عفریت

بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے دہشت گرد اور انتہا پسند گروپ پورے ملک میں آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں۔

ایم جے گوہر

ابھی پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی رائے حرف آخر ہے، وہ ایک انتہا پسند ہے اور اپنی ناقص و نامکمل رائے ہر کسی پر مسلط کرنے کے لیے بندوق کا سہارا لینا دہشت گردی ہے اور اگر انتہا پسندی و دہشت گردی کا یہی مفہوم ہے تو اس کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے اور پوری طرح حق بجانب ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف آرمی کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے اور ضروری ہے کہ پوری قوم یکسو ہو، فوج کی کامیابی صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔

ابھی ملک کے 18 کروڑ عوام یوم آزادی کی تقریبات کے بعد رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو عبادات و ذکر و اذکار میں مصروف تھے کہ عین اسی موقعے پر شب 2:30 بجے کے قریب کامرہ ایئربیس پر 9 دہشت گردوں نے جو جدید ترین ہتھیاروں، دھماکا خیز مواد سے بھری خودکش جیکٹوں اور پاک فضائیہ کی وردیاں پہنے ہوئے تھے، حملہ کردیا۔ دہشت گردوں کا اصل ہدف پاک فضائیہ کی قوت وہ اہم ترین لڑکا طیاروں کی تباہی تھا جو منہاس ایئربیس پر کھڑے تھے تاہم دہشت گرد اپنے مقصد میں مکمل کامیابی سے قبل ہی پاک فوج کے کمانڈوز کے جوابی آپریشن کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگئے۔ ہر چند کہ دہشت گردی کے اس حملے میں محض ایک طیارے کو معمولی نقصان پہنچا اور ہمارا صرف ایک جوان شہید ہوا لیکن کامرہ ایئربیس حملہ اپنے پیچھے بہت سے غور طلب سوالات چھوڑ گیا جن کا جواب تلاش کیا جانا ضروری ہے کیونکہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔

اس سے قبل بھی کامرہ پر حملے ہوچکے ہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں سے دہشت گرد عناصر وقفے وقفے سے پاک فوج کے تینوں اہم شعبوں بری، بحری اور فضائیہ کی تنصیبات پر تواتر سے حملے کرتے چلے آرہے ہیں۔ کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ کیا گیا، وہاں بھی قیمتی لڑاکا طیاروں کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ راولپنڈی کے ہائی سیکیورٹی زون میں واقع پاک آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردوں نے بڑے منظم انداز سے حملہ کیا۔ ایروناٹیکل کمپلیکس بھی دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنا۔ دہشت گرد و انتہا پسندوں کی تسلسل کے ساتھ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منظم کارروائیاں اس بات کی عکاس ہیں کہ یہ عناصر ملک کے مضبوط سیکیورٹی نظام کو نقصان پہنچا کر ہماری دفاعی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

بعض اخباری اطلاعات کے مطابق خفیہ ا یجنسیوں نے کامرہ ایئربیس پر رمضان المبارک کی 27 ویں/ 28 ویں شب کو دہشت گردوں کے امکانی حملے کی رپورٹ دے دی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخ کے ساتھ مستند رپورٹ موصول ہوگئی تھی تو ارباب اختیار نے کامرہ ایئربیس جیسے اہم فوجی یونٹ کی حفاظت اور مقررہ تاریخوں کے دوران اسے دہشت گردوں کی ممکنہ کارروائی سے بچانے کے لیے ضروری حفاظتی اقدامات کیوں نہ اٹھائے؟ اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ اس لاپروائی کا ذمے دار کون ہے؟ یاد رکھیے کہ اگر اسی طرح تساہل پسندی اور سستی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو (خاکم بدہن) دہشت گرد عناصر اپنے ناپاک و مذموم مقاصد کے حصول میں کسی بھی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں۔


پاکستان میں دہشت گردی کی جب بھی ایسی کوئی کارروائی ہوتی ہے جس میں ملک کی اہم ترین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو غیر ملکی میڈیا بالخصوص امریکی ذرایع بلاغ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے اور ملک کی سیکیورٹی نظام کے حوالے سے بحث شروع ہوجاتی ہے۔ نت نئے سوالات اٹھائے جانے لگتے ہیں اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے کا زہریلا پروپیگنڈا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ صورت حال ارباب اختیار کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ کامرہ حملے کے بعد یہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے دہشت گرد اور انتہا پسند گروپ پورے ملک میں آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں اور نہ صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ کراچی تا خیبر ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے فورسز کے جوانوں اور عام شہریوں کو بھی خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خاک و خون میں نہلارہے ہیں۔ ایک تازہ ترین واقعے میں راولپنڈی سے گلگت جانے والی چار بسوں کے 25 مسافروں کو ناران کے قریب بسیں روک کر باقاعدہ شناخت کرکے گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے اِن دونوں واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کو بتایا ہے کہ اگر شمالی وزیرستان جو تحریکِ طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، میں آپریشن کیا گیا تو اس کے ردعمل میں پورے ملک میں کامرہ ایئربیس حملے کی طرز پر منظم و بھرپور جوابی کارروائیاں کی جائیں گے۔

تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی جانب سے یہ جو کہا جارہا ہے درست معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے حالیہ دورۂ امریکا کے بعد امریکی ذرایع ابلاغ میں شمالی وزیرستان میں پاک امریکا ''مشترکہ آپریشن'' کی خبروں کی اشاعت کے بعد ردعمل میں تحریک طالبان نے کامرہ ایئربیس کو نشانہ بنا کر اپنی موجودگی کا اور جوابی کارروائیاں کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اس سلسلے کو مزید دراز کرتے ہوئے گلگت میں بسوں پر حملے کے بعد کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 16 سے زاید افراد کو نشانہ بنانا ملک بھر میں تحریکِ طالبان کے منظم نیٹ ورک کا ہونا دہشت گردی کے عفریت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔

تاہم آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے امریکی سینٹرلی کمان کے سربراہ جنرل میٹس سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ''مشترکہ آپریشن'' فوج اور عوام دونوں کو قبول نہیں۔ بیرونی دبائو پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی، شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ اپنی ضرورت کے مطابق کریں گے اور پاکستان کا مفاد مدنظر رکھا جائے گا۔ لہٰذا یہ بات تو اب طے سمجھی جانی چاہیے کہ شمالی وزیرستان میں پاک امریکا مشترکہ آپریشن نہیں ہوگا۔

تاہم ہمیں دہشت گردی کے عفریت سے نجات کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کو جنم دینے والے اسباب و محرکات کا سراغ لگانا اور ان کا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کامرہ ایئربیس حملے کو ناکام بنانے پر پاک فوج کی تعریف کرتے ہوئے بجاطور پر کہا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں حکومتی عزائم کو کمزور نہیں کرسکتیں۔ ادھر مکۃ المکرمہ میں صدر آصف علی زرداری نے بھی قومی تعاون تنظیم کے چوتھے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر کے علماء سے درست اپیل کی کہ وہ خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کریں۔ صدر نے بجاطور پر ارشاد فرمایا کہ عسکریت پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے والی قوتوں کے خلاف سب کو مل کر لڑنا ہوگا، وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف تمام مکاتبِ فکر کے اکابرین متحد و متفق ہو کر صف آرا ہوجائیں ورنہ یہ عفریت ہماری آیندہ نسلوں کو تاراج کردے گا۔

Recommended Stories

Load Next Story