عید کےتحائف اورنجی چینلز
ایک تحفہ اور بھی سسکتے ہوئے لوگوں کو ملا وہ ہے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔
عید بہت سے غموں اور رونقوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی، ماہِ رمضان میں مستقل ٹارگٹ کلنگ جاری رہی، جس کے نتیجے میں ایک ایک دن میں 10 سے 15 بلکہ کسی دن ہلاکتوں کی تعداد تو 16-17 تک پہنچ گئی۔ لاشیں گرائی گئیں، گھروںمیں صفِ ماتم بچھ گئی، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی تعزیتی بیان تک نہ آیا اور نہ ہی روک تھام کی گئی۔ شہر کراچی مکمل طور پر درندوں کے حوالے کردیا گیا ہے، جہاں بعض اوقات تو راہگیر لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔
ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، کوئی غلطی نہیں تھی، سیاست سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا نہ ہی بھتہ مافیا سے کچھ لین دین تھا لیکن بے چارے ناکردہ گناہوں کی سزا کے مرتکب ہوئے، نہ ان کے لیے ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے نہ تحقیقات کی جاتی ہے، نہ عدالت تک مقدمات جاسکتے ہیں۔ لاشوں کا سلسلہ عید کے دنوں تک جاری رہا ۔ نہ جانے کب تک کراچی کی شاہراہیں خون آلود ہوتی رہیں گی اور سیاسی افق پر کامیابی و کامرانی جلوہ گر رہے گی، اور عوام بھوک و افلاس کے جنگلوں میں بھٹکتی رہے گی، اپنے بچّوں کو قتل گاہوں میں بیدردی سے مرتا دیکھ کر کچھ نہ کرسکیں گے، ہائے کیا بے بسی سی بے بسی ہے۔
عید کے تیسرے دن بھی اپنوں نے ہی اپنوں کو موت کا تحفہ اس طرح پیش کیا کہ دیکھنے والے ظلم کی داستان کو دیکھ کر سکتے میں آگئے اور سانحۂ سیالکوٹ کی یاد تازہ ہوگئی، کس طرح جنگلی وحشیوں کی طرح دو نوجوانوں پر ٹنڈو آدم میں تشدد کیا مجمع جمع رہا، عینی شاہدین کے بقول پولیس بھی تماش بین افراد میں شامل تھی، مجال ہے مارنے والوں کو کسی نے روکا ہو، اتنا مارا کہ ایک تو اس دنیا سے کوچ کر گیا اور دوسرا نزاع کے عالم میں ہے، بچ گیا تو اس کی قسمت ،جب اپنے ہی لوگ آپس میں ملک و ملت، دینِ اسلام کے ناتے ایک دوسرے پر رحم نہیں کھائیں گے تو بھلا غیر قوم کس طرح اپنے ازلی دشمن کو جان سے مارنے کے مواقعے کو گنوائے گی اور یہ مواقعے پاکستان کی اعلیٰ ترین شخصیات نے ہی مہیا کیے ہیں۔
امریکا نے شمالی وزیرستان میں عید کے تحائف اموات کی شکل میں بانٹے اور مسلسل ڈرون حملے کیے گئے۔ ان چار ڈرون حملوں میں 26 افراد مارے جاچکے ہیں اور عیدِ سعید کی ادھر آمد ہوئی اور ادھر دشمن اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہوا۔ پاکستان کا یہ احسان بھی بھول گیا کہ حال ہی میں افواج پاکستان کے سربراہوں اور حکومت نے عوام اور بعض سیاسی و مذہبی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود امریکا کو خاموشی سے کرکے ڈرون حملوں کی اجازت بے حد آسانی اور بغیر کسی شرائط و ضوابط کے دے دی گئی بالکل اسی طرح کہ آبیل مجھے مار، ہم تو ہیں ہی پٹنے اور رسوا و ذلیل ہونے کے لیے۔
وزیر داخلہ رحمن ملک نے عیدالفطر پر اپنے وعدے کے مطابق موبائل فون سروس بند کردی، یقیناً ان کے اس عمل سے مثبت نتائج سامنے آئے اور قوم بڑے سانحات سے بچت ہوگئی۔ لیکن یہ کیا؟ عید گزرتے ہی قوم کو ایک تحفہ اور دینے کی بات کی گئی ہے وہ ہے کہ سندھ حکومت نے پری پیڈ موبائل فون بند کرنے کی حمایت کردی۔ یہ حمایت عوام کے لیے بے حد مہنگی پڑے گی اور حکومت کے لیے نفع بخش۔ ذرا سوچیے اور ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ پاکستان جیسے غریب ترین، قلاش ملک میں بے شمار گھرانے ایسے ہیں جن کے ذاتی مکانات نہیں ہیں، اسی وجہ سے PTCL فون کی سہولت بھی میسر نہیں، انھی لوگوں میں مزدور پیشہ معمولی نوکریاں اور ٹھیلے پتھارے لگانے والے بھی شامل ہیں۔ بے شمار لوگ کراچی میں روزگار کی غرض سے آتے ہیں، ان لوگوں کے لیے موبائل فون ایک ایسا سہارا ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنے اہلِ خانہ کی خیریت آسانی کے ساتھ لے لیتے ہیں۔
اسی طرح ان کے گھر والوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ رابطہ کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔ 20 سے 30 روپے زیادہ سے زیادہ 50 روپے کا بیلنس ڈلوائیں اور اپنی خیر خیریت یا کسی خاص واقعے سے آگاہ کردیں، اب اگر ماہانہ کالز کا بل آنے لگا ، تو عوام کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ ماہانہ فیس 200-100 تو ہوگی نہیں، ہاں اگر حکومت کو اپنے لوگوں کا ذرا سا بھی خیال ہے تو بل کی رقم اتنی رکھیں کہ ہر شخص آسانی سے ادا کرسکے اور بعد میں اس بل میں کسی بھی قیمت پر اضافہ نہ کیا جائے، حکومت کی یہ منطق کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا تو بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ آخر پاکستان کی فورسز خاص طور پر پولیس کو کس کام کے لیے بھرتی کیا گیا ہے، پولیس اور رینجرز اپنے فرائض کو نبھانے کے لیے اپنے آپ کو بے بس کیوں پاتی ہے۔
جرائم کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ہیں اور قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے۔ متاثرین ان کا چہرہ دیکھنے اور انھیں تختۂ دار پر دیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ ظالم و سفّاک مجرموں کی حمایت کی جائے اور مظلوم عوام پر دن دہاڑے تشدد کیا جائے۔ پاکستان میں بدترین بربریت کا مظاہرہ سرعام کرنا ہر ظالم شخص نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اپنے فرائض سے غفلت کو اپنا شعار سمجھ لیا ہے۔ چند ماہ سے درندگی کی ایک نئی کہانی اور سامنے آئی ہے کہ بسوں سے اتار کر قتل کردیا جاتا ہے اور مجرموں سے کوئی پوچھنے والا نہیں، انھیں گرفتار کرنے والا نہیں۔
پولیس اس وقت کہاں ہوتی ہے؟ جب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مسافروں کا تحفظ نہیں ہے تو کم از کم ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کی توجہ خاص مسائل سے ہٹانے کے لیے اس قسم کے سانحات کو منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔ مہنگائی، گیس، بجلی اور پانی کے مسائل میں لوگوں کو اس قدر مبتلا کردیا گیا ہے کہ انھیں اپنی تکلیفوں سے فرصت ملے تو وہ سوچیں کہ ہمارے ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں کن دشمن عناصر کا ہاتھ ہے، ان کا قلع قمع کس طرح ممکن ہے، لیکن بے چارے عوام اپنے دکھوں اور غموں میں مبتلا ہیں۔ عورتیں جوان بیٹوں اور شوہروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی ہیں۔ بھوکا پیٹ، ضروریاتِ زندگی سرے سے غائب اور زخمی روح، نہ زندہ نہ مردہ گویا خلا میں لٹکا ہوا زخمی وجود، درد کا کوئی درماں نہیں۔ بس سیاست چمکتی رہے اور حکومت چلتی رہے اور اﷲ اﷲ خیر صلاّ۔
ایک تحفہ اور بھی سسکتے ہوئے لوگوں کو ملا وہ ہے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ تنخواہیں بڑھائی نہیں گئی ہیں۔ ذریعۂ معاش ہے نہیں۔ زمین و جائیداد بھی نہیں۔ اکثریت قلاش لوگوں کی ہے، کس طرح اس مہنگائی اور ایندھن کی قیمتوں کا مقابلہ کریں۔ کیا گھروں میں کھانا نہ پکے، موٹر سائیکل رکشا اور چنگ چی جیسی سواریوں کو تالا لگادیا جائے چونکہ سی این جی اور پٹرول مہنگا ہوگیا ہے۔
ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، کوئی غلطی نہیں تھی، سیاست سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا نہ ہی بھتہ مافیا سے کچھ لین دین تھا لیکن بے چارے ناکردہ گناہوں کی سزا کے مرتکب ہوئے، نہ ان کے لیے ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے نہ تحقیقات کی جاتی ہے، نہ عدالت تک مقدمات جاسکتے ہیں۔ لاشوں کا سلسلہ عید کے دنوں تک جاری رہا ۔ نہ جانے کب تک کراچی کی شاہراہیں خون آلود ہوتی رہیں گی اور سیاسی افق پر کامیابی و کامرانی جلوہ گر رہے گی، اور عوام بھوک و افلاس کے جنگلوں میں بھٹکتی رہے گی، اپنے بچّوں کو قتل گاہوں میں بیدردی سے مرتا دیکھ کر کچھ نہ کرسکیں گے، ہائے کیا بے بسی سی بے بسی ہے۔
عید کے تیسرے دن بھی اپنوں نے ہی اپنوں کو موت کا تحفہ اس طرح پیش کیا کہ دیکھنے والے ظلم کی داستان کو دیکھ کر سکتے میں آگئے اور سانحۂ سیالکوٹ کی یاد تازہ ہوگئی، کس طرح جنگلی وحشیوں کی طرح دو نوجوانوں پر ٹنڈو آدم میں تشدد کیا مجمع جمع رہا، عینی شاہدین کے بقول پولیس بھی تماش بین افراد میں شامل تھی، مجال ہے مارنے والوں کو کسی نے روکا ہو، اتنا مارا کہ ایک تو اس دنیا سے کوچ کر گیا اور دوسرا نزاع کے عالم میں ہے، بچ گیا تو اس کی قسمت ،جب اپنے ہی لوگ آپس میں ملک و ملت، دینِ اسلام کے ناتے ایک دوسرے پر رحم نہیں کھائیں گے تو بھلا غیر قوم کس طرح اپنے ازلی دشمن کو جان سے مارنے کے مواقعے کو گنوائے گی اور یہ مواقعے پاکستان کی اعلیٰ ترین شخصیات نے ہی مہیا کیے ہیں۔
امریکا نے شمالی وزیرستان میں عید کے تحائف اموات کی شکل میں بانٹے اور مسلسل ڈرون حملے کیے گئے۔ ان چار ڈرون حملوں میں 26 افراد مارے جاچکے ہیں اور عیدِ سعید کی ادھر آمد ہوئی اور ادھر دشمن اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہوا۔ پاکستان کا یہ احسان بھی بھول گیا کہ حال ہی میں افواج پاکستان کے سربراہوں اور حکومت نے عوام اور بعض سیاسی و مذہبی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود امریکا کو خاموشی سے کرکے ڈرون حملوں کی اجازت بے حد آسانی اور بغیر کسی شرائط و ضوابط کے دے دی گئی بالکل اسی طرح کہ آبیل مجھے مار، ہم تو ہیں ہی پٹنے اور رسوا و ذلیل ہونے کے لیے۔
وزیر داخلہ رحمن ملک نے عیدالفطر پر اپنے وعدے کے مطابق موبائل فون سروس بند کردی، یقیناً ان کے اس عمل سے مثبت نتائج سامنے آئے اور قوم بڑے سانحات سے بچت ہوگئی۔ لیکن یہ کیا؟ عید گزرتے ہی قوم کو ایک تحفہ اور دینے کی بات کی گئی ہے وہ ہے کہ سندھ حکومت نے پری پیڈ موبائل فون بند کرنے کی حمایت کردی۔ یہ حمایت عوام کے لیے بے حد مہنگی پڑے گی اور حکومت کے لیے نفع بخش۔ ذرا سوچیے اور ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ پاکستان جیسے غریب ترین، قلاش ملک میں بے شمار گھرانے ایسے ہیں جن کے ذاتی مکانات نہیں ہیں، اسی وجہ سے PTCL فون کی سہولت بھی میسر نہیں، انھی لوگوں میں مزدور پیشہ معمولی نوکریاں اور ٹھیلے پتھارے لگانے والے بھی شامل ہیں۔ بے شمار لوگ کراچی میں روزگار کی غرض سے آتے ہیں، ان لوگوں کے لیے موبائل فون ایک ایسا سہارا ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنے اہلِ خانہ کی خیریت آسانی کے ساتھ لے لیتے ہیں۔
اسی طرح ان کے گھر والوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ رابطہ کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔ 20 سے 30 روپے زیادہ سے زیادہ 50 روپے کا بیلنس ڈلوائیں اور اپنی خیر خیریت یا کسی خاص واقعے سے آگاہ کردیں، اب اگر ماہانہ کالز کا بل آنے لگا ، تو عوام کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ ماہانہ فیس 200-100 تو ہوگی نہیں، ہاں اگر حکومت کو اپنے لوگوں کا ذرا سا بھی خیال ہے تو بل کی رقم اتنی رکھیں کہ ہر شخص آسانی سے ادا کرسکے اور بعد میں اس بل میں کسی بھی قیمت پر اضافہ نہ کیا جائے، حکومت کی یہ منطق کہ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا تو بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ آخر پاکستان کی فورسز خاص طور پر پولیس کو کس کام کے لیے بھرتی کیا گیا ہے، پولیس اور رینجرز اپنے فرائض کو نبھانے کے لیے اپنے آپ کو بے بس کیوں پاتی ہے۔
جرائم کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ہیں اور قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے۔ متاثرین ان کا چہرہ دیکھنے اور انھیں تختۂ دار پر دیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ ظالم و سفّاک مجرموں کی حمایت کی جائے اور مظلوم عوام پر دن دہاڑے تشدد کیا جائے۔ پاکستان میں بدترین بربریت کا مظاہرہ سرعام کرنا ہر ظالم شخص نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اپنے فرائض سے غفلت کو اپنا شعار سمجھ لیا ہے۔ چند ماہ سے درندگی کی ایک نئی کہانی اور سامنے آئی ہے کہ بسوں سے اتار کر قتل کردیا جاتا ہے اور مجرموں سے کوئی پوچھنے والا نہیں، انھیں گرفتار کرنے والا نہیں۔
پولیس اس وقت کہاں ہوتی ہے؟ جب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مسافروں کا تحفظ نہیں ہے تو کم از کم ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کی توجہ خاص مسائل سے ہٹانے کے لیے اس قسم کے سانحات کو منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔ مہنگائی، گیس، بجلی اور پانی کے مسائل میں لوگوں کو اس قدر مبتلا کردیا گیا ہے کہ انھیں اپنی تکلیفوں سے فرصت ملے تو وہ سوچیں کہ ہمارے ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں کن دشمن عناصر کا ہاتھ ہے، ان کا قلع قمع کس طرح ممکن ہے، لیکن بے چارے عوام اپنے دکھوں اور غموں میں مبتلا ہیں۔ عورتیں جوان بیٹوں اور شوہروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی ہیں۔ بھوکا پیٹ، ضروریاتِ زندگی سرے سے غائب اور زخمی روح، نہ زندہ نہ مردہ گویا خلا میں لٹکا ہوا زخمی وجود، درد کا کوئی درماں نہیں۔ بس سیاست چمکتی رہے اور حکومت چلتی رہے اور اﷲ اﷲ خیر صلاّ۔
ایک تحفہ اور بھی سسکتے ہوئے لوگوں کو ملا وہ ہے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ تنخواہیں بڑھائی نہیں گئی ہیں۔ ذریعۂ معاش ہے نہیں۔ زمین و جائیداد بھی نہیں۔ اکثریت قلاش لوگوں کی ہے، کس طرح اس مہنگائی اور ایندھن کی قیمتوں کا مقابلہ کریں۔ کیا گھروں میں کھانا نہ پکے، موٹر سائیکل رکشا اور چنگ چی جیسی سواریوں کو تالا لگادیا جائے چونکہ سی این جی اور پٹرول مہنگا ہوگیا ہے۔