اتحاد اور تنظیم قوم کی ضرورت ہے
عید جو مسلمانوں کے لیے خوشیاں بانٹنے اور باہمی محبت و اخوت کے اظہار کا دن ہے‘ کوئٹہ میں دہشت گردی کے۔۔۔
عید جو مسلمانوں کے لیے خوشیاں بانٹنے اور باہمی محبت و اخوت کے اظہار کا دن ہے' کوئٹہ میں دہشت گردی کے رونما ہونے والے المناک واقعے کے باعث ملک بھر میں دکھ اور خوف کے سائے میں منائی گئی۔ جمعرات کو کوئٹہ میں پولیس لائن میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہونے والے ایس ایچ او کی نماز جنازہ کے دوران خود کش حملہ ہوا جس میں ڈی آئی جی آپریشنز' ایس پی ہیڈ کوارٹرز سمیت 30 افراد شہید اور 60 زخمی ہو گئے۔ عید سے ایک روز قبل ہونے والے اس سانحے نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کر دیا۔ اس کے بعد یہ خدشہ بھی موجود رہا کہ دہشت گرد کہیں عید پر بھی عوامی اجتماعات کو نشانہ نہ بنائیںلہٰذا عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے۔ جس تسلسل سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ دہشت گرد انتہائی منظم اور متحرک ہیں۔
انھوں نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے کسی بھی سانحہ کے بعد حکمران روایتی انداز میں مذمتی بیان جاری کر کے اپنی ذمے داری سے بری ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی اسی نا اہلی اور عاقبت نا اندیشی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد بلا خوف و خطر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتی ناقص پالیسیوں کا آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کے تحفظ اور دہشت گردوں سے نمٹنے پر مامور پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تک محفوظ نہیں رہے۔ ان سانحات نے ہر شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا دہشت گرد اس قدر طاقتور اور منظم ہیں کہ وہ جب چاہیں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانے بنادیں۔ ایسے میں عوام کا تحفظ کون کرے گا؟ انھیں امور نے عوام میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر دہشت گردوں نے امن و امان کی صورتحال کو مخدوش بنا دیا ہے تو دوسری جانب گزشتہ چند دنوں سے بھارتی فوج کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے باعث سرحدی صورتحال بھی کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق اتوار کے روز بھی بھارتی فورسز نے سیالکوٹ سیکٹر میں پاکستان رینجرز کی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی۔ بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر بھارتی حکمرانوں کی جانب سے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پاکستانی فورسز پر فائرنگ کا الزام لگا کر حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حیرت ناک امر ہے کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کے واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات اس امر کے عکاس ہیں کہ کچھ ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کی خواہاں نہیں اور دونوں کے درمیان دشمنی کا عنصر برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان قوتوں کو خطرہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو ان کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ سب سے افسوسناک رویہ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
کسی بھی سرحدی کشیدگی کے موقع پر بھارتی حکمران تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات دینے لگتے ہیں۔ ایسے میں بھارتی میڈیا بھی آگ اگلنے لگتا اور معاملات کو مزید بگاڑنے میں جت جاتا ہے۔ بھارت میں موجود انتہا پسند قوتیں جن کی بنیاد اور بقا کا دارومدار ہی پاکستان سے نفرت اور دشمنی پر ہے وہ کشیدگی کے ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتی ہیں۔ یوں بھارت میں حکومتی سطح سے لے کر عوامی سطح تک جنگی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان حساس مسئلہ ہے وہاں پیدا ہونے والی معمولی سی کشیدگی سے بھی پورے علاقے پر جنگ کا خطرہ چھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ' امریکا اور دیگر عالمی قوتیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا سنجیدہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ غالب امکان ہے کہ یہ عالمی قوتیں اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے مسئلہ کشمیر کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی پر عالمی قوتوں کا کردار بیانات تک محدود رہتا ہے۔ اب بھی برطانیہ اور امریکا نے عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے صرف بیان دے دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں اور لائن آف کنٹرول پر بڑھنے والی کشیدگی کو باہمی تعاون سے کم کیا جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد خطے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیا۔ انھوں نے اپنے سابق دور حکومت میں بھی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی تھیں اور اب بھی وہ خلوص نیت سے اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ جب تک پاک بھارت کشیدگی برقرار رہے گی خطے میں امن کا وجود خطرے میں رہے گا اور وہ خطیر رقم جو دونوں ممالک دفاع پر خرچ کر رہے ہیں اسے عوام کی خوشحالی اور ترقی پر خرچ کرکے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی مسائل کے حوالے سے حکومت کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔ دہشت گرد سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ ان سے سختی سے نہ نمٹا گیا اور روایتی تساہل پسندی ہی کا مظاہرہ کیا گیا تو دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ حکومت تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کا مشترکہ پلیٹ فارم قائم کرے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کو جدید تربیت اور مہارت فراہم کی جائے تاکہ وہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا سکیں۔ یہ پاکستان کے بقا کی جنگ ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے بیانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا یا صرف پالیسی بنانے سے دہشت گردی کی روک تھام ممکن نہیں' اصل مسئلہ پالیسی پر عملدرآمد کا ہے۔ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو بھی پالیسی تشکیل دے اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ تمام جمہوری سیاسی قوتیں بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں لہٰذا تمام مذہبی سیاسی قوتوں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ کوئی بھی حکومتی مہم عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کیا جائے۔اتحاد اور تنظیم ہی سے ملک دشمن عناصر کو شکست دی جا سکتی ہے۔
انھوں نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے کسی بھی سانحہ کے بعد حکمران روایتی انداز میں مذمتی بیان جاری کر کے اپنی ذمے داری سے بری ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی اسی نا اہلی اور عاقبت نا اندیشی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد بلا خوف و خطر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتی ناقص پالیسیوں کا آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کے تحفظ اور دہشت گردوں سے نمٹنے پر مامور پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تک محفوظ نہیں رہے۔ ان سانحات نے ہر شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا دہشت گرد اس قدر طاقتور اور منظم ہیں کہ وہ جب چاہیں سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانے بنادیں۔ ایسے میں عوام کا تحفظ کون کرے گا؟ انھیں امور نے عوام میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ ایک طرف اندرونی طور پر دہشت گردوں نے امن و امان کی صورتحال کو مخدوش بنا دیا ہے تو دوسری جانب گزشتہ چند دنوں سے بھارتی فوج کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے باعث سرحدی صورتحال بھی کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق اتوار کے روز بھی بھارتی فورسز نے سیالکوٹ سیکٹر میں پاکستان رینجرز کی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی۔ بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر بھارتی حکمرانوں کی جانب سے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پاکستانی فورسز پر فائرنگ کا الزام لگا کر حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حیرت ناک امر ہے کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کے واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات اس امر کے عکاس ہیں کہ کچھ ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کی خواہاں نہیں اور دونوں کے درمیان دشمنی کا عنصر برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان قوتوں کو خطرہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو ان کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ سب سے افسوسناک رویہ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے بھی دیکھنے میں آتا ہے۔
کسی بھی سرحدی کشیدگی کے موقع پر بھارتی حکمران تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات دینے لگتے ہیں۔ ایسے میں بھارتی میڈیا بھی آگ اگلنے لگتا اور معاملات کو مزید بگاڑنے میں جت جاتا ہے۔ بھارت میں موجود انتہا پسند قوتیں جن کی بنیاد اور بقا کا دارومدار ہی پاکستان سے نفرت اور دشمنی پر ہے وہ کشیدگی کے ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتی ہیں۔ یوں بھارت میں حکومتی سطح سے لے کر عوامی سطح تک جنگی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان حساس مسئلہ ہے وہاں پیدا ہونے والی معمولی سی کشیدگی سے بھی پورے علاقے پر جنگ کا خطرہ چھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ' امریکا اور دیگر عالمی قوتیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا سنجیدہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ غالب امکان ہے کہ یہ عالمی قوتیں اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے مسئلہ کشمیر کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی پر عالمی قوتوں کا کردار بیانات تک محدود رہتا ہے۔ اب بھی برطانیہ اور امریکا نے عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے صرف بیان دے دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے مسائل مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں اور لائن آف کنٹرول پر بڑھنے والی کشیدگی کو باہمی تعاون سے کم کیا جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد خطے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دیا۔ انھوں نے اپنے سابق دور حکومت میں بھی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی تھیں اور اب بھی وہ خلوص نیت سے اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں۔ انھیں اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ جب تک پاک بھارت کشیدگی برقرار رہے گی خطے میں امن کا وجود خطرے میں رہے گا اور وہ خطیر رقم جو دونوں ممالک دفاع پر خرچ کر رہے ہیں اسے عوام کی خوشحالی اور ترقی پر خرچ کرکے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی مسائل کے حوالے سے حکومت کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔ دہشت گرد سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ ان سے سختی سے نہ نمٹا گیا اور روایتی تساہل پسندی ہی کا مظاہرہ کیا گیا تو دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ حکومت تمام سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کا مشترکہ پلیٹ فارم قائم کرے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کو جدید تربیت اور مہارت فراہم کی جائے تاکہ وہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا سکیں۔ یہ پاکستان کے بقا کی جنگ ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے بیانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا یا صرف پالیسی بنانے سے دہشت گردی کی روک تھام ممکن نہیں' اصل مسئلہ پالیسی پر عملدرآمد کا ہے۔ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو بھی پالیسی تشکیل دے اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ تمام جمہوری سیاسی قوتیں بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں لہٰذا تمام مذہبی سیاسی قوتوں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ کوئی بھی حکومتی مہم عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے گراس روٹ لیول پر عوام کو متحرک کیا جائے۔اتحاد اور تنظیم ہی سے ملک دشمن عناصر کو شکست دی جا سکتی ہے۔