ناکامی کا آرٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی کامیابیاں انہی کے حصے میں آتی ہیں جو ناکام ہونا بھی جانتے ہیں
KARACHI:
ہم سب ناکامی کے لفظ سے نفرت کرتے ہیں، اسے کامیابی کا متضاد سمجھتے ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ناکامی سے بچا جائے۔
لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں کچھ پانے کے لئے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان ناکامیوں کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ناکامیوں سے گزرے بغیر آپ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ آپ کی قابلیت کا اصل میدان کونسا ہے۔ قدرت نے آپ کو کن صلاحیتوں سے نوازا ہے۔آپ کی پرواز کی حد کہاں تک ہے اور آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پروفائل میں چند ناکامیوں کا ذکر نہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں آپ نے خود کو پوری طرح ایکسپلور (EXPLORE) ہی نہیں کیا۔ ایسی زندگی' توانائی' جوش اور ولولے سے محروم ہوتی ہے۔
عظیم ناول نگار پاولو کویلہو کا کہنا ہے کہ صرف ایک چیز ایسی ہے جو خواب کے حصول کو ناممکن بناتی ہے اور وہ ہے ناکامی کا خوف۔ ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ زندگی میں اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے بہت نیچے رکھتے ہیں، وہ ہر صورت میں ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے انہیں اپنے ہر خواب سے دستبردار ہونا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں کچھ زیادہ پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو مختلف تجربات کرنے کا موقع دیں۔ ہم کچھ رسک لینے کے لئے تیار رہیں، اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں۔ کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کے اس سفر میں یقیناً ہم کچھ غلطیاں کریں گے۔ کچھ ناکامیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن زندگی میں کچھ قابل ذکر حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان عارضی ناکامیوں کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ان ناکامیوں کو Celebrate کریں۔ ایک بہت قابل سٹوڈنٹ اچھی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایک ماہر نفسیات کو اس سے گفتگو کا موقع ملا تو اس نے طالبہ کو بتایا کہ وہ ناکامی کے خوف میں مبتلا ہے۔ وہ کسی ایسی جگہ ملازمت کے لئے اپلائی ہی نہیں کر رہی کہ جہاں انکار کا اندیشہ ہو۔ اگرچہ وہ اپنے تعلیمی سفر میں شاندار کاکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی تھی لیکن اس نے ناکام ہونا نہیں سیکھا تھا۔ یہی چیز اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہی تھی۔
گزشتہ دنوں برطانیہ میں طالبات کے ایک سکول میں ناکامی کا ہفتہ منایا گیا جس کا مقصد بچوں کے ذہنوں سے ناکامی کا خوف نکالنا تھا۔ اساتذہ اور والدین نے بچوں کو اپنی ناکامیوں کے قصے سنائے اساتذہ نے بچوں کو بتایا کہ جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں۔ آزادی سے کریں رسک لیں اور تجربات سے نہ گھبرائیں اساتذہ کا یقین تھا کہ اسی طرح بچے اپنی اصل اہلیت اور صلاحیتیں جان سکیں گے۔ ناکام ہو جانے کو کامیابی کے عمل کا حصہ سمجھا جائے تو لوگ جرات مندی سے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ سیکھنے والا یہ رویہ اپنانے لگتے ہیں اس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ناکامی کا خوف ہمیں اپنی گرفت میں لے لے تو ڈرائیونگ کا ٹیسٹ' سٹیج پر تقریر کرنا اور کسی ملازمت کے انٹرویو جیسے چھوٹے چھوٹے ٹاسک ہمارے لئے خوف ناک مرحلے بن جاتے ہیں۔ بہتر رویہ یہی ہے کہ Opportunity (مواقعوں) کے دروازے پر خود دستک دی جائے، کسی سے مدد یا رہنمائی چاہیے ہو تو اپنی خواہش کا اظہار کر دیا جائے، اگر انکار سننے کو ملے تو اسے بھی قابل قبول اور نارمل بات سمجھا جائے۔
بعض اوقات کئی دفعہ انکار سننے کے بعد ایک ''ہاں'' ایسی مل جاتی ہے جو آپ کے لیے ترقی کا راستہ آسان بنا دیتی ہے۔ بچے چلنا کیسے سیکھتے ہیں؟ وہ غلطیاں کرنے اور بار بار کوشش کرنے سے سیکھتے ہیں۔ وہ چیزوں کو پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، چلنے کی کوشش کرتے ہیں، نیچے گرتے ہیں لیکن گرنے کے بعد دوبارہ کوشش شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے اور بالآخر چلنے لگتے ہیں۔ وہ سائیکل چلانا، پڑھنا اور لکھنا بھی اسی طرح سیکھتے ہیں، وہ اپنی غلطیوں اور تجربات سے سیکھتے ہیں اور ان سب چیزوں پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں کسی کام کے لئے ایک دو دفعہ کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں رستہ بدل لیتے ہیں۔ کوئی کامیابی آسانی سے نہیں ملتی، آپ کے رستے میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، یہ دراصل ان لوگوں کا راستہ روکنے کے لئے ہوتی ہیں جو اپنے مقصد اور جذبے میں سچے نہیں ہوتے۔
ناکامیاں کیوں اہم ہے، بزنس کی دنیا کے لوگ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ سر رچرڈ برینسن (Branson) دنیا کا معروف بزنس مین اور سرمایہ کار ہے، وہ چار سو کمپنیوں پر مشتمل ورجن گروپ کا بانی اور چیئرمین ہے اس کے خیال میں سرمایہ کار ان بزنس مینوں کے کام میں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جنہوں نے ماضی میں دو یا تین ناکامیوں کا سامنا کیا ہو۔ ان ناکامیوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ باہمت اور حوصلے والے ہیں اور مستقبل میں عارضی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر کامیاب بزنس میں (Entrepreneur) تین دفعہ ناکام ہوتا ہے ان ناکامیوں کے بعد وہ ایک کامیاب بزنس کا مالک بنتا ہے۔
بعض کامیاب ادارے اپنی ناکامیوں کی شرح پر بھی نظر رکھتے ہیں، اگر یہ شرح کم ہو تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ صحیح ٹریک پر نہیں، پھر وہ جرات مندی سے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ سافٹ ویئر کمپنیاں جب اپنی کوئی پراڈکٹ ریلیز کرتی ہیں تو ریلیز سے پہلے اسے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ پراڈکٹس ان ٹیسٹوں میں کئی بار فیل ثابت ہوتی ہیں اس کے بعد انجینئر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور ان کی خامیوں کا پتا لگاتے ہیں۔ انہیں دور کیا جاتا ہے پھر انہیں مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ انسانی معاملہ بھی ایسا ہی ہے جب تک ہم خود کو تجربات سے نہیں گزارتے اس وقت تک کامیابی کی معراج تک نہیں پہنچ پاتے۔ آپ نے یقینا ً ایسے بے شمار کامیاب اور مشہور لوگوں کے بارے میں سنا ہو گا جنہوں نے ابتدا میں ناکامیوں کا سامنا کیا لیکن وہ ڈٹے رہے، کسی عارضی ناکامی پر انہوں نے خود کو ناکام نہ سمجھا اور بالاخر کامیابی حاصل کی۔
دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ اتنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں خود سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ اپنی Skills کو بہتر بنانے کے لئے آپ کتنی محنت کر سکتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے تفریحی پارک ڈزنی لینڈ کی بنیاد رکھنے والے والٹ ڈزنی کو اخبار کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ اس میں تخلیقی صلاحیت کی کمی ہے۔ وہ کئی بار دیوالیہ ہوا اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ آج پوری دنیا ڈزنی لینڈ کی بنیاد رکھنے والے کی مداح ہے۔ کئی مصنفین ایسے ہیں جن کی کتابوں کو اشاعت کے لئے مسترد کر دیا گیا لیکن بالآخر وہ شائع ہوئیں اور مقبولیت کی بلندی کو پہنچیں۔ عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے اس کے بعد وہ جنوبی افریقہ میں انتخابات کے ذریعے پہلا صدر منتخب ہوا۔ اپنی قید کے دنوں میں اس کے پاس ولیم ارنسٹ پہلے کی نظم ہوا کرتی تھی، اس نظم کا آخری مصرعہ تھا کہ
میں اپنی تقدیر کا خالق ہوں
میں اپنی روح کا کیپٹن ہوں
مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسی ہی سوچ اور رویہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے وہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ ہم ہر ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہر ناکامی میں ہماری کامیابی کا بیج پوشیدہ ہوتا ہے۔ ناکامیوں سے گزرنے کے بعد ہی آپ کے ہاتھ میں ایسے ٹولز (Tools) آتے ہیں جن سے آپ کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ باسکٹ بال کے عظیم کھلاڑی مائیکل جارڈن کا کہنا ہے کہ میں زندگی میں کئی بار ناکام ہوا ہوں۔ اسی وجہ سے میں آج کامیاب ہوں۔
جب ہم اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے نیچے رکھتے ہیں تو نہ صرف اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی اچھے پروفیشنلز' موجددوں' بزنس مینوں' مصنفین اور آرٹسٹوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کا مکمل اظہار چاہتے ہیں، اپنے خوابوں کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں، ایک عام سطح سے بڑھ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو جرأت مندانہ سوچ اپنائیں۔ اپنے حصے کی ناکامیوں سے گزریں، کسی بھی ناکامی کو حتمی نہ سمجھیں اور آگے بڑھتے رہیں، آپ شاندار کامیابی کے قریب ہوتے جائیں گے۔
ہم سب ناکامی کے لفظ سے نفرت کرتے ہیں، اسے کامیابی کا متضاد سمجھتے ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ناکامی سے بچا جائے۔
لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں کچھ پانے کے لئے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان ناکامیوں کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ناکامیوں سے گزرے بغیر آپ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ آپ کی قابلیت کا اصل میدان کونسا ہے۔ قدرت نے آپ کو کن صلاحیتوں سے نوازا ہے۔آپ کی پرواز کی حد کہاں تک ہے اور آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پروفائل میں چند ناکامیوں کا ذکر نہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں آپ نے خود کو پوری طرح ایکسپلور (EXPLORE) ہی نہیں کیا۔ ایسی زندگی' توانائی' جوش اور ولولے سے محروم ہوتی ہے۔
عظیم ناول نگار پاولو کویلہو کا کہنا ہے کہ صرف ایک چیز ایسی ہے جو خواب کے حصول کو ناممکن بناتی ہے اور وہ ہے ناکامی کا خوف۔ ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ زندگی میں اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے بہت نیچے رکھتے ہیں، وہ ہر صورت میں ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے انہیں اپنے ہر خواب سے دستبردار ہونا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں کچھ زیادہ پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو مختلف تجربات کرنے کا موقع دیں۔ ہم کچھ رسک لینے کے لئے تیار رہیں، اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں۔ کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کے اس سفر میں یقیناً ہم کچھ غلطیاں کریں گے۔ کچھ ناکامیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن زندگی میں کچھ قابل ذکر حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان عارضی ناکامیوں کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ان ناکامیوں کو Celebrate کریں۔ ایک بہت قابل سٹوڈنٹ اچھی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایک ماہر نفسیات کو اس سے گفتگو کا موقع ملا تو اس نے طالبہ کو بتایا کہ وہ ناکامی کے خوف میں مبتلا ہے۔ وہ کسی ایسی جگہ ملازمت کے لئے اپلائی ہی نہیں کر رہی کہ جہاں انکار کا اندیشہ ہو۔ اگرچہ وہ اپنے تعلیمی سفر میں شاندار کاکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی تھی لیکن اس نے ناکام ہونا نہیں سیکھا تھا۔ یہی چیز اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہی تھی۔
گزشتہ دنوں برطانیہ میں طالبات کے ایک سکول میں ناکامی کا ہفتہ منایا گیا جس کا مقصد بچوں کے ذہنوں سے ناکامی کا خوف نکالنا تھا۔ اساتذہ اور والدین نے بچوں کو اپنی ناکامیوں کے قصے سنائے اساتذہ نے بچوں کو بتایا کہ جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں۔ آزادی سے کریں رسک لیں اور تجربات سے نہ گھبرائیں اساتذہ کا یقین تھا کہ اسی طرح بچے اپنی اصل اہلیت اور صلاحیتیں جان سکیں گے۔ ناکام ہو جانے کو کامیابی کے عمل کا حصہ سمجھا جائے تو لوگ جرات مندی سے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ سیکھنے والا یہ رویہ اپنانے لگتے ہیں اس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ناکامی کا خوف ہمیں اپنی گرفت میں لے لے تو ڈرائیونگ کا ٹیسٹ' سٹیج پر تقریر کرنا اور کسی ملازمت کے انٹرویو جیسے چھوٹے چھوٹے ٹاسک ہمارے لئے خوف ناک مرحلے بن جاتے ہیں۔ بہتر رویہ یہی ہے کہ Opportunity (مواقعوں) کے دروازے پر خود دستک دی جائے، کسی سے مدد یا رہنمائی چاہیے ہو تو اپنی خواہش کا اظہار کر دیا جائے، اگر انکار سننے کو ملے تو اسے بھی قابل قبول اور نارمل بات سمجھا جائے۔
بعض اوقات کئی دفعہ انکار سننے کے بعد ایک ''ہاں'' ایسی مل جاتی ہے جو آپ کے لیے ترقی کا راستہ آسان بنا دیتی ہے۔ بچے چلنا کیسے سیکھتے ہیں؟ وہ غلطیاں کرنے اور بار بار کوشش کرنے سے سیکھتے ہیں۔ وہ چیزوں کو پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، چلنے کی کوشش کرتے ہیں، نیچے گرتے ہیں لیکن گرنے کے بعد دوبارہ کوشش شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹتے اور بالآخر چلنے لگتے ہیں۔ وہ سائیکل چلانا، پڑھنا اور لکھنا بھی اسی طرح سیکھتے ہیں، وہ اپنی غلطیوں اور تجربات سے سیکھتے ہیں اور ان سب چیزوں پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں کسی کام کے لئے ایک دو دفعہ کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں رستہ بدل لیتے ہیں۔ کوئی کامیابی آسانی سے نہیں ملتی، آپ کے رستے میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، یہ دراصل ان لوگوں کا راستہ روکنے کے لئے ہوتی ہیں جو اپنے مقصد اور جذبے میں سچے نہیں ہوتے۔
ناکامیاں کیوں اہم ہے، بزنس کی دنیا کے لوگ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ سر رچرڈ برینسن (Branson) دنیا کا معروف بزنس مین اور سرمایہ کار ہے، وہ چار سو کمپنیوں پر مشتمل ورجن گروپ کا بانی اور چیئرمین ہے اس کے خیال میں سرمایہ کار ان بزنس مینوں کے کام میں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جنہوں نے ماضی میں دو یا تین ناکامیوں کا سامنا کیا ہو۔ ان ناکامیوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ باہمت اور حوصلے والے ہیں اور مستقبل میں عارضی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر کامیاب بزنس میں (Entrepreneur) تین دفعہ ناکام ہوتا ہے ان ناکامیوں کے بعد وہ ایک کامیاب بزنس کا مالک بنتا ہے۔
بعض کامیاب ادارے اپنی ناکامیوں کی شرح پر بھی نظر رکھتے ہیں، اگر یہ شرح کم ہو تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ صحیح ٹریک پر نہیں، پھر وہ جرات مندی سے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ سافٹ ویئر کمپنیاں جب اپنی کوئی پراڈکٹ ریلیز کرتی ہیں تو ریلیز سے پہلے اسے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ پراڈکٹس ان ٹیسٹوں میں کئی بار فیل ثابت ہوتی ہیں اس کے بعد انجینئر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور ان کی خامیوں کا پتا لگاتے ہیں۔ انہیں دور کیا جاتا ہے پھر انہیں مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ انسانی معاملہ بھی ایسا ہی ہے جب تک ہم خود کو تجربات سے نہیں گزارتے اس وقت تک کامیابی کی معراج تک نہیں پہنچ پاتے۔ آپ نے یقینا ً ایسے بے شمار کامیاب اور مشہور لوگوں کے بارے میں سنا ہو گا جنہوں نے ابتدا میں ناکامیوں کا سامنا کیا لیکن وہ ڈٹے رہے، کسی عارضی ناکامی پر انہوں نے خود کو ناکام نہ سمجھا اور بالاخر کامیابی حاصل کی۔
دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ اتنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں خود سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ اپنی Skills کو بہتر بنانے کے لئے آپ کتنی محنت کر سکتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے تفریحی پارک ڈزنی لینڈ کی بنیاد رکھنے والے والٹ ڈزنی کو اخبار کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ اس میں تخلیقی صلاحیت کی کمی ہے۔ وہ کئی بار دیوالیہ ہوا اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ آج پوری دنیا ڈزنی لینڈ کی بنیاد رکھنے والے کی مداح ہے۔ کئی مصنفین ایسے ہیں جن کی کتابوں کو اشاعت کے لئے مسترد کر دیا گیا لیکن بالآخر وہ شائع ہوئیں اور مقبولیت کی بلندی کو پہنچیں۔ عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے اس کے بعد وہ جنوبی افریقہ میں انتخابات کے ذریعے پہلا صدر منتخب ہوا۔ اپنی قید کے دنوں میں اس کے پاس ولیم ارنسٹ پہلے کی نظم ہوا کرتی تھی، اس نظم کا آخری مصرعہ تھا کہ
میں اپنی تقدیر کا خالق ہوں
میں اپنی روح کا کیپٹن ہوں
مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسی ہی سوچ اور رویہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے وہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ ہم ہر ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہر ناکامی میں ہماری کامیابی کا بیج پوشیدہ ہوتا ہے۔ ناکامیوں سے گزرنے کے بعد ہی آپ کے ہاتھ میں ایسے ٹولز (Tools) آتے ہیں جن سے آپ کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ باسکٹ بال کے عظیم کھلاڑی مائیکل جارڈن کا کہنا ہے کہ میں زندگی میں کئی بار ناکام ہوا ہوں۔ اسی وجہ سے میں آج کامیاب ہوں۔
جب ہم اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے نیچے رکھتے ہیں تو نہ صرف اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی اچھے پروفیشنلز' موجددوں' بزنس مینوں' مصنفین اور آرٹسٹوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کا مکمل اظہار چاہتے ہیں، اپنے خوابوں کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں، ایک عام سطح سے بڑھ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو جرأت مندانہ سوچ اپنائیں۔ اپنے حصے کی ناکامیوں سے گزریں، کسی بھی ناکامی کو حتمی نہ سمجھیں اور آگے بڑھتے رہیں، آپ شاندار کامیابی کے قریب ہوتے جائیں گے۔