اناس بینانی امرہوگئے
اناس صرف دماغ کو نہیں ہاتھوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔
NEW DEHLI:
ایک نوجوان انقلابی ستارہ یکم مئی 2010 کو ہم سے بچھڑ گیا۔ اناس بینانی عرف یحییٰ بن حمزہ اپنی پسندیدہ فٹ بال ٹیم کا کھیل دیکھنے کے لیے راستے میں جاتے ہوئے حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ ''مغرب ڈی ٹیٹوان'' مراکش کی ایک ایسی شاہراہ ہے جہاں آئے روز کے حادثات معمول کا واقعہ ہیں۔ ٹریفک قوانین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال 4000 راہ گیر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ حادثات یہاں فرانس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کار سواروں سے 15 گنا زیادہ پیدل چلنے والے جان سے جاتے رہتے ہیں۔ اناس اس بے حسی، غفلت اور لاقانونیت کے خلاف لڑتے آرہے تھے۔
حکمران مکمل طور پر سڑکوں پر لوگوں کو تحفظات دینے میں غیر متوجہ، نااہل اور کسی قسم کے اخراجات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ شاہی خاندان اربوں درہم ننگیئرز اور کاسابلانکا کے درمیان تیز رفتار ریل گاڑیوں پر خرچ کرتا ہے جو سڑکوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتی ہیں۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے، یہاں 2011 میں 6000 سے زیادہ افراد پیدل اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک حادثات میں اپنی جانوں سے جاتے رہے۔ کراچی ایک کروڑ سے زائد کی آبادی والے شہر میں کہیں بھی زیبرا کراسنگ نہیں ہے۔
چند سال قبل کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سابق سرگرم رہنما کامریڈ جاوید شکور نارتھ ناظم آباد، سٹی اسپتال کے نزدیک سڑک پار کرتے ہوئے ایک بس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ٹریفک کی غفلت، نااہلیت اور لاقانونیت کی وجہ سے نہ جانے کتنے معصوم اور بے قصور لوگ جان سے جاتے رہتے ہیں۔ کامریڈ اناس مراکش میں نوجوان مارکسٹ میں شامل ہوئے اور نوجوانوں کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ بعد ازاں مراکش میں ''کمیونسٹ لیگ آف ایکشن'' قائم کی جو کہ مراکش میں (IMT) ''انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈینسی'' کے ایک سیکشن کے طور پر کام کررہا ہے۔
مراکش کے بہت سے نوجوان طلبا کی طرح یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد بھی اناس کو ملازمت نہ ملی۔ اس لیے وہ ملازمت کی تلاش ترک کرکے ZOF نامی نوجوان تنظیم میں شامل ہوگئے اور بعد ازاں اس کے رہنما ٹھہرے۔ انھوں نے مکمل طور پر پوری لگن سے نئی نسل کو کمیونزم کے نظریات اور غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے نظریات سے باشعور اور سرگرم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب ان کی زندگی کی بنیادی کاوش اور مقصد تھا۔ کامریڈ جین ڈیوال کہتے ہیں کہ اناس سے پہلی ملاقات میں ہی ان کی مسکراہٹ نے ہمیں متوجہ کیا۔ وہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے بات کرتے تھے جیسے کہ 'ایک عظیم تخلیقی مسکراہٹ'۔ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری اور اپنے مستقبل پر انھیں مکمل بھروسہ تھا۔ وہ بامقصد مزاح پسند کرتے تھے۔ وہ ساتھیوں اور دوستوں میں آمروں کے خلاف پروقار انداز میں تنقید کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اناس اپنی سرگرمی میں مگن رہتے تھے۔
انتقال سے چند ماہ قبل انھوں نے کامریڈ ڈیوال کو بڑے یقین سے کہا تھا کہ میں ''بغاوت میں دلیل'' نامی کتاب جسے ٹیڈ گرانٹ اور ایلین ووڈز نے لکھا ہے، عربی میں ترجمہ کروں گا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بہتر طور پر فلسفے کو سمجھے بغیر ٹھوس تنظیم کاری ممکن نہیں۔ اناس ایک بین الاقوامیت پسند کامریڈ تھے جو ہر قسم کے تعصب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اسی لیے وہ کبھی بھی مغربی صحارا کے مزدوروں اور نوجوانوں کی طرف داری کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔
وہ اپنے ایک مشترکہ مضمون میں Laayoune لایونی تحریک پر حقیقت پسندانہ بین الاقوامیت پر مبنی مغربی صحارا پر ابھرنے والی 'الآیون' بغاوت پر اپنے درست موقف کا برملا اظہار کرتے تھے۔اناس چھوٹے سہی مگر درست تناظر اور مقاصد کے ساتھ کمیونسٹ لیگ آف ایکشن پر فخر کرتے تھے۔ ہر چند کہ نامساعد حالات اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود انھوں نے تقریباً 500 کے لگ بھگ مضامین www.marxy.com ویب سائٹ اور رسالے کے لیے لکھے۔ ان اوقات میں دس لاکھ افراد نے ان کے مضامین پڑھے۔
اناس صرف دماغ کو نہیں ہاتھوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔ ان ہاتھوں سے بینرز بنائے، لہرانے کے لیے پولز پر باندھے، اجلاس کے کمرے کی جھاڑو دی اور دوسرے ساتھیوں کے لیے کھانا پکایا۔ تمام نوجوانوں کے لیے ان کا دل محبت سے لبریز ہوتا تھا۔ ان کے آخری فیس بک پوسٹ میں یہ پیغام آیا جب کاسابلانکا میں ہزاروں مزدوروں کا مظاہرہ ہوا تھا، دس ہزار مزدور ملک کے تجارتی دارالخلافہ میں سیاسی اور ٹریڈ یونین کی آزادی کے لیے مراکش میں فیصلہ کن مظاہرہ کررہے تھے، اناس بینانی خوشی سے پھٹا پڑرہا تھا۔ جب بس میں فٹ بال کی دونوں ٹیمیں گانے گارہی تھیں تو اس وقت بینانی مزدوروں کے مظاہرے کی اہمیت پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
وہ اس طرح مرے جیسے زندگی سے بھرپور ہوں۔ اناس اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ جب تک ان کا نظریہ زندہ ہے، اس وقت تک وہ نہیں مریں گے۔ انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈینسی اور اِن ڈیفنس آف مارکسزم کے ادارتی بورڈ کے کامریڈز، اناس کے والدین، ان کی بہن، ان کا برادر نسبتی، گرل فرینڈ اور ان کے تمام کامریڈز اور دوستوں جو لوگ ان کے ساتھ رہے اور ان کی جدوجہد کے ساتھی تھے، ان سب سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا سیکشن اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین اناس کی ناگہانی موت پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور مراکش کے کامریڈز اور IMT کے دنیا بھر کے ساتھیوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔
انسان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دوسروں کے کام آئے۔ یہ بات عظیم سائنس داں آئن اسٹائن نے ''دنیا میری نظروں میں'' نامی ایک مضمون میں کی کہ ''ہم اپنے ہمسایوں کے لیے وجود رکھتے ہیں، جن کی مسکراہٹ اور بھلائی پر ہماری خوشیوں کا انحصار ہے اور دوسرے وہ اجنبی جن سے ہم ہمدردی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، سو بار میں اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری اندرونی اور بیرونی زندگی دوسروں کی محنت پر انحصار کرتی ہے، خواہ باحیات ہوں یا آنجہانی۔ مجھے بھی اپنی جانب سے اِتنا ہی وقف کرنا چاہیے جتنا میں نے ان سے حاصل کیا ہے اور کررہے ہیں۔
میں اپنی زندگی کو سختی سے سادگی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ اور مجھے یہ اکثر احساس ہوا ہے کہ میں اپنے ہمسایوں کی زاید محنت کی مقدار حاصل کررہا ہوں۔ عام طور پر لوگوں کی یہ عمومی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو اور عیش و عشرت سے زندگی گزارے، جسے میں ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں اپنے گھر، ملک، خاندان اور دوستوں کے بندھنوں سے اپنے آپ کو بالا سمجھتا ہوں۔ جنگ میرے لیے نفرت آمیز اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ اس کی تجارت کا حصّہ بننے کے بجائے میں اپنے آپ کو تباہ کرنے کو ترجیح دوں گا۔''
کامریڈ اناس بینانی نے بھی اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں سماج، محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے وقف کر رکھا تھا اور تادمِ مرگ محنت کشوں کی جدوجہد سے خوشی میں پھولے نہیں سما پارہے تھے اور کتنے عظیم تھے کہ اسی حالتِ خوشی میں جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن نظریاتی طور پر نہیں بلکہ ان کی شہادت ان کے نظریے کو زیادہ پختہ کر گئی۔
ایک نوجوان انقلابی ستارہ یکم مئی 2010 کو ہم سے بچھڑ گیا۔ اناس بینانی عرف یحییٰ بن حمزہ اپنی پسندیدہ فٹ بال ٹیم کا کھیل دیکھنے کے لیے راستے میں جاتے ہوئے حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ ''مغرب ڈی ٹیٹوان'' مراکش کی ایک ایسی شاہراہ ہے جہاں آئے روز کے حادثات معمول کا واقعہ ہیں۔ ٹریفک قوانین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال 4000 راہ گیر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ حادثات یہاں فرانس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کار سواروں سے 15 گنا زیادہ پیدل چلنے والے جان سے جاتے رہتے ہیں۔ اناس اس بے حسی، غفلت اور لاقانونیت کے خلاف لڑتے آرہے تھے۔
حکمران مکمل طور پر سڑکوں پر لوگوں کو تحفظات دینے میں غیر متوجہ، نااہل اور کسی قسم کے اخراجات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ شاہی خاندان اربوں درہم ننگیئرز اور کاسابلانکا کے درمیان تیز رفتار ریل گاڑیوں پر خرچ کرتا ہے جو سڑکوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتی ہیں۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے، یہاں 2011 میں 6000 سے زیادہ افراد پیدل اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک حادثات میں اپنی جانوں سے جاتے رہے۔ کراچی ایک کروڑ سے زائد کی آبادی والے شہر میں کہیں بھی زیبرا کراسنگ نہیں ہے۔
چند سال قبل کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سابق سرگرم رہنما کامریڈ جاوید شکور نارتھ ناظم آباد، سٹی اسپتال کے نزدیک سڑک پار کرتے ہوئے ایک بس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ٹریفک کی غفلت، نااہلیت اور لاقانونیت کی وجہ سے نہ جانے کتنے معصوم اور بے قصور لوگ جان سے جاتے رہتے ہیں۔ کامریڈ اناس مراکش میں نوجوان مارکسٹ میں شامل ہوئے اور نوجوانوں کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ بعد ازاں مراکش میں ''کمیونسٹ لیگ آف ایکشن'' قائم کی جو کہ مراکش میں (IMT) ''انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈینسی'' کے ایک سیکشن کے طور پر کام کررہا ہے۔
مراکش کے بہت سے نوجوان طلبا کی طرح یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد بھی اناس کو ملازمت نہ ملی۔ اس لیے وہ ملازمت کی تلاش ترک کرکے ZOF نامی نوجوان تنظیم میں شامل ہوگئے اور بعد ازاں اس کے رہنما ٹھہرے۔ انھوں نے مکمل طور پر پوری لگن سے نئی نسل کو کمیونزم کے نظریات اور غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے نظریات سے باشعور اور سرگرم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب ان کی زندگی کی بنیادی کاوش اور مقصد تھا۔ کامریڈ جین ڈیوال کہتے ہیں کہ اناس سے پہلی ملاقات میں ہی ان کی مسکراہٹ نے ہمیں متوجہ کیا۔ وہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے بات کرتے تھے جیسے کہ 'ایک عظیم تخلیقی مسکراہٹ'۔ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری اور اپنے مستقبل پر انھیں مکمل بھروسہ تھا۔ وہ بامقصد مزاح پسند کرتے تھے۔ وہ ساتھیوں اور دوستوں میں آمروں کے خلاف پروقار انداز میں تنقید کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اناس اپنی سرگرمی میں مگن رہتے تھے۔
انتقال سے چند ماہ قبل انھوں نے کامریڈ ڈیوال کو بڑے یقین سے کہا تھا کہ میں ''بغاوت میں دلیل'' نامی کتاب جسے ٹیڈ گرانٹ اور ایلین ووڈز نے لکھا ہے، عربی میں ترجمہ کروں گا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بہتر طور پر فلسفے کو سمجھے بغیر ٹھوس تنظیم کاری ممکن نہیں۔ اناس ایک بین الاقوامیت پسند کامریڈ تھے جو ہر قسم کے تعصب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اسی لیے وہ کبھی بھی مغربی صحارا کے مزدوروں اور نوجوانوں کی طرف داری کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔
وہ اپنے ایک مشترکہ مضمون میں Laayoune لایونی تحریک پر حقیقت پسندانہ بین الاقوامیت پر مبنی مغربی صحارا پر ابھرنے والی 'الآیون' بغاوت پر اپنے درست موقف کا برملا اظہار کرتے تھے۔اناس چھوٹے سہی مگر درست تناظر اور مقاصد کے ساتھ کمیونسٹ لیگ آف ایکشن پر فخر کرتے تھے۔ ہر چند کہ نامساعد حالات اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود انھوں نے تقریباً 500 کے لگ بھگ مضامین www.marxy.com ویب سائٹ اور رسالے کے لیے لکھے۔ ان اوقات میں دس لاکھ افراد نے ان کے مضامین پڑھے۔
اناس صرف دماغ کو نہیں ہاتھوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔ ان ہاتھوں سے بینرز بنائے، لہرانے کے لیے پولز پر باندھے، اجلاس کے کمرے کی جھاڑو دی اور دوسرے ساتھیوں کے لیے کھانا پکایا۔ تمام نوجوانوں کے لیے ان کا دل محبت سے لبریز ہوتا تھا۔ ان کے آخری فیس بک پوسٹ میں یہ پیغام آیا جب کاسابلانکا میں ہزاروں مزدوروں کا مظاہرہ ہوا تھا، دس ہزار مزدور ملک کے تجارتی دارالخلافہ میں سیاسی اور ٹریڈ یونین کی آزادی کے لیے مراکش میں فیصلہ کن مظاہرہ کررہے تھے، اناس بینانی خوشی سے پھٹا پڑرہا تھا۔ جب بس میں فٹ بال کی دونوں ٹیمیں گانے گارہی تھیں تو اس وقت بینانی مزدوروں کے مظاہرے کی اہمیت پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
وہ اس طرح مرے جیسے زندگی سے بھرپور ہوں۔ اناس اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ جب تک ان کا نظریہ زندہ ہے، اس وقت تک وہ نہیں مریں گے۔ انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈینسی اور اِن ڈیفنس آف مارکسزم کے ادارتی بورڈ کے کامریڈز، اناس کے والدین، ان کی بہن، ان کا برادر نسبتی، گرل فرینڈ اور ان کے تمام کامریڈز اور دوستوں جو لوگ ان کے ساتھ رہے اور ان کی جدوجہد کے ساتھی تھے، ان سب سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا سیکشن اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین اناس کی ناگہانی موت پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور مراکش کے کامریڈز اور IMT کے دنیا بھر کے ساتھیوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔
انسان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دوسروں کے کام آئے۔ یہ بات عظیم سائنس داں آئن اسٹائن نے ''دنیا میری نظروں میں'' نامی ایک مضمون میں کی کہ ''ہم اپنے ہمسایوں کے لیے وجود رکھتے ہیں، جن کی مسکراہٹ اور بھلائی پر ہماری خوشیوں کا انحصار ہے اور دوسرے وہ اجنبی جن سے ہم ہمدردی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، سو بار میں اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری اندرونی اور بیرونی زندگی دوسروں کی محنت پر انحصار کرتی ہے، خواہ باحیات ہوں یا آنجہانی۔ مجھے بھی اپنی جانب سے اِتنا ہی وقف کرنا چاہیے جتنا میں نے ان سے حاصل کیا ہے اور کررہے ہیں۔
میں اپنی زندگی کو سختی سے سادگی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ اور مجھے یہ اکثر احساس ہوا ہے کہ میں اپنے ہمسایوں کی زاید محنت کی مقدار حاصل کررہا ہوں۔ عام طور پر لوگوں کی یہ عمومی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو اور عیش و عشرت سے زندگی گزارے، جسے میں ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں اپنے گھر، ملک، خاندان اور دوستوں کے بندھنوں سے اپنے آپ کو بالا سمجھتا ہوں۔ جنگ میرے لیے نفرت آمیز اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ اس کی تجارت کا حصّہ بننے کے بجائے میں اپنے آپ کو تباہ کرنے کو ترجیح دوں گا۔''
کامریڈ اناس بینانی نے بھی اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں سماج، محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے وقف کر رکھا تھا اور تادمِ مرگ محنت کشوں کی جدوجہد سے خوشی میں پھولے نہیں سما پارہے تھے اور کتنے عظیم تھے کہ اسی حالتِ خوشی میں جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے لیکن نظریاتی طور پر نہیں بلکہ ان کی شہادت ان کے نظریے کو زیادہ پختہ کر گئی۔