بھی ناقابل برداشت حد تک مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بجلی، گیس، بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ، بدترین کرپشن، اقربا پروری کی چکی کے تمام پاٹوں میں اور ہر آتی جاتی حکومت کے جھوٹے وعدوں اور ارادوں کے گھاٹوں میں پس بھی چکے ہیں اور دھل بھی چکے ہیں۔ لیکن بالآخر تسلیم کرنا ہوگا کہ زندگی امکان کا نام ہے۔ اسے صرف امید کے دیے سے ہی روشن رکھا جاسکتا ہے اور اسے خواب دیکھ کر ہی گزارا جاسکتا ہے۔ اے عزیزان وطن، اﷲ نے جو سانسیں ہمیں عطا فرمائی ہیں بالآخر وہ بھی جینی ہیں تو آئیے پھر سے امید کرتے ہیں اور ہم نے، آپ نے یا ایک اکثریت نے جو حکومت بنائی ہے وہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور اس مرتبہ میاں نواز شریف کو اپنا میر کارواں مقرر کیا ہے۔
آئیے پھر سے اپنے نئے وزیراعظم پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ پاک انھیں اور ان کی جماعت کو ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار فرمائے اور اس بھوک، افلاس، مہنگائی اور ڈرون اٹیکس سے مرتی ہوئی قوم کے لیے ایک مسیحا کا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بلاشبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کوئی آسان ہدف نہیں ہے اور عمران خان کے ماضی کو دیکھ کر باآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک اچھے منتظم بھی ہیں اور ایماندار بھی لہٰذا خیبرپختونخوا کے لیے تحریک انصاف کے پانچ سال کی حکومت وہاں کے حالات کے لیے جو ''اس وقت خاصے پیچیدہ اور خراب ہیں'' ایک مثبت تبدیلی کا ذریعہ ہوگی۔
کسی کو بھی اس سے انکار نہیں، مطلقاً انکار نہیں۔ لیکن میں خان صاحب اور ان کے پارٹی رہنمائوں سے یہ درخواست ضرور کرنا چاہوںگا کہ ''بہتری لاکر دکھائیے، انقلاب لاکر ثابت کیجیے'' قبل از وقت یا اصلاح بہت سارے دعوے کرنا شاید آپ کے اور آپ کی جماعت کے لیے مناسب نہ ہوگا کیونکہ کل کس نے دیکھا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ وہ سب کرنے میں ناکام رہیں جس کا یقین آپ قوم کو میڈیا پر ان دنوں شد ومد سے دلا رہے ہیں۔ محترم خان صاحب ہمارے کانوں میں ہماری سماعت میں آپ کے قبل از الیکشن کیے ہوئے دعوے، نعرے اور وعدے اب تک گونج رہے ہیں۔ آپ کی اچھی نیت پر مجھ سمیت پوری قوم کو شک نہیں ہے، لیکن ہر بات، ہر وعدہ، ایک عمل کا متقاضی ہوتا ہے اور ہم آپ کی جانب سے اسی کے منتظر ہیں۔