کیسے کیسے زمانے‘ کیسی کیسی عید
انوری فارسی کا نامی گرامی شاعر مگر شاعری سے سوا اس کی تقدیر میں مصائب و آلام بھی بہت لکھے گئے تھے۔۔۔
انوری فارسی کا نامی گرامی شاعر مگر شاعری سے سوا اس کی تقدیر میں مصائب و آلام بھی بہت لکھے گئے تھے۔ ایک مقام پر اپنے مصائب و آلام کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ آسمان سے جو بلا اترتی ہے وہ زمین پر اترتے ہی پوچھتی ہے کہ خانۂ انوری کُجاست۔ انوری کا گھر کدھر ہے۔ خیر سے اب پاکستان کو خانہ انوری ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بلا آسمان سے اترے یا زمین سے پھوٹے' بجلی گرے' زلزلہ آئے' سیلاب امنڈے' بم پھٹے' خود کش حملہ ہو' ہر بلا نازل ہونے سے پہلے اس نئے خانہ انوری کا پتہ معلوم کرتی ہے اور آنا فاناً آن دھمکتی ہے۔
مگر ہمیں بھی ان بلائوں کے بیچ جینے کا سلیقہ آ گیا ہے۔ ہر ایسے آشوب میں سوچتے ہیں کہ کوئی مضائقہ نہیں کہ نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی۔ اور کیا مضائقہ ہے کہ دونوں کی ریت ساتھ ساتھ نباہی جائے۔ روز روز کی آفات ارضی و سماوی کے بیچ بسر کرتے کرتے، کچھ ہمیں خود بھی یہ سلیقہ آ گیا ہے اور کچھ یہ سلیقہ ہمیں ہمارے ٹی وی چینلوں نے سکھایا ہے۔ سو آپ نے عید کے آگے پیچھے کے دنوں میں دیکھا ہو گا کہ ابھی سوگواروں کے گریہ کا منظر ہے۔ جن کا سہاگ لٹ گیا ہے اور جن کی گودیں ایک دم سے اجڑ گئیں ہیں، وہ حال سے بے حال ہو رہی ہیں اور غمگسار انھیں دلاسہ دے رہے ہیں اور اچانک منظر بدلتا ہے۔ سوگواروں سے شتابی سے رخصتی لی اور ان بازاروں میں جا نکلے جہاں بچے بڑے اور لڑکیاں بالیاں عید کی خریداری میں مصروف ہیں۔
گوری کلائیوں پر چڑھتی چوڑیاں اپنی بہار دکھا رہی ہیں اور ہتھیلیوں پر رچتی' مہندی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ ایک ہجوم ریشمیں کپڑوں لتوں کی دکانوں پر' ایک ہجوم جوتوں کی دکانوں پر۔ یک بام دو ہوا کا مضمون۔ ابھی سوگواروں کے بیچ ہم سوگوار بنے ہوئے تھے اور ابھی ہم نے رومال سے آنسو پونچھے اور خوش و خرم مخلوق کے بیچ پہنچ کر ان کے ہائو ہو میں شریک ہو کر قہقہے لگانے لگے اور ٹی وی چینل کی نمائندہ بی بی کس جوش و خروش سے خریداری میں مصروف لڑکیوں سے، جوانوں سے، بچوں سے عید کی تیاری کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے اور وہ کس طرح مسکرا مسکرا کر جواب دے رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ خوشی اور غم کے یہ مناظر جس برق رفتاری سے ادلتے بدلتے ہیں اسے صنعت تضاد سمجھئے جس کے استعمال میں ہمارے میڈیا نے بہت مہارت پیدا کی ہے۔
ان چینلوں نے ان پر چہکتے ٹی وی اینکروں نے یہی تاثر دیا تھا کہ عید کی بہت چہل پہل ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بازاروں میں گلیوں میں بہت گہما گہمی ہے۔ عید کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ لیکن یہ ہم سے سنو کہ جب ہم عید کی صبح نماز عید کے لیے گھر سے نکلے تو ہم نے ارد گرد کی فضا کو کیسا پایا۔ وہ جو بچے نیا جوڑا پہنے باپ یا بڑے بھائی کی انگلی پکڑے خوشی خوشی مسجد کی طرف دوڑ دوڑ کر چلتے نظر آتے تھے۔ ایسا کوئی منظر نظر نہ آیا۔ وہ جو نماز عید کی خاطر ٹولیاں لپک جھپک جاتی نظر آتی تھیں اور کاریں تیز رفتاری سے مسجد کی طرف لپکتی دکھائی دیتی تھیں' ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہمارے ساتھی نے شاید اسی فضا سے متاثر ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور کہا کہ مسجد تک تو انشاء اللہ خیریت سے پہنچیں گے۔ گھر واپسی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ہم رکے۔ پھر پوچھا ''اور نماز عید کے بارے میں کیا امکانات ہیں''۔
چپ ہوا۔ بولا ''کچھ کہا نہیں جا سکتا''۔
شاید ایسے ہی اندیشے اور وسوسے دوسروں کو بھی ستا رہے ہوں۔ جب ہی تو ہمیں ان کی چال ڈھال میں وہ تیزی ترکی نظر نہیں آ رہی تھی جو عید کی صبح بالعموم نظر آیا کرتی تھی۔ تب ہمیں ناصر کاظمی کے شعر یاد آئے ؎
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشئی آواز نما کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم' مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
اور پھر انجم رومانی کا یہ شعر؎
بیدار! اہل قافلہ، سونے کے دن گئے
ہشیار آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
اور جب مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو اچانک
ہمیں اقبال کا یہ شعر یاد آ گیا ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
آگے یہ شعر ہم نے سرسری پڑھا تھا اور آگے گزر گئے تھے۔ مگر آج اس شعر نے ہمیں پکڑ لیا۔ جس شعر کو آگے ہم سرسری جان کر آگے گزر گئے تھے آج کتنا پر معنی اور کتنا درد انگیز نظر آ رہا تھا۔ آگے سیکیورٹی والے چوکنے کھڑے تھے۔ انھوں نے شک بھری نظروں سے ہمیں سر سے پیر تک دیکھا۔ سر سے پیر تک ہمارے لباس پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ اس امتحان میں پاس ہو کر ہم اندر گئے۔ فریضہ نماز ادا کیا اور خیریت سے گھر واپس آئے۔
واپسی پر گھر میں قدم کیا رکھا کہ ٹیلی فون آنے شروع ہو گئے۔ عید مبارک' عید مبارک۔ مگر پاکستان کے شہروں سے جو فون آئے ان میں لہجہ کتنا بجھا بجھا تھا۔ باہر سے جو فون آئے' ہندوستان سے' لندن سے' امریکا سے ان دور پار یاروں کے لہجہ سے کتنی خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ ہم نے ایک دو دوستوں نے خصوصاً ہندوستان کے دوستوں کو ٹوہا بھی کہ ان کی نماز عید کو کتنا خطرہ درپیش تھا۔ ہمارے وسوسہ پر انھیں تعجب ہوا۔ سچ پوچھو تو سوال کر کے ہم خود ہی شرمندہ ہو گئے ع
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا
نمازیں تو ہماری جو مملکت اسلامیہ پاکستان میں رہتے ہیں، خطرے میں ہیں۔
پھر ہمارا دھیان پیچھے کی طرف گیا۔ کتنی گزشتہ عیدیں یاد آئیں۔ کس اہتمام سے بچے بڑے عید گاہ کی طرف لپک جھپک جاتے تھے۔ نماز پڑھ کر عید گاہ سے باہر آئے تو عید میلہ کی گہما گہمی دیکھو۔ بچوں کا ذوق و شوق دیکھو۔ کسی نے تاشوں والی گاڑی خریدی ہے۔ کوئی پیپنی خرید کر خوش ہے۔ ہونٹوں میں داب کر ایسے بجا رہا ہے جیسی یہ پیپنی نہیں بانسری ہے۔ کتنے غبارے اڑا رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ پیپنی کی پیں پیں' تاشے والی گاڑی کا دمبدم بجتا تاشہ بیچ بیچ میں کوئی پٹاخہ۔ عید گاہ کے میلہ سے گزر کر اب یہ سارا شور گلیوں میں آن پہنچا تھا۔
مگر اس شور کو تو رخصت ہونا ہی تھا۔ پاکستان میں بہت جلدی مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ یہ سب لہو و لعب ہے۔ یعنی غیر اسلامی۔
لیجیے پچھلی عیدوں کو یاد کرتے کرتے کس زمانے میں ہم نکل گئے اور کونسی عید یاد آئی۔ سن اٹھار سو ستاون کی عید ناصر نذیر فراقؔ کے بیان میں اس عید کی ایک جھلک دیکھئے:
''چھبیسویں مئی 1857ء کو عید ہوئی مگر ایسی عید خدا پھر نہ لائے۔ غریب مسلمان میلے کچیلے تھے۔ کیونکہ گھاٹ بند تھے۔ دھوبی شہر میں قید تھے۔ بزاز جوتے والے گھروں میں بیٹھے رو رہے تھے۔ مذہبی فرض سمجھ کر اپنے اپنے محلہ کی مسجدوں میں دو گانہ ادا کر لیا۔ جامع مسجد میں بھی عیدالفطر کی نماز ہوئی مگر لی دی سی کیونکہ انگریزی مورچہ کا گولہ انداز ایسا استاد تھا کہ عید والے دن جو گولہ مارتا تھا جامع مسجد کے حوض پر آ کر پڑتا تھا''۔
وہ فرنگی فوج کا گولہ انداز تھا۔ وہ مسجد اور نماز عید کا احترام کیوں کرنے لگا تھا۔ ہاں آگے کی بھی سن لیجیے:
''حضور والا نے مرشد زادوں کے ساتھ لال قلعہ کی موتی مسجد میں نماز دوگانہ پڑھی۔ نہ سواری نہ جلوس۔ سب کے دل مر جھائے ہوئے' آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے۔
اس عید سے بدتر بقر عید۔ اور بقر عید سے بدتر محرم کہ غدر میں آیا۔ یہاں تک کہ 14 ستمبر کو انگریزوں نے دہلی کو فتح کر لیا۔ لال قلعہ اجڑ گیا۔ نہ عید' نہ بقر عید۔ اللہ کا نام ہی نام ہے''۔
مگر ہمیں بھی ان بلائوں کے بیچ جینے کا سلیقہ آ گیا ہے۔ ہر ایسے آشوب میں سوچتے ہیں کہ کوئی مضائقہ نہیں کہ نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی۔ اور کیا مضائقہ ہے کہ دونوں کی ریت ساتھ ساتھ نباہی جائے۔ روز روز کی آفات ارضی و سماوی کے بیچ بسر کرتے کرتے، کچھ ہمیں خود بھی یہ سلیقہ آ گیا ہے اور کچھ یہ سلیقہ ہمیں ہمارے ٹی وی چینلوں نے سکھایا ہے۔ سو آپ نے عید کے آگے پیچھے کے دنوں میں دیکھا ہو گا کہ ابھی سوگواروں کے گریہ کا منظر ہے۔ جن کا سہاگ لٹ گیا ہے اور جن کی گودیں ایک دم سے اجڑ گئیں ہیں، وہ حال سے بے حال ہو رہی ہیں اور غمگسار انھیں دلاسہ دے رہے ہیں اور اچانک منظر بدلتا ہے۔ سوگواروں سے شتابی سے رخصتی لی اور ان بازاروں میں جا نکلے جہاں بچے بڑے اور لڑکیاں بالیاں عید کی خریداری میں مصروف ہیں۔
گوری کلائیوں پر چڑھتی چوڑیاں اپنی بہار دکھا رہی ہیں اور ہتھیلیوں پر رچتی' مہندی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ ایک ہجوم ریشمیں کپڑوں لتوں کی دکانوں پر' ایک ہجوم جوتوں کی دکانوں پر۔ یک بام دو ہوا کا مضمون۔ ابھی سوگواروں کے بیچ ہم سوگوار بنے ہوئے تھے اور ابھی ہم نے رومال سے آنسو پونچھے اور خوش و خرم مخلوق کے بیچ پہنچ کر ان کے ہائو ہو میں شریک ہو کر قہقہے لگانے لگے اور ٹی وی چینل کی نمائندہ بی بی کس جوش و خروش سے خریداری میں مصروف لڑکیوں سے، جوانوں سے، بچوں سے عید کی تیاری کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے اور وہ کس طرح مسکرا مسکرا کر جواب دے رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ خوشی اور غم کے یہ مناظر جس برق رفتاری سے ادلتے بدلتے ہیں اسے صنعت تضاد سمجھئے جس کے استعمال میں ہمارے میڈیا نے بہت مہارت پیدا کی ہے۔
ان چینلوں نے ان پر چہکتے ٹی وی اینکروں نے یہی تاثر دیا تھا کہ عید کی بہت چہل پہل ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بازاروں میں گلیوں میں بہت گہما گہمی ہے۔ عید کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ لیکن یہ ہم سے سنو کہ جب ہم عید کی صبح نماز عید کے لیے گھر سے نکلے تو ہم نے ارد گرد کی فضا کو کیسا پایا۔ وہ جو بچے نیا جوڑا پہنے باپ یا بڑے بھائی کی انگلی پکڑے خوشی خوشی مسجد کی طرف دوڑ دوڑ کر چلتے نظر آتے تھے۔ ایسا کوئی منظر نظر نہ آیا۔ وہ جو نماز عید کی خاطر ٹولیاں لپک جھپک جاتی نظر آتی تھیں اور کاریں تیز رفتاری سے مسجد کی طرف لپکتی دکھائی دیتی تھیں' ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہمارے ساتھی نے شاید اسی فضا سے متاثر ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور کہا کہ مسجد تک تو انشاء اللہ خیریت سے پہنچیں گے۔ گھر واپسی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ہم رکے۔ پھر پوچھا ''اور نماز عید کے بارے میں کیا امکانات ہیں''۔
چپ ہوا۔ بولا ''کچھ کہا نہیں جا سکتا''۔
شاید ایسے ہی اندیشے اور وسوسے دوسروں کو بھی ستا رہے ہوں۔ جب ہی تو ہمیں ان کی چال ڈھال میں وہ تیزی ترکی نظر نہیں آ رہی تھی جو عید کی صبح بالعموم نظر آیا کرتی تھی۔ تب ہمیں ناصر کاظمی کے شعر یاد آئے ؎
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشئی آواز نما کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم' مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
اور پھر انجم رومانی کا یہ شعر؎
بیدار! اہل قافلہ، سونے کے دن گئے
ہشیار آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
اور جب مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو اچانک
ہمیں اقبال کا یہ شعر یاد آ گیا ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
آگے یہ شعر ہم نے سرسری پڑھا تھا اور آگے گزر گئے تھے۔ مگر آج اس شعر نے ہمیں پکڑ لیا۔ جس شعر کو آگے ہم سرسری جان کر آگے گزر گئے تھے آج کتنا پر معنی اور کتنا درد انگیز نظر آ رہا تھا۔ آگے سیکیورٹی والے چوکنے کھڑے تھے۔ انھوں نے شک بھری نظروں سے ہمیں سر سے پیر تک دیکھا۔ سر سے پیر تک ہمارے لباس پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ اس امتحان میں پاس ہو کر ہم اندر گئے۔ فریضہ نماز ادا کیا اور خیریت سے گھر واپس آئے۔
واپسی پر گھر میں قدم کیا رکھا کہ ٹیلی فون آنے شروع ہو گئے۔ عید مبارک' عید مبارک۔ مگر پاکستان کے شہروں سے جو فون آئے ان میں لہجہ کتنا بجھا بجھا تھا۔ باہر سے جو فون آئے' ہندوستان سے' لندن سے' امریکا سے ان دور پار یاروں کے لہجہ سے کتنی خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ ہم نے ایک دو دوستوں نے خصوصاً ہندوستان کے دوستوں کو ٹوہا بھی کہ ان کی نماز عید کو کتنا خطرہ درپیش تھا۔ ہمارے وسوسہ پر انھیں تعجب ہوا۔ سچ پوچھو تو سوال کر کے ہم خود ہی شرمندہ ہو گئے ع
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا
نمازیں تو ہماری جو مملکت اسلامیہ پاکستان میں رہتے ہیں، خطرے میں ہیں۔
پھر ہمارا دھیان پیچھے کی طرف گیا۔ کتنی گزشتہ عیدیں یاد آئیں۔ کس اہتمام سے بچے بڑے عید گاہ کی طرف لپک جھپک جاتے تھے۔ نماز پڑھ کر عید گاہ سے باہر آئے تو عید میلہ کی گہما گہمی دیکھو۔ بچوں کا ذوق و شوق دیکھو۔ کسی نے تاشوں والی گاڑی خریدی ہے۔ کوئی پیپنی خرید کر خوش ہے۔ ہونٹوں میں داب کر ایسے بجا رہا ہے جیسی یہ پیپنی نہیں بانسری ہے۔ کتنے غبارے اڑا رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ پیپنی کی پیں پیں' تاشے والی گاڑی کا دمبدم بجتا تاشہ بیچ بیچ میں کوئی پٹاخہ۔ عید گاہ کے میلہ سے گزر کر اب یہ سارا شور گلیوں میں آن پہنچا تھا۔
مگر اس شور کو تو رخصت ہونا ہی تھا۔ پاکستان میں بہت جلدی مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ یہ سب لہو و لعب ہے۔ یعنی غیر اسلامی۔
لیجیے پچھلی عیدوں کو یاد کرتے کرتے کس زمانے میں ہم نکل گئے اور کونسی عید یاد آئی۔ سن اٹھار سو ستاون کی عید ناصر نذیر فراقؔ کے بیان میں اس عید کی ایک جھلک دیکھئے:
''چھبیسویں مئی 1857ء کو عید ہوئی مگر ایسی عید خدا پھر نہ لائے۔ غریب مسلمان میلے کچیلے تھے۔ کیونکہ گھاٹ بند تھے۔ دھوبی شہر میں قید تھے۔ بزاز جوتے والے گھروں میں بیٹھے رو رہے تھے۔ مذہبی فرض سمجھ کر اپنے اپنے محلہ کی مسجدوں میں دو گانہ ادا کر لیا۔ جامع مسجد میں بھی عیدالفطر کی نماز ہوئی مگر لی دی سی کیونکہ انگریزی مورچہ کا گولہ انداز ایسا استاد تھا کہ عید والے دن جو گولہ مارتا تھا جامع مسجد کے حوض پر آ کر پڑتا تھا''۔
وہ فرنگی فوج کا گولہ انداز تھا۔ وہ مسجد اور نماز عید کا احترام کیوں کرنے لگا تھا۔ ہاں آگے کی بھی سن لیجیے:
''حضور والا نے مرشد زادوں کے ساتھ لال قلعہ کی موتی مسجد میں نماز دوگانہ پڑھی۔ نہ سواری نہ جلوس۔ سب کے دل مر جھائے ہوئے' آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے۔
اس عید سے بدتر بقر عید۔ اور بقر عید سے بدتر محرم کہ غدر میں آیا۔ یہاں تک کہ 14 ستمبر کو انگریزوں نے دہلی کو فتح کر لیا۔ لال قلعہ اجڑ گیا۔ نہ عید' نہ بقر عید۔ اللہ کا نام ہی نام ہے''۔