ڈینگی مچھر اور سازشی تھیوری
مجھے بلاوجہ کی سازشی تھیوریوں سے شدید الرجی رہی ہے، اپنی حماقتوں کو دوسروں کے گلے میں ڈالنا، ہر...
مجھے بلاوجہ کی سازشی تھیوریوں سے شدید الرجی رہی ہے، اپنی حماقتوں کو دوسروں کے گلے میں ڈالنا، ہر ناکامی میں عالمی سازشیں تلاش کرنا، اچھے بھلے کام میں کیڑے نکالنا یا مکوڑے ڈال دینا سخت ناپسند ہے، لیکن ڈینگی کے گزشتہ ایک دہائی سے جاری حملوں نے مجھ ایسے رجائیت پسند کو بھی ڈینگی کے بارے میں سازشی نظریہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سازشی تھیوری یوں ہے کہ کہیں ہمارے شہروں کو جراثیمی ہتھیاروں سے نشانہ تو نہیں بنایا جا رہا ہے۔ میں ڈاکٹر ہوں نہ جراثیمی ہتھیاروں کا ماہر کہ کوئی حتمی یا دو ٹوک بات کر سکوں تاہم میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ڈینگی مچھر فطری انداز میں پیدا ہو رہا ہوتا تو گوجرانوالا، سیالکوٹ، لاہور، شیخوپورہ کی لاکھوں ایکڑ زیرآب اراضی اس کے لیے بہت موزوں تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بڑے شہروں پر حملہ آور ہوا۔
قاتل ڈینگی مچھر ایک بار پھر پوری طاقت سے حملہ آور ہو چکا ہے۔ لاہور اور لائل پور اس کا خصوصی ہدف ہیں، ماضی کا لائل پور جسے اب فیصل آباد کہا جاتا ہے۔ دونوں شہروں سے اب تک 19 مریض شفاخانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ کہ محکمہ صحت پنجاب کی ناقص کارکردگی اور بلدیاتی اداروں کے عدم وجود کی وجہ سے برسات کے شروع میں ہونے والا مچھر مار سپرے نہیں کیا جا سکا۔ کہ اس سے عام آدمی کا بھلا ہو سکتا تھا جو کہ ہماری بے رحم اور سنگ دل افسر شاہی کو منظور نہیں۔
برسات تو مچھروں کے لیے صدیوں سے محبوب اور مرغوب موسم رہا ہے۔ رم جھم اور کالی گھٹائیں کبھی گرمی کے مارے ہوئوں کے لیے سکھ کا سانس لاتی ہوں گی۔ اب تو اس دلبرانہ موسم کی خوش کن ادائوں کو قاتل ڈینگی نے ہم سے چھین لیا ہے۔ صاف شفاف پانی میں پرورش پانے والا یہ مچھر بڑی خاموشی سے کام دکھاتا ہے اس کا زہر آلود ڈنگ شاید اتنا تکلیف دہ تو نہیں ہوتا لیکن ہلاکت آفرین میں شیش ناگ سے کسی طرح کم نہیں۔
زہریلے سانپ کا کاٹا پانی نہیں مانگتا اور جان، جان آفرین کے سپرد کر کے 'سکھی' ہو جاتا ہے، لیکن ڈینگی کا شکار تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے گزشتہ 36 گھنٹوں میں ڈینگی کا شکار ہونے والے 8 نئے مریض سامنے آ چکے ہیں۔ یہ وباء ہے یا کیا ہے؟ بلائے جہاں تو بہرطور ہے۔
عام مچھر کی زندگی 8 سے 10 دن پر محیط ہوتی ہے۔ صاف پانی میں نشو و نما پانے والا ڈینگی کی زندگی کا دائرہ کار 10 دن اور 100 گز پر محیط ہوتا ہے اس لیے اگر ڈینگی کے لاروے کو جراثیمی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کا اثر گلی محلے تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں لاہور کی جدید آبادیاں اس کا ہدف بنیں، اندرون شہر کا علاقہ قدرے محفوظ رہا۔ حکومت پنجاب لاکھوں، کروڑوں روپے کی معلوماتی اشتہاری مہم چلاتی ہے جس میں گملوں، خالی قطعات اور ٹائروں سے پانی نکالنے کی ہدایات دی ہوتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ڈینگی مچھر کا ہدف صرف بڑے شہر ہی کیوں؟ چھوٹے قصبات اور دیہات میں اس کا ایک بھی کیس آج تک سامنے نہیں آیا۔
گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور شیخوپورہ کے اضلاع اپنے خوشبودار باسمتی چاولوں کی وجہ سے چہار دانگ عالم مشہور و معروف ہیں۔ اس کے لاکھوں ایکڑ رزعی رقبے پر 6 ماہ تک صاف پانی کھڑا رہتاہے کہ چاول کھانے والوں کی اکثریت کو شاید معلوم نہیں ہے کہ چاول کی فصل کے لیے کھلا پانی درکار ہوتا ہے، فصل پکنے تک کھیت میں پانی کا کھڑا رہنا لازم ہوتا ہے، اگر ڈینگی کا لاروا صاف پانی میں ہی پیدا ہوتا ہے تو ان اضلاع میں جو چاول کی تکون (Rice with Triangle) کہلاتے ہیں، کے لاکھوں ایکڑ سرسبز و شاداب کھیت تو اس کے لیے فطری جائے پیدائش (Breeding Place) ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ دس سال سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔پنجاب میں ڈینگی کے پھیلنے کی بنیادی وجہ بلدیاتی اداروں کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے اگست کے آغاز پر مچھر مار سپرے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے ڈینگی مچھر، نہتے اور بے بس شہریوں پر پوری طاقت سے حملہ آور ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈینگی بخار کے مبتلائے آزار مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔
جنوبی ایشیا ڈینگی مچھروں کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے جو کہ پہلے ہی غربت کی انتہا اور آبادی کے دبائو کا شکار ہو کر سسکیاں لے رہا ہے۔ ڈینگی کا پہلا حملہ 2005ء میں کراچی پر ہوا تھا۔ جب 20 افراد مارے گئے تھے جب کہ 3 سو افراد کو مبتلائے ڈینگی بخار ہوئے۔ اس وقت ڈینگی کا پہلا حملہ ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا تھا جس کے دوران120 افراد مارے گئے تھے جب کہ 5 ہزار مریض اسپتالوں میں زیرعلاج رہے۔ڈینگی مچھر پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن تھا لیکن غیر ضروری اور پیچیدہ طریق کار کی وجہ سے دونوں متحارب ممالک اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)، (World Health Organization) نے تجویز پیش کی ہے کہ پینے کے صاف پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنا کر اس جان لیوا وباء پر قابو پایا جا سکتا ہے تا کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی جمع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ قلت آب جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
2005ء میں ڈینگی کی پہلی یلغار سندھ پر ہوئی تھی جس نے 1089 افراد کو اپنا ہدف بنایا تھا جس میں 3 سو افراد کراچی کے اسپتالوں میں داخل کیے گئے تھے جب کہ ہمسایہ بھارت میں 3 ہزار افراد مبتلائے آزار ہوئے تھے۔ جن میں سے 35 مریض مارے گئے تھے اس وقت نئی دہلی پر ڈینگی کی یلغار چاروں اطراف سے ہوئی تھی اور 600 مریض اسپتالوں میں داخل کرائے گئے تھے۔ صرف 17 ہلاکتیں نئی دہلی میں ہوئی تھیں۔
حرف آخر یہ کہ اس وقت ہم ڈینگی کی جارحیت کا شکار ہیں، لاقانونیت، دہشت گردی پہلے ہی کیا کم وبال جان تھیں کہ اب ڈینگی مچھر تباہی پھیلانے پر تل گیا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن میرے دل میں وسوسے پیدا ہو رہے ہیں۔ میرے دماغ میں بار بار سازشی تھیوری جنم لیتی ہے کہ کہیں یہ تیسری عالمی جنگ کے رنگ برنگے محاذوں کا نیا انداز تو نہیں ہے۔ اب ڈینگی مچھر ہمارے ناتواں جگر کو آزمانے کے لیے میدان میں ہے۔ کمزور اور ناتواں قومیں اکثر سازشی تھیوریوں پر یقین کر لیتی ہیں۔
قاتل ڈینگی مچھر ایک بار پھر پوری طاقت سے حملہ آور ہو چکا ہے۔ لاہور اور لائل پور اس کا خصوصی ہدف ہیں، ماضی کا لائل پور جسے اب فیصل آباد کہا جاتا ہے۔ دونوں شہروں سے اب تک 19 مریض شفاخانوں میں پہنچ چکے ہیں۔ کہ محکمہ صحت پنجاب کی ناقص کارکردگی اور بلدیاتی اداروں کے عدم وجود کی وجہ سے برسات کے شروع میں ہونے والا مچھر مار سپرے نہیں کیا جا سکا۔ کہ اس سے عام آدمی کا بھلا ہو سکتا تھا جو کہ ہماری بے رحم اور سنگ دل افسر شاہی کو منظور نہیں۔
برسات تو مچھروں کے لیے صدیوں سے محبوب اور مرغوب موسم رہا ہے۔ رم جھم اور کالی گھٹائیں کبھی گرمی کے مارے ہوئوں کے لیے سکھ کا سانس لاتی ہوں گی۔ اب تو اس دلبرانہ موسم کی خوش کن ادائوں کو قاتل ڈینگی نے ہم سے چھین لیا ہے۔ صاف شفاف پانی میں پرورش پانے والا یہ مچھر بڑی خاموشی سے کام دکھاتا ہے اس کا زہر آلود ڈنگ شاید اتنا تکلیف دہ تو نہیں ہوتا لیکن ہلاکت آفرین میں شیش ناگ سے کسی طرح کم نہیں۔
زہریلے سانپ کا کاٹا پانی نہیں مانگتا اور جان، جان آفرین کے سپرد کر کے 'سکھی' ہو جاتا ہے، لیکن ڈینگی کا شکار تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے گزشتہ 36 گھنٹوں میں ڈینگی کا شکار ہونے والے 8 نئے مریض سامنے آ چکے ہیں۔ یہ وباء ہے یا کیا ہے؟ بلائے جہاں تو بہرطور ہے۔
عام مچھر کی زندگی 8 سے 10 دن پر محیط ہوتی ہے۔ صاف پانی میں نشو و نما پانے والا ڈینگی کی زندگی کا دائرہ کار 10 دن اور 100 گز پر محیط ہوتا ہے اس لیے اگر ڈینگی کے لاروے کو جراثیمی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کا اثر گلی محلے تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں لاہور کی جدید آبادیاں اس کا ہدف بنیں، اندرون شہر کا علاقہ قدرے محفوظ رہا۔ حکومت پنجاب لاکھوں، کروڑوں روپے کی معلوماتی اشتہاری مہم چلاتی ہے جس میں گملوں، خالی قطعات اور ٹائروں سے پانی نکالنے کی ہدایات دی ہوتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ڈینگی مچھر کا ہدف صرف بڑے شہر ہی کیوں؟ چھوٹے قصبات اور دیہات میں اس کا ایک بھی کیس آج تک سامنے نہیں آیا۔
گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور شیخوپورہ کے اضلاع اپنے خوشبودار باسمتی چاولوں کی وجہ سے چہار دانگ عالم مشہور و معروف ہیں۔ اس کے لاکھوں ایکڑ رزعی رقبے پر 6 ماہ تک صاف پانی کھڑا رہتاہے کہ چاول کھانے والوں کی اکثریت کو شاید معلوم نہیں ہے کہ چاول کی فصل کے لیے کھلا پانی درکار ہوتا ہے، فصل پکنے تک کھیت میں پانی کا کھڑا رہنا لازم ہوتا ہے، اگر ڈینگی کا لاروا صاف پانی میں ہی پیدا ہوتا ہے تو ان اضلاع میں جو چاول کی تکون (Rice with Triangle) کہلاتے ہیں، کے لاکھوں ایکڑ سرسبز و شاداب کھیت تو اس کے لیے فطری جائے پیدائش (Breeding Place) ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ دس سال سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔پنجاب میں ڈینگی کے پھیلنے کی بنیادی وجہ بلدیاتی اداروں کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے اگست کے آغاز پر مچھر مار سپرے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے ڈینگی مچھر، نہتے اور بے بس شہریوں پر پوری طاقت سے حملہ آور ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈینگی بخار کے مبتلائے آزار مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔
جنوبی ایشیا ڈینگی مچھروں کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے جو کہ پہلے ہی غربت کی انتہا اور آبادی کے دبائو کا شکار ہو کر سسکیاں لے رہا ہے۔ ڈینگی کا پہلا حملہ 2005ء میں کراچی پر ہوا تھا۔ جب 20 افراد مارے گئے تھے جب کہ 3 سو افراد کو مبتلائے ڈینگی بخار ہوئے۔ اس وقت ڈینگی کا پہلا حملہ ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا تھا جس کے دوران120 افراد مارے گئے تھے جب کہ 5 ہزار مریض اسپتالوں میں زیرعلاج رہے۔ڈینگی مچھر پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن تھا لیکن غیر ضروری اور پیچیدہ طریق کار کی وجہ سے دونوں متحارب ممالک اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)، (World Health Organization) نے تجویز پیش کی ہے کہ پینے کے صاف پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنا کر اس جان لیوا وباء پر قابو پایا جا سکتا ہے تا کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی جمع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ قلت آب جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
2005ء میں ڈینگی کی پہلی یلغار سندھ پر ہوئی تھی جس نے 1089 افراد کو اپنا ہدف بنایا تھا جس میں 3 سو افراد کراچی کے اسپتالوں میں داخل کیے گئے تھے جب کہ ہمسایہ بھارت میں 3 ہزار افراد مبتلائے آزار ہوئے تھے۔ جن میں سے 35 مریض مارے گئے تھے اس وقت نئی دہلی پر ڈینگی کی یلغار چاروں اطراف سے ہوئی تھی اور 600 مریض اسپتالوں میں داخل کرائے گئے تھے۔ صرف 17 ہلاکتیں نئی دہلی میں ہوئی تھیں۔
حرف آخر یہ کہ اس وقت ہم ڈینگی کی جارحیت کا شکار ہیں، لاقانونیت، دہشت گردی پہلے ہی کیا کم وبال جان تھیں کہ اب ڈینگی مچھر تباہی پھیلانے پر تل گیا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن میرے دل میں وسوسے پیدا ہو رہے ہیں۔ میرے دماغ میں بار بار سازشی تھیوری جنم لیتی ہے کہ کہیں یہ تیسری عالمی جنگ کے رنگ برنگے محاذوں کا نیا انداز تو نہیں ہے۔ اب ڈینگی مچھر ہمارے ناتواں جگر کو آزمانے کے لیے میدان میں ہے۔ کمزور اور ناتواں قومیں اکثر سازشی تھیوریوں پر یقین کر لیتی ہیں۔